تاریخ اسلام کے پانچ سیاسی ادوار

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل 2012ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے قلم سے اسلامی تاریخ کے سیاسی ادوار کے حوالے سے ایک مضمون (اُردو ترجمہ مکرم محمد زکریا ورک صاحب) شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک مفتوح قوم کے مذہب نے فاتح قوم کو فتح کرلیا۔

جناب زکریا ورک صاحب

یہ مضمون محترم ڈاکٹر صاحب نے 1947ء میں مسجد فضل لندن میں منعقد ہونے والے ہفتہ وار اجلاس میں پڑ ھا تھا۔ اس وقت آپ کیمبرج یو نیورسٹی میں زیرتعلیم تھے۔ بعدازاں یہ مضمون ’’مسلم ہیرالڈ‘‘ (1983ء) اور پھر ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ (اگست 2003ء) میں شائع ہوا۔
تا ریخ اسلام کو پا نچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلادَور۔ خلافتِ راشدہ اوراموی و عباسی خلافت
یہ عرصہ 632ء سے شروع ہو کر 950ء تک قریباً تین سو سال تک رہا۔ اُس وقت خلیفہ نہ صرف مذہبی رہنما ہوتا تھا بلکہ سیاسی قیادت بھی کرتا تھا۔ اس کے بعد کی ایک صدی میں اسلام مختلف ریاستوں میں بٹ گیا اور یوں لگتا تھا کہ اسلام کی سیاسی طاقت ہمیشہ کے لیے نابود ہو جائے گی۔
آنحضرت ﷺ کی وفات تک جزیرہ عرب عملی طور پر مذہب اسلام قبول کر چکا تھا۔ حضرت ابوبکرصد یقؓ کے دور خلافت میں عرب کا ملک مستحکم ہو گیا۔ مگر مذہب اسلام نے اس ملک سے باہر فتو حات حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں حاصل کیں۔ دراصل با زنطینی حکومت مغرب میں اور ایرانی حکومت مشرق میں ملکِ عرب کو اپنے زیر تسلّط سمجھتی تھیں۔ چنانچہ اسلام کے ابھر تے ہوئے اثر کو بغاوت تصور کر تے ہوئے وہ عربوں پر حملہ آور ہوئے لیکن مٹھی بھر مسلمانوں نے اپنے سے کئی گُنا زیادہ دشمن کا میدان جنگ میں سامنا کیا اور اسے شکست دی۔ 635ء میں دمشق نے گھٹنے ٹیک دیے اور یرموک نے 636ء میں۔ اس طرح شام فتح ہو گیا۔ ایرانی افواج کو 637ء میں قادسیہ کے مقام پر شکست فاش ہوئی اور مصر کا ملک 640ء میں فتح ہو گیا۔
حضرت عمرؓ کا دور نہ صرف جنگی فتوحات کی بِنا پر تاریخ ساز تھا بلکہ اس لیے بھی کہ تاریخ عالم میں سب سے پہلے یہ اصول تسلیم کیا گیا کہ ریاست کے تمام شہریوں کی بِلاتفریق خوشحالی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ آپ ؓ نے جس بےمثال فقرہ سے اپنی خلافت کا آغاز کیا وہ یہ ہے:
خدا کی قسم تم میں سے جو سب سے زیادہ کمزور ہے وہ میرے نزدیک سب سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ میں اس کے حقوق بحال کروں گا اور ایسا شخص جو طاقتور ہے میں اس کو کمزور جان کر ملوں گا تاوقتیکہ وہ تمام قوانین کی پابندی نہ کرے۔
حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کے بعد خلیفہ کے انتخاب کا طریق ختم ہوگیا۔ حضرت معاویہؓ 661ء میں خلیفہ بنے تو انہوں نے خلافت کو موروثی بنا دیا اور یوں امیہ خلافت کا دور شروع ہوا۔ یزید کے دَور حکومت میں 680ء میں کربلا (عراق) میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کردیا گیا کیونکہ انہوں نے ایسے خلیفہ کی اطاعت سے انکار کردیا تھا جس کا انتخاب شوریٰ کے ذریعہ نہ ہوا ہو۔
اموی دورِ خلافت میں خلیفہ ولید بن عبد الملک کا دَور سب سے زیادہ پُرشو کت تھا۔ اسی دور میں مٹھی بھر مسلمان طارق بن زیاد کی قیادت میں سپین میں داخل ہوئے اور چند ہی سالوں میں تمام ملک کو زیرنگیں کرلیا اور اگلے پا نچ سو سال تک سپین کا اکثر حصہ اسلامی ملک کے طور پر قائم رہا۔ اسی طرح محمد بن قا سم نے 712ء میں ہندوستان پر حملہ کیا اور سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا۔ اموی خلفاء کی سیاسی طاقت 750ء میں ختم ہوگئی اور عباسی دَور حکومت شروع ہوا جو اگرچہ سنی مسلمان تھے مگر انہوں نے خراسانی شیعوں کی مدد سے سیاسی غلبہ حاصل کرلیا اور دارالخلافہ دمشق سے بغداد منتقل کردیا۔ عباسی خلافت میں خلیفہ ہارون الرشید کا دَورِحکومت شاندار تھا۔ ان کے صاحبزادے مامون الرشید کے دَور میں اسلامی ممالک کی خوشحالی عروج پر تھی۔
خلیفہ ہارون الرشید کی وفات کے ایک سو سال بعد عباسی خلفاء کی طاقت میں انحطاط کے بعد خراسان میں سمانید حکومت قائم ہوگئی، فارس میں بووید حکومت، مصر میں فاطمی حکومت اور عرب میں کارمیتھین قابض ہوگئے۔ فاطمی حکومت کے علاوہ دیگر تمام حکومتوں نے خلیفہ کو برائے نام تسلیم کیا مگر اسلامی امت اس قدر خلفشار کا شکار ہوچکی تھی کہ لگتا تھا کہ سیاسی طورپر تباہی اب اس کا مقدّر بن چکی ہے۔
دوسرا دَور۔ سلجوق قوم
اسلامی تاریخ کے دوسرے دَور میں یعنی 1050ء میں ترکی کی سلجوق قوم نے اسلام قبول کرنے کے بعد بغداد میں خلافت کی شکل میں مذہبی مرکزیت قائم کی جبکہ سیاسی طاقت ایسے علماء کے ہا تھوں میں تھی جو ترکی نژاد تھے۔ سلجوق قوم نے مسلمان فاتحین کی ایک ایسی نسل کو جنم دیا جن کی وجہ سے صلیبی اقوام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو اسلامی ممالک کو فتح کرنے کا عزم لے کر آئے تھے۔
پہلے سلجوق حکمران طغرل بیگ کی وفات 1063ء میں ہوئی۔ اس کے روشن دماغ بیٹے الپ ارسلان کا دور حکومت بے مثال خوشحالی، آسودگی اور مطلق العنانی کا تھا۔ پھر عظیم مسلمان حکمران نظام الملک کا دَور آیا۔ عباسی خلفاء اگرچہ ابھی تک بغداد پر حکمران تھے مگر انہوں نے تمام دنیوی اقتدار سلجوق سلطانوں کو سونپ دیا تھا۔ سلجوق سلطنت افغانستان سے شروع ہوکر عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ مصر اور سپین کے علاوہ تمام مسلم اُمّہ ایک جھنڈے تلے متحد تھی۔
الپ ارسلان کے بعد اس کے بیٹے ملک شاہ نے عنان اقتدار سنبھالا۔ اس کا دور حکومت ریاضی اور دوسرے سائنسی علوم میں اصلی حقیقی تحقیق کے لیے عروج پر تھا۔ 1074ء میں ایک رسدگاہ تعمیر کی گئی جہاں شہرہ آفاق سائنس دان عمر خیام ریسرچ کا کام کر تا تھا۔ جلالی کیلنڈر اس دَور میں وضع کیا گیا جو جدید محققین کی نظر میں گریگورین کیلنڈر سے کئی گنا زیادہ صحیح اور درست ہے۔ بغداد شہر میں نظامیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس یونیورسٹی کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں حضرت امام غزالیؓ تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔
با رھویں صدی کے آخر پر سلجوق طاقت زوال پذیر ہوگئی۔ مگر زوال کے دَور میں بھی اس نے صلیبیوں کو شکستِ فاش دی۔ سر والٹر سکاٹ کے ناولوں کا ہیرو صلاح الدین ایوبی 1175ء کے قریب ہو گزرا ہے۔ عجیب بات ہے کہ صلیبیوں کے بارہ میں عیسائی مما لک میں رجحان اَور طرح کا تھا بہ نسبت اسلامی ممالک کے۔ مغربی ممالک میں صلیبی جنگوں کو مذہبی رنگ دیا گیا اور یورپ کی تمام مسلح فوجی طاقت ان کے پیچھے نبرد آزما تھی مگر اسلامی ممالک میں ان کو مقامی غارت گری سمجھا گیا جن سے علاقائی صوبوں کے گورنر اچھے طریق سے نمٹ سکتے تھے۔
1171ء میں حطین کی فیصلہ کن جنگ کے بعد جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے کئی ایک یورپی جنگی قیدی بغداد کے خلیفہ کو مال غنیمت کے طور پر بھیجے تو ان کے ساتھ لکڑی میں کھُدی ہوئی کانسی (Bronz Iron)کی بنی ہوئی ایک صلیب بھی شامل تھی جس کو پورے احترام کے سا تھ بغداد کے قریب زیرزمین کر دیا گیا۔ سلجوق حکومت کے آخری دَور میں اسما عیلی فرقہ یعنی Assassins نے مسلم ممالک میں طا قت حاصل کرلی۔ اگرچہ ان کی سیاسی طاقت صرف چند قلعوں تک محدود تھی مگر ان کی اصل طاقت مسلمان لیڈروں کو قتل کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ تھی۔
تیر ھویں صدی کے شروع ہو نے تک سلجوق سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی۔ کو ئی اور سلسلۂ سلا طین شاید ان کی جگہ لے لیتا مگر 1220ء کے قریب تاریخ عالم میں ایک زبردست واقعہ رونما ہوا جب چنگیز خان کی قیادت میں وسطی ایشیا کے بادیہ گرد منگول قبائل نے یورپ اور ایشیا میں تہذیب یافتہ دنیا کو زیرنگیں کر لیا۔
تیسرا دور۔ منگول قوم
منگول قوم کیسے ابھر کر دنیا پر یوں چھا گئی؟ اس کا تجزیہ کوئی نہیں کر سکا۔ اُن کی تباہ کن بربادی، ان کی ہیبت خیز خونخواری، ان کی شدید سفاکی، ان کا ناقابل مزاحمت تشدّد، منگول قوم کی یہ کہانی فطرت کی لائی ہوئی بربادی محسوس ہوتی ہے نہ کہ انسانی تاریخ کا کوئی عجیب و غریب واقعہ۔ انہوں نے 1220ء کے لگ بھگ اسلامی اور یوروپی ممالک پر حملہ کیا۔ یوروپ میں انہوں نے ماسکو، روسٹو Rostov، کی ایو Kiev اور کرا کوCracow کے شہروں کو تہس نہس کر دیا۔ دوسری بار انہوں نے ہلاکوخاں کی قیادت میں1258ء میں اسلامی خلافت اوربغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یو ں محسوس ہو تا تھا کہ وہ محض تباہ وبرباد کر نے اور ہلاک کر نے کی غرض سے آتے تھے۔ ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک نے ان کے شدید حملوں کی وجہ سے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر انہوں نے ہتھیار ڈالنے والے کسی شہر کے مکینوں کو تہ تیغ نہ کیا تو اس کا واحد مقصد ان کی صلاحیتوں سے فائد ہ اٹھانا یا ان کو ان کے ہم وطنوں کے خلاف نبرد آزما کر نا تھا۔ درجنوں آفت زدہ قیدی ہراول دستوں کے ساتھ بھیج دیے جاتے جو فا تحین کے خیمے گاڑتے، یا فصیلوں کے اندر شگافوں میں یا پا نی بھری خندقوں اور مورچوں کو ان سے بھردیا جاتا، پھر بھی اگرکوئی موت کے منہ سے بچ جا تا تو اس کو تہ تیغ کردیا جا تا تاکہ نئی فتوحات سے آنے والے قیدیوں کیلئے جگہ بنائی جاسکے۔
منگولوں کی اس سفاکی کا مقصد جس قوم پر انہوں نے اس کے بعد حملہ کرنا ہوتاتھا ان میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا تھا جبکہ وہ اپنے پیچھے راکھ میں جلتے کھنڈر اور منہدم مکانات چھوڑ جا تے۔ ان کی اس تباہی کی داستان ابن الاثیر کی 1230ء کی اس تحریر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک منگول نے کسی شخص کوقیدی بنا لیا مگر منگول کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا جس سے وہ اس کو ہلاک کرسکتا۔ اُس نے قیدی سے کہا کہ اپنا سر زمین پر رکھ دو اور حرکت مت کر نا۔ چنانچہ قیدی نے حکم کی تعمیل کی۔ وہ تاتاری گیا، اپنی تلوار لے کر وا پس لوٹا اور قیدی کو ہلاک کردیا۔
یہ لوگ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے مگر ان کی اسلامی تہذیب کی تباہی و بربادی نے روم کے پا پائے اعظم کی نظر میں ان کواتنا گر ویدہ بنا دیا تھاکہ تقدّس مآب نے اس بات میں مسرّت محسوس کی کہ وہ اگتا ئی خان Ogtai Khan اور دوسروں کو تہنیتی خطوط اپنے دستخطوں کے ساتھ بھجوائے۔ پوپ کو اُن کی نمک حرامی کا اس وقت احساس ہوا جب انہوں نے عیسائی ممالک کو اتنی ہی غیرجانبداری سے پیو ند خاک کرنا شروع کر دیا۔
بغداد کی تباہی بہ حیثیت اسلام کے دارالخلافہ کے ہوچکی تھی۔ خلیفہ کے قتل نے بظاہر یک جہتی کو سخت ٹھیس پہنچائی جو اسلامی ممالک میں قائم تھی۔ بغداد کی بربادی میں ایک ہفتہ لگا اس دوران اسی ہزار بیگناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بربادی کی یہ داستان نہ صرف ناقابل بیان بلکہ وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ نہ صرف یہ کہ ہزاروں بیش قیمت کتب نذر آتش کردی گئیں بلکہ سکالرشپ کی روایت اوراستعداد علمی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ مذہب اسلام کو فنا نہ کر سکے بلکہ خود اس کا نشانہ بن گئے۔ 1275ء میں منگول حکمرانوں نے اسلام قبول کر لیا اس کے بعد یہی منگول اسلام کے سب سے بڑے حامی و مدد گار بن گئے۔
اگلے دو سو سالوں کی سیاسی تاریخ فی الحقیقت 1350ء تک ایران میں مسلمان منگول شہزادوں کی داستان ہے۔ جبکہ اس دوران ترکی میں عثمانی حکو مت قائم تھی۔ اور مصر سلطان صلاح الدین کی نسل کے زیرنگیں تھا۔ 1350ء کے بعد وسطی ایشیا میں ایک اور فا تح اُفق عالم پر نمودار ہوا جس کانام تیمور لنگ تھا۔ اگرچہ وہ مسلمان تھا مگر اس کا ارادہ ما سوا دنیا کو فتح کر نے اور دنیا پر فرمانروائی کے کچھ نہ تھا۔ اس نے ایران، بھارت، افغانستان اور روس و چین کے کچھ حصوں کو روند ڈالا۔ اس کی سب سے زیادہ قابل ذکر فتح ترکی کے سلطان با یزید اول پر تھی جو 1402ء میں وقوع پذیر ہوئی۔ اس واقعہ سے عثمانی ترکوں کی یلغار کچھ عرصہ کے لیے رک گئی۔ تیمور لنگ کے جانشینوں نے وسطی ایشیا اور ایران پر ایک سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی۔ اس کے بعدان کی جگہ صفوی خاندان نے لے لی۔
یہ تیسرا دَور اگرچہ ایک لحاظ سے تاریخی دَور کہا جاسکتا ہے لیکن اس دَور میں بعض بہت بڑے صوفیائے کرام ہوئے جن میں (قونیہ، ترکی کے رہنے والے) حضرت شاہ شمس تبریزؒ اور اُن کے شاگرد حضرت مولانا جلا ل الدین رومیؒ (وفات1273ء) شامل تھے جنہوں نے قریباً 1260ء میں (چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل) مثنوی زیب قرطاس کی۔
دراصل تیرھویں صدی میں صوفی ازم بام عروج پر تھا۔ چنانچہ قرون وسطیٰ کے اسلام میں صوفی تحریک کے امام محی الدین ابن العربیؒ نے (جو سپین کے با شندے تھے) دمشق کو اپنا وطن مالوف بنالیا اور وہیں 1240ء میں وفات پائی۔ ادبی میدان میں فارسی کے عظیم شعراء شیخ سعدیؒ شیرازی اور شمس الدین محمد حافظؒ شیرازی اسی دَور سے تعلق رکھتے ہیں۔
چوتھا دَور۔ صفوی اور عثمانی ترک
یہ دَور 1500ء کے لگ بھگ شروع ہو تا ہے جب شا ہ اسماعیل صفوی نے زمام اقتدار سنبھالی اور شیعہ سلسلہ سلاطین ایران میں شروع ہوا۔ یہ پہلا مو قع تھا کہ ایران میں شیعہ خاندان کے لوگ شاہی اقتدار میں آئے۔ اس کا مستقبل کی تاریخ اسلام پر بہت گہرا اثر پڑا۔
اُس وقت اسلامی دنیا دو حریفانہ گر و ہوں میں تقسیم تھی ایک طرف تو شیعہ ایران، افغانستان اور عراق میں تھے تو دوسری طرف سلطنت عثمانیہ تھی جس میں عراق کا کچھ حصہ، عرب، شام، مصر اور الجیریا کے ممالک شامل تھے۔ سپین اس وقت مسلمان ہاتھوں سے جاچکا تھا۔ بھارت میں تیمور لنگ کی نسل یعنی خاندانِ مغلیہ کی حکومت تھی۔
1500ء سے لے کر 1700ء تک ہمیں مطلق العنان اسلامی حکومتیں دنیا پر چھا ئی نظر آتی ہیں: ہند وستان مغلوں کے دَورِ حکومت میں ایک زبردست سیاسی طاقت تھاجبکہ ایران میں صفوی بادشاہت خوشحالی کا سنہری دَور تھا۔ اسی طرح ترک قوم اور سلاطین اُس وقت سب سے بڑی سلطنت پر قابض تھے۔ ترکی کے سلطان سلیم اول نے مصر، شام، اور حجاز کو فتح کر کے اپنے لیے خلیفۃ المسلمین کا لقب اختیار کیا۔ سلطان سلیمان اعظم جس نے 56 سال (1510-1566ء) تک حکومت کی اس نے بلغراد کے شہر اور پولینڈ کے کچھ حصوں کو اپنے زیر نگیں کر لیا۔
وی آنا کے شہر کو ترکوں نے گھیر لیا جب کہ اس وقت ترکی کے پاس دنیا کاسب سے بڑا بحری جہازوں کا بیڑا تھا۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت جر منی کی سرحد سے شروع ہو کر ایران کی سرحد تک پھیلی ہوئی تھی۔ اگر چہ اس دور میں اسلام میں مرکزیت تو ختم ہوچکی تھی مگر سیاسی طور پر اسلام اس وقت اپنے کمال عروج پر تھا۔ اس زمانہ کے ایک یوروپین مؤرخ نے رقم کیا تھا کہ ماسوا ترکوں کی جنگ ایران کے ساتھ، اس وقت دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو ترک قوم کو یورپ میں لوگوں کو تہس نہس کر نے سے روک سکے۔
پانچواں دَور۔ 1700 ء کے بعد سے 1947ء تک
ترک قوم نے یورپ پر ایک سو سال یعنی 1800ء تک آہنی گرفت سے حکمرانی کی۔ مگر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو گیا تھا اور اگلے دو سو سالوں میں ان کی جگہ برطانوی قوم نے لے لی۔ ادھر ایران صفوی خاندان کے ہا تھوں سے جا تا رہا اور 1727ء میں افغا نوں نے پارس کو فتح کر لیا۔ افغان سنی العقیدہ تھے اور شیعہ ایرانیوں سے ان کو سخت نفرت و عداوت تھی۔ یہ پہلا مو قع تھا کہ سلطان محمود غزنوی (1000ء) کے بعد افغانوں نے خود مختار سیاسی طاقت کی حیثیت سے اپنا اثرو رسوخ دکھا یا۔ مگر جلد ہی نادر شاہ نے ان کو ایران سے ما ر بھگایا۔ وہ خود معمولی خاندان سے تعلق رکھتا تھا مگر اس نے کسی طریق سے اقتدار حاصل کر لیا اور ایران پر شاندار حکومت کی۔ اس کی فتو حات کا دَور اتنا ہی خیرہ کن تھا جتنا تیمورلنگ یا نپو لین کا تھا۔
نادرشاہ کے خاندان کے بعد قاجر خاندان برسر اقتدار آیا اور ایران پر 1906ء تک حکومت کرتا رہا۔ پھر وہاں انقلاب برپا ہوا اور ایرانی عوام کو ان کااپنا آئین دیا گیا۔ رضا شاہ پہلوی نے 1925ء میں اقتدار حاصل کر لیا اور اپنا تاج اپنے فر زند کو 1947ء میں سونپ دیا جو بعد میں بادشاہ بنا (اور آخر خمینی تحریک کے ذریعہ اقتدار سے علیحدہ ہوکر جلاوطن کیا گیا)۔
تر کی کی روس کے ساتھ جنگیں 1700ء کے قریب شروع ہوئیں۔ آغاز میں ترک فتح یاب ہوئے اور 1710ء میں پیٹر دی گریٹ کی فوج کومکمل طور پر تہس نہس کر دیا گیا۔ مگر 1770ء کے قریب ترک فوج کی پسپائی شروع ہوگئی اور کر یمیا نے ترکی سے 1788ء میں آزادی حاصل کرلی۔ فرانس جو عموماً ترکی کا حلیف ہو تا تھا لیکن جب نپو لین نے مصر پر 1798ء میں قبضہ کرلیا تو اس نے تعلقات منقطع کرلیے اور مصر محمد علی کے زیر اقتدار ترکی سے الگ ہو کر نیم مختار ہوگیا۔ اس کے بعد مصر کی تاریخ میں برطانیہ نے اپنا کردار ادا کیا۔ اسی دَور میں فرانس نے الجیر یا کو ترکوں سے چھین لیا۔ پھر یونانیوں نے یورپین اقوام کی مدد سے 1820ء میں آزادی حاصل کرلی۔
تر کی کی خلافت رفتہ رفتہ اپنی طاقت کھونے لگی تو نوجوان ترکوں نے 1910ء میں خلیفہ سے حکومت چھین لی۔ ترکی نے 1914ء کی جنگ عظیم اوّل میں جرمن قوم کا سا تھ دیا تھا چنانچہ ترکی کے تمام یورپین اور ایشیائی مقبوضہ علاقے چھین لیے گئے اور اس کے بعد عرب ممالک نے بھی تر کی سے آزادی حاصل کرلی۔
1947 ء کے حالات (جب یہ مضمون پڑھا گیا)
پاکستان کا قیام: مسلمان سند ھ اور ملتان کے علاقہ میں آٹھویں صدی میں آئے۔ مگر اُن کی حکمرانی بر صغیر ہند میں پورے زور کے سا تھ بارھویں صدی میں شروع ہو ئی۔ چار سو سال تک ہندوستان پر مختلف افغان خاندان حکو مت کرتے رہے۔ ان کے بعد 1526ء میں مغلوں نے حکومت شروع کی۔ مغلیہ اقتدار دوسو سال بعد بر طانوی قوم کو منتقل ہو گیا جنہوں نے ہندوستان کو 1947ء میں خیربا د کہا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
افغا نستان اموی اور عباسی سلطنتوں کا حصہ تھا۔ اس نے 1000ء کے لگ بھگ علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی جب غزنوی (جن کا دار الخلافہ غزنی میں تھا) یہاں برسراقتدار آئے تو افغانستان کا وہی حال ہوا جو کبھی فارس کا ہوا تھا۔ یہ ایک صوبہ تھا جو کبھی مسلمان ہندوستانی سلطنت کا اور کبھی ایرانی کا سلطنت کا حصّہ بنتا رہا۔ 1725ء میں افغانستان آزاد ہو گیا۔ انیسویں صدی میں افغانیوں کا برطانیہ کے ساتھ تصادم ہوا مگر انگریز افغانستان کو زیرنگیں نہ کرسکے۔ تب سے یہ ایک خود مختار ملک چلا آرہا ہے۔
پا رس یعنی ایران بنو امیہ اور بنو عباسیہ مملکتوں کا حصہ تھا۔ گیارھویں اور با ر ھویں صدی میں یہ سلجوق حکمرانوں کے زیر نگیں تھا۔ قریباً ایک سو سال تک منگول شہزادے اور پھر 1350ء سے 1500ء تک سلطان تیمور لنگ اور اس کی نسل کے لوگ اس پر حکمرانی کر تے رہے۔ 1500ء سے 1700 ء تک صفوی یہاں حکمران رہے جس کے بعد قا جر خاندان نے اقتدار حاصل کر لیا۔
وسطی ایشیا یعنی ٹرانس سیکسو نیا Transaxonia اٹھارھویں صدی تک ایران کے قبضہ میں رہا۔ پھر روسیوں نے رفتہ رفتہ جنوب کی طرف پھیلنا شروع کیا اور انیسویں صدی میں بخارا اور سمر قند کو فتح کر لیا۔
شام (بشمول فلسطین) اور عرب کے ممالک کا حال ایران جیسا 1500ء تک رہا۔ اس کے بعد وہ عثمانی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ 1914ء کی پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ قومیں آزاد ہوگئیں۔ جنگ کے بعد برطانیہ نے عراق کو آزادی دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس سے انحراف کیا اور شام کا ملک فرانس کو دے دیا گیا۔ عراق اور اُردن کو بر طانیہ کی زیرنگرانی کر دیا گیا۔ 1939ء میں شروع ہونے والی جنگ عظیم دوم کے بعد شام اور اردن نے آزادی حاصل کر لی۔
ترکی کو عباسی حکمرانوں نے سب سے پہلے اسلام کے لیے فتح کیا۔ عثمانی ترکوں نے اس پر 1288ء میں حکمرانی شروع کی۔ استنبول پر سلطان محمد ثانی نے 1453ء میں قبضہ کیا۔ایک زمانہ میں ترکی بین الاقوامی طاقت بن گیا تھا۔مگر انیسویں صدی میں اس پر زوال آنا شروع ہو گیا۔ 1914ء کی جنگ میں ترکی جرمنی کا حلیف بنا تو یہ اپنے تمام مقبوضہ علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
مصر پر اموی خاندان نے 750ء تک حکومت کی، پھر فا طمی خاندان نے 1170ء تک، پھر مملوک خاندان نے 1500ء تک جب سلطان سلیم نے اسے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا دیا۔ اس نے آزادی انیسویں صدی میں حاصل کی مگر پھر بر طانیہ نے قبضہ کر لیا اور پھر بعد میں اسے دوبارہ آزادی ملی ہے۔
سپین پر مسلمانوں نے 710ء میں قبضہ کیا اور اس کے حکمران بنو امیہ شاہی خاندان کے لوگ تھے۔ اس ملک نے بنو عباس کی حکمرانی کبھی قبول نہ کی۔ مسلمانوں کی حکومت یہاں 1400ء کے لگ بھگ ختم ہو گئی۔ یا تو مسلمانوں کو یہاں سے جلاوطن کر دیا گیا یا پھر وہ دوبارہ عیسائی بن گئے۔
اس جا ئزہ میں ملائیشیا، انڈونیشیا اور افریقہ کو شامل نہیں کیا گیا۔ اگر علم تاریخِ اسلامی سے کوئی سبق حاصل ہو تا ہے تو صرف یہ کہ اسلام نے سب سے زیادہ فتوحات اس وقت حاصل کیں جب اس کے تمام دنیوی ہتھیار اور طا قت سب سے زیادہ کمزور تھی۔ قریباً ایک صدی قبل یہی حالات تھے اور یقینا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نتیجہ میں اسلام ایک بار پھر روحانی زندگی اور دنیوی شوکت حاصل کرے گا۔ انشاء اللہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں