تربیت اولاد اور سنّت نبویﷺ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 2004ء کے تبرکات میں حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں اولاد کی تربیت کے متعلق آنحضرتﷺ کے طرزعمل کو پیش کیا گیا ہے۔
باپ کی شفقت اور ماں کی مامتا دنیا میں ضرب المثل ہیں۔ اگر اولاد کی محبت کا جذبہ ماں باپ کے دل میں قدرت کی طرف سے پیدا نہ کیا جاتا تو باغ عالم میں انسانی وجود کا پودا بالکل مفقود ہوجاتا کیونکہ کبھی ماں نو مہینہ تک حمل میں بچہ کو لئے نہ پھرتی۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ ہونے والے بچہ کی محبت استقرار حمل کے وقت ہی اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اس لئے گو ماں کے لئے چلنا پھرنا اٹھنا، بیٹھنا سب کچھ دوبھر ہو جاتا ہے اور ہونے والے دردزہ کے خیال سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر وہ ہر ممکن طریق سے حمل کی حفاظت کرتی ہے اور بجائے رنج کے خوشی کا اظہار کرتی ہے۔اور جب وہ خطرناک وقت آتا ہے تو یہ اپنی جان سے بیزار ہوتے ہوئے بھی آنے والے بچہ کی جان کی سلامتی کی دل سے متمنی ہوتی ہے اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا مہمان خیروعافیت سے آگیاتو اپنی ساری تکلیفوں کو یکدم فراموش کر دیتی ہے۔ اور جب وہ بچہ اس کے آگے یہ کہہ کر ڈالا جاتا ہے کہ لے یہ تیرا نور چشم ہے تو اس کی چھاتیوں سے دودھ کی دھاریں بہہ پڑتی ہیں۔وہ اس کی خوبیوں کی وجہ سے اس کی فریفتہ نہیں ہوتی۔ اس کا حسن وجمال اس کے لئے باعث کشش نہیں ہوتا۔ نہ وہ یہ خیال کرتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر اس کے لئے آرام وآسائش کا موجب ہوگا۔ بلکہ وہ محض قدرتی جذبہ اور فطرتی خاصہ کی وجہ سے اس پر جان دیتی ہے۔ اسے سینہ سے چمٹائے چمٹائے پھرتی ہے۔ وہ خود جاگتی ہے مگر اسے سلاتی ہے۔ آپ بھوکی رہتی ہے مگر اسے کھلاتی ہے۔ پورے دو برس وہ اسے اپنا خون پلا پلا کر پرورش کرتی ہے بلکہ بچوں کے جوان ہونے تک وہ دن رات ان کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتی ہے۔ پھر نہ صلہ کے لئے نہ ستائش کی خاطر بلکہ محض فطرتی محبت کی وجہ سے۔ اسی طرح شفقت پدری میں باپ دیس سے پردیس جاتا ہے۔ اپنا لہو پسینہ ایک کرتا ہے۔ ریل کے قلیوں کی طرح دن رات کام کرتا ہے۔ کیوں؟ صرف بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے، ان کی تربیت کے لئے ان کی تعلیم کے لئے، ان کی شادی بیاہ کے لئے۔ وہ اپنی آسائش پر ان کی آسائش مقدم کرتا ہے اور ان کے آرام کے لئے اپنا آرام قربان کردیتا ہے۔
لیکن جس طرح ہر جذبہ غلط اور ناجائز استعمال سے بعض دفعہ برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح بعض جاہل مائیں، ناعاقبت اندیش باپ، اولاد کی زندگی تباہ کردیتے ہیں جب بے جا لاڈ اور غلط پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔ ان کے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں وہ جاہل رہ جاتے ہیں۔اور دنیا کیلئے بجائے مفید ہونے کے نقصاندہ اور خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
پس خدا نے ہر زمانہ میں اپنے نبی بھیج کر ان کو دنیا کے لئے فطری جذبات کے استعمال میں نمونہ بنایا اور ہمارے لئے وہ انسان نمونہ بنایا گیا ہے جو سب کا خاتم یعنی جامع ہے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لڑکے اور لڑکیاں، دونوں عطا کئے۔
سب سے بڑی وجہ بچوں کے خراب ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ ماں باپ بوجہ قدرتی محبت اور فطری پیار کے بے سمجھی کے زمانہ میں بچہ کی تربیت اور اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور جب بچہ نادانی سے نکل کر سمجھ کے میدان میں قدم رکھتا ہے اس وقت ان عادات کو دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اس وقت ان عادتوں کا دور کرنا ماں باپ کے اختیار کی بات نہیں رہتا۔ آنحضرتﷺ نے ابتدا سے بچہ کی تربیت کی طرف توجہ کی۔ چنانچہ جب آپ اپنی بیوی کے پاس جاتے تو دعا کرتے کہ الٰہی اگر اس فعل مباشرت سے تیرے علم میں ہمیں کوئی بچہ عطا ہونے والا ہے تو ہمیں اس وقت گندے شہوانی جذبات سے بچا۔ علم النفس کے ماہرین کی متفقہ شہادت سے ثابت ہے کہ بچہ کے اخلاق پر ماں باپ کے خیالات اور جذبات کا بہت اثر ہوتا ہے۔
پھر جب بچہ پیدا ہوتا تو رسول کریم ﷺ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر کہتے۔ پیدائش کے بعد پہلی خوراک یعنی گھٹی دیتے وقت برکت کی دعا کرتے۔ پھرساتویں دن آپ عقیقہ کرتے اور بچے کی طرف سے قربانی دیتے۔ اس کے سر کے بالوں کو تول کر ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کر دیتے۔ اس سے یہ ظاہر کرتے کہ بچہ کے اخلاق کی تربیت لازمی ہے۔ محض اسے کھلانا پلانا اور آرام سے رکھنا ہی ضروری نہیں کیونکہ کھاپی کر تو یہ محض حیوان ہوگا اور حیوان تو وہ جانور بھی تھا جو اس کے لئے قربان کر دیا گیا۔ پھر رسول کریمﷺ اسی روز لڑکوں کا ختنہ کرتے تا یہ ظاہر کریں کہ جس طرح بچے کی باطنی پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھنا ماں باپ کا فرض ہے اسی طرح اس کے جسم کی درستی اور صحت کا خیال رکھنا بھی ان پر واجب ہے۔
پھر ایام رضاعت میں بعض لوگ بچوں کی ظاہری صفائی کا خیال نہیں کرتے۔ حالانکہ ظاہر کا اثر باطن پر اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔ رسول کریمﷺ اپنے صاحبزادہ ابراہیم کو دیکھنے کے لئے ا س کی دایہ کے گھر تشریف لے جاتے اور بچے کو منگا کر پیار کرتے اور اسے سونگھتے کہ ہو سکتا ہے کہ بچہ دیکھنے میں صاف ستھرا معلوم ہو مگر سونگھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اسے پوری طرح صفائی سے نہلایا گیا ہے یا نہیں۔
اسی طرح اگر بچے کی بھلائی اور اس کی روحانی یا جسمانی تربیت کے لئے بچے کو اس کی والدہ سے الگ کئے جانے کی ضرورت پڑے تو بہت سی مائیں بچے کی اخلاقی تباہی برداشت کر لیں گی مگر اپنے سے جدا نہ کریں گی۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے بچہ ابراہیم کو ایک لوہار کے سپرد کیا کہ اس کی بیوی اس کو دودھ پلایا کرے۔ اور بچہ کی صحت کی خاطر اسے گھر سے باہر بھیج دیا حالانکہ اس وقت آپؐ کے صاحبزادہ کی عمر صرف دو ماہ کی تھی۔ پس بچہ کے وجود سے یہ غرض نہیں کہ وہ ہمارا کھلونا بنے اور صرف ہمارا دل بہلانے کے لئے اور چومنے اور چاٹنے کے لئے ہمارے پاس موجود رہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی ہمارے پاس ایک امانت ہے۔
پھر جب بچہ ایام رضاعت ختم کرتا ہے تو وہ کھانے پینے کے معاملہ میں کسی قانون کی پابندی کے اندر نہیں رہنا چاہتا۔ دائیں اور بائیں ہاتھ سے دسترخوان پر اس کا ہاتھ سب برتنوں میں پڑتا ہے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے بچوں کی تربیت میں ان تمام امور کا خیال رکھا۔ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے کھیلتے کھیلتے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آپ نے فوراً ان کے منہ سے نکال کر پھینک دی۔ اور فرمایا کہ صدقہ ہمارے خاندان کے لئے جائز نہیں۔ اگرچہ اس وقت امام حسنؓ کی عمر 4-3سال کی تھی۔
اسی طرح آپؐ کا ربیب ابن ابی سلمہ آپؐ کی گود میں بیٹھ کر آپکے ساتھ کھانا کھانے لگا اور اس کے ہاتھ برتن کے چاروں طرف پڑنے لگے۔ تو آپؐ نے فرمایا بچے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور برتن میں صرف اپنے آگے سے کھانا لو۔ سارے برتن میں ہاتھ نہ ڈالو۔
اسی طرح بہت سے ماں باپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ جلدی بولنا سیکھے خواہ وہ گالیاں ہی سیکھے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو بچہ کو ایسی باتیں سکھائے جو اچھی اور نصیحتوں پر مبنی ہوں۔ حضرت امام حسن ؓ کو رسول مقبولﷺ نے اُن کے بولنا شروع کرنے پر ایک فقرہ حفظ کرایا تھا، یعنی چھوڑدے وہ بات جو بری شبہ والی ہو اور اختیار کر وہ بات جو اچھی اور شبہ سے پاک ہو۔ اسی طرح آپؐ امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو دعائیں سکھاتے تھے۔
جس طرح بچوں کے اخلاق کی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان سے پیار کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ جو شخص بچے سے پیار نہیں کرتا بچے کو بھی اس سے اُنس پیدا نہیں ہوتا اور جب تک اُنس نہ ہو بچہ پر کبھی اس کی باتوں کا اثر نہ ہوگا ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ اپنے بچوں کو پیار کرتے تھے۔ ان کو گودی میں اٹھاتے تھے۔ ان کا دل بہلاتے تھے۔ حالانکہ اس وقت کے جاہل عربوں کے نزدیک یہ امر وقار کے خلاف تھا۔ ایک شخص نے آپ ؐ کو اپنے نواسہ سے پیار کرتے ہوئے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میرے دس لڑکے ہیں ۔ مگر میں نے کبھی انہیں پیار نہیں کیا۔ آپ ؐنے فرمایا کہ تیرے دل سے اللہ شفقت نکال لے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ اس فقرے سے معلوم ہوا کہ پیار ایک طبعی امر ہے اور جو اپنے بچوں کو پیار نہیں کر تا وہ صاحب وقار نہیں بلکہ قسی القلب ہے۔ آپ ؐ سجدہ کی حالت میں ہوتے اور آپؐ کا کوئی بچہ آپ ؐ کی پشت پر سوار ہو جاتا تو آپ توقف فرماتے اور جب وہ اترتا تو سجدہ سے سر اٹھاتے۔ آپؐ نے ایک دفعہ اپنی نواسی امامہ کو گود میں لے کر نماز پڑھی جب سجدہ میں جاتے تو اسے اتار کر بٹھا دیتے۔ پھر اٹھتے تو اٹھا لیتے۔ آپ سفر میں ہوتے تو اپنے چھوٹے رشتہ دار بچوں کو اپنے ساتھ باری باری سوار کرتے ۔میں نے دیکھا ہے کہ بچے کو کھانے کو دو، کپڑے پہنائو، اس کی فرمائش پوری کرو، اسے کھلونے لے دو، سب کچھ کرو۔ بیشک خوش ہو جائے گا مگر جب اسے گود میں اٹھاکر پیار کرو تو پھر دیکھو وہ کس فخر کی حالت میں ہوگا ۔
پھر بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم بچوں کو جو بھی برا بھلا کہہ لیں جائز ہے، اسے چون و چرا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سب ٹھیک ہے ۔ سعادت مند بیٹے ہم نے ایسا ہی کرتے دیکھے ہیں۔ مگر والدین کو خود ان کی عزت کا خیال کرنا چاہئے حضرت رسول کریمﷺ فرماتے ہیں اے لوگو اپنے بچوں سے عزت سے پیش آیا کرو ۔ بعض نوجوان صرف اس لئے باپ کا مقابلہ کرتے اور نافرمان بن کر دین و دنیا کی تباہی خرید لیتے ہیں کہ باپ اپنے باپ ہونے کے زعم میں ان سے بات چیت میں وہ سلوک کرتے ہیں جسے بچے اپنے دوستوںکی نگاہ میں اپنے لئے باعث ذلت سمجھتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ جب اپنے گھر سے رسول ﷺ کے گھر تشریف لے جاتیں تو آپ ؐ کھڑے ہوکر ملتے اور اپنی جگہ انہیں بٹھاتے، اپنا تکیہ ان کو دیتے ۔ کیا اس سے بڑ ھ کر اولاد کی عزت کی کو ئی مثال ہے؟
پھر جب بچے ذرا بڑے ہو تے ہیں اور کوئی بدعنوانی ان سے سر زد ہو تو عموماً لو گ بجائے اپنی اولاد کو سمجھانے کے شکایت کرنے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ نتیجۃً ان کی اولاد اور زیادہ بگڑتی ہے۔ اسلئے عقلمند وہ ہے جو کبھی اپنی اولاد کی ناجائز حمایت نہ کرے بلکہ بچہ کا قصور ہے تو ضرور اسے سزا دے۔ ایک معزز خاندان کی عورت کے چوری کرنے پر جب رسول کریم ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا تو اس کی برادری کے لوگ سفارش لے کر پہنچے ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسکی رعایت نہ کرتا۔
پھراکثر لوگ اگر اُن کا بچہ فوت ہوجائے تو وہ صبر نہیں کرتے اور جزع فزع کے مرتکب ہوتے ہیں جو شریعت کے رو سے حرام ہے۔ ان کا دل خدا کے خلاف غیظ وغضب سے پُر اور ان کی زبان شکوہ کا ایک کھلا ہوا دفتر ہوتی ہے۔
پھر بعض جھوٹے وقار والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بچوں کے مرنے پر لوگو ں کے سامنے رنج کا اظہار یا آنکھ کے آنسواپنے لئے باعث بزدلی سمجھتے ہیں۔ مگر کیا یہ سخت دلی نہیں؟ رسول کریمﷺ کے کئی بچے آپؐ کے سامنے فوت ہوئے۔ جوان بھی، بچے بھی۔ آپؐ کے صاحبزادہ ابراہیم جب فوت ہوئے تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ عبد الرحمن بن عوف نے کہا: یا رسول اللہ! آپؐ بھی روتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: عوف کے بیٹے! یہ رحمت ہے جو خدا نے بندوں کے دل میں رکھی ہے۔ پھر فرمایا آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل تیرے فراق سے اے ابراہیم غمگین ہے۔ پھر ہم زبان سے نہیں کہتے مگر وہی بات جو ہمارے ربّ کی رضامندی کا باعث ہو ۔
آپؐ کی ایک بیاہی بیٹی فوت ہوئی آپؐ نے کمال صبر و تحمل سے اس کی تجہیزو تکفین کا انتظام کیا۔ اور جب جنازہ قبر میں اتارا گیا تو آپؐ کے آنسو بہنے لگے ۔ غرض جو صبر کا نمونہ آپؐ نے دکھایا وہ نہ دل کی سختی پر اور نہ خداکے شکوہ پر مبنی ہے بلکہ عین فطرت صحیحہ اور تعلق باللہ پر دلالت کرتا ہے۔
پھر اولاد میں جفاکشی ، ایثار اور اخلاق کا جذبہ پیدا کرنا بھی والدین کا فرض ہے۔ اگر بچے کی ہر بات میں فرمائش پوری کر دی جائے تو یقینا ایسا بچہ بڑا ضدی اور آرام طلب ہوگا ۔ وہ ایثار کا نمونہ نہ دکھاسکے گا ۔ نہ وہ جذبات کے روکنے کے موقعہ پر اپنے جذبات پر قابو رکھ سکے گا۔ آنحضورﷺ نے اس امر کا بہت خیال رکھا ہے ۔ مثلاً ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا مجھے چکی پیسنے، کنوئیں سے پانی لانے اور گھر کے دوسرے بہت سے کام کرنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے حتیٰ کہ میرے ہاتھوں میں چھالے بھی پڑ جاتے ہیں، مجھے کوئی لونڈی یا کوئی غلام عنایت کیا جائے۔ آپؐ تک یہ درخواست پہنچی تو آپؐ حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ بیٹی آؤ تم کو ایسی بات سکھاؤں جو لونڈی اور غلام سے مستغنی کر دے۔ اور فرمایا ہر نماز کے بعد 33,33 بار سبحان اللہ ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو ۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ معاذاللہ رسول کریم ﷺ کو حضرت فاطمہ کی امداد سے مضائقہ تھا۔ کیونکہ آپ ؐ نے صفا پر چڑھ کر جو مکہ والوں کے لئے ایک اعلان عام کیا تھا اس میں اپنی بیٹی فاطمہ کو مخاطب کرکے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب تجھے ضرورت پڑے جتنا بھی مال ہوگا، تُو مانگے گی تو میں تجھے دوں گا۔
اسی طرح اکثر والدین اولاد کی ظاہری خوشی کافی سمجھتے ہیں، خواہ ان کی روحانی اور خلاقی حالت کیسی ہی ہو۔ مگر آپؐ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ الہٰی! میری اولاد کو گزارے لائق رزق دیجیو کہ نہ تو وہ کسی کی محتاج ہو اور نہ روپیہ کی افراط سے دنیا کے عیش و عشرت میں مبتلا ہوجائے۔
اسی طرح بعض اولاد کی خاطر ناحق لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اگر کوئی خواہ نصیحت کے طور پر کسی کے بچے کو تھپڑ مارے تو وہ اسے قتل کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ جذبہ حیوانی ہے۔ رسول مقبولﷺ کی صاحبزادی زینبؓ کو ہجرت کرتے ہوئے دوران سفر ابن ہبیرہ نے پتھروں سے زخمی کیا جس کے نتیجے میں اسقاط اور اس سے ان کی وفات ہوگئی۔ قیاس کرو کیا حال ہوا ہوگا رقیق القلب باپ کا جب اس نے یہ حادثہ سنا ہو گا اور جب اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی پیاری بیٹی نے دم توڑا ہوگا۔ مگر قربان جائیے رسول اللہ ﷺ کے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابن ہیبرہ مسلمان ہو کر سامنے آیا تو آپؐ نے اسے معاف کر دیا۔ صرف اس لئے کہ آپؐ کا یہ ارشاد تھا کہ اسلام لانے سے پہلے کہ تمام جرم اسلام مٹا دیتا ہے ۔
پھر دنیا میں یہ دستور تھا کہ بادشاہ کی وفات پر اس کا بیٹا تخت نشین ہو خواہ بیٹا نالائق اور ناقابل ہو۔ لیکن اولاد کی محبت نے دنیا کو اندھا کر دیا ہے۔ دنیا میں محمد رسول اللہﷺ پہلے بادشاہ ہیں کہ آپؐ نے اس بدرسم کو ترک کردیا۔ آپؐ کے بیٹوں کی طرح پیارے نواسے اور حضرت علیؓ جیسا داماد موجود تھا مگر بادشاہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہوئے جن کے باپ کو سن کر یقین نہ آیا تھا کہ ان کے بیٹے کو محمد رسول اللہﷺ کے خاندان کے لوگ بادشاہ تسلیم کر چکے ہیں۔
پھر یہ حضرت رسول کریم ﷺ کی ہی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کی لڑکی سیدۃ النساء اور امام حسنؓ اور حسینؓ سید اشباب الجنۃ ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں