’’تائی آئی‘‘

ماہنامہ ’’خالد‘‘ نومبر 2010ء میں مکرم مدثر احمد صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’تائی آئی‘‘ کے حوالہ سے تین پیشگوئیوں کو اختصار سے بیان کیا ہے۔
حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ کابیان ہے کہ 1900ء میں ایک روز صبح کی نمازکے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ آج تھوڑی دیرہوئی عجیب الہام ہواکہ جوسمجھ نہیں آیا۔ پہلے الہام ہوا: ’تائی آئی‘۔ ہمارے تو کوئی تائی ہے نہیں، نہ نزدیک نہ دور، ہاں ہمارے لڑکوں کی تائی ہے جووہ ہماری دشمن ہے۔ پھرالہام ہوا: ’تارآئی‘۔ (تذکرہ)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ تارآئی سے یہ مراد تھی کہ یہ خبرگویا خداتعالیٰ آسمانی تار کے ذریعے دے رہاہے۔
حضرت تائی صاحبہ کا اصل نام حُرمت بی بی تھا اور آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے چچا جناب مرزاغلام محی الدین صاحب مرحوم کی پلوٹھی بیٹی تھیں اوراس طرح پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی چچا زاد بہن اورجناب مرزاغلام قادرصاحب مرحوم کی اہلیہ ہونے کے سبب سے آپؑ کی بھاوج تھیں۔ اسی رشتہ کے باعث وہ حضرت مصلح موعودؓ اورآپ کے بھائی بہنوں کی تائی کہلاتی تھیں۔ تائی صاحبہ کا لقب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کی وجہ سے مشہورہوا۔چونکہ وہ شروع ہی سے تائی صاحبہ کے پاس بطوربیٹے کے رہتے تھے اورتائی صاحبہ ان کی حقیقی تائی بھی تھیں۔ مرزا سلطان احمد صاحب کے تائی کہنے کی وجہ سے ان کاعرف تائی صاحبہ ہی ہوگیا۔اورتمام چھوٹے بڑے ان کوتائی صاحبہ ہی کہتے ہیں۔
تائی صاحبہ کارشتہ جناب مرزاغلام قادرصاحب مرحوم سے ہوا اوریہ شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ تائی صاحبہ کے بطن سے دوبچے پیداہوئے مگروہ چھوٹی عمرہی میں فوت ہوگئے۔اس کے بعد انہوں نے مرزا سلطان احمدصاحب کو اپنا بیٹا بنالیا۔
تائی صاحبہ تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر تدبر، معاملہ فہمی اور انتظامی قابلیت ان میں بہت تھی۔ اس عہد میں لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت محض اس وجہ سے تھی کہ تعلیم کاانتظام پردہ اورشریفانہ خصائص کومدنظر رکھ کرنہ ہو سکتا تھا۔ مگر ایسے خاندانوں میں جیسے حضرت صاحب کاخاندان تھا، لڑکیوں کی تربیت اس قسم کی ہوتی تھی کہ وہ خانہ داری ہی کے نہیں بلکہ اپنی ریاستوں کے انتظام بھی نہایت عمدگی سے کرسکیں اور معاملات میں صائب اورصحیح رائے دے سکیں۔ تائی صاحبہ نے باوجوداس کے کہ بچپن میں تعلیم نہ پائی۔ آخیر عمر میں محنت کرکے قرآن شریف پڑھ لیا تھا۔ وہ پردہ کی اس حد تک پابند تھیں کہ وہ اپنے گھرسے نکل کرکبھی کسی دوسرے گھر میں نہیں گئی تھیں۔ آپ نے 30 نومبر اوریکم دسمبر1927ء کی درمیانی شب کو97سال کی عمرمیں وفات پائی۔آپ موصیہ تھیں اوربہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئیں۔
آپ کے انتقال پرحضرت مصلح موعو دؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2دسمبر1927ء میں فرمایا کہ بعض پیشگوئیاں اور نشانات ظاہر میں گو چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان کی کیفیت پرغورکرنے والوں کے لئے ان میں کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے ایمان میں بہت اضافہ ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کاایک پرانا الہام ہے: ’تائی آئی‘۔ اس کے متعلق پرانے احمدی بتاتے ہیں کہ اس وقت اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ سلسلہ کی کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیںکہ محمدی بیگم کی پیشگوئی کے زمانہ میں وہ (تائی صاحبہ) اشدترین مخالف تھیں۔چونکہ وہ خاندان میں سب سے بڑی تھیں اس لئے خاندان کی لیڈرکے لحاظ سے اس وقت وہ اس رشتہ میں روک ڈالنا اپنا فرض سمجھتی تھیں جس کووہ خاندانی رسوائی کے مترادف سمجھتی تھیں۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کامسیح ہونے کادعویٰ ان کے نزدیک اس قدر اہم نہیں تھاجس قدرخاندانی عزت تھی۔ اور یوں بھی چونکہ بڑوں کے لئے چھوٹوںکی اطاعت مشکل ہوتی ہے۔ اورمسیح موعود تائی صاحبہ سے چھوٹے تھے اور انہوں نے جائداد وغیرہ میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔ اس لئے آپؑ کا کھانا وغیرہ ان کے ہی گھرسے جاتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی وہ اپنے آپ کوحضرت مسیح موعودؑ کی محسنہ سمجھتی تھیں۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اپنا دست نگرتصورکرتی تھیں۔ حضورؑ اپنے ایک عربی شعرمیں فرماتے ہیں:

لُفَاظَاتُ الۡمَوَائِد کَانَ اُکُلِیۡ
وَصِرۡتُ الۡیَوۡمَ مِطۡعَامَ الۡاَھَالِیۡ

کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسراوقات کرتا تھا۔ مگر اب خدا نے مجھے ایسی شان عطا کی ہے کہ ہزاروں ہیں جو میرے دسترخوان سے سیرہوتے ہیں۔
چونکہ حضرت اقدس کی جائیداد علیحدہ نہیں تھی۔ بھائی کے ہی سپردتھی اورآپؑ میں اس کے سنبھالنے کا احساس بھی نہیں تھا۔چنانچہ آپ کے والد بھی کہا کرتے تھے کہ یہ جائیداد نہیں سنبھال سکے گا۔ پس اندریں حالات تائی صاحبہ کاایمان لانا بڑا مشکل امر تھا۔ دلیل اور مذہبی پہلو سے نہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے۔ کیونکہ ان کے نزدیک دونوں کی حیثیت آقاونوکر کی تھی۔ وہ آپ کو ایک غریب آدمی سمجھتی تھیں جو کام وغیرہ کچھ نہیں کرتا تھا اور ان کے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ ان حالات میں وہ کبھی گوارانہ کرسکتی تھیں کہ آپ ان کی بہن کی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ وہ چونکہ سب سے بڑی تھیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ مخالف تھیں۔اس زمانہ میں حضورؑ کی مخالفت بہت زیادہ تھی۔ رشتہ داروں نے آپ سے ملنا ترک کردیا تھا۔ اور آپؑ بھی ان سے نہیں ملتے تھے۔
ان حالات میں یہ قیاس کرنا کہ تائی احمدی ہوجائے گی، بظاہر ایک غیرمعمولی بات تھی۔ انسان کادل بدل سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ حالات کیا کہتے ہیں؟ایسے وقت میں آپؑ کوالہام ہوتاہے ’تائی آئی‘۔ تائی صاحبہ حضرت صاحب کی بھاوج تھیں۔اس لئے ان الفاظ سے یہ مراد تھی کہ آپ اس وقت بیعت کریں گی جس وقت بیعت لینے والے سے ان کاتعلّق تائی کاہوگا۔ اگرانہوں نے آپؑ کی بیعت کرنی ہوتی تو الہام کے یہ الفاظ ہوتے کہ بھاوج آئی اوراگرحضرت خلیفۃ اوّلؓ کے عہد میں بیعت کرنی ہوتی تویہ ہوناچاہئے تھاکہ مسیح موعودؑ کے خاندان کی ایک عورت آئی۔ مگر تائی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا لڑکا جب خلیفہ ہوگا تو اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گی۔
اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں: اول: یہ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اولاد میں سے خلیفہ ہوگا۔ دوم: یہ کہ اس وقت تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی۔ تیسرے: تائی صاحبہ کی عمرکے متعلق پیشگوئی تھی اوروہ اس طرح کہ اُس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جن کی اپنی عمراس وقت 70سال کے قریب تھی۔ایک ایسی عورت کے متعلق پیشگوئی کرتے ہیںجواس وقت بھی عمرمیںان سے بڑی تھی کہ وہ زندہ رہے گی اورآپ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا۔ جس کی بیعت میںشامل ہوگی۔ اتنی لمبی عمر کا ملنا بہت بڑی بات ہے۔انسانی دماغ کسی جوان کے متعلق بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلاںوقت تک زندہ رہے گا۔ چہ جائیکہ بوڑھے کے متعلق کہاجائے۔پس یہ ایک بہت بڑانشان ہے۔ گویا ان کا بیعت کرنا اور میرے زمانہ میں کرنا پھر حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹوں میں سے خلیفہ ہوناکئی ایک پیشگوئیاں ہیں جو دو لفظوں میں بیان ہوئی ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی روایات اور احساسات پرانے خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ عظیم الشان تغیر ہے کہ تائی صاحبہ نے بیعت میں شامل ہونے کے بعدوصیت بھی کردی تھی۔ پہلے تووہ اس کی بھی مخالف تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوآبائی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن کیا جائے۔ چنانچہ مجھے انہوںنے اس وقت کہلا بھی بھیجا کہ آپؑ کوجدّی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن نہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک ہتک ہے اور بعد میں بھی کئی سال تک اس پرمعترض رہیں۔ مگر پھر ان کی یہ حالت ہوگئی کہ خود وصیت کی اوربہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔ ایک سمجھدار انسان کے لئے یہ بہت بڑا نشان ہے۔ … وہ لوگ جومانتے نہیں۔ان کاغورنہ کرنا تو عجیب بات نہیں۔ مگرمان کرغورنہ کرنے والوںکی حالت زیادہ افسوسناک ہے۔اگرماننے والے ان نشانات میں غور کریں تو ان کے اندرایک عظیم الشان تبدیلی پیدا ہوجائے۔ خداتعالیٰ کی تائیدیں اورنصرتیں ان کوحاصل ہوں۔ اوروہ اپنی موجودہ قربانیوں پر غور کرکے شرمندہ ہوں کہ ان کوبہت آگے بڑھنا چاہئے تھا۔ اور وہ مقام جہاں کھڑے ہیں بہت ادنیٰ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں