بزرگان کی سیرت و سوانح محفوظ کرنے کی اہمیت

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبرودسمبر2022ء)


(انور احمد رشید۔ سویڈن)

اس کائنات میں اربوں انسان پیدا ہو ئے اور گزر گئے۔بہت کم ایسے ہیں جن کے سوانح اور حالات زندگی محفوظ کیے گئے ہوں اوراُن میں سے بھاری اکثریت سیاسی،سماجی یا عام دنیوی امور سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔مذہبی دُنیا کے بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے حالات محفوظ کیے گئے۔سوال یہ ہے کہ ان دنیاوی شخصیات کے احوال نے کتنے افراد کی زندگی میں انقلاب آفرین تبدیلی پیدا کی؟ کئی عالمگیر شخصیات پرہزاروں کتابیں ضبطِ تحریر میں لائی گئیں۔ان ہزاروں سوانح عمریوں کے نتیجہ میں کتنے افراد کی طبائع میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی؟اس کا جواب تلاش کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہے جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ روحانیت کے سرتاج بادشاہوں کی سوانح عمریوں اور افکاروحالات کے مطالعہ سے واقعی طبائع میں ایک عظیم الشان تغیّررونما ہو تا ہے۔حضور سرورِ کونین ﷺ اور آپ کے عشّاق کی سیرت و سوانح پڑھنے سے یقیناً ایک پاک تبدیلی واقع ہو تی ہے اور یہی سوانح اکٹھا کرنے کا مقصد ہو تا ہے۔آئندہ صفحات میں بزرگانِ عالی مقام کی سیرت و سوانح کے کام کی اہمیت و عظمت کے بارہ میں بعض بابرکت ارشادات، فرمودات اور تحریرات پیش کی جارہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعہ:4-3)

وہی وہ ذات ہے جس نے ایک اَن پڑھ قوم کی طرف اسی میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا جو (باوجود اَن پڑھ ہونے کے) ان کو اللہ کے احکام سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتاہے۔گویا وہ اس سے پہلے بڑی بھول میں تھے۔ اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس (رسول)کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
ان آیات قرآنیہ میں جو پیشگوئیاںمضمر ہیں اس پر اکثرعلمائِ قدیم اور بزرگانِ سلف کا اتفاق ہے کہ ھَذَا عِنْدَ نُزُوْلِ الْمَہْدِیِّ۔ یعنی ان تمام امور کا واقع ہونا امام مہدی کے نزول سے وابستہ ہے۔سورۃ الجمعہ کی ان ابتدائی آیات میں لفظ آخَرِیْنَ کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے استفسار پر آنحضرت ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پرہاتھ رکھ کر فرمایا: لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِنْ ہٰؤُلَاء ۔(بخاری کتاب التفسیر سورۃالجمعہ زیر آیت وآخرین) یعنی اگر ایمان ثریّا ستارے پر بھی پہنچ جائے توضرور ان لوگوں میں سے بعض رجال یا ایک شخص اسے ثریا سے واپس لے آئے گا۔یعنی ابنائے فارس میں سے ایک مرد یا ایک سے زائد اشخاص ایمان کوثریّا ستارے سے واپس لے آئیں گے۔اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں آخَرِیْنَ کو بھی ایک خاص مرتبہ عطا فرمایا ہے اور ان آخَرِیْنَ میں رفقاء و اصحابِ امام مہدؑی بھی شامل ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے امام مہدی کے اصحاب کا مرتبہ کئی مواقع پر بیان فرمایا ہے۔ایک موقع پر فرمایا:
عِصَابَتَانِ مِنْ اُمَّتِی اَحْرَزَہُمَا اللّٰہُ مِنَ النَّارِ عِصَابَۃٌ تَغْزُو الْہِنْدَ وَعِصَابَۃٌ تَکُونُ مَعَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ (سنن نسائی کتاب الجہادحدیث نمبر3188) یعنی میری اُمّت کی دو جماعتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ قرار دیا ہے۔پہلی جماعت وہ ہے جو ہندوستان میں جہاد کرے گی اور دوسری جماعت وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوں گے۔
چنانچہ آنحضرت ﷺ کی یہ بشارت لاکھوں اصحاب حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وجود کی صور ت میں پوری ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لاکھوں جانثار عطا فرمائے اور مسیح موعود کی شانِ مسیحی و قوتِ قد سی کی برکت سے لاکھوں روحانی مردے زندہ ہوگئے۔ آپؑ کے رفقاء ہمارے لیے نور کے مینار اور روشن ستارے ہیں۔ عالمِ روحانی میں ہمارے لیے اتنے خزائن ہیں کہ اس پر جتنا بھی شکر خداوندی بجا لایا جائے کم ہے۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لیکن ایک بات بڑی غور طلب ہے کہ صحابہؓ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو، جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ وہ بھی صحابہ میں داخل ہے جو احمدؑ کے بروز کے ساتھ ہوں گے،چنانچہ آپ نے فرمایا: وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4) یعنی صحابہؓ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو، بلکہ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہؓ ہی ہوگی۔‘‘
(ملفوظات جلد اول،طبع جدید،ص431)

اوّلین اور آخرین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا۔یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم و تربیت پاویں۔پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا اس لیے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خداتعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے۔‘‘ (تتمہ حقیقۃالوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ502)
اپنی جماعت کے وہ لوگ جو انتقال کرگئے
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دنیا کی دولت اور سلطنت رشک کا مقام نہیں مگر رشک کا مقام دعا ہے۔مَیں نے اپنے احباب حاضرین اور غیر حاضرین کے لیے جن کے نام یاد آئے یا شکل یاد آئی،آج بہت دعا کی اور اتنی دعا کی کہ اگر خشک لکڑی پر کی جاتی تو سرسبز ہو جاتی۔ ہمارے احباب کے لیے یہ بڑی نشانی ہے۔رمضان کا مہینہ الحمد للہ گزر گیا۔عافیت اور تندرستی سے یہ دن حاصل رہے۔پھر اگلا سال خدا جانے کس کو آئے گا؟ کس کو معلوم ہے کہ اگلے سال کون ہوگا؟ پھر کس قدر افسوس کا مقام ہوگا اگر اپنی جماعت کے ان لوگوں کو فراموش کر دیا جائے جو انتقال کرگئے ہیں۔‘‘ (الحکم قادیان6مارچ1898صفحہ2)
یہ ایسے وقت میں فرمایا کہ جب فہرست میں زندوں کے نام ثبت ہورہے تھے۔

مبارک وہ جو اَب ایمان لایا

حضورؑ فرماتے ہیں: ’’اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھْمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنۂ معجزات میں وہ بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا اَور کس نے پایا۔ اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے دیکھا۔ وہ خداتعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحمی وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے حاصل کی۔ بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔ بہتیرے اُن میں ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہامِ الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے۔ بہتیرے اُن میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خداتعالیٰ کی مرضات کے لیے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ اُن میں ایسے لوگ کئی پاؤگے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے جیسا کہ صحاؓبہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِیْنَ مِنْھْمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں اور ضرور تھا کہ خداتعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔‘‘ (ایّام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ307-306)

مبارک ہیں وہ لوگ…

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے فرمایا: ’’خداتعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس سے بہت مخلوق پھیلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات پر اس کا خاص فضل ہوا اور ابراہیمؑ کو اس قدر اولاد دی گئی کہ اس کی قوم آج تک گنی نہیں جاتی اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا اور بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا کی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اس طرح پھیلنے والی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ ہوں گے کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خداتعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہوکر اُس کے مکالمات سے مشرّف ہوں گے، مبارک ہیں وہ لوگ۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ4)

ہزاروں نشانات کا چلتا پھرتا ریکارڈ

حضرت منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلویؓ کے وصال پر سیدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جو سیرت و سوانح بزرگانِ سلسلہ کے بارہ میں مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور ؓ فرماتے ہیں: ’’و ہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں جو دنیا کے لیے تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں۔یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں نشانات کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے۔نمعلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا ہے مگر بہرحال خداتعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دید گواہ تھے…ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی ز بان اور آپ کے کان اور آپ کے پاؤں وغیرہ کے ذریعے ظاہر ہوئے…ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہو تاہے…۔اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو ہمارے لیے خوشی کامقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہماری بدقسمتی کی علامت ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ۔ الفضل قادیان 28 ؍ اگست1941ء)

برکات کا زمانہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے صحابہ حضرت اقدس علیہ السلام کی قدر ومنزلت اور برکات خلافت کے بارہ میں12جنوری 1944ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
’’اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا زمانہ ہمیں ملا ہے اور ہمارے لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم وقت پر اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جس اہمیت کا سمجھناہمارے لیے دینی اور دنیوی برکات کاموجب ہوسکتا ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا زمانہ تو گزر گیا۔اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے مگر یاد رکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش اور جستجو میں اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بات کی ہومگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا۔پھر وہ کوشش کریں گے کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بات نہ کی ہوصرف مصافحہ کیا ہو مگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا۔پھر وہ کوشش کریں گے کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بات نہ کی ہو، مصافحہ نہ کیا ہو، صرف اس نے آپ کو دیکھا ہو، مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا۔پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بات نہ کی ہو، مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو، مگر کم از کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا۔ لیکن آج ہماری جماعت کے لیے موقع ہے کہ وہ ان برکات کوحاصل کرے۔آج کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے وہ دروازہ کھلا ہے جس میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی قریب ترین برکات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی برکات سے دوسرے نمبرپر ہیں،بڑی آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں مگر کتنے ہیں جو اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔وہ اسی دُھن میں رہتے ہیں کہ افسوس انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا۔افسوس وہ ان برکات سے محروم رہ گئے اور اس حسرت اور افسوس میں وہ دوسری برکت جو ان کو حاصل ہوئی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا ان کے امکان میں ہوتا ہے وہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔رسّہ کھنچا چلا جاتا ہے، وقت گزرتا چلا جاتا ہے، فائدہ اٹھانے کا زمانہ ختم ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے مگر وہ پہلی برکت نہ ملنے پر ہی افسوس کرتے رہتے ہیں اور موجودہ برکت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔‘‘ (الفضل قادیان۔ 15؍اپریل1944ء)

بزرگان کی تاریخ اکٹھا کرنے کی مبارک تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1988ء میں مشرقی افریقہ کے تاریخی دورہ پر تشریف لے گئے تو اس دورہ کے دوران اور اس کے بعد بھی کئی مواقع پرآپ نے احباب ِجماعت کو بزرگان کے حالات زندگی اکٹھا کرنے کی تحریک فرمائی۔ چنانچہ پہلی صدی کے آخری خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ مارچ 1989ء میں آپ نے فرمایا:
’’اس امر کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ سمندر کی تہ میں بغیر مقصد کے اپنی لاشیں بچھانے والے گھونگوں کی پہلی نسل اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں ضرور فتح یاب ہوں گی اور وہ نسل سب سے بڑی فتح پانے والی ہے جو سب سے پہلے ترقی کے سلیقے سکھاتی ہے۔ پس اپنے ان بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے، جن پر احمدیت کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اور یہ عظیم الشان جزیرے اُبھرے۔ وہ لوگ ہماری دعاؤں کے خاص حق دار ہیں۔ اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو اِن عظمتوں کے وقت یاد رکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیں تو آپ کو حقیقی انکساری کا عرفان نصیب ہوگا۔ تب آپ جان لیں گے کہ آپ اپنی ذات میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے۔
مَیں نے افریقہ کے دورہ میں ایک یہ ہدایت دی تھی کہ اپنے بزرگوں کی نیکیوں اور احسانات کو یاد رکھ کے ان کے لیے دعائیں کرنا یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے کہ اس خلق کو ہمیں اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہیے۔ان کے حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے۔ اس سلسلہ میں مَیں نے ایک ملک غالباً کینیا میں ایک کمیٹی مقرر کی تھی۔ چنانچہ اس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور ایک عرصہ تک ان کا میرے ساتھ رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کیے گئے جو نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے۔ اس لیے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اُن کی بڑائی کے لیے شائع کرنے کی خاطرنہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کے لیے، اُن کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لیے اُن کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباء و اجداد تھے اور کس طرح وہ لوگ دین کی خدمت کیا کرتے تھے۔ بعض ایسے بھی ہوں گے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو کتابی صورت میں چھپوا دیں… مَیں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یاد رکھیں گے کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبّت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ۔ 27 مارچ 1989ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک مرتبہ مجلس سوال وجواب میں فرمایا:
’’(بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کا) الہام تو کئی رنگ میں پورا ہوا ہے…دوسری بات کپڑوں سے مراد صحابہ ہیں۔ قرآن کریم کے محاورہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے متعلق بھی کپڑ وں کا لفظ آیا ہے جو پاس رہے ہیں۔ کپڑ ے لپٹے رہتے ہیں ناں ہر وقت انسان کے۔تو مراد یہ ہے کہ اب تو تجھے نظر انداز کررہے ہیں لیکن ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ دوڑدوڑ کر تیرے صحابہ کے پاس حاضر ہوا کریں گے۔ ان سے ہاتھ ملانا ہی وہ سمجھیں گے کہ برکت کا موجب ہے۔ چنانچہ ایسا بڑی کثرت سے ہوا کرتا تھا اور ابھی تک ہورہا ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ۔ 9؍ا پریل 2001ء صفحہ 6-5)
اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے احمدی خاندانوں کے پاس اپنے بزرگوں کی روایات یا واقعات موجود ہیں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی روایات کو تصدیق کے بعد جماعتی اخبارات و رسائل اور کتابی صورت میں شائع کرائیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے بزرگانِ احمدیت کے حالات محفوظ کیے جا سکیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ افسوس ہے کہ ہماری جماعت اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں نہایت سست واقع ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی اور قوم ایسی ہو جو اپنی تاریخ کو یاد رکھنے میں اتنی سست ہو جتنی ہماری جماعت ہے۔ عیسائیوں کو لے لو انہوں نے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سستی سے کام نہیں لیا اور مسلمانوں نے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم کے حالات کو اس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس موضوع پر بعض کتابیں کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں لیکن ہماری جماعت باوجود اس کے کہ ایک علمی زمانے میں پیدا ہوئی ہے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں سخت غفلت سے کام لے رہی ہے۔ پس اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ لوگوں کو توجہ دینی چاہیے۔ پہلے بھی توجہ دلائی ہوئی ہے کہ اپنی تاریخ کو، اپنی خاندانی تاریخ کو یاد رکھنے کی کوشش کریں اور جو صحابہ ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے۔ ان کے بارے میں لکھا جانا چاہیے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 23؍اکتوبر 2015ء بمقام بیت الفتوح مورڈن)
اِن ارشادات سے یہ بخوبی واضح ہوگیا کہ ہمارے بزرگانِ سلسلہ جنہوں نے دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف رکھی تھیں اور جنہوں نے دراصل دین کو دنیا پر مقدم رکھا ان کے حالات سے نئی نسلوں کو باخبر کرنا نہایت ضروری امر ہے۔ پس اس امر کی ضرورت ہے کہ احبابِ جماعت، جو اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں،اپنے اپنے خاندان کے بزرگان کے حالات زندگی جمع کرنے کی کوشش کریں یا کم ازکم ان احباب کو مواد و مسوّدات اور معلومات فراہم کرنے کی کوشش کریں جو اس عظیم مہم میں کوشاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں