تعارف کتاب: ’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘

(مطبوعہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ لندن 22 اور 25مارچ 2022ء. دو اقساط)

جلیل القدر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ کی معرکہ آرا تصنیف

’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘

تعارف: فرخ سلطان محمود

انسانی سرشت (نفسیات) میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ محبت اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اکثر اعتدال کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔ اور اگر اس محبت یا نفرت کی بنیاد مذہب سے وابستہ ہوجائے تو پھر وہ محبت گویا عشق کی بلندترین سطح پر پہنچ جاتی ہے اور نفرت بھی شدیدترین عداوت کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ ہمارا روزمرّہ مشاہدہ ہے کہ ایسے طبقات جو کسی مذہبی شخصیت سے عشق میں اگر اعتدال ملحوظ نہ رکھ پائیں تو پھر اُن مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کی طرف ایسی کرامات اور معجزات منسوب کرنے لگتے ہیں جن کا اُس مذہب کے بانیوں کی اخلاقی یا روحانی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ انسان ایک مافوق الفطرت وجود نظر آنے لگتا ہے جو خدائی صفات میں بھی شریک دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے انسانی فطرت کی اسی کمزوری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اصحاب کو اپنے عظیم الشان روحانی مقام سے روشناس کروانے کے بعد بحیثیت انسان اپنی عاجزی کا بھی بارہا اظہار فرمایا اور خبردار کیا کہ سابقہ انبیاء کی امّتوں کی طرح افراط و تفریط سے خود کو بچائے رکھنا۔ چنانچہ اصحاب رسول اللہﷺ نے اس پاکیزہ نصیحت کو اپنے پلّے باندھ کر اپنے آقا ﷺ کی ناموس کی ہرممکن حفاظت کی اور اپنے محبوب آقاؐسے اظہارِ محبت کو شرک کی تمام آمیزشوں سے کلیتاً پاک رکھا۔ ایسی ہی کیفیت ہمیں اصحابِ احمدؑ کی بھی نظر آتی ہے جنہوں نے چودہ صدیوں کے انتظار کے بعد آنے والے اس پاکیزہ وجود کو خدانما پایا، اُس کی صحبت سے وہ عرفان کی مَے پی جس کے نشے سے اُن کی زندگیاں تعلق باللہ کی روحانی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ ان اصحابؓ نے اپنے محبوب آقاؑ کو جس محبت و عقیدت کی نظر سے دیکھا، تو پھر اُسی نظر کی زبان سے محض صداقت پر مبنی حکایاتِ دل بیان کیں اور اپنے قلم سے ایسی پاکیزہ داستانیں رقم کیں جو مہدیٔ دوراں کو انسانِ کاملؐ کے ایک غلام صادق کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ذاتی مشاہدات کی بنیاد پر کی جانے والی اس لفظی تصویرکشی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان روایات کے اظہار کا تنہا مقصد سوائے خداتعالیٰ کی شکرگزاری، حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی، حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی صداقت کی شہادت اور بنی نوع انسان کو دعوت الی اللہ کے اَور کچھ نہیں تھا۔ یہ راوی ایسے وجود تھے کہ صرف اور صرف محبتِ الٰہی کا اظہار ہی اُن کا مطلوب و مقصود تھا اور روزوشب یہی اُن کی زندگیوں کا نصب العین تھا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس اور آپؑ کے اخلاق عالیہ بیان کرنے والوں کی روایات عُشّاقِ احمدؑ کے قلب و روح میں سمائی ہوئی ایسی پاکیزہ یادیں ہیں جن میں مبالغے کا شائبہ تک نہیں۔ ان جاں نثار اصحاب احمدؑ نے اپنے محبوب آقاؑ کی مقدّس سیرت کو بیان کرتے ہوئے آپؑ کے ایک نہایت اہم فرمان کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ’’کتاب البریہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’سوانح نویسی سے اصل مطلب تو یہ ہے کہ تا اس زمانہ کے لوگ یا آنے والی نسلیں ان لوگوں کے و اقعات زندگی پر غور کرکے کچھ نمونہ ان کے اخلاق یا ہمت یا زہد وتقویٰ یا علم ومعرفت یا تائید دین یا ہمدردی نوع انسان یا کسی اور قسم کی قابل تعریف ترقی کا اپنے لئے حاصل کریں ۔…اور ظاہر ہے کہ ایسے امور کے لئے کسی قدر مفصل واقعات کے جاننے کی ہرایک کو ضرورت ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک نامور انسان کے واقعات پڑھنے کے وقت نہایت شوق سے اس شخص کے سوانح کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور دل میں جوش رکھتا ہے کہ اس کے کامل حالات پر اطلاع پاکر اس سے کچھ فائدہ اٹھائے ۔تب اگر ایسا اتفاق ہوکہ سوانح نویس نے نہایت اجمال پر کفایت کی ہو اور لائف کے نقشہ کو صفائی سے نہ دکھلایا ہو تو یہ شخص نہایت ملول خاطر اور منقبض ہوجاتا ہے۔ اور بسااوقات اپنے دل میں ایسے سوانح نویس پر اعتراض بھی کرتا ہے اور در حقیقت وہ اس اعتراض کا حق بھی رکھتا ہے کیونکہ اس وقت نہایت اشتیاق کی وجہ سے اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک بھو کے کے آگے خوان نعمت رکھا جائے اور معاًایک لقمہ کے اٹھانے کے ساتھ ہی اس خوان کو ا ٹھا لیا جائے۔اس لئے ۔…جو سوانح نویسی کے لئے قلم اٹھاویں کہ اپنی کتاب کو مفید عام اور ہر دلعزیز اور مقبول انام بنانے کے لئے نامور انسانوں کے سوانح کو صبر اور فراخ حوصلگی کے ساتھ اس قدر بسط سے لکھیں اور ان کی لائف کو ایسے طور سے مکمل کرکے دکھلاویں کہ اس کا پڑھنا ان کی ملاقات کا قائم مقام ہو جائے۔تا اگر ایسی خوش بیانی سے کسی کا وقت خوش ہو تو اس سوانح نویس کی د نیا اور آخرت کی بہبودی کے لئے دعا بھی کرے۔‘‘ (کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ159تا 162،حاشیہ)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ

جن اصحابِ احمدؑ نے اپنے آقا علیہ السلام کے بارے میں روایات قلمبند کی ہیں اُن میں ایک نہایت ہی قابل احترام وجود حضرت یعقوب علی عرفانی تراب رضی اللہ عنہ کا بھی ہے۔آپؓ ایک بلند پایہ عالم، اخبار ’’الحکم‘‘ کے بانی اور اس کے پہلے ایڈیٹر تھے۔29؍نومبر1875ءکو جالندھر میں آپؓ کی ولادت ہوئی۔ ہرتعلیمی درجہ میں امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہوئے آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی، پھر عربی کی تعلیم حاصل کی اور سنسکرت سیکھی۔ آپؓ کی خودنوشت سوانح ’’میری سرگذشت‘‘ کے مطابق آپؓ 1889ء میں پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بیعت 1892ء میں لاہور میں کی۔ 1893ء میں انٹرنس کرنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کرنے کے بعد اخبار نویسی کا آغاز کیا اور 1894ء سے 1897ء تک بحیثیت ایڈیٹر کئی جرائد سے وابستہ رہے۔ 1897ء میں مارٹن کلارک کے مقدمہ کے حالات آپؓ نے ’’جنگ مقدس‘‘ کے نام سے لکھے۔ اسی سال امرتسر سے جماعت احمدیہ کا پہلا ہفت روزہ اخبار ’’الحکم‘‘جاری کیا۔ اخبار کا ماٹو تھا ’’لکھنا ہے تو مت ڈر۔ ڈرنا ہے تو مت لکھ‘‘۔ 1898ء میں یہ اخبار قادیان منتقل ہوگیا اور چند برسوں کے وقفہ کے ساتھ 1943ء تک جاری رہا۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’’الحکم‘‘ اور ’’البدر‘‘ کو جماعت کے دو بازو قرار دیا تھا۔
حضرت یعقوب علی عرفانیؓ مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ صدرانجمن احمدیہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری بھی رہے۔ 1924ء میں ویمبلے کانفرنس کے تاریخی موقع پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی معیت میں آپؓ یورپ کے سفر پر بھی تشریف لائے۔
جب آپؓ حضرت اقدس علیہ السلام کا ذکر کرتے تو آپؓ پر رقّت طاری ہوجاتی۔ حضور علیہ السلام کی تعلیم پر ہمیشہ صدق دل سے ایمان لائے۔ چنانچہ آپؓ نے خلافت کے مخالفین کا بھی نہایت جرأت سے مقابلہ کیا حتّٰی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات پر آپؓ نے ہی بآواز بلند مخالفین کو خاموش کروایا تھا۔ 1937ء میں آپؓ نے ایک وصیت تحریر فرمائی جس کا عنوان تھا:’’تمام سعادتوں اور برکتوں کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خلافت کے دامن سے وابستہ رہو۔‘‘ آپؓ کی تصانیف 20 کے قریب ہیں۔ آپؓ نے 5؍دسمبر 1957ء کو 82 سال کی عمر میں سکندرآباد میں وفات پائی اورحیدرآباد دکن میں امانتاً تدفین عمل میں آئی۔
حضرت یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت، شمائل و اخلاق اور عادات کے بارے میں پانچ حصوں پر مبنی ایک کتاب تصنیف فرمائی۔ اس کتاب کا چوتھا حصہ بوجوہ دستیاب نہیں ہوسکا جبکہ باقی حصوں کو ایک جلد میں اکٹھا کرکے ساڑھے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کی صورت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔

یہ کتاب حضورعلیہ السلام کے شب و روز کی نہایت عمدہ تصویر ہے۔ آپؓ کا انداز بیان بہت دلچسپ، سادہ اور رواں ہے، بہت سے علمی مسائل کو سہل انداز میں حل کیا گیا ہے اور اخلاقی اور روحانی مراتب کے حصول کے لیے یہ کتاب آسان راہوں کی نشاندہی کرتی ہے کیونکہ اس میں خالص اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات میں ڈھل جانے والے اور حَکَمو عدل کے منفرد مقام پر فائز ایک پاکیزہ وجود کی مقدّس زندگی کے تمام تر پہلوؤں کو تمام تر عقیدت اور احتیاط سے سپرد قلم کیا گیا ہے۔ سیرت کی شاندار کتاب ہونے کے ساتھ یہ دعوت الی اللہ کا بھی ایک خزانہ ہے اور بہت سے تبلیغی امور کی طرف راہنمائی اس میں موجود ہے۔ بلاشبہ نادر روایات کو ترتیب سے محفوظ کرکے پیش کرنے کے حوالے سے کی جانے والی حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی یہ گرانقدر کاوش قیامت تک آنے والی احمدی نسلوں پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔
اتنی ضخیم کتاب سے محض چند روایات کا انتخاب واقعۃً دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے تاہم ایک ادنیٰ سی کوشش کرتے ہوئے کتاب’’سیرۃالمہدی‘‘سے ایسی روایات کا انتخاب ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے جو حضور علیہ السلام کی بعثت کے اس عالیشان مقصد کو پورا کرنے والی ہیں کہ ایسے معدوم اخلاق سے دنیا کو ایک بار پھر روشناس کروایا جائے جنہیں چودہ صدیوں کے طویل عرصے کے دوران اکثر مسلمان بھی فراموش کربیٹھے ہیں۔
٭…… حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تقسیم دو قسموں پر کی ہے یعنی ایصال خیر اور ترک شر۔ ایصال خیر میں پہلا خلق عفوودرگزر ہے۔آپؑ کے اس خُلق عظیم کے متعلق کئی الہامات میں ربّانی شہادت بھی موجود ہے اور آپؑ کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ آپؑ اگر کسی پر خفا ہوئے تو وہ محض خداتعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ اور اُس کی کتاب کے لیے غیرت کا مقام ہوتا تھا۔ حضورؑ کے ایک پرانے خادم محمد اکبر خان صاحب سنوریؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں وطن چھوڑ کر قادیان آگیا تو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضورؑ عموماً رات کو موم بتّی جلایا کرتے تھے۔ میری لڑکی جو بہت چھوٹی تھی، وہ ایک دفعہ حضورؑ کے کمرے میں بتّی جلاکر رکھ آئی تو اتفاقاً اُس بتّی کے گرنے سے حضورؑ کے کئی مسوّدات ضائع ہوگئے اور چند دیگر چیزوں کا بھی نقصان ہوگیا۔ اس پر تمام گھر میں گھبراہٹ اور میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی ہوئی کیونکہ حضرت اقدسؑ کتابوں کے مسوّدات کو بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے۔ لیکن جب حضورؑ کو واقعہ معلوم ہوا تو آپؑ نے صرف اتنا فرمایا کہ خدا کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوگیا۔

٭…… حضرت اکبر خان صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حضورؑ جب مسجد مبارک کی چھت سے اپنے مکان پر جانے لگے تو دیار کی سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ مَیں لالٹین پکڑ کر حضورؑ کو راستہ دکھانے لگا کہ اتفاق سے لالٹین ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ لکڑی پر تیل پڑا تو اوپر سے نیچے تک آگ لگ گئی۔ مَیں بہت پریشان ہوا۔ بعض لوگ بھی کچھ بولنے لگے لیکن حضرت اقدسؑ نے فرمایا: ’’خیر! ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں، مکان بچ گیا۔‘‘
٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ایک ملازمہ نے گھر سے کچھ چاول چرائے تو کسی تیزنظر نے اُس کے انداز سے تاڑ لیا اور پکڑلیا۔ اُس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی۔ اُسے ملامت اور پھٹکار ہورہی تھی کہ حضورؑ اُدھر آنکلے۔ پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا تو فرمایا: ’’محتاج ہے، کچھ تھوڑے سے اُسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خداتعالیٰ کی ستّاری کا شیوہ اختیار کرو۔‘‘
٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی روایت ہے کہ حضرت اقدسؑ ایک بار معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے کہ میاں محمود (جن کی عمر کوئی چار برس ہوگی) دیاسلائی لے کر وہاں تشریف لائے۔ ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر آپس میں کھیلتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی اُن مسوّدات کو آگ لگادی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے۔ قیمتی مسوّدات راکھ کا ڈھیر ہوگئے تو بچوں کو کسی اَور مشغلے نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب حضرتؑ کو کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی تو جس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے، آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیے۔ سب حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہوگا۔ مگر حضرتؑ مسکراکر فرماتے ہیں:’’خوب ہوا، اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘

٭…… حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضور علیہ السلام نے ایک بڑا بھاری دو ورقہ مضمون لکھا جس کی فصاحت و بلاغتِ خداداد پر حضرت کو بڑا ناز تھا۔ وہ جیب میں رکھ کر سیر کو چل دیے۔ واپسی پر آپؑ نے وہ کاغذ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے ہاتھ میں دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔ لیکن آپؓ کے ہاتھ سے وہ مضمون گرگیا۔ واپس آکر جب حضرت معمولاً اندر چلے گئے تو مَیں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہورہا ہے۔ آپؓ نے نہایت بےتابی سے لوگوں کو دوڑایا۔ حضرتؑ کو خبر ہوئی تو ہشاش بشاش چہرہ، تبسم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی، مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا۔ میرا تو اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر ہمیں عطا فرماوے گا۔
٭…… حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ بھی حضورؑ کے پرانے خدام میں سے تھے۔ آپؓ کو ایک دفعہ کچھ لفانے اور کارڈ حضورؑ نے دیے کہ ڈاک خانے میں ڈال آؤ۔ آپؓ کسی اَور کام میں مصروف ہوئے تو اپنے مفوّض کو بھول گئے۔ ایک ہفتے بعد میاں محمود (جو ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لیے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا ہم نے کُوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ حضورؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپؑ ان کے جواب کے منتظر تھے۔ آپؑ نے حافظ صاحبؓ کو بلاکر خط دکھائے اور بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا:’’حامدعلی!تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے۔ ذرا فکر سے کام لیا کرو۔‘‘
٭…… حضرت حافظ غلام محی الدین صاحبؓ جلدساز تھے، حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے رضائی بھائی تھے اور اُن کے ساتھ ہی قادیان آگئے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ڈاک لانے اور لے جانے کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ جب لیکھرام قتل ہوا تو حضورؑ کی خانہ تلاشی بھی ہوئی۔ اسی سلسلے میں حافظ صاحبؓ کے حجرہ کی تلاشی بھی ہوئی تو ایسے بہت سے خطوط برآمد ہوئے جو آپؓ ڈاک خانہ سے لائے تھے مگر رکھ کر بھول گئے تھے اور بہت سے حضورؑ کے بھی ایسے خطوط نکلے جو آپؓ نے کسی جگہ رکھے تو اُٹھانا یاد نہ رہا۔ جب حضور علیہ السلام کو اس کا علم ہوا تو آپؑ نے ہنستے ہوئے فرمایا:’’حافظ جی! یہ خط رکھنے کے لیے تو نہیں دیے گئے تھے۔ اگر آج یہ نہ دیکھے جاتے تو پتہ بھی نہ لگتا اور ہم سمجھتے رہتے کہ خط لکھ دیا ہوا ہے۔ اُدھر دوسرے لوگ سمجھتے کہ ہم خط لکھ چکے ہیں۔ خیر جو ہوگیا اچھا ہوگیا، مصلحتِ الٰہی یہی ہوگی۔‘‘حافظ صاحبؓ بےچارے شرمندہ اور نادم تھے مگر حضرت اقدسؑ نے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا، نہ ہی پھر کبھی ذکر کیا اور نہ اُن کو ڈاک کے کام سے معزول کیا۔
٭…… حضرت اقدسؑ کے دشمنوں نے بھی آپؑ کے اس خلق عفو و درگزر کے بارہا نظارے دیکھے۔ چنانچہ ایک شخص احمد حسین شوکت نے جو میرٹھ کا رہنے والا تھا اور ایک اخبار ’’شحنہ ہند‘‘ چلاتا تھا۔ وہ خود کو مجدّدالسنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا۔ حضورعلیہ السلام کی مخالفت میں اُس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہرقسم کے گندے مضامین شائع کیا کرتا تھا۔ ایک موقع پر جماعت احمدیہ میرٹھ کے صدر جناب شیخ عبدالرشید صاحب نے حضورعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے اس اخبار پر عدالت میں نالش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا:’’ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہوگا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدّم کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔‘‘
٭…… ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا جو جھوٹا ثابت ہونے کے بعد ضلعی مجسٹریٹ گورداسپور کپتان ڈگلس نے خارج کردیا اور حضورؑ کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے۔‘‘ اس پر حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’مَیں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘
٭…… مذکورہ مقدمے میں مولوی محمد حسین بٹالوی ایک گواہ کی حیثیت سے حضورعلیہ السلام کے خلاف پیش ہوئے۔ وہ رسالہ ’’اشاعۃالسنہ‘‘بٹالہ کے ایڈیٹر تھے۔ وہ دشمنی میں اتنا بڑھے ہوئے تھے کہ حضورؑ کے خلاف کفر و قتل کے فتوے شائع کرائے اور آخر اس جھوٹے مقدمہ قتل میں عیسائیوں کا گواہ ہوکر آئے۔ جب وہ حضورؑ کے خلاف دل کھول کر گواہی دے چکے تو حضرت اقدسؑ کے (غیرازجماعت) وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے مولوی محمد حسین پر کچھ ایسے سوالات کرنے چاہے جو اُن کی عزت کو خاک میں ملا دیتے۔ مگر حضورؑ نے باصرار اور بزور اُن کو روکا اور فرمایا کہ یہ ایسی بات ہے کہ اُس کے اپنے اختیار سے باہر ہے اور مَیں اُس کی عزت کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔پس ایسی شانِ رحم و درگزر کی مثال اور علوہمّتی کی نظیر تلاش کرو،نہیں ملے گی۔
٭…… حضرت مسیح موعودؑ اگرچہ قادیان کے مالکوں میں سے تھے لیکن آپؑ کے دعویٰ کے ابتدائی ایام میں قادیان کی زمین باوجود فراخی کے آپؑ اور آپؑ کے پیروکاروں پر تنگ کردی گئی۔ جس کی بڑی وجہ حضورؑ کے عم زاد بھائی مرزا امام الدین کی شدید دشمنی تھی۔

اُن دنوں سیّد احمد نُور صاحب جب کابل سے ہجرت کرکے قادیان آئے تو انہوں نے حضرت اقدسؑ کی اجازت سے ڈھاب میں اپنا مکان بنانا چاہا۔ جب انہوں نے تعمیر شروع کی تو قادیان کے بعض سکھوں اور برہمنوں نے حملہ کرکے اُن کو لہولہان کردیا۔ لڑائی میں ایک برہمن پالارام کی پیشانی سے بھی خون نکل آیا۔ حضورؑ کو علم ہوا تو فرمایا کہ ’’باہم صلح اور سمجھوتہ کرادینا چاہیے جس طرح بھی ہو۔‘‘ لیکن پالارام نے لوگوں کے کہنے پر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ، مولوی محمد علی صاحب اور سیّد احمد نور صاحب پر نالش کردی۔ جب وہ صلح پر نہ مانا تو مجبوراً پولیس کو اطلاع دی گئی کیونکہ یہ بلوہ تھا۔ پولیس نے تفتیش کی اور سولہ مخالفین کا چالان کردیا۔ دونوں مقدمات سردار غلام حیدر صاحب کی عدالت میں تھے۔ مخالفین کے مقدمے کی بِنا چونکہ محض جھوٹ پر تھی اس لیے وہ پہلی ہی پیشی میں خارج ہوگیا۔ دوسرے مقدمہ میں پولیس نے ملزموں پر فرد جرم لگائی تھی اس میں شہادتوں کے مرحلے کے بعد مخالفین کو یقین ہوگیا کہ وہ سزایاب ہوں گے کیونکہ جرم اُن پر ثابت ہوچکا تھا۔ اس مرحلے پر ملزمان اپنے ہمراہ لالہ ملاوامل، لالہ شرمپت رائے اور بعض دوسرے لوگوں کو لے کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی معذرت کی۔ یہ بھی کہا کہ آپؑ کے بزرگ ہمیشہ ہم سے سلوک کرتے آئے ہیں۔ اور یہ بھی بڑے مؤثق وعدوں کے ساتھ کہا کہ آئندہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوگی۔حضرت مسیح موعودؑ نے اُن کی عرض داشت کو سُن کر معاف فرمادیا اور مجھ کو (یعنی حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ کو)حکم دیا کہ عدالت میں جاکر یہ کہہ دوں کہ حضرت صاحب نے ان لوگوں کو معاف کردیا ہے۔ مَیں نے واقعات کی صورت بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ مقدمہ پولیس نے چالان کیا ہے اوراس میں سرکار مدعی ہے۔ سولہ ملزم ہیں اور ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہم یہ مقدمہ بطور راضی نامہ ختم کردیں کیونکہ ہم مدعی نہیں۔ اس پر آپؑ نے فرمایا: ’’ہمارے اختیار میں جو کچھ ہے وہ کرلینا چاہیے۔ مَیں نے ان کو معاف کردیا ہے۔ میری طرف سے جاکر کہہ دیا جاوے کہ اُنہوں نے معاف کردیا ہے۔ … اگر عدالت منظور نہ کرے تو اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘
دوسرے دن مَیں اور مفتی فضل الرحمٰن صاحب گئے اور عدالت میں جاکر حضرت اقدسؑ کا فیصلہ سنادیا۔ پولیس کو قدرتی طور پر جو افسوس ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہے۔ مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ آپ کا کیا اختیار ہے، سرکار مدعی ہے، روئیداد مقدمہ ختم ہوچکی ہے، صرف حکم باقی ہے۔مَیں نے عرض کیا کہ ہم کو یہی حکم ہے اور وہ آپ تک پہنچادیا ہے۔ مجسٹریٹ صاحب بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے معاف کردیا تو مَیں بھی معاف ہی کرتا ہوں۔ پھر ملزموں کو مخاطب کرکے کہا کہ ایسا مہربان انسان کم دیکھا گیا ہے جو دشمنوں کو اُس وقت بھی معاف کردے جبکہ وہ اپنی سزا بھگتنے والے ہوں۔پھر اُنہیں بہت ملامت کی کہ ایسے بزرگ کی جماعت کو تم تکلیف دیتے ہو، آج تم سب سزا پاتے مگر یہ مرزا صاحب کا رحم ہے کہ تم کو جیل خانہ سے بچادیا۔
ملزمان میں سنتاسنگھ بانگرو بھی تھا۔ اس مقدمے کے دوران وہ حضرت اقدسؑ کے دروازے پر آیا اور عرض کی کہ مرزا صاحب! مُشک کی ضرورت ہے، کسی جگہ سے ملتی نہیں۔ حضرت صاحب کو علم تھا کہ یہ اس فتنے میں ایک لیڈر کی طرح حصہ لیتا ہے لیکن آپؑ نے فرمایا: ’’ٹھہرو مَیں لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپؑ اندر تشریف لے گئے اور قریباً نصف تولہ مُشک لاکر اُس کے حوالے کردی۔
٭…… حضرت مسیح موعودؑ کے چچازاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضورؑ سے عناد تھا اور کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اُٹھا نہ رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر بازار سے مسجد مبارک جانے والے راستے کو دیوار کے ذریعے بند کردیا۔ دیوار ہمارے سامنے بنتی رہی اور ہم کچھ نہ کرسکے۔ وجہ یہ نہ تھی کہ ہم کچھ کرنہ سکتے تھے بلکہ حضور علیہ السلام کی تعلیم تھی کہ شر کا مقابلہ شر سے نہ کرو۔ ورنہ اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی۔ وہ ایام عجیب تھے۔ ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے جن کے اندر جماعت ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی۔
غرض وہ دیوار چُن دی گئی اور اس طرح ہم نمازوں کے لیے مسجد مبارک میں جانے سے روک دیے گئے۔مسجد جانے کے لیے ایک لمبا چکّر لگانا پڑتا۔ بعض کمزور، ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دنوں میں کیچڑ میں گرنے سے وہ گارے سے لت پت ہوجاتے تھے۔ حضورعلیہ السلام اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے ۔ آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلے کے موافق دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی جو بجائے خود ایک نشان تھا۔ بلکہ عدالت نے ہرجانے اور خرچے کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کردی۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے ازخود کارروائی کرکے ڈگری جاری کروادی۔ اُس وقت تک مرزا امام الدین فوت ہوچکے تھے۔ فریق ثانی میں سے صرف مرزا نظام الدین صاحب زندہ تھے۔ جب حسبِ ضابطہ نوٹس اُنہیں ملا تو انہوں نے حضورؑ کو ایک خط لکھا کہ دیوار کے مقدمے کے خرچے وغیرہ کی ڈگری کے اجرا کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے۔ اگرچہ مَیں قانونی طور پر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پابند ہوں اور آپ کو بھی حق ہے کہ آپ ہر طرح وصول کریں۔ مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپؑ کو پہنچتی رہی ہے مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتا تھا، مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتا تھا۔ آپ رحم کرکے معاف فرمادیں۔ اگر معاف نہ کریں تو باقساط وصول کرلیں۔

خواجہ کمال الدین صاحب

حضور علیہ السلام کے پاس جس وقت وہ خط پہنچا تو آپؑ نے سخت رنج کا اظہار کیا کہ مجھ سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا؟ خواجہ صاحب نے عذر کیا کہ محض میعاد کو محفوظ کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ حضورؑ نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ ’’آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے۔ ہم کو دنیاداروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لیے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے، خدا نے مجھے اس غرض کے لیے دنیا میں نہیں بھیجا۔‘‘ پھر حضورؑ نے اُسی وقت مرزا نظام الدین صاحب کے نام خط لکھا جس میں نہایت ہمدردی کا اظہار تھا اور اُن کو اس ڈگری کے کبھی اجرا نہ کرنے کے متعلق یقین دلایا گیا تھا اور سب کچھ معاف کردیا تھا۔
================
امرواقعہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو جب موقع ملا تو آپؑ نے اُسی طرح ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘کہہ دیا جس طرح پر سیّدالرسلﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا۔ اسی طرح اکرام ضیف بھی انبیاء علیہم السلام کی سنّت میں داخل ہے اور حقیقت میں یہ خُلق کامل طور پر اُن میں ہی پایا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو قبل از وقت وحی الٰہی کے ذریعے سے خبر دے دی تھی کہ تیرے پاس دُوردراز سے لوگ آئیں گے۔ چنانچہ اگر کوئی مہمان بظاہر دینی غرض کے لیے نہ بھی آیا ہوتا بلکہ شکل و صورت سے مشتبہ بھی پایا جاتا تو بھی آپؑ اُس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ فرماتے۔
٭…… حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک مہمان نے آکر کہا کہ میرے پاس بسترا نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحبؓ کو کہا کہ اس کو لحاف دے دو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے سردی سے مرگیا تو ہمارا گناہ ہوگا۔‘‘

٭…… حضرت مفتی صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں حضور علیہ السلام نے مجھے اپنی رہائش گاہ سے ملحقہ مکان میں ٹھہرایا۔ اُن دنوں قادیان میں ضروری اشیاء بھی بڑی دقّت سے ملا کرتی تھیں۔ جبکہ مہمانوں کا کھانا گھر سے ہی تیار کرکے حضرت اُمّ المومنینؓ بھجوایا کرتی تھیں، ایک مرتبہ مہمان کثرت سے آگئے کہ آپؓ گھبراگئیں۔ تب حضورؑ نے بیوی صاحبہ کو ایک کہانی سنائی۔ فرمایا کہ ایک شخص کو جنگل میں رات آگئی۔ اُس نے ایک درخت کے نیچے بسیرا کردیا۔ اس درخت کے اوپر ایک کبوتر اور کبوتری کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہمارے ہاں مہمان آیا ہے، اس کی کیا خاطر کریں۔ نَر نے کہا کہ سردی ہے، بسترا اس کے پاس نہیں، ہم اپنا آشیانہ گرادیں تاکہ اسے جلاکر یہ رات گزارلے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر انہوں نے سوچا کہ اس کے واسطے کھانا نہیں ہے۔ ہم دونوں اپنے آپ کو نیچے گرادیں تاکہ وہ ہمیں بھی کھالے۔
٭…… ایک واقعہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کے ساتھ سادگی اور بےتکلّفی بھی ایک شان سے نمایاں ہوتی ہے حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحبؓ نومسلم یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ لاہور سے دو دن کی رخصت لے کر قادیان آیا۔رات بٹالہ میں گزاری اور صبح سویرے پیدل قادیان کو روانہ ہوگیا ۔ ابھی سورج تھوڑا ہی نکلا تھا کہ قادیان پہنچ گیا۔ جب مسجد اقصیٰ کے پاس پہنچا تو حضرت مسیح موعودؑ کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپؑ نے بھی مجھے دیکھ لیا اور اپنی جگہ سے چل کر میرے راستے کی طرف آگئے۔ مَیں نے قریب پہنچ کر السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ کہا۔ آپؑ نے وعلیکم السلام فرمایا اور فرمایا کہ اس وقت کہاں سے آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں رات بٹالہ میں رہا ہوں اور اب حضور کی خدمت میں وہاں سے سویرے چل کر حاضر ہوا ہوں۔ پوچھا :پیدل آئے ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ ہاں حضور۔ افسوس کے لہجے میں فرمایا کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا بتاؤ چائے پیوگے یا لسّی؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں پیوں گا۔ آپؑ نے فرمایا: تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارے گھر گائے ہے جو کہ تھوڑا سا دودھ دیتی ہے۔ گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لیے اس وقت لسّی بھی موجود ہے اور چائے بھی، جو چاہو پی لو۔ مَیں نے کہا: حضور! لسّی پیوں گا۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا چلو مسجد مبارک میں بیٹھو۔ مَیں مسجد میں آکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا۔ مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضورؑ ایک کوری ہانڈی معہ کوری چپنی کے خود اٹھائے ہوئے دروازے سے نکلے، ہانڈی میں لسّی اور چپنی پر نمک تھا اور اس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ حضورؑ اپنے دست مبارک سے گلاس میں لسّی ڈالنے لگے۔ مَیں نے خود گلاس پکڑلیا۔ اتنے میں چند اَور دوست بھی آگئے۔ مَیں نے انہیں بھی لسّی پلائی اور خود بھی پی۔ پھر حضورؑ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے۔ یہ حضورؑ کے اخلاق کریمانہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔
٭…… حضرت مولوی علی احمد صاحب بھاگلپوریؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں پہلی مرتبہ فروری 1908ء میں قادیان آیا تو حضرت عبدالرحیم صاحب نیّرؓ نے ایک رقعہ کے ذریعے حضورؑکو میرے آنے کی اطلاع دی ۔ اس پر حضورعلیہ السلام نے مہمان خانہ کے مہتمم کو بلاکر میری راحت رسانی کی سخت تاکید فرمائی کہ وہ بےچارے پریشان سے ہوگئے۔ مَیں نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ مَیں یہاں آرام اٹھانے اور مہمان داری کرانے کے لیے نہیں آیا بلکہ اُس مقصد کے حصول کی کوشش میں آیا ہوں جس کو لے کر حضورؑ مبعوث ہوئے ہیں۔
٭…… حضرت مولانا حسن علی صاحبؓ بھاگلپوری پہلے اسلامی مبلغ تھے جنہوں نے 1886ء میں پٹنہ کے ایک سکول کی ہیڈماسٹری سے استعفیٰ دے کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیا۔ انہوں نے جب حضرت مسیح موعودؑ کا ذکر سنا تو حضور علیہ السلام نے اُس وقت تک کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ ابھی بیعت لیتے تھے۔ البتہ کتابیں آپؑ کی شائع ہورہی تھیں اور اکثر نیک دل اور سلیم الفطرت لوگ حضورؑ سے فیض پانے کے لیے قادیان بھی آتے رہتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا سنا جو مرزا غلام احمد کہلاتے ہیں، ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں رہتے ہیں اور عیسائیوں، برہموؤں اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ نام بنائی ہے جس کا بڑا شہرہ ہے۔ ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ اُن کو الہام ہوتا ہے۔ مجھ کو یہ دعویٰ معلوم کرکے تعجب نہ ہوا۔ گو مَیں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدّث کو ہوتا رہا ہے لیکن مَیں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگانِ خدا ایسے گزرے ہیں جو شرفِ مکالمہ الٰہیہ سے ممتاز ہوا کیے ہیں۔ غرض میرے دل میں جناب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ امرتسر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے۔ …مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے۔ جناب مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے لیے چندہ بھی ہوا۔ میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور مرزا صاحب کو فریبی اور مکّار سمجھتے تھے۔ لیکن مرزا صاحب سے مل کر اُن کے سارے خیالات بدل گئے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کے لیے معذرت کی، مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا۔ ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا، ناچار الائچی وغیرہ کھاکر صبر کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بُری عادت کا تذکرہ کردیا۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا۔ دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھاچکا تو پان موجود پائے۔ سولہ کوس سے پان میرے لیے منگوائے گئے تھے۔
حضور علیہ السلام کے اخلاق ہی تھے کہ حضرت مولانا حسن علی صاحبؓ سات سال بعد 1894ء میں دوبارہ قادیان حاضر ہوئے اور احمدیت قبول کرلی۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

٭…… حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں ایک دفعہ قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے لیے خدمت اقدسؑ میں پیغام بھجوایا تو حضورؑ نے فرمایا:وہ ٹھہریں، ہم ابھی باہر آتے ہیں۔
حضورعلیہ السلام تشریف لائے تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضورؑ کے ہاتھ میں دودھ کا بھرا ہوا لوٹا ہے اور گلاس شاید حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مصری رومال میں ہے۔ گلاس میں دودھ ڈالا گیا اور مصری ملائی گئی۔ پھر گلاس بھرکر مجھے دیا۔ مَیں نے پی لیا تو دوسرا گلاس عنایت فرمایا گیا مَیں نے وہ بھی پی لیا۔ میرا پیٹ بھر گیا۔ پھر اسی طرح تیسرا گلاس بھرا گیا۔ مَیں نے بہت شرمگیں ہوکر عرض کیا کہ حضور! اب تو پیٹ بھر گیا ہے۔ فرمایا:اَور پی لو۔ مَیں نے وہ تیسرا گلاس بھی پی لیا۔ پھر حضورؑ نے اپنی جیب خاص سے چھوٹی چھوٹی بسکٹیں نکالیں اور فرمایا کہ جیب میں ڈال لو، راستے میں اگر بھوک لگی تو یہ کھانا۔ مَیں نے وہ جیب میں ڈال لیں۔ حضرت محمود لوٹا اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے اور حضورؑ نے فرمایا کہ چلو آپ کو چھوڑ آئیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! اب مَیں سوار ہو جاتا ہوں اور چلا جاؤں گا، حضورؑ تکلیف نہ فرمائیں۔ مگر حضورؑ مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہوپڑے۔ جو دیگر احباب وہاں جمع ہوگئے تھے وہ بھی ساتھ ہولیے۔ کافی دُور تک نکل گئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے مجھے کان میں فرمایا کہ آگے ہوکر عرض کرو اور رخصت لو۔ مَیں حسب ارشاد آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور! اب سوار ہوتا ہوں، حضور تشریف لے جائیں۔ حضورؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:اچھا ہمارے سامنے سوار ہوجاؤ۔ تب مَیں یکہ میں بیٹھ گیا اور سلام عرض کیا تو پھر حضورؑ واپس ہوئے۔
٭…… منشی عبدالحق صاحب ایک زمانے میں عیسائی ہوگئے تھے۔ پھر حضورعلیہ السلام کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضورؑ کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ وہ اسلام کی حقانیت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جواب لکھا گیا کہ کم از کم دو ماہ کے لیے قادیان آجائیں۔ چنانچہ وہ دسمبر 1901ء میں قادیان پہنچے۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو ناسازیٔ طبع کے باوجود باہر تشریف لے آئے۔ بعدازاں حضورؑ کی تبلیغ سے وہ دوبارہ مسلمان ہوگئے اور کئی رسالے بھی تالیف کیے۔ بہرحال حضورؑ نے قادیان پہنچنے پر اُن سے فرمایا: ’’آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پاسکتا ہے جو بےتکلّف ہو۔ پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلاتکلّف کہہ دیں۔‘‘
پھر حضورؑ نے جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔‘‘
حضورؑ قریباً روزانہ منشی صاحب سے فرماتے کہ آپ مہمان ہیں، آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بےتکلّف کہیں کیونکہ مَیں تو اندر رہتا ہوں اور نہیں معلوم ہوتا کہ کس کو کیا ضرورت ہے۔ مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کرسکتے ہیں۔ آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں۔ مہمان نوازی تو میرا فرض ہے۔
٭…… قادیان میں لنگر جاری تھا لیکن اگر کوئی ہندو مہمان آتا تو اُس کے لیے خصوصیت سے انتظام کرنا پڑتا۔ اکتوبر 1902ء میں ایک ہندوسادھو قادیان آیا اور حضورؑ سے ملاقات کی تو آپؑ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ یہ ہمارا مہمان ہے، اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کردینا چاہیے۔ پھر ایک شخص کو خاص طور پر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لیے بندوبست کیا جاوے۔ چنانچہ فوراً یہ انتظام کیا گیا۔
٭…… حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ باغانوالہ 1905ء میں قادیان آئے جب حضورعلیہ السلام باغ میں قیام فرما تھے۔ میاں صاحب مہمان خانہ میں ٹھہرے لیکن تکلّف سے کام لیا اور بیمار ہوگئے۔ مجھ کو خبر ہوئی تو مَیں نے اُن سے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ روٹی کچی تھی اور تنور کی روٹی کھانے کی مجھے عادت نہیں۔ مجھے اُن کی تکلیف کا احساس ہوا۔ میری طبیعت بےدھڑک سی واقع ہوئی ہے۔ مَیں سیدھا حضرت صاحب کے پاس گیا اور واقعہ عرض کرکے کہا کہ حضور!یا تو مہمانوں کو سب لوگوں پر تقسیم کردیا کرو اور یا پھر انتظام ہو کہ تکلیف نہ ہو۔ مَیں آج سمجھتا ہوں اور اس احساس سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ مَیں نے خداتعالیٰ کے مامور و مُرسل کے حضور اس رنگ میں کیوں عرض کی؟ مگر اس رحم و کرم کے پیکر نے اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی کہ مَیں نے کس رنگ میں بات کی ہے۔ فرمایا:آپ نے بہت ہی اچھا کیا کہ مجھ کو خبر دی، مَیں ابھی گھر سے چپاتیاں پکوانے کا انتظام کردوں گا۔
پھر حضورؑ نے لنگر کے مہتمم کو بلاکر تاکید فرمائی اور فرمایا کہ میاں رحمت اللہ آسکتے ہوں تو اُن کو بھی لے آؤ۔ مَیں نے جاکر پیغام دیا تو میاں صاحب بہت محجوب ہوئے کہ آپ نے کیوں حضرت کو تکلیف دی۔ خیر مَیں اُنہیں حضورؑ کے پاس لے گیا۔ حضورؑ نے اُن سے بہت عذر کیا کہ بڑی غلطی ہوگئی۔ آپ کو تکلّف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مَیں باغ میں تھا ورنہ تکلیف نہ ہوتی۔ اب انشاءاللہ انتظام ہوگیا ہے۔ جس قدر حضرت عذر اور دلجوئی کریں مَیں اور میاں صاحب اندر ہی اندر نادم ہوں۔ پھر جتنے دن وہ رہے، حضرت نے روزانہ مجھ سے دریافت فرمایا کہ تکلیف تو نہیں!
حضورعلیہ السلام کے دسترخوان پر دوست دشمن کی کوئی خاص تمیز نہ تھی۔ ہر مہمان کے ساتھ آپؑ پورے احترام اور فیاضی سے برتاؤ کرتے تھے اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل شیشے سے بھی نازک ہوتا ہے۔ اسی لیے بار بار لنگرخانہ کے خدام کو خود تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اور محض اسی خیال سے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو، آپؑ نے اپنی حیات میں لنگرخانہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا۔ آپؑ کا یہ بھی معمول تھا کہ آپؑ ہر مہمان کے متعلق اس امر کا بھی التزام رکھتے تھے کہ وہ کس قسم کی عادات کھانے کے متعلق رکھتا ہے۔ مثلاً اُن علاقوں کے مہمانوں کے کھانے میں چاول کا خاص طور پر التزام ہوتا جہاں کی عام غذا چاول ہے۔
حضرت اقدسؑ کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ جب آپؑ دسترخوان پر مہمانوں کے ساتھ بیٹھتے تھے تو ہمیشہ سب مہمانوں کے کھا چکنے کے بعد بھی بہت دیر تک کھاتے رہتے اور غرض یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص حجاب نہ کرے اور بھوکا نہ رہے۔ اگرچہ آپؑ کی خوراک بہت ہی کم تھی لیکن دسترخوان بہت وسیع تھا اور مہمان نوازی عدیم المثال تھی۔
(باقی آئندہ)

==================================

(قسط دوم)
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق فاضلہ کے حوالے سے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی تراب رضی اللہ عنہ نے بہت سی قیمتی روایات اپنی کتاب میں جمع کردی ہیں جن سے حضورؑ کی مقدّس سیرت کے متعدد پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔ ان روایات کا ایک بڑا حصہ شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔
٭…… حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کے خلق کا بیان ہورہا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ غالباً 1896ء کا واقعہ ہے۔ جون کا مہینہ تھا۔ مکان نیانیا بنا تھا۔ چارپائی بچھی تھی، مَیں دوپہر کے وقت اُس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ مَیں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبراکر اُٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا: آپ کیوں اُٹھے؟ مَیں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں، مَیں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکراکر فرمایا: ’’مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ لڑکے شور کرتے تھے، اُنہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔‘‘
٭…… حضورعلیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ اپنے مہمانوں کے لیے دل سے چاہتے تھے کہ وہ زیادہ وقت آپؑ کے پاس رہیں۔ گویا آپؑ کی روح کو کامل شعور تھا کہ آپؑ منجانب اللہ اور راست باز ہیں۔ جھوٹا آدمی ایک دن میں گھبرا جاتا ہے اور وہ دوسروں کو دھکے دے کر نکالتا ہے کہ ایسا نہ ہوجائے کہ اُس کا نقاب اُتر جائے۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں مجسٹریٹ کا ریڈر تھا تو ایک دو دن کے لیے قادیان آیا مگر جب بھی واپسی کی اجازت چاہتا تو یہی فرماتے کہ چلے جانا، ابھی کون سی جلدی ہے۔ اور اس طرح پر ایک لمبا عرصہ یہاں قیام کیا۔
٭…… حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ پہلی مرتبہ مارچ 1893ء میں قادیان آئے تھے۔ آپؓ اپنے اس دلچسپ سفر کے آخری مرحلے کی روداد اور حضرت اقدس علیہ السلام کی دل نواز مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں راستے سے ناواقف تھا۔ شام کے وقت گاڑی سے بٹالہ پہنچا تو کوئی یکّہ نہ ملا۔ میرے پاس کچھ سامان سبزی وغیرہ تھا۔ ایک مزدور لیا اور ہم دونوں چل پڑے۔ قادیان کے راستے میں اُس کا گاؤں تھا۔ اُس کے گاؤں کے قریب پہنچے تو وہ کہنے لگا کہ مَیں گھر والوں کو اطلاع دے آؤں کہ قادیان جاتا ہوں۔ اُسے گھر میں اچھی خاصی دیر ہوگئی اور آفتاب غروب ہوگیا۔ رات اندھیری تھی۔ ہم دونوں چلے مگر وہ بھی راستے سے پورا واقف نہ تھا۔ چلتے چلتے ہم ہرچووال کی نہر پر جاپہنچے۔ سفر کی طوالت وقت کے زیادہ گزرنے سے معلوم ہوتی تھی گو شوق کی وجہ سے کچھ تکان نہ تھی۔ مَیں نے اُس مزدور سے کہا کہ تم کہتے تھے مَیں راستے سے واقف ہوں اور ہم کو بٹالہ سے چلے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ابھی تک وہ موڑ نہیں آتا، یہ کیا بات ہے؟ اُس نے کہا کچھ پتہ نہیں لگتا۔ ہرچووال پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ اتفاقاً وہاں ایک آمی مل گیا جس نے ہم کو ہماری غلطی پر آگاہ کیا اور ہم واپس ہوئے۔ لیکن لِیل کلاں کے قریب آکر پھر بھولے۔ مگر دو تین آدمی وہاں سے جارہے تھے جنہوں نے ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دیا۔ اس پریشانی میں اس رفیقِ سفر پر بہت غصہ آتا تھا مگر اس کا نتیجہ کچھ نہ تھا۔ آخر ہم چلتے چلتے قادیان کے باغ کے قریب پہنچے تو آگے پانی تھا۔ باغ کی طرف سے ہم نے آواز دی تو ایک شخص نے کہا چلے آؤ، پانی پایاب ہے۔ غرض وہاں سے گزر کر مہمان خانہ پہنچے جو دو کوٹھڑیوں اور ایک دالان پر مشتمل تھا۔ رمضان کا آغاز تھا اور لوگ اُس وقت اُٹھ رہے تھے۔ حضرت حافظ حامد علی مرحوم کو خبر ہوئی کہ کوئی مہمان آیا ہے۔ وہ میرے واقف تھے۔ جب وہ آکر ملے تو محبت اور پیار سے انہوں نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے؟ مَیں نے جب واقعات بیان کیے تو بےچارے بہت حیران ہوئے۔ مَیں نے سبزی وغیرہ اُن کے حوالے کی تو وہ لے کر اُسی وقت اندر گئے اور حضرت صاحب کو اطلاع کی۔ حضورؑ نے اُسی وقت مجھے گول کمرے میں بلالیا اور وہاں پہنچنے تک پُرتکلّف کھانا بھی موجود تھا۔ مَیں اس ساعت کو اپنی عمر میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس محبت اور شفقت سے بار بار فرماتے تھے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ مَیں کرتا رہا نہیں حضور، معلوم بھی نہیں ہوا۔ مگر آپؑ بار بار فرماتے ہیں کہ راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے۔ اور کھانا کھانے کے لیے تاکید فرمانے لگے۔ مجھے شرم آتی تھی کہ آپؑ کے حضور کس طرح کھاؤں۔ مَیں نے تأمل کیا تو آپؑ نے خود اپنے دست مبارک سے کھانا آگے کرکے فرمایا کہ کھاؤ، بہت بھوک لگی ہوگی۔ آخر مَیں نے کھانا شروع کیا تو پھر فرمانے لگے کہ خوب سیر ہوکر کھاؤ، شرم نہ کرو۔ سفر کرکے آئے ہو۔
حضرت حامدعلی صاحبؓ بھی پاس ہی بیٹھے تھے اور آپؑ بھی تشریف فرما تھے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! آپ آرام فرمائیں، مَیں اب کھالوں گا۔ حضرت اقدسؑ نے اس وقت محسوس کیا کہ مَیں آپؑ کی موجودگی میں تکلّف نہ کروں۔ فرمایا: ’’حامدعلی! تم اچھی طرح سے کھلاؤ اور یہاں ہی ان کے لیے بسترا بچھادو۔‘‘ آپؑ تشریف لے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک بسترا لیے ہوئے پھر تشریف لے آئے۔ میری حالت اس وقت عجیب تھی۔ ایک طرف تو مَیں آپؑ کے اس سلوک پر نادم ہو رہا تھا کہ ایک واجب الاحترام ہستی اپنے ادنیٰ غلام کے لیے کس مدارات میں مصروف ہے۔ مَیں نے عذر کیا کہ حضور نے کیوں تکلیف فرمائی۔ فرمایا: ’’نہیں نہیں، تکلیف کس بات کی۔ آپ کو آج بہت تکلیف ہوئی ہے۔ اچھی طرح سے آرام کرو۔‘‘ غرض آپ بسترا رکھ کر تشریف لے گئے۔
حافظ حامد علی صاحبؓ میرے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے محبت سے کھانا کھلایا اور بسترا بچھادیا۔ مَیں لیٹ گیا تو انہوں نے میری چاپی کرنا چاہی۔ مَیں نے بہت ہی عذر کیا تو وہ رُکے مگر مجھے کہا کہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ ذرا دُبا دینا بہت تھکے ہوں گے۔ اُن کی یہ بات سنتے ہی میری آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکل گئے۔ فجر کی نماز کے بعد آپؑ نے پھر دریافت فرمایا کہ نیند اچھی طرح آگئی تھی، اب تکان تو نہیں۔ غرض یہ اظہارِ شفقت مجھے مدّت العمر نہ بھولے گا۔
مَیں چند روز تک رہا اور ہر روز آپؑ کے لطف و کرم کو زیادہ محسوس کرتا تھا۔ مَیں اُس وقت ایک غریب طالب علم تھا اور کسی حیثیت سے کوئی معروف درجہ نہ رکھتا تھا مگر مَیں نے جب جانے کے لیے اجازت چاہی تو فرمایا: نوکری پر تو جانا نہیں، اَور دو چار روز رہو۔ مَیں پھر ٹھہر گیا۔ آخر آپؑ کی محبت و کرم فرمائی کے جذبات کا ایک خاص اثر لے کر گیا اور وہ کشش تھی کہ مجھے ملازمت چھوڑا کر یہاں لائی اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا اور اس آستانہ پر دھونی رماکر بیٹھ جانے کی توفیق عطا فرمائی۔
٭…… حضرت اقدسؑ کی مہمان نوازی اور وسعت اخلاق اپنوں اور بیگانوں، سب کے لیے یکساں تھی۔ چنانچہ مولوی ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولوی ابونصر آہ مرحوم جب مئی 1905ء میں اخلاص و محبت سے قادیان تشریف لائے تو واپس جاکر اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر میں اپنے سفر کا حال شائع کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق کی تاثیر تھی کہ اُن کے مضمون کی ہر سطر سے عقیدت ٹپکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
مَیں نے اَور کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا۔ مرزا صاحب سے ملاقات کی، مہمان رہا۔ مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑگئے تھے اور مَیں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا۔ مرزا صاحب نے دودھ اور روٹی تجویز فرمائی۔ اکرامِ ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا۔ اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی مَیں آگے نہ بڑھ سکتا۔ آتے ہوئے یکّہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لَوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کردی۔
مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔ مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا۔ بُردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کردیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں۔
مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمے پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا: ’’ہم آپ کو اس وعدے پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتے قیام کریں۔‘‘ اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔
مَیں جس شوق کو لے کر گیا تھا، ساتھ لایا۔ اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔ واقعی قادیان نے اس جملے کو اچھی طرح سمجھا ہے: حَسِّنْ خُلْقَکَ وَلَوْ مَعَ الْکُفَّارِ (تُو اپنے اخلاق کو حسین بنا خواہ کافروں کے ساتھ معاملہ ہو۔ )
٭…… حضور علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ حفظ مراتب کی ہدایت کے ساتھ عام سلوک اور تعلقات میں آپؑ مساوات کے برتاؤ کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ آنحضورﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں اگرچہ مہمانوں کو اُن کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اتارا جاتا مگر خبرگیری اور مہمان نوازی کے عام معاملات میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا۔ 1905ء کے سالانہ جلسہ پر کھانے کا انتظام میرے سپرد تھا۔ مَیں نے (حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے سسر) حضرت مولوی غلام حسین صاحبؓ اور اُن کے ہمراہیوں کے لیے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنا چاہا۔ مَیں نے یہ بات جب خدمت اقدسؑ میں کھانے کی تیاری کی رپورٹ دیتے ہوئے عرض کی تو حضورؑ نے فرمایا: ’’میرے لیے سب برابر ہیں۔ اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہوسکتی۔ سب کے لیے ایک ہی قسم کا کھانا ہونا چاہیے۔ یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ مولوی صاحب کے لیے الگ انتظام اُن کی لڑکی کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ وہ اس وقت میرے مہمان ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں اس لیے سب کے لیے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے، خبردار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو۔‘‘
اُس وقت اَور بھی بہت کچھ فرمایا اور غربائے جماعت کی خصوصیت سے تعریف کی اور فرمایا: ’’جیسے ریل میں سب سے بڑی آمدنی تھرڈ کلاس والوں کی طرف سے ہوتی ہے اس سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے پورا کرنے میں سب سے بڑا حصہ غربا کے اموال کا ہے اور تقویٰ و طہارت میں بھی یہی جماعت ترقی کررہی ہے۔‘‘
٭…… اگر کوئی ایسا مہمان بھی آجاتا جو حضرت اقدسؑ اور سلسلہ احمدیہ کا اشد مخالف ہوتا تب بھی حضورؑ اُس کی تواضع میں کوئی کمی نہ فرماتے اور مزید اپنے احباب کو ارشاد فرماتے کہ اگر مہمان کسی وجہ سے دلآزار باتیں کرے تو وہ صبر کریں۔
حضورؑ نے متعدّد بار لنگرخانہ کے منتظمین کو توجہ دلائی کہ وہ مہمانوں کے احترام اور تواضع کا خاص خیال رکھیں۔ فرمایا: ’’کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اُس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اسی طرح دسمبر 1903ء کے سالانہ جلسہ پر جب بہت سے مہمان آئے تو حضورؑ نے محترم میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگرخانہ کو بلاکر فرمایا: ’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔‘‘
===================
حضرت مسیح موعودؑ باوجود اُس قوّت اور شجاعت کے جو آپؑ کے قلب میں پایا جاتا تھا رقیق القلب بھی بہت تھے اور بعض اوقات اپنے خدام اور دوستوں کی تکلیف کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ یہ رقیق القلبی انتہائی ہمدردی اور محبت کا ثمرہ تھی۔ اس کے باوجود بھی آپؑ بیماروں کی عیادت کو تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دوست دشمن یا مومن کافر کی تخصیص نہ تھی۔
٭…… حضورعلیہ السلام کی بعثت کے ایّام سے قبل لالہ شرم پت رائے آپؑ کے پاس آیا کرتے تھے اور آپؑ کے بہت سے نشانات کے گواہ تھے۔ ایک مرتبہ اُن کے شکم پر ایک پھوڑا ہوا جس نے نہایت خطرناک شکل اختیار کرلی۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو آپؑ خود چند دوستوں کے ہمراہ لالہ شرم پت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے۔ مکان نہایت تنگ و تاریک تھا۔ لالہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے تھے اور اُن کو اپنی موت کا یقین تھا۔ حضورؑ نے اُن کو بہت تسلّی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں، مَیں ڈاکٹر عبداللہ صاحب کو مقرر کردیتا ہوں، وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ اُس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہی قادیان کے اکیلے اور بڑے ڈاکٹر تھے۔ اگلے روز حضورؑ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ لے گئے اور ڈاکٹر صاحب کو لالہ صاحب کے علاج پر مامور کردیا اور اس علاج کا کوئی بار لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ حضورؑ بلاناغہ اُن کی عیادت کو جاتے اور جب زخم مندمل ہونے لگا تو پھر وقفہ سے جانا شروع کیا اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہوگئے۔
٭…… لالہ ملاوامل بھی حضورعلیہ السلام کے پاس آیاجایا کرتے تھے۔ جب وہ صرف بائیس سال کی عمر میں عرق النساء کے مرض میں مبتلا ہوگئے تو حضرت اقدسؑ ایک خادم کے ذریعے صبح شام اُن کی خبر منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جاکر عیادت کرتے اور اُن کا علاج بھی کرتے۔ ایک صبح جب خادم اُن کی خبر لینے گیا تو وہ کہنے لگے کہ رات بہت تکلیف میں گزری ہے اور کہا کہ حضور خود تشریف لاویں۔ حضرت اقدسؑ پیغام ملتے ہی اُن کے مکان پر چلے گئے اور مناسب علاج کیا جس سے افاقہ ہوا۔
اگر دیکھا جائے تو حضرت اقدسؑ اپنے شہر کے رئیس اعظم اور مالک تھے مگر انسانی ہمدردی اور غمگساری کے راستے میں کبھی آپؑ کی خاندانی وجاہت آڑے نہ آئی۔
٭…… اگست 1902ء میں ایک غیرازجماعت قریشی صاحب بیمار ہوکر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے علاج کرانے کے لیے قادیان آئے اور انہوں نے متعدد مرتبہ حضورعلیہ السلام کے حضور دعا کے لیے پیغام بھجوائے۔ ایک شام انہوں نے پیغام بھجوایا کہ آپؑ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا۔ اس پر آپؑ نے اگلے روز اُن کے پاس جانے کا وعدہ فرمایا اور جب حسب معمول سیر کو نکلے تو اُن کے مکان پر بھی تشریف لے گئے۔ مرض کی بابت دریافت فرمایا، دعا کی اور مناسب طور پر تبلیغ بھی فرمائی۔
٭…… مہر حامد صاحبؓ اپنے خاندان میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل ہوئے۔ نہایت غریب مزاج تھے اور اُن کا مکان بھی قادیان سے باہر اُس جگہ واقع تھا جہاں گندگی کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ سخت بدبو اور تعفن ہوتا تھا۔ چونکہ زمینداری کرتے تھے اس لیے گھر میں بھی صفائی کا انتظام نہ تھا۔ مویشیوں کا گوبر ڈھیر کی صورت میں پڑا رہتا۔ جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو حضرت مسیح موعودؑ کئی بار اُن کی عیادت کے لیے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ ہمراہ جانے والے دوستوں کو قدرتی طور پر اس تعفّن سے سخت تکلیف ہوتی تھی اور حضورؑ بھی یقیناً اس تکلیف کو محسوس کرتے تھے لیکن کبھی اشارۃً بھی اس کا اظہار نہ فرمایا اور نہ ہی اس تکلیف نے آپؑ کو اُن کی عیادت اور خبرگیری کے لیے تشریف لے جانے سے کبھی روکا۔ حضورؑ اُن کا علاج بھی فرماتے اور بعض ادویات خود بھی مہیا فرمادیتے۔ مہرحامد کی آنکھوں میں حضورؑ کی آمد پر آنسو آجاتے۔ وہ اپنے گھر کو، اپنی حیثیت کو دیکھتے اور پھر حضور علیہ السلام کو دیکھتے جو اُن سے دلجوئی کی باتیں کرتے۔ آخر خداتعالیٰ کی تقدیر مبرم کے نتیجے میں مہرحامد فوت ہوگئے تو حضورؑ نے اُن کا جنازہ پڑھایا اور اُن کے اخلاص اور وفادارانہ تعلق کا ذکر کرتے رہے۔ بعد میں اُن کے بیٹے سے بھی ایسے ہی پیش آتے رہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے۔
٭…… محمد دین صاحب ایک غیرازجماعت تھے۔ انٹرنس پاس تھے۔ انہیں ناسور ہوگیا اور اس کے علاج کے لیے وہ قادیان آئے۔ یہاں نہ صرف اُن کی جسمانی بیماری حضرت مسیح موعودؑ کی توجہ اور دعا سے دُور ہوئی بلکہ حضورؑ کے اخلاق کریمانہ نے اُنہیں پھر قادیان کا ہی کردیا۔ بعد ازاں قادیان میں رہتے ہوئے انہوں نے بی اے کرلیا۔ پھر وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر اور بعد میں مینیجر بھی رہے۔ رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ مبلغِ امریکہ بھی رہے۔ قادیان میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ اُنہیں طاعون ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اُن کی تیمارداری کا ایسا انتظام فرمایا کہ حقیقت میں ویسا انتظام اُن کے والدین بھی نہ کرسکتے۔ حضورؑ روزانہ دو تین مرتبہ اُن کی خبر منگواتے اور اپنے ہاتھ سے دوائی تیار کرکے بھیجتے۔ حضورؑ کی دعاؤں کو خداتعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور اُن کو شفا ہوئی۔
اپنی دونوں بیماریوں سے شفایابی کا احوال حضرت مولوی محمد دین صاحبؓ نے خود بھی رقم فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں کہ 1901ء میں مَیں سخت بیمار ہوگیا اور ایک سال سے زائد عرصہ تک ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج کروانے کے بعد حضرت منشی تاج الدین صاحبؓ کے کہنے قادیان آگیا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو اپنی بیماری کا حال سنایا تو آپؓ نے میرا ناسور دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کا رُخ دل کی طرف ہوگیا ہے۔ اس کے لیے دوا کی نسبت دعا کی ضرورت ہے۔ پھر مجھے بتلایا کہ مسجد میں ایک خاص جگہ بیٹھنا مَیں خود تمہارے متعلق حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کے لیے عرض کروں گا۔ چنانچہ مسجد میں حضرت مولوی صاحبؓ نے مجھے پکڑ کر حضرت صاحبؑ کے سامنے کردیا اور میرے مرض کے متعلق صرف اتنا کہا کہ بہت خطرناک ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ ہمدردی سے بھرا ہوا تھا۔ مجھ سے حضورؑ نے دریافت فرمایا کہ یہ تکلیف آپ کو کب سے ہے؟ مَیں تیرہ ماہ سے اس دکھ میں مبتلا تھا۔ مَیں نے مہینوں راتیں رو کر اور ٹہل کر کاٹی ہوئی تھیں۔ حضرت کے ہمدردانہ و محبت انگیز کلمات نے چشم پُرآب کردیا۔ مَیں اپنی بساط کو جانتا تھا۔ محض ایک لڑکا میلے اور پرانے دریدہ وضع کپڑے، چھوٹے درجے و چھوٹی قوم کا آدمی۔ اتنے بڑے انسان کا مجھ ناچیز کو ‘آپ’ کے لفظ اور کمال ہمدردانہ لہجہ میں مخاطب کرنا ایک بجلی کا اثر رکھتا تھا۔ میرے منہ سے لفظ نہ نکلا سوائے اس کے کہ آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت نے یہ حالت دیکھ کر سوال نہ دہرایا۔ مجھے کہا کہ ’’مَیں تمہارے لیے دعا کروں گا، فکر مت کرو۔ انشاءاللہ اچھے ہوجاؤگے۔‘‘ پھر مولوی صاحبؓ کا علاج شروع ہوا اور ایک مہینے میں مَیں اچھا ہوگیا۔ میری خوش قسمتی مجھے بیمار کرکے قادیان میں لے آئی تھی اور مَیں نے وطن کو خیرباد کہہ کر یہیں رہائش اختیار کرلی۔ اس کے بعد میری شامتِ اعمال تھی کہ طاعون میں مبتلا ہوگیا۔ تاہم حضرت کی خدمت میں مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ اس کا باپ بھی اس کو لینے آیا تھا لیکن اس نے قادیان چھوڑنا پسند نہیں کیا۔ حضرت نے باوجود اس سخت کمزوری کے میرے لیے دعا کی اور اپنے ہاتھوں سے دوائی تیار کرکے بھیجتے رہے۔ دو تین وقت روزانہ میری خبر منگواتے۔ میرا ایمان ہے کہ مَیں آپؑ کی دعاؤں سے ہی بچ گیا ورنہ جن دنوں مَیں بیمار ہوا شاذ ہی لوگ بچتےتھے۔
٭…… حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ آغاز 1898ء میں مَیں ہجرت کرکے قادیان آگیا اور اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان میں منتقل کرلیا۔ اس سال کے آخر میں مولوی محمد حسین کے حفظ امن والے مقدمے کے سلسلے میں ایک پیشی پر حضرت اقدسؑ کو پٹھان کوٹ جانا پڑا۔ مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل تھا۔ رات کو مَیں یکایک سخت بیمار ہوگیا۔ دردمعدہ کا حملہ ہوا اور پیشاب پاخانہ بھی بند ہوگیا۔ مَیں جس کمرے میں سویا ہوا تھا اس میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ تھے۔ مَیں اُن کی نزاکتِ طبع سے واقف تھا، اُن کے آرام کا خیال کرکے مَیں ہائے تک منہ سے نہ نکال سکتا تھا۔ آخر درد سے تنگ ہوکر ساتھ کے کمرے میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے پہلو میں اس نیت سے لیٹ گیا کہ وہ کروٹ بدلیں تو عرض کروں۔ چنانچہ انہوں نے کروٹ بدلا تو مَیں نے کہا: ہائے۔ میری یہ آواز ساتھ کے کمرے میں استراحت فرماتے ہوئے حضورؑ کے کان میں پہنچی تو قبل اس کے کہ مولوی صاحبؓ اُٹھتے حضورؑ فوراً تشریف لے آئے اور پوچھا: میاں یعقوب علی! کیا ہؤا؟ ان الفاظ میں محبت اور ہمدردی کا ایک ایسا نشہ تھا کہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ حضرت کی آواز کے ساتھ ہی باقی احباب بھی اُٹھ بیٹھے۔ مَیں نے اپنی حالت کا اظہار کیا تو حضورؑ چند گولیاں لائے جو مجھے کھلادی گئیں۔ ساتھ ہی نہایت تسلّی اور اطمینان دلایا۔ صبح ہورہی تھی اور جوں جوں قافلے کے قادیان روانہ ہونے کا وقت قریب آتا جاتا میری جان گھٹی جارہی تھی۔ مگر حضرت کو خاص طور پر توجہ تھی۔ مَیں درد سے بےقرار تھا۔ آپ میری گھبراہٹ پر بار بار تسلّی دیتے اور فرماتے کہ مَیں سب انتظام کرکے جاؤں گا اور تم کو آرام آجائے گا اور اگر کہوگے تو مَیں آج نہیں جاؤں گا۔
مَیں حضورؑ کی شفقت و عنایت کو دیکھتا اور شرمندہ ہوتا تھا۔ آخر قرار پایا کہ حکیم فضل دین صاحبؓ اور میاں اللہ دیا صاحب کو میرے پاس چھوڑا جاوے۔ حضورؑ نے حکیم صاحب کو خاص طور پر تاکید کی کہ دیکھو کوئی تکلیف نہ ہو اور پھر ایک خاص رقم اُن کے حوالے کی کہ جب مجھے آرام ہوجائے تو قادیان لے کر آویں۔ آخر دوسری گاڑی پر قادیان آیا تو دو دن تک تکلیف اور ضعف میں مبتلا رہا۔ حضرت اقدسؑ برابر دریافت فرماتے رہے اور ہر طرح اطمینان دلاتے رہے۔ اپنے خادم کا آپؑ نے اس طرح احساس کیا گویا اپنے کسی عزیز سے عزیز وجود کا، یہ محض خدا کی رضا کے لیے تھا۔
٭…… حضرت مسیح موعودؑ کبھی کسی بڑے سے بڑے نقصان پر بھی ناراض نہ ہوتے بلکہ ناراض ہونا جانتے ہی نہ تھے۔ لیکن ایک بار وہ اپنے ایک خادم پر محض اس وجہ سے شدید ناراض ہوئے کہ اُس نے ایک بیمار کی تیمارداری میں کیوں غفلت کی۔ چنانچہ جب حضورؑ کا خادم پیرا پہاڑیا (جو ایک نیم وحشی انسان تھا اور ہر ایک قسم کے آداب اور انسانیت کے معمولی لوازم سے بھی ناواقف تھا) طاعون سے بیمار ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اکبر خان صاحب سنوری کو اُس کی تیمارداری اور علاج کے انتظام کے لیے مقرر فرمایا۔ نہایت قیمتی عرق کیوڑہ کی چند بوتلیں اُن کے سپرد کیں اور جو ہدایات دیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس کی گلٹی پر جونکیں لگوادیں اور اس کے علاج میں کسی خرچ کا مضائقہ نہ کیا جاوے۔
خان صاحب نے جونکوں والے کو تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا۔ خیال تھا کہ کسی دوسرے وقت انتظام ہوجائے گا مگر نہ ہوسکا اور غفلت ہوگئی۔ پیرا کی موت مقدّر تھی۔ حضرت اقدسؑ کو جب یہ معلوم ہوا کہ خان صاحب نے قادیان سے باہر سے جونکیں منگوانے میں غفلت کی ہے تو آپؑ بہت ناراض ہوئے، چہرہ سرخ ہوگیا کہ کیوں نہ بٹالہ یا کسی دوسری جگہ سے منگوالی گئیں خواہ کچھ بھی خرچ ہوجاتا۔
٭…… حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بھی اگر کبھی علیل ہوتے تو حضرت اقدسؑ متواتر عیادت کے لیے جاتے اور اکثر ادویات خود تیار کراتے اور غذا کے لیے خاص طور پر انتظام فرماتے۔ آپؑ اس قدر ہمدردی اور دلجوئی کا طریق اختیار کرتے کہ مریض کے قلب سے فکروغم جاتا رہتا۔ ایک بار جب آپؓ جموں میں ملازمت کے دوران بیمار ہوئے تو حضورعلیہ السلام نے آپؓ کی عیادت کے لیے جموں کا سفر بھی اختیار فرمایا۔ اسی طرح میرعباس علی صاحب کی عیادت کے لیے لودہانہ بھی تشریف لے گئے۔
دراصل آپؑ کے مدّنظر صرف انسانی ہمدردی اور خدا کی رضا تھی۔ چنانچہ اپنے بعض خدام کی شدید بیماری کی کیفیت میں کسی مجبوری کے باعث سفر نہ کرسکنے پر خطوط کے ذریعے عیادت فرماتے۔ چنانچہ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کوتسلّی آمیز طویل خط میں محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی تحریر فرمادیا کہ ’’مَیں تکلیف کی حالت میں ایسے عزیز کو دیکھ نہیں سکتا، میرا دل جلد صدمہ قبول کرتا ہے۔‘‘
مذکورہ کیفیت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی انتہائی تکلیف دہ بیماری کے دوران بھی پیش آئی جب اُن کے لیے نہایت درد سے دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ تیمارداری اور علاج کی طرف بھی حضورؑ نے بھرپور توجہ دی بلکہ اگر کسی دوائی یا خاص غذا کو لاہور یا امرتسر سے بھی منگوانا پڑا تو فوراً آدمی بھیج دیا اور کبھی پیسے کی پروا نہیں کی۔ لیکن اپنے قلب کی رقّت کی وجہ سے خود جاکر حضرت مولوی صاحب کی عیادت نہ کرسکے۔ اگرچہ کئی بار آپؑ نے ارادہ بھی کیا لیکن دل کی کمزوری آڑے آگئی۔ تاہم حضورؑ نہ صرف اُن کی خبر رکھتے بلکہ خاص غذا بھی تیار کرواتے۔ کئی ہفتے تک تین چار مرغ کی یخنی روزانہ تیار کی اور بکرے کے گوشت کا سُوپ بھی تیار ہوتا۔ پھر انگلینڈ سے تیار ہوکر آنے والی گوشت کے ست سے بنائی گئی ایک خاص غذا کی کئی بوتلیں حضرت اقدسؑ نے اُن کے لیے خریدی تھیں۔ ایک شیشی کی قیمت تین روپے تھی۔ غرض حضرت مسیح موعودؑ کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؑ سے بڑھ کر مریضوں کا خیرخواہ اور ہمدرد کوئی دوسرا بہت ہی کم ہوگا۔
٭…… حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کی شادی حضرت اقدس علیہ السلام کی تجویز پر حفصہ بنت حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سے ہوئی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ ویسے بھی حضرت مفتی صاحبؓ کے پھوپھا تھے۔ حضرت مفتی صاحبؓ کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو وہ گونگا اور بہرا تھا۔ چار سال کی عمر میں اُسے ٹائیفائیڈ ہوگیا تو حضورؑ اُس کی عیادت کے لیے تشریف جاتے اور طبّی مشورے بھی عطا فرماتے۔ اُن دنوں حضرت مفتی صاحبؓ بھی حضورؑ کے ہمراہ ایک مقدمے کی تاریخوں پر گورداسپور جایا کرتے تھے۔ ایک صبح روانگی سے پہلے حضورؑ بچے کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے تو اُس کی حالت کو نازک پایا۔ آپؑ نے باہر آکر مفتی صاحب کو فرمایا کہ آج آپ نہ جائیں۔ چنانچہ وہ ٹھہرگئے۔ اگلی صبح بچہ فوت ہوگیا۔
جب حضورعلیہ السلام گورداسپور سے تشریف لائے تو مفتی صاحبؓ اپنی لڑکی حفیظہ کو اٹھائے ہوئے حضورؑ کو ملے۔ حضورؑ نے بچے کی وفات پر تعزیت کرکے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے لیے بہت دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے گا اور وہ سننے اور بولنے والا ہوگا۔ مفتی صاحب نے عرض کیا: حضور! میرے گھر میں دو لڑکیاں اور دو لڑکے پیدا کرنے ہیں۔ اب یہ لڑکی ہے اور اس کے بعد اگر دوسری لڑکی ہوئی تو نعم البدل نہ ہوگا، اگر لڑکا ہوگا تو نعم البدل سمجھوں گا۔ حضور علیہ السلام نے مسکراکر فرمایا کہ میاں ہمارے خدا میں تو یہ بھی طاقت ہے کہ آئندہ لڑکیوں کا سلسلہ ہی منقطع ہوجاوے۔ پھر یہ معجزہ ہوا کہ مفتی صاحب کے گھر میں متواتر چھ لڑکے پیدا ہوئے اور سب سننے والے اور بولنے والے تھے۔
حضرت مفتی صاحبؓ کے حوالے سے قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب ایک بیٹے کی پیدائش پر آپؓ کی اہلیہ محترمہ حفصہؓ کو گردن میں درد اور اکڑاؤ محسوس ہونے لگا تو نماز مغرب کے بعد مفتی صاحب نے حضورؑ سے اس بارہ میں عرض کیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو کذاز (یعنی ٹیٹنس) کا ابتدا ہے۔ پھر خود تشریف لائے، مریضہ کو دیکھا اور فرمایا کہ دس رتی ہینگ دے دو اور ایک گھنٹے بعد اطلاع دو۔ مفتی صاحب نے ایک گھنٹے بعد جاکر اطلاع دی کہ کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ تو فرمایا دس رتی کونین دے دو اور ایک گھنٹہ بعد اطلاع دو۔ پھر گھنٹے بعد عرض کیا گیا کہ کوئی افاقہ نہیں۔ فرمایا: دس رتی مُشک دے دو۔ اور یہ قیمتی مُشک اپنے پاس سے دیا۔ گھنٹہ بعد عرض کیا گیا کہ مرض بڑھ رہا ہے۔ فرمایا دس تولہ کسٹرائل دے دو۔ کسٹرائل دینے کے بعد مریضہ کو سخت قے ہوئی اور حالت نازک ہوگئی۔ سانس اکھڑ گیا، آنکھیں پتھراگئیں۔
مفتی صاحب بھاگے ہوئے گئے تو حضورؑ نے پاؤں کی آہٹ سن کر ہی فوراً دروازہ کھولا۔ مریضہ کی حالت عرض کی تو فرمایا: دنیا کے اسباب جتنے تھے وہ ہم چلا چکے ہیں۔ اس وقت کیا وقت ہے؟ عرض کیا گیا: بارہ بج چکے ہیں۔ فرمایا: تم جاؤ، میرے پاس صرف ایک دعا کا ہتھیار باقی ہے۔ مَیں اُس وقت سر اٹھاؤں گا جب وہ اچھی ہوجائے گی۔ چنانچہ مفتی صاحب کا ایمان دیکھو کہ گھر میں آکر الگ کمرے میں چارپائی ڈال کر سو رہے کہ وہ جانے اور اُس کا خدا، مجھے اب کیا فکر ہے۔
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ صبح جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بیوی برتنوں کو درست کررہی ہے۔ مَیں نے پوچھا:کیا حال ہے؟ کہا:کوئی دو گھنٹے بعد آرام ہوگیا تھا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دعا سے شفا کا ایک اعجازی نشان حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کی زندگی کا بھی ظاہر ہوا۔ آپؓ جب 1897ء میں بیمار ہوئے تو حضورعلیہ السلام روزانہ صبح عیادت کے لیے تشریف لاتے اور خود علاج فرمانے کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی تاکید فرماتے۔ ایک روز نماز عشاء کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ تشریف لائے تو مفتی صاحب کی بےہوشی کی حالت میں تھے۔ مولوی قطب الدین صاحب ہمراہ تھے۔ آپؓ نے ڈیوڑھی میں جاکر اُن سے فرمایا کہ آج حالت نازک ہے امید نہیں کہ صبح تک جانبر ہوں۔ مفتی صاحبؓ کی خوش دامن نے دروازے کی اوٹ سے یہ الفاظ سنے تو فوراً حضورعلیہ السلام کے پاس پہنچیں اور حالات عرض کیے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ مَیں ایک ضروری مضمون لکھ رہا ہوں، آپ مولوی صاحب سے جاکر میری طرف سے تاکید کریں۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو فرماگئے ہیں کہ حالت نازک ہے۔ فرمایا: ہیں، مَیں نے تو ابھی اس سے بہت کام لینا ہے۔
حضورؑ نے اپنے مضمون کو وہیں چھوڑ دیا اور تشریف لاکر مفتی صاحب کو دیکھا۔ فرمایا: بہت اچھا، مَیں چل کر دعا کرتا ہوں۔ نصف رات کو مفتی صاحب کو دو تین خون کے دست آئے یہاں تک کہ آنکھیں کھل گئیں۔ نمازفجر سے قبل حضورؑ نے مسجد میں تشریف لاکر رات کا واقعہ بیان فرمایا اور بتایا کہ بارہ بجے کے قریب میرے دل میں ڈالا گیا کہ اب آرام ہوگیا ہے۔ چنانچہ آدمی بھجوایا گیا کہ دریافت کرکے آؤ آرام کے کیا معنی ہیں۔ وہ دوست مفتی صاحب سے مل کر آئے اور بتایا کہ طبیعت اچھی ہے۔ پھر حضرت اقدسؑ نے نمازفجر پڑھی۔
===================
امرواقعہ ہے کہ جو محبت اور خیرخواہی آپؑ اپنے احباب سے فرماتے تھے وہ ماں باپ میں بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔ اور حقیقت یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے یہ ہمدردی اُن لوگوں میں ہی ودیعت کی جاتی ہے جو خداتعالیٰ کی مخلوق کی ہدایت کے لیے مامور ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمدردیٔ مخلوق میں وہ مشکلات کے پہاڑوں اور مصائب کے اُن دریاؤں سے بھی گزر جاتے ہیں جو تبلیغ حق کی راہ میں آتے ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے طریقِ تعزیت کو بھی حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ آپؓ رقمطراز ہیں کہ حضورؑ حسب حالات زبانی تعزیت فرماتے یا تحریراً۔ آپؑ تعزیت کرتے وقت اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے کہ بشریت کی وجہ سے جو صدمہ اور رنج کسی شخص کو پہنچا ہے اسے اپنی عارفانہ نصائح اور دنیا کی بےثباتی کو واضح کرکے کم کردیں۔ ایسے موقع پر آپؑ انسان کے ایمان کے بچانے کی فکر کرتے اور ایسے رنگ میں اس پر اثر ڈالتے کہ غم بھول کر خداتعالیٰ کی طرف اُس کی توجہ غالب ہوجاتی۔
٭…… حافظ ابراہیم صاحب نابینا تھے۔ اُن کی بیوی کی وفات ہوئی تو حضورؑ نے تعزیت کرتے ہوئے فرمایا: آپ کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ اب آپ صبر کریں تاکہ آپ کے واسطے ثواب ہو۔ باوجود معذوری کے آپ نے اپنی بیوی کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ مرنا تو سب کے واسطے مقدّر ہے۔ مگر غربت کے ساتھ بےشر ہوکر مسکینی اور عاجزی میں جو لوگ مرتے ہیں ان کی پیشوائی کے واسطے گویا بہشت آگے آتا ہے۔
٭…… قاضی غلام حسین صاحب کا بچہ چند روز کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ حضورؑ نے اُن سے تعزیت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ جو بچہ مر جاتا ہے وہ فرط ہے۔ انسان کو عاقبت کے لیے بھی کچھ ذخیرہ چاہیے۔ مَیں لوگوں کی خواہشِ اولاد پر تعجب کیا کرتا ہوں۔ کون جانتا ہے اولاد کیسی ہوگی۔ اگر صالح ہو تو انسان کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور پھر مستجاب الدعوات ہو تو عاقبت میں بھی فائدہ دے سکتی ہے۔ اکثر لوگ تو سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اولاد کی خواہش کیوں ہے۔ اور جو سوچتے ہیں وہ اپنی خواہش کو یہاں تک محدود رکھتے ہیں کہ ہمارے مال و دولت کا وارث ہو اور دنیا میں بڑا آدمی بن جائے۔ اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہوسکتی ہے کہ کوئی وَلدِ صالح پیدا ہو جو بندگانِ خدا میں سے ہو۔
٭…… 1885ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ جموں میں ملازم تھے جب آپؓ کے دو بیٹے یکے بعد دیگر فوت ہوگئے اور تیسرا بیمار ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام نے اپنے تعزیتی خط میں ہی انہیں صبر کی تلقین کرنے کے بعد بیمار بچے کے لیے دعا کرنے کے حوالے سے قبولیتِ دعا کے گُر بھی بیان فرمائے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا:
’’… اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے فضل و کرم سے ایسی دعا کی توفیق بخشے جو اپنی جمیع شرائط کی جامع ہے۔ یہ امر کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اسی کی مرضات حاصل کرنے کے لیے اگر آپ خفیہ طور پر اپنے فرزند دلبند کی شفا حاصل ہونے پر اپنے دل میں کچھ نذر مقرر کررکھیں تو عجیب نہیں کہ وہ نکتہ نواز جو خود اپنی ذات میں کریم و رحیم ہے آپ کی اس صدق دلی کو قبول فرماکر فرطۂ غموم سے آپ کو مخلصی عطا فرماوے۔ وہ اپنے مخلص بندوں پر اُن کے ماں باپ سے بہت زیادہ رحم کرتا ہے۔ اس کو نذروں کی کچھ حاجت نہیں مگر بعض اوقات اخلاص آدمی کا اُسی راہ سے متحقق ہوتا ہے۔ استغفار اور تضرّع اور توبہ بہت ہی عمدہ چیز ہے اور بغیر اس کے سب نذریں ہیچ اور بےسود ہیں۔ اپنے مولیٰ پر قوی اُمید رکھو اور اُس کی ذات بابرکات کو سب سے زیادہ پیارا بناؤ کہ وہ اپنے قوی الیقین بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اور اپنے سچے رجوع دلانے والوں کو ورطۂ غموم میں نہیں چھوڑتا۔ رات کے آخری پہر میں اٹھو اور وضو کرو اور چند دوگانہ اخلاص سے بجا لاؤ۔ اور دردمندی اور عاجزی سے یہ دعا کرو کہ اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُرمعصیت اور پُرغفلت ہوں۔ تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بےشمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بےباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین
مگر مناسب ہے کہ بروقت اس دعا کے، فی الحقیقت دل کامل جوش سے اپنے گناہ کا اقراراور اپنے مولیٰ کے انعام و کرام کا اعتراف کرے کیونکہ صرف زبان سے پڑھنا کچھ چیز نہیں، جوشِ دلی چاہیے اور رقّت اور گریہ بھی۔ یہ دعا معمولات اس عاجز سے ہے۔‘‘
٭…… حضرت چودھری رستم علی صاحبؓ کو اپنے ایک ہندو دوست سندر داس سے بڑی محبت تھی اور سمجھتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائے گا۔ اس کے لیے وہ حضورؑ کو خط بھی لکھتے رہتے تھے۔ لیکن وہ بیمار ہوکر فوت ہوگیا تو چودھری صاحب کو اس کا بہت ہی صدمہ ہوا۔ حضور علیہ السلام نے اُن کے غم کو ہلکا کرنے کے لیے دو تعزیت نامے ارسال کیے۔ ایک خط میں فارسی کے دو اشعار بھی لکھے جن کا ترجمہ یہ ہے:
تجھے جس کسی سے بھی دوستی کا تعلق ہے اس کا انجام آخر جدائی ہے۔ اس شخص کی جدائی سے دل کو صدمہ نہیں ہوتا جسے مرنے والے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
حضورؑ نے یہ بھی تحریر فرمایا:
’’… خداتعالیٰ کی غیوری محبت ذاتیہ میں کسی مومن کی اس کے غیر سے شراکت نہیں چاہتی۔ ایمان جو ہمیں سب سے زیادہ پیارا ہے وہ اسی بات سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ ہم محبت میں دوسرے کو اس سے شریک نہ کریں۔ اللہ جلّ شانہٗ مومنین کی علامت یہ فرماتا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۔یعنی جو مومن ہیں وہ خدا سے بڑھ کر کسی سے دل نہیں لگاتے۔ محبت ایک خاص حق اللہ جلّشانہٗ کا ہے۔ جو شخص اُس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا۔ تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں، تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں، کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں۔ ہرگزنہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المحبت سے ملتی ہیں۔ اُسی کے ہوجاتے ہیں، اُسی کے ہورہتے ہیں، اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اُس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ مَیں خوب اس درد کی حقیقت کو پہچانتا ہوں جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یک دفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میں ہے کہ ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اَور نہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا جس سے الٰہی محبت باہر ہو، خواہ وہ بیٹا یا دوست کوئی ہو، ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر نعمت و رحمتِ الٰہی تدارک نہ کرے تو سلبِ ایمان کا خطرہ ہے۔ …‘‘
===================
الغرض سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کے کسی بھی پہلو پر نگاہ ڈالیں تو آپؑ کے اُس عالی مقام کا ادراک ہوسکتا ہے جو آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کے بعد حاصلِ ہوا تھا اور جس کے مقابل پر آپؑ کے قلب مطہر پر دنیا کی ساری محبتیں سرد ہوچکی تھیں۔ رب ذوالجلال سے ویسی ہی محبت اور فدائیت کے رنگ آپؑ اپنے مخلصین میں بھی پیدا کرنا چاہتے تھے۔
حضور علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے مشاہدات کو جس خوبصورتی کے ساتھ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے اپنی اس کتاب میں رقم فرمایا ہے ان کا مطالعہ ہر قاری کے ایمان میں اضافہ کے ساتھ ساتھ خداتعالیٰ اور شعائراللہ سے احترام کا تعلق پیدا کرنے کا باعث بھی ہوتا ہے. نیز اپنی اخلاقی حالت میں ترقی کے نتیجے میں اُس کی روح بھی نفس مطمئنہ کے مقام پر فائز ہوجاتی ہے۔ اور وہ انسان پھر سے قرآن کریم میں بیان فرمودہ اُن بشارات اور انعامات سے بھی حصہ پاتا ہے جو ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ بجالانے والوں کے لیے خداتعالیٰ نے مقدّر کر رکھے ہیں۔ انہی نعماء میں سے ایک وہ نعمت عظمیٰ بھی ہے جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میں خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے مومنین کی جماعت کو عطا فرمائی ہے۔ پس اس نعمت کی قدر کرنے اور اس سے فیض حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آقاؑ کی حیات مبارکہ کے اُن درخشاں پہلوؤں کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں جن کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے سے ہی ہمارے ایمان، اخلاص اور اخلاق میں ایسی نمایاں ترقیات ہوسکتی ہیں جو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے عظیم الشان مقصد کو پورا کرنے والی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان زندہ جاوید نمونوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں