ایک واقعہ – ایک یادگار – ہجرت 1984ء

جماعت احمدیہ برطانیہ کے سیدنا طاہر نمبر میں مرزا عبدالرحیم انورصاحب کی چند خوبصورت یادیں شامل اشاعت ہیں-
30اپریل 1984ء کی صبح کو گذرے ہوئے بیس سال ہوچکے ہیں۔ لیکن آج بھی وہ لمحے، وہ بے قراری اور اُن عجیب و غریب جذبات کی یاد دل میں اُسی طرح محسوس کرتا ہوں جیسے کل کی بات ہو۔
ہیگ (ہالینڈ) کی احمدیہ مسجد میں عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر باقی دوست تو گھروں کو چلے گئے لیکن خاکسار چونکہ اُن دنوں ہیگ میں اکیلا رہتا تھا اور محترم عبدالحکیم اکمل صاحب مرحوم بھی مسجد مبارک ہیگ کی بالائی منزل پر اُن دنوں اکیلے تھے کیونکہ اُن کی فیملی ربوہ گئی ہوئی تھی۔ اس لئے میں اکثر کچھ دیر رات اُن کے پاس ٹہر جاتا اور مسجد کی کھڑکیاں دروازے وغیرہ بند کر کے گھر جاتا۔ یہ احتیاط اس لئے بھی تھی کیونکہ دو ہفتے پہلے رات کو کسی دشمن نے ہماری مسجد کا بورڈ (جو لکڑی کے سٹینڈ پر بنا ہوا تھا) جلادیا تھا اور ایک دروازہ کا شیشہ بھی توڑ دیا تھا۔
یہ ہفتہ کی رات تھی۔ اگلے روز کام سے چھٹی تھی اس لئے مَیں رات گئے تک مسجد میں ہی ٹھہرا رہا اور پھر کار پر اپنے گھر چلا آیا جو مسجد سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہی تھا۔ گھر آکر ابھی سویا ہی تھا کہ کچھ ہی دیر بعد ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ رات کے 2 بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ فون اُٹھایا تو مولوی اکمل صاحب کی آواز تھی۔ ’’ مرزا صاحب فوراً مسجد آجاؤ اور آنے سے پہلے فلاں فلاں کو بھی فون کردو کہ وہ بھی پہنچ جائیں‘‘۔ مَیں نے گھبراہٹ دیکھ کر پوچھا کہ مولوی صاحب خیریت تو ہے؟ لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ مسجد پہنچو پھر بتاؤں گا۔ جب مسجد پہنچا تو مولوی صاحب نے د روازہ کھولا اورمجھے اندر لے جاکر بتایا کہ لندن سے فون آیا ہے کہ حضرت صاحب پاکستان سے چل پڑے ہیں اور صبح ساڑھے چھ بجے KLMکی فلائٹ پر ایمسٹرڈم (ہالینڈ) پہنچ رہے ہیں۔ یہ خبر سُن کر مَیں چونک گیااور اس بارہ میں مزید پوچھنا چاہا لیکن سارے حالات کا علم مکرم اکمل صاحب کو بھی نہیں تھا۔ مولوی صاحب نے مجھے چند مزید دوستوں کو فون کرنے کی ہدایت کی۔ پانچ بجے تک آٹھ دس احمدی دوست مسجد مبارک میں پہنچ گئے اور چند خواتین بھی پہنچ گئیں جن کے ذمہ حضور ؒ اور اس مختصر قافلہ کے لئے ناشتہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
مسجد مبارک میں فجر کی نماز باجماعت پڑھ کر اور اجتماعی دعا کے بعد ہم کاروں میں ائرپورٹ کی جانب روانہ ہوگئے۔ ہم کُل 16 ؍افراد تھے۔ ائرپورٹ پہنچ کر علم ہوا کہ فلائٹ لیٹ ہے اور تقریباً دس بجے پہنچے گی۔ اُس کا صحیح وقت سات بج کر دس منٹ تھا۔ یہ معلومات کچھ فکرانگیز بھی تھیں۔ چنانچہ سب دعا میں مشغول رہے۔ آخر دو گھنٹے انتظار کرنے اور کچھ تکلّفات کے بعد ہمیں VIPلاؤنج میں جانے کی اجازت مل گئی اور جہاز میں جاکر حضورؒ کا استقبال کرنے کے لئے صرف تین احباب کو اجازت ملی۔ جن میں مکرم عبدالعزیز صاحب، مکرم اکمل صاحب مرحوم اور مکرم عبدالحمید صاحب شامل تھے۔
خاکسار کی کوشش تھی کہ کسی طرح مجھے اور ایک اَور احمدی دوست مکرم مناف صاحب کو بھی جہاز میں جانے کی اجازت مل جائے کیونکہ ہم وڈیو کیمرہ لائے ہوئے تھے تاکہ ان تاریخی لمحات کو فلمبند کرسکیں۔ خاکسار نے ائرپورٹ کے نائب منیجر سے بات کی تو اُس نے ہمیں مزید دو پاس دیدئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا۔ باقی احباب اور لجنہ کی ممبرات VIP لاؤنج میں منتظر تھے۔ اب ہماری آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ سب کی کیفیت عجیب تھی جسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ فکر اور تشویش بھی تھی اور ایک خوشی بھی تھی کہ حضور پاکستان سے نکل آئے ہیں ۔
آخر KLM کا جہاز Runwayپر دوڑتا ہوا ہمارے سامنے اُترا۔ دل میں جذبات کا ایک طوفان برپا تھا۔ جہاز آکر رک گیا اور طوفان بھی جیسے تھم گیا۔ جہاز کا کچھ عملہ پہلے نمودار ہوا۔ لیکن ہماری آنکھیں تو اُس چاند کی منتظر تھیں جس نے اپنے نور سے مغرب کو روشن کرنا تھا۔ چند لمحوں بعد مسکراتا ہوا چہرہ ہمارے سامنے تھا۔ حضورؒ نے ہاتھ اٹھاکر ہمارے سلام کا جواب دیا۔ سب سے پہلے مکرم اکمل صاحب نے حضورؒ کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہا اور بغلگیر ہوئے۔ پھر ہم نے باری باری یہ شرف حاصل کیا۔
اس مختصر قافلہ میں حضورؒ کے ہمراہ پانچ افراد تھے۔جن میں حضرت بیگم صاحبہؒ اور حضورؒ کی دو چھوٹی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کا ہینڈ بیگ سنبھالا اور ہم VIP لاؤنج کی طرف روانہ ہوئے۔
یہاں ایک واقعہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں جو حضورؒ کی یاداشت اور ہمدردری خلق اور محبت کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ ہوا یوں کہ 20؍دسمبر 1983ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام حضورؒ نے ہبۃ ا لصبور تجویز فرمایا۔ وہ تین چار ماہ کی تھی تو اسے گردن کے پاس عجیب سے ایگزیما کی تکلیف ہوگئی۔ خاکسار نے دعا اور ہیومیوپیتھی کی دوائی کے لئے حضورؒ کی خدمت میں ربوہ خط لکھا جس کا جواب مجھے مل گیا۔ پھر وہ خدا کے فضل سے ٹھیک ہوگئی تھی۔ لیکن جہاز سے نکلنے کے چند منٹ بعد حضورؒ نے مجھ سے پوچھا کہ بچی کا اب کیا حال ہے؟ خاکسار نے بتایا کہ الحمدللہ، حضور کی دعا سے ہی وہ اچھی ہوگئی، دوائی کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مَیں حیران تھا کہ حضورؒ کن حالات میں اور کتنا لمبا سفر کرکے ابھی دس منٹ پہلے ہی جہاز سے باہر آئے ہیں اور شفقت اور محبت کا کیسا عالم ہے۔
جب ہم VIPلاؤنج میں پہنچے تو باقی احمدی بھائیوں کو بھی حضورؒ نے شرف مصافحہ بخشا۔ اور پھر بڑے کمرہ میں تشریف لائے جہاں لجنہ نے چائے تیار کی ہوئی تھی۔ حضورؒ نے چائے نوش فرمائی اور فرمایا کہ چائے کا اب مزہ آیا ہے، جہاز کی چائے کا کوئی مزہ نہیں تھا۔ اور پھر ہم سب موجود احمدیوں کو انگریزی میں کچھ نصائح فرمائیں اور چند سوالوں کے جواب بھی دئیے۔ زیادہ تر ہمیں داعی اللہ بننے کی تلقین فرمائی۔ یہ وڈیو میرے پاس موجود ہے جس کا کچھ حصہ MTA پر بھی دکھایا جاچکا ہے۔ اس اثناء میں لندن سے دوبار فون پر رابطہ بھی ہوا اور پھر حضورؒ ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہالینڈ سے روانہ ہونے والی فلائٹ کے ذریعہ لندن روانہ ہوگئے۔
دل یہی چاہتا تھا کہ حضورکے ساتھ ہی لندن واپس چلا جاؤں۔ کیونکہ خاکسار پہلے بھی لندن میں ہی رہتا تھا۔ اللہ کا احسان ہے کہ ایک سال بھی نہیں گذرا جب میری ملازمت ہیگ میں ختم ہوئی اور خاکسار دوبارہ لندن آکر مقیم ہوگیا۔اور یہاں باقی اٹھارہ سال حضور کا دیدار نصیب ہوتا رہا۔ 1990ء میں میری والدہ مرحومہ بھی لندن تشریف لائیں تو حضورؒ سے ملاقات کے لئے مَیں امّی کو لے کر گیا۔ حضورؒ ان سے پنجابی میں باتیں کرتے رہے۔ قادیان کی یادیں اور اٹک (پاکستان) کے ہمارے گھر کی باتیں۔ کیونکہ خلافت سے پہلے حضور جب اپنے دورہ پر ضلع اٹک میں آتے تھے تو ہمارے گھر کو بھی رونق بخشتے تھے۔ ایک سال بعد ہی میری والدہ کی وفات ہوگئی۔ 1992ء میں جب میرے اباجان لندن آئے تو حضور نے فرمایا کہ اب آپ یہیں رہیں۔ اباجان پھر پاکستان نہیں گئے۔ اور وہ بھی 10جنوری 1997ء کو یہاں وفات پاگئے اور حضورؒ نے اُن کا جنازہ پڑھایا۔
میری سینکڑوں یادیں حضورؒ سے وابستہ ہیں۔ پچھلے سال میں اپریل میں ربوہ گیا ہو تھا۔ اور ارادہ تھا کہ اپریل کے آخر میں واپس آؤں۔ لیکن پروگرام بدلا اور 6اپریل کو واپس لندن آگیا۔ جانے سے پہلے حضور سے دفتر میں ملاقات کرکے گیا تھا۔ اور حضور کے ساتھ آخری تصویر بھی کھنچوائی تھی جو میرے پاس محفوظ ہے۔ پھر وہ آخری جمعہ اور مجلس عرفان کی رات بھی نہیں بھولتی۔ جب وہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی چہرہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگارہا تھا۔اگلی صبح جب حضورؒ کے وصال کی خبر ملی تو دل پر قیامت گزر گئی۔ خداتعالیٰ مجھے بھی اُس جہاں میں اپنے پیاروں کا وصال نصیب کرے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں