بسیارخوری و سیرشکمی

قرآن کریم میں کافروں کے بارہ میں ارشاد ہے کہ ’’وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چارپائے کھاتے ہیں‘‘۔ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’مومن ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ مدینہ کے قیام سے وفات تک کبھی آپؐ نے دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی۔
ٹیکساس یونیورسٹی میں چوہوں پر کئے جانے والے تجربات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جن چوہوں کی خوراک میں شامل حراروں کی تعداد میں ساٹھ فیصد کمی کی گئی اُن کی زندگی میں پچاس فیصد اضافہ ہوگیا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ بسیارخوری کے ذریعہ ہم اپنی موت کو جلد دعوت دیتے ہیں۔
دراصل جسمانی اور روحانی بیماریوں نیز عمر اور صحت کے نقصانات سے بچنے کا راز اسوۂ نبویؐ کی پیروی میں مضمر ہے۔ بسیارخوری قلب و ذہن، فہم و ذکا اور حکمت و دانائی کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے عبادت میں دل نہیں لگتا اور خواہشات نفسانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کہتے ہیں ’’جس نے اپنے پیٹ پر قابو پالیا اُس نے اپنے دین کو سنبھال لیا…‘‘۔
حضرت ابو سلیمان دارائی کہتے ہیں ’’ اللہ اپنے محبوب بندوں کے علاوہ کسی کو بھی بھوک کی طاقت نہیں دیتا … بھوکے شخص کی تمام دینی و دنیاوی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں اور نفس میں عاجزی اور قلب میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے اور اس پر علوم سماوی کا انکشاف ہونے لگتا ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ کو ایک مرتبہ خواب میں بتلایا گیا کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنّت خاندان نبوت ہے۔ چنانچہ آپؑ نے مخفی طور پر کئی ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ اپنی غذا اتنی کم کردی کہ صرف چند تولہ کی روٹی پر سارا دن گزارا ہونے لگا۔ چنانچہ فرمایا ’’اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے‘‘۔
دراصل حقیقی روحانی انقلاب اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک انسان نفس کی خواہشات اور پیٹ کے دھندوں سے آزاد نہ ہو۔ مطالبات تحریک جدید کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’ایک کھانا کھانے اور سادہ لباس پہننے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ امارت اور غربت کا سوال جاتا رہتا ہے … نیز یہ کہ جب مشکلات کا وقت آئے تو نہ کھانے کی روک ہماری جماعت کی راہ میں حائل نہ ہو…‘‘۔
یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ دسمبر 1998ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں