ایک زندہ کہانی

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جون2009ء میں مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب کے قلم سے ایک سچی مگر افسانوی داستان شامل اشاعت ہے۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

آپ بیان کرتے ہیں کہ ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ ہمارے دادا جان آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔ ہم نے اُن کی تصاویر بھی دیکھی تھیں، ایک بوڑھا شخص، بشاش چہرہ اور تیز نگاہیں۔ ہم بچے سمجھتے تھے کہ دادا جان جنت نظیر جگہ میں رہائش پذیر ہیں۔ جب بڑے ہوئے تو پتہ لگا کہ وہ بہترین زندگی کی تلاش میں اپنا گھربار چھوڑ کر گئے تھے اور اس کی جستجو میں بد قسمتی اور دردناک سزا میں مبتلا ہوگئے۔
عبد الحکیم قریشی 1875ء میں محمد عظیم قریشی کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت انگریزوں کے قبضہ سے متأثر ہوکر مقامی افراد بھی اُن کا رنگ اپنانے لگے تھے۔ ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حکیم نے کالج جانے سے انکار کر دیا اور یورپ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ اُن کے والد ایک گورنمنٹ آفیسر تھے۔ والدین کے سمجھانے اور دھمکیوں کے باوجود حکیم کا باہر جانے کا جوش ٹھنڈا نہ پڑا تو والدین نے اُس کی شادی کردینے کا ارادہ کیا کہ شاید شادی کی ذمہ داریاں اُس کا رویہ بہتر کردیں۔ جلد ہی عظیم کی بھتیجی محمد بی بی بہو بن کر گھر میں آگئیں۔ دلہن ایک معصوم دیہاتی لڑکی تھی، جو اَن پڑھ ہونے کے باوجود قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی۔ یہ جوڑا ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا لیکن حکیم کو باہر جانے کاخیال اب تک دل سے نہیں گیا تھا۔
ایک صبح حکیم اپنے بستر سے غائب تھا۔ ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ دلہن چند ماہ انتظار کے بعد آخر اپنے بھائی کے پاس چلی گئی جو لاہور سے سو میل دُور ایک گاؤں میں رہتا تھا، وہاں امام مسجد تھا اور قرآن پڑھانے اور لکھنا پڑھنا جاننے کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اُس کے ہاںایک تندرست بچہ کی ولادت ہوئی جس کا نام اُس نے حبیب اللہ رکھا۔ اِس بچے کی پرورش میں اُس نے اپنے خاوند کو بھلا دیا۔ بچہ دیہی مضافات میں پل بڑھ کر ایک صحت مند نوجوان بن گیا۔
دوسری طرف رات کو گھر سے نکلنے کے بعد حکیم ٹرین کے ذریعہ ممبئی پہنچا اور وہاں بندرگاہ پر آسٹریلیا جانے والے بحری جہاز میں ملازم ہوکر آسٹریلیا آگیا۔ اُس نے وہاں لگن اور محنت سے مزدوری کر کے اپنی کپڑے کی دکان ڈال لی۔ پانچ سال میں وہاں settleہونے کے بعد اُسے گھر اور والدین کی یاد آنے لگی تو اُس نے ایک خط کے ذریعہ گھر پر اپنے حالات کی اطلاع دی۔ خط ملنے پر اُس کے والدین اُس دکھ سے آزاد ہوگئے جس میں چھ سالوں سے مبتلا تھے۔ تاہم خط پر واپسی کا پتہ درج نہ تھا کہ وہ اُس کا جواب دے سکیں۔ یہ خوشخبری چکسان گاؤں میں بھی پہنچ گئی جس کو سن کر محمد بی بی کے دل میں بھی امید کی کرن طلوع ہوئی۔ چھ ماہ بعد ایک خط اَور ملا اور پھر ایک سال کے وقفہ کے بعد۔ جس پر حکیم نے اپنا پتہ بھی لکھا تھا۔ والد نے دردمندانہ جواب میں اُسے گھر کے حالات سے آگاہ کیا اور اُس کے بیٹے کے بارہ میں بتایا۔ بزرگ والدین کی امید کی کرن جلد تاریک ہوگئی جب حکیم نے جواباً لکھا کہ اُس نے وہاں پر شادی کر لی ہے اور چار بچوں کا باپ ہے اور واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ جواب ملنے پر بوڑھے والدین کو اس قدر دکھ پہنچا کہ انہوں نے حکیم سے سب روابط ختم کردئیے۔
حکیم آسٹریلیا میں اپنی بیوی اور کاروبار سے مطمئن تھا ۔ ایک آئرش کیتھولک ’’مَیری‘‘ اُس کی بیوی تھی۔ اُن کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں۔ حکیم کے پاس وہ سب تھا جس کی اُسے خواہش تھی۔ لیکن جلد ہی حکیم کا جنت نظیر گھر بکھر گیا جب میاں بیوی کو معلوم ہوا کہ دونوں کے اعتقاد میں کتنا فاصلہ ہے اور وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ حکیم سڈنی میں مسجد جاتا جبکہ مَیری چرچ جاتی۔ دونوں ایک دوسرے سے مذہبی گفتگو میں جیتنے کی کوشش کرتے۔ دُوریاں اَور بھی بڑھ گئیں جب بچے جوان ہوئے۔ ماں اُن کو چرچ لے جاتی جبکہ باپ اُنہیں مسجد لے جاتا۔ یہ تکرار اُس وقت اَور بھی بڑھ گئی جب بچے شادی کی عمر کو پہنچ گئے۔…
اِن حالات میں حکیم نے اپنے والدین کو باقاعدگی سے خط لکھنے شروع کر دئیے۔ اُسے احساس ہونے لگا تھا کہ اُس کے والدین کتنے سمجھدار اور پیار کرنے والے تھے۔ اُسے اپنی بیوی کی محبت یاد آنے لگی۔ خطوط لکھنے سے اُس کو کچھ مصیبتوںسے نجات ملی۔ حالات نے پھر رُخ بدلا۔ کیونکہ مَیری کے ہاتھ ایک خط لگ گیا جو اردو میں حکیم کو لکھا گیا تھا، اُس نے وہ ایک اردو بولنے والے سے پڑھوالیا تو اُسے معلوم ہوا کہ حکیم پہلے سے ہی شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ بھی ہے۔ یہ بات اُس کے لئے ایک ناقابل برداشت بات تھی۔ اُس نے خلع کا مطالبہ کیا اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔ والدین کی تکرار نے بچوں پر اتنا برا اثر ڈالا کہ بیٹا جوزف شرابی ہونے کے بعد اس دنیا سے چل بسا۔ ایک بیٹی سیلویا نے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ چھوٹی دو بیٹیوں نے عیسائی طریق کے مطابق شادیاں کیں لیکن آپس کا تعلق ختم کر دیا اور ایک دوسرے سے لاپتہ ہوگئیں۔
مَیری ذہنی طور پر بُری طرح متأثر ہوئی اور تین بار شادی کرکے اپنی کھوئی ہوئی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن آخر وہ بھی اس دنیا سے گزر گئی۔ ہمت ہارا ہوا حکیم بھی خوش نہیں تھا۔ وہ سب کچھ لٹا چکا تھا، پیار کرنے والی بیوی، بچے اور خوشیوں سے بھرا گھر۔ اُس نے دوبارہ انڈیا جانے کا ارادہ کیا، لیکن جب وہ آیا تو اُس کے والدین فوت ہوچکے تھے اور اُس کی بیوی محمد بی بی اُسے دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ اُس کا بیٹا حبیب اللہ جو کہ شادی شدہ تھا اور اپنی فیملی کے ساتھ آرمی میڈکل سروس پر افریقہ میں تھا، اور احمدیت قبول کر چکا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ خط و کتابت میں احمدیت میں داخل ہونے کی دعوت دے چکا تھا، لیکن ہر دفعہ حکیم اُسے مسترد کردیتا اور برا بھلا کہتا۔
ہر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جب حکیم نے اُسے بند پایا تو 1935ء میں بیٹے کو ملنے افریقہ جانے کا ارادہ کیا۔ پہلی ملاقات میں بیٹے اور باپ کے چہروں پر خوشی اور غمی کے تاثرات تھے۔ بیٹے کی آنکھوں نے باپ سے کافی سوال پوچھے جن کے جواب میں حکیم نم آنکھوں کے ساتھ اپنا سر نیچے کر لیتا۔ حکیم اپنے بیٹے کی آنکھوں میں تمام نہ پوچھے جانے والے سوالات پڑھ سکتا تھا کہ کس طرح اُس کا بیٹااپنی ماں کے ساتھ مشکل مراحل سے گزرا اور بے باپ زندگی بسر کرتا رہا ۔ حکیم وہاں قریباً ایک ماہ رہا اور اپنے پوتوں کے ساتھ خوش کن وقت گزارنے کے بعد وہ آسٹریلیا واپس روانہ ہوگیا لیکن باپ، بیٹے اور پوتوں میں باقاعدہ رابطہ رہنے لگا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔
افریقہ میں بچے بڑے ہورہے تھے اس لئے ڈاکٹر حبیب اللہ خان اپنی فیملی کو قادیان چھوڑ آئے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ فیملی وہاں سے پاکستان ہجرت کرگئی اور اپنے پیچھے اپنا سازو سامان اور ایک بیٹا محمد منیر شامی چھوڑ دیا جس کو سکھوں نے قادیان میں شہید کردیا۔ فیملی اپنی دادی کے پاس چکسان میں آکر آباد ہوگئی۔ پھر حبیب اللہ خان اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوکر گھکڑ (پاکستان) میں رہائش پذیر ہوگئے۔
1952ء میں حکیم نے بیٹے کو لکھا کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے (94سال) اور اس کے گردے فیل ہورہے ہیں، وہ چاہتا ہے کہ اُس کی وفات اور تدفین پاکستان میں ہو اور اُس نے لاہور کی سیٹ بک کروا لی ہے۔ یہ پڑھ کر ہم بہت خوش ہوئے اور دادا جان کا بیقراری سے انتظار کرنے لگے لیکن جب آمد کی تاریخ گزر گئی تو فکر ہوئی، حتیٰ کہ دادا جان کے داماد نے ہمیں اطلاع دی کہ اُن کی اچانک طبیعت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال داخل کروادیا گیا تھا لیکن وہ وہاں پر جانبر نہ ہوسکے اور اُن کو سڈنی میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ تو اُن کی آخری خواہش کہ اُن کی وفات اور تدفین اپنے ملک میں ہو، یہ بھی پوری نہ ہو پائی۔
میرے والد ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب 1974ء میں وفات پاگئے تو اُن کے کاغذات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے دادا جان کی طرف سے لکھے ہوئے کافی خطوط ملے۔ طبعی طور پر مجھے اپنے آسٹریلیا کے عزیزوں سے رابطہ کرنے کا خیال آیا، چنانچہ میں نے اُنہیں خط میں اپنا تعارف کروایا اور رابطہ قائم کرنے کے لئے کہا۔ تقریباً تین ماہ بعد مجھے ایک خط ملا جو دادا جان کی نواسی کی طرف سے تھا۔ میری گزارش پر کہ ’’دادا جان کہاں مدفون ہیں‘‘ اُس نے پوچھا کہ ’’آیا حکیم ہندو، سکھ، عیسائی یا یہودی تھا؟‘‘۔ جس پر مجھے کافی دھچکا لگا کہ وہ اپنے نانا کا مذہب بھی نہیں جانتی۔ جو شخص اپنے ملک کا رستہ بھول گیا، والدین، پیار کرنے والی بیوی اور بیٹے کو چھوڑ کر اچھے مستقبل کی تلاش میں نکلا لیکن سب کچھ ہی کھو بیٹھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے درس القرآن کلاس میں سورۃ البقرۃ کی آیت 222 ’’ اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اور یقینا ایک مومن لونڈی، ایک (آزاد) مُشرکہ سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسی ہی پسند آئے۔ اور مُشرک مَردوں سے (اپنی لڑکیوں کو) نہ بیاہا کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔اور یقینا ایک مومن غلام، ایک (آزاد) مشرک سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کیسا ہی پسند آئے۔ …‘‘۔ اِس کی تشریح میں حضورؒ نے فرمایا: ’’زندگی عیش سے گزارنے کے لئے کچھ لوگ ایسی عورتوں سے شادی کرلیتے ہیں جو ایمان میں کمزور ہوتی ہیں۔ جو عورت ایمان میں کمزور ہوتی ہے وہ اپنی نسل تباہ کربیٹھتی ہے۔ مرد بھی نقش قدم پر چل کر جنت گنوا بیٹھتے ہیں(صحیح خوشی)‘‘۔
چنانچہ پختہ مذہبی انسان ہونے کے باوجود، اسلام کی تعلیم سے صرف ایک قدم باہر نکالنے کی وجہ سے حکیم بُری طرح نامرادیوں کی تاریکیوں میں گر گیا۔ اللہ تعالیٰ اُس پر رحم فرمائے، کیونکہ جو سزا وہ کاٹ چکا وہ اب اُس کا ماضی ہے۔ یہ کہانی اُن کو خبردار کرتی ہے جو مغرب کی بناوٹی خوبصورتی سے متأثر ہوجاتے ہیں، اور اپنی روایات اور مذہب کو بھلا بیٹھتے ہیں، چنانچہ پھر سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ ایک مجلس عرفان میں اس سوال پر کہ ’’اسلام تواہل کتاب سے شادی کی اجازت دیتا ہے‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا: ’’ٹھیک ہے جب آپ شادی کر لیں تو پھر یہ برداشت کر لیں گے کہ آپ کے بچے چرچ جائیں، اوراس وجہ سے آپ اپنے گھر کی تمام خوشیاں گنوا بیٹھیں گے‘‘؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں