تعارف کتاب ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ (حصہ دوم)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27؍جولائی تا 12؍اگست 2021ء – سالانہ نمبر)

تعارف کتاب

’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘

(’فرخ سلطان محمود‘)

قارئین محترم! قریباً ایک صدی قبل شائع ہونے والی حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی خودنوشت سوانح حیات ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ کا تعارف اور اس کے ابتدائی نصف حصے کے مضامین کا اختصار سے بیان قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 21؍مئی 2021ء اور 4؍جون 2021ء کے شماروں میں شاملِ اشاعت کیا جاچکا ہے۔ آج اس کتاب کا بقیہ مضمون زیر نظر ہے۔ اس حصۂ کتاب میں سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زبان مبارک سے چند ایمان افروز واقعات کا بیان ہے اور پھر حضورؓ کی زندگی کے اُس بابرکت دَور سے انتخاب شامل ہے جب آپؓ کا سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رابطہ استوار ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپؓ کے ایمان و اخلاص میں ایسی بےانتہا برکت عطا ہوتی ہے کہ گویا سونے کی یہ ڈلی کندن بن جاتی ہے۔ توکّل علی اللہ، تعلق باللہ، محبتِ قرآن اور عشق رسولﷺ میں سرتا پا غرقاب اس بابرکت وجود کی زندگی کے اس بابرکت دَور میں پاکیزہ ادائیں گویا نئی شان سے جلوہ افروز ہوتی ہیں۔

حضورؓ نے اپنی زندگی میں پیش آمدہ واقعات کو جس سلاست، روانی اور قلبی کیفیات کے ساتھ بیان فرمایا ہے اس کے نتیجے میں ان صفحات کا مطالعہ کرنے سے قاری کے علم اور ایمان میں ہی گرانقدر اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اُس کی عملی حالت میں بھی مثبت تغیّر پیدا ہونے لگتا ہے۔ مثلاً چند واقعات حضورؓ کی ہی مبارک زبان میں ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں:
= مَیں نے ایک مرتبہ کسی کا علاج کیا۔ ایک بڑھیا نے نذرانہ میں مجھ کو سکھوں کے وقت کا تانبے کا ایک پیسہ دیا۔ مَیں نے نہایت خوشی اور شکرگزاری کے ساتھ لے لیا اور اپنے دل میں سوچا کہ مَیں اس کو اگر خدا کے نام پر کسی کو دے دوں تو کم سے کم اس ایک پیسے کے سات سو پیسے بناسکتا ہوں۔
= ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ تم فلاں شخص کو کیسا سمجھتے ہو؟ مَیں نے کہا: بہت اچھا۔ اُس نے پھر بہت اصرار سے کہا کہ تم بہت اچھا سمجھتے ہو؟ مَیں نے کہا: ہاں۔ بعد میں اُس نے کہا کہ وہ تو مرزا صاحب کو نہیں مانتا۔ مَیں نے کہا اگر اس کو مَلَک بھی مان لیں تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ ملائکہ نے ایک خلیفہ (آدم علیہ السلام)پر اعتراض و انکار غلطی سے کیا تھا۔
= ایک بڑا آدمی جو لاہور کا رہنے والا نہیں تھا۔ لاہور کے ایک بازار میں سے وہ اور مَیں دونوں باتیں کرتے ہوئے گزرے۔ اُس نے پوچھا کہ دوزخ کے عذاب کو آپ غیرمقطوع مانتے ہیں؟ مَیں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا پھر تو کوئی خوف کا مقام نہیں کیونکہ ایک نہ ایک دن اُس سے نجات تو مل ہی جائے گی۔ مَیں نے فوراً جیب سے دو روپے نکالے اور اُس سے کہا کہ یہاں کوئی شخص تمہارا واقف نہیں، تم یہ دو روپے لے لو اور مَیں تمہارے سر پر ایک جُوت لگالوں۔ گھبراکر بولا کہ کہیں مار نہ بیٹھنا، مسئلہ مَیں سمجھ گیا ہوں۔
= ایک مرتبہ میرے دل میں کسی گناہ کی خواہش پیدا ہوئی۔ مَیں نے بہت سی حمائلیں لے کر اپنی ہر ایک جیب میں ایک ایک حمائل رکھی اور ایک حمائل ہاتھ میں رکھنے کی عادت ڈالی۔ بستر پر، سامنے الماری پر، مکان کی کھونٹیوں پر۔ غرض کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں قرآن سامنے نہ ہو۔ پس جب وہ خیال آتا تو قرآن سامنے ہوتا کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اس گناہ کا خیال ہی جاتا رہا۔
= ایک مرتبہ مَیں نے رمضان کے مہینے میں بحالتِ بیماری روزے رکھنے شروع کیے تو میری دستوں کی بیماری رفع ہوگئی۔ مَیں نے سمجھا کہ یہ روزے تو اکسیر ہیں۔ لیکن بعد میں میری قوّتِ رجولیت بالکل جاتی رہی۔ مَیں نے سمجھا کہ بیماری کی حالت میں روزے رکھنا ایک غلطی تھی، یہ اس کی سزا ہے۔ اٹھارہ انیس دن تک خوب توبہ کی تب وہ کیفیت دُور ہوئی۔
= ایک شخص بزرگوں کی اولاد تھے۔ مَیں نے ایک مرتبہ اُن سے کہا کہ کچھ پڑھنا اور سیکھنا چاہیے۔ کہنے لگے کہ بندر سیکھا کرتے ہیں، بھلا کہیں شیر بھی سیکھتے ہیں؟ ہم شیروں کی اولاد ہیں بندروں کی نہیں۔ مَیں نے کہا: حضرت تشبیہوں سے تو کام نہیں چلتا۔ باز سیکھ جاتے ہیں لیکن کوّے نہیں سیکھتے۔

= اللّٰھُمَّ حببنا الیٰ اَھْلِھَا وَ حبب صَالِحِی اَھْلَھَا اَلَیْنَا۔

اس دعا کے نتائج مَیں نے ہمیشہ دیکھے ہیں۔ مجھ کو جن لوگوں سے محبت ہوئی ہے وہ آج تک اچھے ہی سمجھے جاتے ہیں اور مجھ کو سب ہی اچھا جانتے ہیں۔ مَیں بڑے بڑے شریر النفس لوگوں کی صحبت میں بھی گیا ہوں اور خداتعالیٰ نے مجھ کو محفوظ رکھا ہے۔
= مَیں نے لاہور میں ایک لیکچر سنا۔ لیکچرار نے کہا کہ مَیں حساب کے امتحان میں فیل ہوتا رہا، یہ دلیل اس بات کی ہے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ مَیں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے کہا کہ مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَاب۔

کتاب پڑھنے کے اس پر کلک کریں۔

= ایک مرتبہ مَیں ایک کچہری میں بغرضِ شہادت گیا۔ وکیل نے پوچھا کہ تم مولوی ہو؟ مَیں نے کہا نہیں۔ وہ خاموش رہ گیا۔ مَیں اُس کی منصوبہ بازی کو فراست سے سمجھ گیا تھا کہ وہ مجھ پر دروغ حلفی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ مولوی، مولوی عالم یا مولوی فاضل کا امتحان مَیں نے نہیں دیا تھا اور اگر مَیں کہتا کہ مَیں مولوی ہوں تو وہ سرٹیفیکیٹ دکھانے کے لیے کہتا جو میرے پاس نہیں تھا۔
= بعض آدمی لباس ہی کے بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ریاست بھوپال کے شاہی خاندان میں ایک شادی تھی۔ میرے ایک شاگرد اس میں شرکت کے لیے گھر سے زرق برق کپڑے پہن کر میرے ہمراہ جانے کے لیے میرے ہاں آئے تو مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کپڑے نہیں بدلے؟ مَیں نے کہا کہ ہمارا دوست تو مکان بند کرکے کہیں چلاگیا ہے۔ چنانچہ پھر ہم ویسے ہی چل کھڑے ہوئے۔ وہاں پہنچے تو پہلی ڈیوڑھی پر دربان نے اُن کو روک لیا۔ مَیں نے کہا یہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اُس نے کہا اچھا۔ مَیں نے دربان سے کہا کہ تُو ان کے لباس کو نہیں دیکھتا؟ اُس نے کہا کہ لباس کا کیا ہے، کرایہ پر اس سے بھی اچھا مل جاتا ہے۔ آگے گئے تو معلوم ہوا کہ اس وقت خاص دربار ہے اور سوائے خاندان کے خاص خاص اور چند آدمیوں کے کوئی نہیں جاسکتا۔ مجھ کو تو دربان نے کہا کہ آپ اندر تشریف لے جائیں لیکن ہمارے ہمراہی کو وہیں بٹھالیا جہاں اَور رؤساء بیٹھے ہوئے تھے۔
= ایک مرتبہ ایک بوڑھا موچی میرے پاس فروخت کے لیے ایک جوتی لایا۔ میں نے اسے ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس میں کھوٹ معلوم ہوا۔ موچی سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ کھوٹ نہ کریں تو روٹی کیسے کھائیں، بھلا سچ سے کہیں روٹی ملتی ہے؟ مَیں نے کہا کہ تُو اتنا بوڑھا ہوگیا، اب تک تجھ کو جھوٹ ہی کے ذریعے سے روٹی ملی ہے!
= ایک وکیل نے مجھ سے ہستی باری تعالیٰ کی دلیل مانگی۔ مَیں نے پوچھا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ جھوٹے مشہور ہوجاؤ۔ کہا: نہیں۔ مَیں نے کہا کہ جب تم جیسا لچر آدمی بھی اپنے آپ کو جھوٹا کہلوانا پسند نہیں کرتا تو بھلا یہ انبیاء کی تمام جماعت کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ وہ جھوٹ بولیں۔
= کسی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے خدا کی شکل اور رنگت کیا ہے؟ مَیں نے پوچھا کہ تیری آواز کی کیا شکل ہے؟ تیری قوّتِ ذائقہ کی کیا صورت ہے؟ تیری بینائی کی کیا رنگت ہے؟ اس نے کہا:کم از کم ان کے مقام تو معین ہیں۔ مَیں نے کہا:کیا زمانے کی کوئی جگہ مقرر ہے؟ زمانے کی کوئی شکل نہیں لیکن زمانہ موجود ہے۔ پس ہم ایسی بہت سی مخلوق کو جانتے ہیں جس کی کوئی جگہ مقرر نہیں کرسکتے تو خدا تو پھر خدا ہی ہے۔
= ایک سراؤگی (جَینی) کے کیڑے پڑگئے۔ مَیں نے تیزاب ڈال کر ان تمام کیڑوں کو ہلاک اور زخم کو صاف کیا۔ وہ مجھ کو بڑی دعائیں دینے لگا اور کہا کہ مہاراج بڑی کرپا ہوئی۔ مَیں نے کہا:کرپا کیا خاک ہوئی، تمہارے مذہب پر تو پانی پھر گیا۔ ایک جیو کے عوض میں ہزاروں جیو ہلاک ہوئے۔
= ایک آریہ نے مجھ سے کہا کہ تم قبلے کی سمت کو کیوں معزز سمجھتے ہو اور نمازوں میں اُس کی طرف منہ کیوں کرتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ ہون کرتے وقت تم اُس کی طرف پشت کیوں نہیں کرتے اور اب جو مجھ سے بات کی ہے تو میری طرف پشت کیوں نہیں کی؟ بولا: مَیں سمجھ گیا۔
= ایک آریہ نے اعتراض کیا کہ تمہاری شریعت میں مَردوں کے واسطے جنّت میں بدلہ ملنے کا ذکر ہے، عورتوں کے لیے نہیں۔ مَیں نےاُسے یہ آیت سنائی کہ لَااُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثیٰ۔
= ایک پادری نے پوچھا کہ بہشت میں کھائیں گے تو پاخانہ کیوں نہ پھریں گے؟ مَیں نے کہا کہ تُو نے نو مہینے ماں کے پیٹ میں کھایا، کیا وہاں پاخانہ بھی پھرتا تھا!۔
= ملک صاحب خان کسی انگریز کی کوٹھی میں گئے تواُس نے پوچھا کہ کیا محمد (ﷺ) سچے رسول تھے؟ وہ کہنے لگے: اَور تو مَیں نہیں جانتا۔ ہاں اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری کوٹھی میں آکر محمدﷺ سچے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ انگریز نے پوچھا: وہ کیسے؟ کہنے لگے: میرے پاس تین لاکھ روپیہ جمع ہے، اسّی برس کی عمر ہے، اولاد کوئی ہے نہیں لیکن پھر بھی یہاں آکر یہی جی چاہتا ہے کہ کچھ مال اَور مل جائے،کچھ زمین مل جائے، کرسی کا درجہ بڑھ جائے وغیرہ۔ لیکن حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ دنیا سے محبت نہ کرو، کسی کا مال نہ لو، کسی کی عورت کو مت دیکھو، زنا نہ کرو۔ پھر یہ کہ اپنی اولاد کے لیے انہوں نے کوئی آمدنی مقرر نہیں کی بلکہ سادات کو زکوٰۃ لینے سے بھی منع کیا۔ اپنی اولاد کے لیے صدقہ بھی حرام کردیا۔ پیغمبری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی آرام حاصل نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے زبردستی ہی پیغمبری کا دعویٰ کرایا ہوگا یعنی خداتعالیٰ نے ہی پیغمبر بنایا ہوگا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی نے یہ حکایت مجھ سے بیان کی تو مَیں نے کہا کہ اب ضرور ملک صاحب خان کے ہاں بھی لڑکا پیدا ہوگا۔ چنانچہ پھر وہ بیٹا (سردار عمر حیات خاں آف ٹوانہ) پیدا ہوا جو آج بھی موجود ہے۔
= جموں میں ایک ہندو پنساری مجھے ہمیشہ نصیحتاً کہا کرتا تھا کہ ہر مہینے میں ایک سو روپیہ پس انداز کرلیا کریں یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں۔ مَیں ہمیشہ یہی کہہ دیا کرتا کہ ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے۔ جس دن مَیں وہاں سے علیحدہ ہوا اُس دن وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی۔ مَیں نے کہا مَیں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا، آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں۔ ابھی وہ مجھ سے باتیں کررہا تھا کہ خزانہ سے 480 روپے تنخواہ کے آئے۔ اُس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ نوردین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا۔
ابھی وہ اپنے غصہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس یہی روپیہ تھا جو سب حاضر ہے۔ اس پر پنساری کا غضب بہت بڑھ گیا۔ اُسے معلوم تھا کہ مجھے کسی کا ایک لاکھ 95 ہزار روپیہ دینا تھا۔ کہنے لگا کہ وہ آپ کو کیسے جانے دیں گے۔ اتنے میں اُن کا آدمی آیا اور بڑے ادب سے کہا کہ میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو جانا ہے، اُن کے پاس روپیہ نہ ہوگا اس لیے تم ان کا سب سامان گھر جانے کا کردو اور جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو اُن کو دے دو۔ یہ دیکھ کر پنساری کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ پرمیشروں کے یہاں بھی کچھ لحاظ داری ہوتی ہے، ہم لوگ صبح سے شام تک کیسے کیسے دکھ اٹھاتے ہیں تب کہیں روپیہ کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ اس احمق کو دیکھو کہ اپنے روپیہ کا تو مطالبہ نہ کیا بلکہ اَور دینے کو تیار ہوگیا۔ مَیں نے کہا ہم اس کا روپیہ انشاءاللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ادا کردیں گے، تم ان بھیدوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔
= بھیرہ پہنچ کر مَیں نے بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولنے اور عالی شان مکان بنانے کا ارادہ کیا۔ ابھی وہ ناتمام ہی تھا اور سات ہزار روپیہ خرچ ہوچکا تھا کہ کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا۔ اور میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں۔ اس واسطے قادیان آیا تو بٹالہ سے واپسی تک کا یکّہ کرایہ پر کرلیا۔ جب حضرت صاحب سے ملا اور پھر اجازت لے کر رخصت ہونے کا ارادہ کیا تو اثنائے گفتگو میں آپؑ نے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہوگئے؟ مَیں نے کہا: ہاں، اب تو مَیں فارغ ہی ہوں۔ پھر یکّہ والے سے مَیں نے کہہ دیا کہ اب چلے جاؤ، کل یا پرسوں اجازت لیں گے۔ لیکن اگلے روز حضرت صاحب نے فرمایاکہ آپ کو اکیلے رہنے میں تکلیف ہوگی آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں۔ مَیں نے حسب الارشاد بیوی کو بلانے کے لیے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ عمارت کا کام بند کردیں۔ جب بیوی آگئی تو آپؑ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہٰذا اپنا کتب خانہ منگوالیں۔ تھوڑے دنوں بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے، اس کو ضرور بلالیں۔ آپؑ کو میرے متعلق الہام بھی ہوا:

لا تصبون الی الوطن فیہ تھان و تمتحن

خداتعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میری واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے اپنے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہوگئے۔
قارئین کرام! اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پُرامن مسکن کی تلاش اور کسی صاحبِ عرفان سے فیض پانے کی خواہش میں قریہ قریہ پھرنے والا یہ بےنفس وجود جب اپنے آقا علیہ السلام کی بستی میں پہنچتا ہے تو مہدیٔ موعودؑ کے قدموں میں ایسی قلبی تسکین پاتا ہے کہ پھر اپنے محبوب کے اشارۂ ابرو کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین قرار دے کر اُسی در پر دھونی رما بیٹھتا ہے۔ امام الزمانؑ کی شناخت کے بعد جس بےمثال اطاعت اور فدائیت کا اظہار آپؓ نے فرمایا اُس پر حضور علیہ السلام نے بےساختہ فرمایا:’’ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘
اس پُرلطف کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے آپؓ کے متعلق ایسے قیمتی ارشادات شامل اشاعت ہیں جو آپؓ کی مطہّر شخصیت اور عظیم روحانی مرتبے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں آپؓ کا وہ خط بھی شامل ہے جو آپؓ کے پُرکیف جذبات کا عکّاس ہے اور جسے حضرت اقدس علیہ السلام  نے اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ کی زینت بناکر آئندہ آنے والی نسلوں کو گویا ایک نصب العین عطا فرمادیا ہے۔ اس خط میں آپؓ نے تحریر فرمایا تھا:
’’مولانا۔ مرشدنا۔ امامنا
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہٗ
عالی جناب ! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے، جس مطلب کے واسطے وہ مجدّد کیا گیا ہے، وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفیٰ دے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہوتو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں، آپ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال ودولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے میں مراد کو پہنچ گیا … مجھے آپ سے نسبتِ فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔‘‘
ابتدائی دَور میں حضورعلیہ السلام کی محبت کو یاد کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار حکیم فضل الدین صاحب نے میری کسی بیماری میں گھبراکر حضرت صاحب کو لکھ دیا کہ بیمار ہیں۔ حضرت صاحب بےتاب ہوکر میرے پاس جموں تشریف لے گئے۔
گویا یہ آتشِ عشق یکطرفہ نہیں تھی۔ بلکہ دونوں بابرکت وجود ہی فنا فی اللہ اور فنا فی الرسولﷺ کے حصار میں محوِ سفر تھے۔ دونوں ایک ہی منزل مقصود کی تلاش میں سرگرداں تھے اور دونوں ہی احیائے اسلام کی تڑپ دل میں بسائے اپنی نیم شبینہ دعاؤں کے ذریعے کسی معجزے کے منتظر تھے۔ ایسے میں جب اعجازِ مسیحائی کا وہ ظہور ہوا جو 23؍مارچ 1889ء کو ایک تخم کی صورت خاکساری کے لبادے میں ملبوس ہوا اور پھر ابررحمتِ باری سے روحانی پیاس بجھاتا ہوا بارآور ہوا، اور برسوں مسیحی نفس کی صحبت میں پروان چڑھنے کے بعد 27؍مئی 1908ء کو ظہورِ قدرتِ ثانیہ کے موقع پر ایک ایسے تناور درخت کی صورت نمودار ہوا جس کی سرسبز شاخوں میں ہزاروں روحانی طیور نے خوف سے امن پایا اور لاکھوں مومن اس شجر سایہ دار تلے تسکینِ جاں اور راحت جاوداں حاصل کرتے رہے۔
حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کس طرح کشمیر کے شاہی دربار سے قادیان پہنچے اور پھر اپنے آقاؑ کے قدموں میں بیٹھ کر اخلاص و محبت اور بےمثال اطاعت کی زرّیں تاریخ رقم فرمائی، اس حوالے سے ‘‘مرقات الیقین’’ کے آخر میں چند صفحات پر مشتمل حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا ایک مضمون شامل ہے۔ حضرت مفتی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ریاست جموں کی ملازمت سے جب حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ علیحدہ ہوئے تو مَیں اُس وقت آپؓ کی خدمت میں موجود تھا کیونکہ مَیں بھی اس وقت جموں ہائی اسکول میں ٹیچر تھا۔ ہزار پندرہ سو روپے ماہوار آپؓ کی آمدنی تھی اور خرچ جو قریباً سارا ہی فی سبیل اللہ ہوتا تھا وہ اس کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتا تھا۔ کبھی آپؓ کی عادت نہ تھی کہ روپیہ پیسہ جمع رکھیں۔ اس حالت میں ملازمت سے اچانک علیحدگی کے باوجود نہ آپؓ کے چہرے پر کوئی ملال تھا نہ اس کا کوئی احساس تھا۔ جیسا روزمرہ آپؓ اپنی نشست گاہ میں کھلادربار لگائے بیٹھے رہتے تھے، ایسا ہی اُس دن اور اس سے دوسرے دن جو تیاریٔ سفر کا دن تھا، آپ حسب معمول بیٹھے رہے۔ جموں سے آپؓ اپنے وطن بھیرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپؓ کے مکان کے سامنے آپؓ کی مملوکہ بہت سی خالی زمین پڑی تھی۔ اس پر مطب اور مہمانوں کی رہائش کے واسطے مکانات بننے شروع ہوگئے۔ یہ غالباً 1892ء کا واقعہ ہے۔ بھیرہ پنجاب بھر کے بیماروں کے واسطے رجوعِ مرکز بننے لگا۔ صدہا بیماروں کا روزانہ علاج کیا جاتا اور دوائی حسب معمول مفت دی جاتی۔ 1893ء میںکسی ضرورت کے واسطے دو تین دن کے لیے آپؓ لاہور آئے تو ایک روز کے واسطے قادیان بھی آگئے۔ وہاں حضرت صاحبؑ کا یہ منشا معلوم ہوا کہ آپ اب ملازمت سے فارغ ہوگئے ہیں، اب یہیں رہیں۔ یہ سنتے ہی آپؓ نے فرمایا: بہت اچھا۔ اور پھر وہیں رہ پڑے۔ بس جیسے آئے تھے ویسے ہی بیٹھ گئے۔ یہ تھی فرمانبرداری کی روح۔
قادیان میں آبیٹھے تو پھر کبھی بھیرہ جانے کا خیال بھی نہ کیا۔ پھر قادیان میں ہی زمین خرید کر کچی دیواروں کے مکان بنوالیے۔ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے، پھر طالب علموں کو حدیث و طبّی کتب کا درس دیتے۔ مثنوی شریف اور حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب کا درس بھی گاہے دیتے۔ بعدنماز عصر قرآن کریم کا درس دیا کرتے۔ مہمانوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے، غرباء کی امداد کا خیال رکھتے، لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین اور بدیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے۔ مسائل دینیہ و طبیہ سے متعلق آنے والے خطوط کا جواب لکھتے اور لکھواتے رہتے۔ صبح سے شام بلکہ اکثر عشاء تک، نمازوں کے اوقات کے علاوہ، اپنی اس نشست گاہ میں بیٹھے رہتے جس میں صرف چٹائی بچھی ہوتی تھی اور آپؓ کے واسطے کوئی الگ مسند نہ ہوتی تھی۔ ہر طرح کے حاجت مند آتے اور آپؓ سے مستفیض ہوتے۔ اس کھلے دربار پر کبھی کوئی دربان مقرر نہ ہوا۔ عموماً صبح کے وقت اندر زنانہ میں عورتوں کو بھی درس قرآن دیا کرتے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مسجد مبارک میں امام الصلوٰۃ تھے، اُن کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری آپؓ کے سپرد ہوئی۔ آپؓ کی عادت باہر سیر کے واسطے جانے کی نہ تھی۔ لیکن گاہے حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو اپنے ساتھ سیر کے واسطے باہر لے جایا کرتے تھے۔
جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو آپؓ اس میں عربی پڑھاتے رہے۔ صدرانجمن احمدیہ کے آپ پریذیڈنٹ تھے اور حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ مولوی صاحب کی ایک رائے انجمن میں سو رائے کے برابر سمجھنی چاہیے۔
چونکہ حضرت مسیح موعودؑ اکثر تصنیف کے کام میں مصروف رہتے تھے لہٰذا حضورؑ کا ادب کرتے ہوئے آپؓ تصنیف کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے حکم سے آپؓ نے صرف ایک کتاب تصنیف کی جو ایک آریہ دھرمپال کی کتاب ‘‘ترک اسلام’’ کے جواب میں تھی۔ اس کتاب کے ابواب باری باری حضرت مفتی صاحبؓ شام کی مجلس میں حضرت مسیح موعودؑ کو سنایا کرتےاور حضورؑ نے ہی اس کتاب کا نام ‘‘نورالدین’’رکھا۔
قادیان میں آپؓ کے گزارے کی صورت بظاہر طبّ کے سوا اَور کچھ نہ تھی مگر آپؓ کے خانگی اخراجات، مہمان نوازی، یتامیٰ و مساکین کی پرورش، دینی مالی خدمات میں سب سے بڑھ کر حصہ لینا۔ ان سب پر ایک معقول رقم خرچ ہوتی تھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور مجھے رزق

مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ

عطا کرتا رہتا ہے۔ کبھی آپؓ کی کوئی ایسی ضرورت نہ ہوتی تھی جو پوری نہ ہوجائے اور غیب سے اس کے واسطے سامان بن نہ جائے۔
قادیان آجانے کے بعد آپؓ نے کوئی سفر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے بغیر نہیں کیا۔ ایک بار ریاست جموں کے بعض اراکین نے باصرار آپ کو چند روز کے واسطے بلایا۔ اور وہاں مہاراجہ نے آپؓ سے خواہش کی کہ پھر ریاست میں ملازمت کرلیں لیکن چونکہ اس امر کے واسطے حضورعلیہ السلام سے کوئی اجازت نہ تھی اس واسطے آپؓ نے انکار کردیا۔ایک بار ریاست بہاولپور کے نواب صاحب نے اپنے علاج کے واسطے آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے اجازت حاصل کرکے بلوایا تھا۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیرکوٹلہ کی درخواست پر حضرت مسیح موعودؑ نے درس قرآن و حدیث دینے کے واسطے مالیرکوٹلہ بھیجا اور ایک سال سے کچھ زائد عرصہ آپؓ کا وہاں قیام رہا۔ آریاؤں کے ایک جلسے میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک مضمون پڑھنے کے واسطے آپؓ لاہور بھی تشریف لے گئے۔ یہ مضمون بعدازاں ’’چشمۂ معرفت‘‘ کے طور پر شائع ہوا۔ 1905ء میں حضرت مسیح موعودؑ دہلی تشریف لے گئے تو چند روز بعد آپؓ کو بھی وہاں بلالیا۔ اسی طرح آپؓ اُس سفرِ لاہور میں بھی ہمراہ تھے جس سفر میں حضورعلیہ السلام نے وفات پائی۔
اپنے زمانۂ خلافت میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ ایک مقدمے کی شہادت کے واسطے ملتان تشریف لے گئے تھے اور وہاں سے واپسی پر لاہور میں آپؓ نے ایک لیکچر دیا۔ پھر حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان اور دکان کا سنگ بنیاد رکھنے کے واسطے بھی آپؓ لاہور تشریف لے گئے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر جب حضرت اُمّ المومنینؓ کی خدمت میں مکرم خواجہ کمال الدین صاحب اور دیگر اصحاب حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ بنایا جائے۔ جب آپؓ کی خدمت میں لوگوں کی رائے عرض کی گئی تو آپؓ نے ایک لوٹا پانی کا منگوایا اور وضو کیا اور نواب محمد علی خان صاحب کے مکان میں علیحدگی میں نماز پڑھی اور سجدہ میں گرکر بہت روئے۔ اس کے بعد سب لوگ باغ میں جمع ہوئے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کا جسدمبارک چارپائی پر رکھا تھا۔ وہاں ایک تحریر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے پڑھ کر سنائی جس میں آپؓ کی خدمت میں یہ درخواست تھی کہ عہدۂ خلافت کو قبول کریں اور یہ کہ ہم سب آپؓ کی اسی طرح اطاعت کریں گے جس طرح حضرت مسیح موعودؑ کی اطاعت کرتے تھے۔ اس پر ممبران انجمن اور دیگر اکابران کے دستخط ثبت تھے۔ اس کے بعد آپؓ نے ایک تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مَیں تو چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے یا کسی اور بزرگ کو خلیفہ بنایا جاتا۔ تم مجھے خلیفہ بنانا چاہتے ہو تو تم کو میری اطاعت کرنی ہوگی۔ اس پر سب نے کہا کہ ہم اطاعت کریں گے۔ پھر آپؓ بیٹھ گئے اور بیعت شروع ہوئی۔ دعا کے بعد آپؓ نے حضور علیہ السلام کا جنازہ پڑھایا۔ابتدائے خلافت میں آپؓ اکثر وقت خلوت میں دعاؤں میں بہت مصروف رہتے۔ اس واسطے آپؓ کے لیے ایک علیحدہ کمرہ بنوادیا گیا تھا۔فرمایا کرتے کہ میرے کندھوں پر ایک بڑا بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہے جس سے مَیں دبا جاتا ہوں۔ کچھ عرصے کے بعد بیماروں کے علاج کے لیے پھر اپنے مطب میں بیٹھنا شروع کردیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہوگیا۔ قرآن و حدیث اور طبّ پڑھنے والے آپؓ کے شاگرد ہزارہا ہیں۔ حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو آپؓ نے خصوصیت سے قرآن شریف، بخاری اور مثنوی مولانا روم پڑھائی۔ ویسے آپؓ کا فیض عام تھا۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہزارہا آپؓ کے ممنون احسان تھے۔ آپؓ کی وفات پر قادیان کے بعض ہندو بھی روتے تھے۔
حضورؓ کے زمانۂ خلافت میں جو اہم واقعات ہوئے اُن میں مدرسہ احمدیہ کا قیام، محلّہ دارالعلوم کی زمین کی خرید، مدرسہ تعلیم الاسلام اور بورڈنگ ہاؤس کی شاندار عمارات کی تعمیر، مسجد نُور کی تعمیر، نُور ہسپتال کا قیام، اخبار نُور کا اجرا، اخبار الفضل کا اجرا، لندن میں پہلے احمدیہ مسلم مشن کا قیام شامل ہیں۔ حضورؓ کے دورِ خلافت میں بہت سے شہروں میں احمدیوں اور غیراحمدیوں کے درمیان مباحثات ہوئے۔ واعظینِ سلسلہ نے ہندوستان کے مختلف حصوں کے تبلیغی دورے کیے۔ غیراحمدیوں نے کئی جلسوں میں احمدی واعظین کو بھی اپنے جلسوں میں بلایا۔
جب حضورؓ گھوڑی سے گر کر زخمی ہوئے اور بعدازاں زخموں میں پیپ پڑ جانے کے سبب آپریشن ہوا تو آپؓ کی صحت بہت کمزور ہوگئی۔ خلافِ عادت سردیوں میں جرابیں پہننی شروع کیں اور ہاتھ میں لمبا عصا لے کر اس پر ٹیک لگاکر چلنے لگے۔ بیماری کے دوران حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو اپنی جگہ نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کے واسطے مقرر فرمایا۔ آخری بیماری میں آپؓ کو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ اپنی کوٹھی پر لے گئے تھے اور آخر دم تک انہوںنے خدمت کی غیرمعمولی توفیق پائی۔ اور وہیں آپؓ کی وفات ٹیوبرکلوسس یعنی دق کے نتیجے میں 13؍مارچ 1914ءکوہوئی۔ اگلے روز حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر کے متّصل تدفین ہوئی۔
حضورؓ کی وفات کے وقت آپؓ کی اہلیہ اوّل حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ وفات پاچکی تھیں اور اُن کی اولاد میں سے ایک لڑکی بی بی حفصہ زوجہ حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ زندہ تھیں۔ جبکہ اہلیہ ثانی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ اور اُن کی اولاد میں پانچ لڑکے اور ایک لڑکی حضرت امۃالحئی صاحبہؓ زندہ موجود تھے۔ بیٹی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے نکاح میں آئیں۔ ایک بیٹے حضورؓ کی وفات کے چھ ماہ بعد اور ایک بیٹے قریباً ایک سال بعد وفات پاگئے۔
حضورؓ نے تین بار وصیت لکھی۔ پہلی بار 1905ء میں اُس وقت لکھی جب زلزلوں کے سبب حضرت مسیح موعودؑ اور چند دیگر اصحاب حضورعلیہ السلام کے باغ میں فروکش تھے۔ ایسے میں آپؓ نے جو وصیت لکھی وہ ایمان، عقائد اور عملیات میں آپؓ کی عمربھر کی تحقیق کا خلاصہ ہے۔ یہ وصیت بعدازاں اخبار ’’بدر‘‘ میں شائع ہوئی۔ دوسری وصیت آپؓ نے اُس وقت لکھی جب آپ گھوڑی سے گر کر بیمار ہوئے۔ ایک شب آپؓ کو خیال ہوا کہ سوجن دل کی طرف جارہی ہے تب آپؓ نے اُسی وقت قلم دوات طلب کی اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے:’’خلیفہ۔ محمود‘‘۔ پھر اپنے ایک شاگرد کو وہ کاغذ دیا کہ لفافے میں بند کرکے اپنے پاس رکھو۔ بعدازاں اس شاگرد کے ذریعے سے اس لفافے کے مضمون سے آگاہی ہوئی۔ البتہ صحت یاب ہوجانے پر آپؓ نے وہ لفافہ منگواکر پھاڑ دیا۔
تیسری وصیت آپؓ نے اپنی وفات سے چند یوم قبل کی۔ اس میں تاکید کی کہ جو آپؓ کا خلیفہ ہو وہ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے اور نئے مریدوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرے۔ یہ وصیت آپ نے مولوی محمد علی صاحب سے دو دفعہ بآوازِ بلند پڑھوائی اور پھر اسے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے سپرد کردیا۔ حضورؓ نے شعبہ وصایا کے ماتحت بھیرہ میں اپنی زرعی زمین صدرانجمن احمدیہ کو ہبہ کردی جبکہ بھیرہ اور قادیان کے اپنے مکانات اور کتب خانہ وقف علی الاولاد کردیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے آپؓ کی سعید فطرت پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے برملا اس کا اظہار یوں بھی فرمایا کہ

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے

(کیا ہی اچھا ہو اگر اُمّت کا ہر فرد نورالدین بن جائے۔ ایسا ہونا ممکن ہے اگر ہر دل یقین کے نورسے پُرہوجائے۔)

پیارے قارئین! مذکورہ بالا شعر میں حضورعلیہ السلام کی ارشاد فرمودہ بےقرار تمنّا کی حکمت جاننے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ’’مرقات الیقین فی حیات نورالدین‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ خدا کرے کہ سیّدنا حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کا نقش قدم ہمارا قدم بن جائے۔ آمین
یہ بےمثال سوانح حیات احمدیہ کتب خانوں کے علاوہ ویب سائٹس alislam.org اور khadimemasroor.uk پر دستیاب ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں