تاریخ احمدیت اٹلی

جماعت احمدیہ اٹلی کے رسالہ ’’المنار‘‘ نومبر 2007ء تا جنوری 2008ء میں اٹلی اور سپین میں احمدیہ مشن کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مسلمانوں نے (711ء تا 1429ء) قریباً آٹھ سو برس تک نہایت شان و شوکت سے حکومت کی۔ مگر بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازبیلہ کے اس مشترکہ فرمان کے بعد کہ کوئی مسلمان سپین میں نہیں رہ سکتا، مسلمان نہایت بے دردی اور سفّاکی سے ختم کر دئیے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہاں ازسرِنو لوائے اسلام لہرانے کے لئے یکم فروری 1936ء کو محترم ملک محمد شریف صاحب گجراتی کو قادیان سے روانہ فرمایا۔ آپ 10مارچ 1936ء کو دارالحکومت میڈرڈ پہنچے۔ آپ اپنی ایمان افروز داستان میں تحریر فرماتے ہیں کہ سپین کی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے میڈرڈ کی تھیوسافیکل سوسائٹی کے ممبران کے علاوہ انفرادی طور پر جن لوگوں تک پیغام احمدیت پہنچایا اُن میں یونان کی ایک بہت بڑی شخصیت Count Antonio Logothete بھی شامل تھے جن کا نام حضرت مسیح موعود ؑ کے نام پر ہی کونٹ غلام احمد رکھا گیا۔ آپ میڈرڈ شہر کی بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور یونانی شہریت رکھتے تھے۔ آپ کی اہلیہ کا اسلامی نام آمنہ رکھا گیا۔ جب خانہ جنگی کے دوران کمیونسٹوں نے خدا پر ایمان رکھنے والوں کی زندگی اجیرن کردی تو مجبوراً کونٹ غلام احمد صاحب کو سپین سے نکلنا پڑا۔ عرصہ کے بعد وہ البانیہ پہنچے جہاں آپ کی وفات اُس وقت ہوئی جب میں دشمن کے قیدی کیمپوں میں بیکسی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ آپ کی اہلیہ آمنہ کو میڈرڈ پولیس نے گرفتار کرکے ہر روز گولی مارنے کی دھمکیاں دیں۔ مگر آخر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ غیرمتوقع طور پر رہا کر دیا گیا۔
میڈرڈ میں شدید بمباری میں دو مرتبہ اللہ تعالیٰ نے خارق عادت طور پر موت کے منہ سے بچایا۔ انگریز سفیر نے مجھے سفارت خانہ میں بُلا کر مشورہ دیا کہ جان کی حفاظت کی خاطر کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں۔ مَیں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ ایسے حالات کے پیش نظر کیوں نہیں چلے جاتے؟ جواب ملا کہ وہ انگریز حکومت کے حکم کے بغیر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا سکتے۔ میں نے جواباً کہا کہ آپ چند پاؤنڈ کے لالچ سے اپنی جان مصیبت میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں تو مجھے اتنا ذلیل سمجھتے ہیں کہ میں موت کے ڈر سے اس ملک سے چلا جاؤں حالانکہ میںیہاں آیا ہی مرنے کے لئے ہوں۔ اس پر آپ نے میری عمر پوچھی اور یہ معلوم کرکے کہ 23 سال کی عمر میں اتنی قربانی کی روح میرے اندر کس نے پیدا کی ہے۔ میں نے نہایت عاجزی سے بتایا کہ اسلام اور احمدیت نے۔
میڈرڈ کی صورت جب حد درجہ نازک ہوگئی تو برطانوی حکومت نے حکماً ہر فرد کو سپین سے نکال کر جنگی بحری جہاز کے ذریعہ فرانس اور دیگر ممالک میں بھیج دیا۔ مجھے بھی فرانس کی بندرگاہ مارسیلز آنا پڑا جہاں سے لندن گیا اور وہاں سے براستہ سمندر حضورؓ کے ارشاد پر 21 جنوری 37ء کو اٹلی کے دارالسلطنت روما پہنچا۔ یہاں میری ملاقات کونٹ غلام احمدصاحب سے ہوئی۔ آپ باوجود ضعیف العمری کے میرے مکان پر آیا کرتے جو چھٹی منزل پر واقع تھا۔ سپین کی بمباری کے دوران میرے پاؤں میں بم کے ایسے ٹکڑے موجود تھے جنہیں نکلوانے کے لئے کئی ماہ ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا۔ جونہی اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی تو زبان سیکھنے اور تبلیغ کے کام کی طرف متوجہ ہوا۔1940ء تک ہر قسم کے صبر آزما حالات کا مقابلہ کر کے اور چند خلیق انسانوں کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کے بعد جنگی قیدی کیمپوں میں چار سال تک رہنا پڑا۔ روما کے معزز اور باوقار احمدی دوستوں میں سے کونٹ غلام احمد صاحب، پروفیسر یقین صاحب، ڈاکٹر انور صاحب اور اُن کے والد بشیر احمد صاحب اپنے اخلاص اور محبت کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ تاریخ میں اُن کے نام محفوظ رہیں۔
قیدی کیمپ میں جانے سے پہلے ایطالیہ میں تیس کے قریب انسانوں نے احمدیت قبول کی تھی مگر قید کے چار سالہ عرصہ میں ہر کسی پر طرح طرح کے مصائب آئے۔ اگرچہ اس عرصہ میں میری پہلی بیوی سلیمہ خاتون کے علاوہ یوگو سلاویہ کے تین افراد کو اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت کی توفیق دی جن میں برادرم توفیق احمد Claicic صاحب خاص طور پر اپنے اخلاص اور ایثار کی وجہ سے قابل ذکر ہیں۔ قیدی کیمپ میں بھی اللہ تعالیٰ نے بیشمار احسانات مجھ عاجز پر کئے۔ چنانچہ پندرہ مختلف اقوام کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دئے اور اپنی ہر دلعزیزی کے نتیجہ میں سینکڑوں مصیبت زدہ قیدی ساتھیوں کی جانیں بچانے کی توفیق ملی۔ ہندوستانی افواج کی بہتری و بہبودی کے کاموں میں نمایاں طور پر حصہ لینے کی توفیق ملی۔ انڈین آرمی ایجوکیشنل لیکچرر کے طور پر ان کے ساتھ فلارنس یونیورسٹی میں کام کرتا رہا۔ ہندوستانی افواج کے ہمراہ جنگ میں کام آئے ہوئے سپاہیوں کی لاشیں دفنانے کے کام میں دائیں آنکھ اور سر پر سخت چوٹ آئی جس کے نتیجہ میں دائیں آنکھ ہمیشہ کے لئے کمزور ہوگئی۔ ایطالیہ میں ایک اتحادی کمیشن اُس وقت موجود تھا۔ اُس کے ساتھ اپریل 1947ء تک کام کیا۔ اسی اثناء میں حضورؓ نے دو مجاہدین (یعنی ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی محمد عثمان صاحب فاضل) کو ایطالیہ کے لئے نامزد کر کے خاکسار کو از سرِنو سسلی بھجوایا۔ دونوں مجاہدین کو Messina بھیجا تا وہاں کے لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ وہ کبھی مسلمان رہے تھے۔ لیکن جب اس شہر کی مقامی حکومت نے دونوں مبلغین کو 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا تو بالائی حکام سے مل کر اور انہیں گزشتہ اسلامی زمانہ کی یاد دلا کر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حکم کی تنسیخ میں کامیابی حاصل ہوگئی۔
اس موقعہ پر دو ایمان افروز واقعات قابل ذکر ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مسینہ کی بندرگاہ کے قریب ایک پرانی یادگار کے سامنے (جو مسجد سے مشابہت رکھتی تھی) میں نے کھڑے ہوکر سوزو گداز سے دعا کی تو ایک بھاری مجمع جمع ہوگیا۔ میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ پرانے زمانہ کی مسجد ہے۔ اس پر رقّت کے ساتھ میں نے حاضرین کو بتایا کہ آپ کے آباؤ اجداد مسلمان تھے، کاش آپ میں سے کوئی ایک ہی اُس زمانہ کی یاد تازہ کرکے اسلام کی طرف متوجہ ہو؟ اس پر ایک نوجوان کہنے لگا کہ میں اس بات کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ اُسے سلسلہ کے عقائد سے واقف کیا گیا تو اُس نے اسلام قبول کر کے اپنا نام ’’محمود‘‘ رکھنا پسند کیا۔ دوسرے نوجوانوں پر اس کا گہرا اثر تھا اور اس نوجوان کے ذریعہ وہاں پر ہماری تبلیغ کے انتظامات ہوتے رہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ Messina شہر کی میونسپل کمیٹی کے قریب ایک فوٹوگرافر کی دکان تھی۔ یہ فوٹوگرافر مجھے دیکھ کر ایک عجیب انداز میں ٹکٹکی لگائے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ عرصہ ہوا میں نے اور میری بوڑھی والدہ نے ایک ہی رات ایک ہی خواب دیکھی تھی جس میں ایک جلیل القدر انسان حاضرین سے مخاطب ہو کر اسلام کی خوبیاں بتا رہے تھے۔ اُن کے اردگرد کئی لوگ موجود تھے مگر اُن میں سے دو کی شکلیں مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک کا چہرہ گول اور موٹے نقش تھے اور دوسرے انسان کا چہرہ بہت نورانی تھا۔ اور ان ہر سہ اشخاص کے قریب چوتھے آپ تھے۔ پھر انہوں نے اپنی والدہ کو بلایا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی جو فوٹو گرافر نے بتائی تھی۔تب میں نے البم کھول کر سب سے پہلے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو دکھایا تو انہوں نے یہ بتایا کہ یہی وہ جلیل القدر انسان تھے۔ بعد ازاں حضرت خلیفہ اولؓ کا فوٹو دکھایا تو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ آپ ہی گول چہرے والے اور موٹے نقشوں والے ہیں۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی فوٹو دیکھ کر انہوں نے بتایا کہ یہی وہ انسان ہیں جن کا چہرہ بہت نورانی ہے۔
جلد ہی اٹلی کا مشن بند کرنا پڑا اور ہر دو مجاہدین کو واپس مرکز میں بلا لیا گیا۔ گو میں نے بدستور اٹلی میں اپنی رہائش جاری رکھی اور روزی کے ذرائع پیدا کرکے 1949 ء میں ہوائی جہاز کے ذریعہ پاکستان آیا جہاں ایک سال ٹھہرنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ہدایات لے کر واپس ایطالیہ آگیا اور یہاں ناموافق حالات کے باوجود 1955ء تک فریضۂ تبلیغ بجالاتا رہا اور مختلف ممالک کے اہم افراد سمیت ہزاروں لوگوں تک پیغامِ احمدیت پہنچایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں