بندوں کے نہیں، خدا کے آگے جھکو

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 مارچ 2010ء میں مکرم جلال الدین شاد صاحب اپنی زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو 1987ء میں پیش آیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
مَیں نیشنل بینک میں ملازم تھا اور شہر کی بڑی برانچ میں کام کر رہا تھا۔ ایک دن بینک کے زونل چیف نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں تمہیں شہر کی سب سے بڑی برانچ میں بطور مینیجر تعینات کررہا ہوں۔ میرا انٹرویو کرنے کے بعد انہوں نے مجھے مینیجر بنانے کے لئے اپنے دفتر میں کارروائی کا حکم دیا۔ دو تین دن میں کارروائی مکمل ہوگئی اور میرے بطور مینیجر سٹی برانچ سیالکوٹ کے آرڈر ٹائپ ہوکر زونل چیف صاحب کی میز پر دستخطوں کے لئے آگئے۔ لیکن ابھی انہوں نے دستخط کرنے ہی تھے کہ چند منٹ پہلے اُنہیں ہیڈآفس سے اُن کی تبدیلی کے آرڈر مل گئے۔ اس پرانہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ انہیں ابھی اپنی تبدیلی کے آرڈر ملے ہیں اور اگر وہ اب میرے آرڈر پر دستخط کر دیں تو نئے آنے والے زونل چیف کو حیرانی ہوگی کہ کیوں جاتی دفعہ انہوں نے سیالکوٹ کی سب سے بڑی برانچ کا مینیجر تبدیل کر دیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مَیں یہ آرڈر ابھی اسی طرح رکھتا ہوں اور نئے آنے والے زونل چیف سے بات کرکے انہیں آرڈر پر دستخط کرنے کے لئے کہوں گا کیونکہ تبدیلی محض بینک کی ترقی کے لئے کی جا رہی ہے۔
دو تین دن بعد نئے زونل چیف آگئے۔ چونکہ جانے والے زونل چیف انہیں میرے حق میں بہت سی باتیں کرکے انہیں سمجھا گئے تھے چنانچہ انہوں نے میرا انٹرویو کیا اور مطمئن ہوگئے۔ پھر کہا کہ کل چار بجے میرے پاس دفتر میں آجائیں وہاں وہ اُسی وقت وہ آرڈر پر دستخط کر دیں گے۔ چنانچہ مَیں حسب وعدہ جب ان کے دفتر میں پہنچا تو وہ بڑی محبت سے پیش آئے اور مجھے کہا کہ آپ چائے یہاں بیٹھ کر آرام کے ساتھ پئیں۔ میں کچھ ضروری کاغذات پردستخط کرکے آپ کو ابھی اپنے دفتر میں بلاتا ہوں۔ مَیں مطمئن ہو کر وہاں بیٹھ گیا اور چیف صاحب کا انتظار کرنے لگا۔ چونکہ چھٹی ہوچکی تھی اس لئے میرے دیکھتے دیکھتے سب سٹاف ممبر وہاں سے چلے گئے اور میں اکیلا وہاں بیٹھا رہ گیا۔ صرف ایک ملازم وہاں تھا جو بار بار چیف صاحب کے لئے کاغذات کبھی نیچے سے آ کر لے جاتا کبھی رکھ جاتا۔ جب وہ ملازم میرے پاس سے گزرتا میں اس کو کہتا کہ چیف صاحب کو بتاؤ کہ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں۔ وہ بار بار مجھے یہی جواب دیتا کہ اس نے چیف صاحب کو بار بار یاد کرایا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور شام کے سات بج گئے۔ خاکسار کی طبیعت میں مختلف قسم کی بیقراری پیدا ہو رہی تھی۔ اسی اثنا میں سامنے والی مسجد سے مؤذن کی مغرب کی اذان لاؤڈسپیکر سے بلند ہونے لگی جسے سن کر میری طبیعت میں ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر خوشی کی یہ لہر تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ جب مؤذن نے حَیّ عَلَی الصّلوٰۃ کے الفاظ دہرائے تو میرے دل میں خیال پیداہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بلا رہا ہے کہ آؤ نماز پڑھو اور اس کو یاد کرو، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب حیّ عَلَی الْفَلَاح کے الفاظ دہرائے تو مجھے خیال آیا کہ اگر تم فلاح پانا چاہتے ہو تو آؤ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ جو قادر وتوانا ہے۔
تب میں ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا اورمیرے دل نے یہ کہا کہ دنیا کو چھوڑ کر اپنے خدا کے آگے جھک جاؤ۔ دیکھوتین گھنٹے متواتر تمہیں بیٹھے ہوئے ہو گئے ہیں اور باربار یاددہانی کرانے کے باوجود ایک عاجز انسان تمہیں نہیں بلا رہا لیکن خداتعالیٰ تمہیں بلا رہا ہے چلو نماز پڑھو اور اسی سے ہر مدد طلب کرو۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ تمہارا بھی رازق ہے اور اس عاجز انسان کا بھی جس نے تمہیں تین گھنٹے سے زائد عرصہ تک یہاں بٹھایا ہوا ہے۔ یہ سوچ کر میں وہاں سے نکلا اور ارادہ کیا کہ کبھی زونل آفس نہیں آؤں گا اور نہ ہی زونل چیف کو ملوں گا۔ میں نے گھر جاکر نماز پڑھی اور مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ میں سمجھ گیا اللہ تعالیٰ مجھے اس سے زیادہ بڑے درجہ کا عہدہ دے گا جس کا زونل چیف وعدہ کرکے مُکر گیا ہے۔
دوسرے دن میں بینک میں ڈیوٹی پر گیا بینک کا مینیجر اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو گزشتہ شام کا تمام واقعہ شروع سے لے کر آخر تک سنایا۔ وہ تمام واقعہ سن کر کہنے لگا کہ مجھے کل زونل چیف نے فون کرکے بہت سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ تمہیں معلوم بھی تھا کہ (میرا نام لے کر) وہ قادیانی ہے اور میں کس طرح ایک قادیانی کو بینک کا مینیجر تعینات کر سکتا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں اس قادیانی کو سیکنڈ پوزیشن پر دوسری بڑی برانچ میں بھیجوں گا۔
پھر مینیجر نے کہا کہ ایک دن پہلے چیف صاحب نے تمہارے متعلق کئی دوسرے لوگوں سے بھی مشورہ کیا تھا اور سب نے تمہارے حق میں گواہی دی کہ اس وقت اس سے بڑھ کر کوئی اَور آدمی بینک میں اس قابل نہیں کہ وہ بڑی برانچ کا کاروبار چلا سکے لیکن ایک نے کہا کہ ہر بات ٹھیک ہے لیکن وہ قادیانی ہے۔ یہ سن کر چیف صاحب کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آئے اور اس نے کہا کہ ایسے ہی تم سب لوگ اس قادیانی کی سفارش کررہے ہو۔
دو تین دن کے بعد چیف صاحب نے میری تعیناتی دوسری بڑی برانچ میں بطور سیکنڈ آفیسر کر دی ۔ جب یہ آرڈر مینیجر کو ملے تو اُسی وقت ڈاک میں ہیڈ آفس سے میرے لئے آرڈرز آئے کہ مجھے ریذیڈنٹ آڈیٹر تعینات کر دیا گیا ہے۔ چونکہ یہ ہیڈآفس کے آرڈر تھے اور کسی صورت ٹالے نہیں جاسکتے تھے اس لئے زونل چیف نے شرمندہ ہو کر میرے آرڈر بطور سیکنڈ آفیسر کینسل کر دیئے۔ اُس وقت سے لے کر میں ریٹائر ہونے تک اس عہدہ پر گیارہ سال تک فائز رہا۔ اس دوران میں نے کبھی بھی زونل آفس کی شکل نہیں دیکھی نہ کسی سے ملا صرف اپنا کام کیا اور اپنے کام سے مطلب رکھا۔ وہ زونل چیف صاحب تیس سال سے زائد عرصہ تک یہاں سیالکوٹ میں تعینات رہے اور تمام سٹاف کو اتنا تنگ کرتے رہے کہ کئی سٹاف ممبرز نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں