تھرونگرپارکر کا تعارف

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ فروری 2011ء میں ایک معلوماتی مضمون شامل ہے جس میں مکرم محمد عاصم حلیم صاحب (معلّم وقف جدید) نے تھرونگرپارکر کا تعارف کروایا ہے۔
تھرونگرپارکر کا رقبہ ہزاروں میل ہے جس میں کھیتی باڑی کا انحصار بارشوں پر ہے۔ اگر موسم کے مطابق بارشیں ہوجائیں تو ہر طرف سبزہ قابل دید ہوتا ہے ورنہ قحط سالی ہوجاتی ہے اور مقامی لوگ جانوروں کو لے کر دیگر علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے گزارہ کرتے ہیں۔محکمہ تعلیم سندھ نے یہاں اسکولوں کی خوبصورت عمارتیں تو بنادی ہیں مگر تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے والے نظر نہیں آتے۔ والدین کو بھی اس کا شعور نہیں ہے۔
یہاں کا موسم عموماً معتدل رہتا ہے۔ ساحل سمندر کی ہوائیں اکثر چلتی ہیں۔ سردیوں میں جانور کھلے اور باہر ہی رہتے ہیں۔ چوری اور گُم ہونے کا احتمال کم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آجائے تو کھرا نکالنے کے یہ لوگ ماہر ہیں۔
یہاں کی خوراک عموماً باجرہ اور گندم ہے۔ دودھ، دہی بھی استعمال ہوتا ہے۔ چائے بکثرت پی جاتی ہے۔ تِل، دال مونگ بھی میسر ہوتے ہیں۔ بارشوں میں تربوز، خربوزہ اور خودرَو چبھڑ مَن بھاتا خوراک ہیں۔ ایک جنگلی درخت جنڈ کی پھلیاں بطور سبزی خشک کرکے سارا سال استعمال کی جاتی ہیں۔
علی الصبح چار پانچ بجے عورتیں چکّی پر آٹا پیسنے سے دن کا آغاز کرتی ہیں۔ جانوروں کا دودھ دوہنا، دودھ بلونا، دُور سے پانی لانا، چائے مہیا کرنا اور کھیتی باڑی میں مَردوں کا ہاتھ بٹانا بھی اُن کے فرائض میں شامل ہے۔ لباس مختصر ہونے کے باوجود عورتیں پردہ کی سخت پابند ہیں اور رواج کے مطابق بہو اپنے سسر سے اور ساس اپنے داماد سے پردہ کرتی ہے۔ رشتہ ناطہ اپنی برادری سے باہر کرتے ہیں بلکہ اپنی گوٹھ سے بھی دُور رشتہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بارات میں باراتی کم اور جہیز مختصر ہوتا ہے۔
اب لمبے سفر میں کافی آسانی پیدا ہوچکی ہے ورنہ پہلے کچے راستہ پر سفر بہت دشوار گزار ہوتا تھا۔ نوکوٹ سے نگرپارکر کا قریباً دو سو میل کا سفر بارہ گھنٹے میں طَے ہوتا تھا۔ لیکن مقامی سفر اب بھی پیدل یا اونٹ گھوڑوں پر کیا جاتا ہے۔ گھڑسواری کے یہ لوگ ماہر ہیں۔ سخت گرمی و سردی میں اکثر کھلے ٹرکوں پر بچوں اور عورتوں کو سفر کرنا پڑتا ہے۔ سفر میں پانی کا پاس ہونا ضروری ہے۔ رات کو پیدل سفر میں روشنی اور لاٹھی رکھنا بھی لازمی ہے کیونکہ سانپ، بچھو اور دیگر حشرات بکثرت پائے جاتے ہیں۔
بڑی ذات کے ہندو (ٹھاکر، بنیے اور براہمن وغیرہ) چھوٹی ذات کے لوگوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ہندو بھگت اکثر وشنو ہوتے ہیں یعنی کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے بلکہ انڈا، شہد اور سرخ پیاز سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور مادہ سواری پر سفر کرنا گناہ تصوّر کرتے ہیں۔ چمڑے کی جوتی کی بجائے لکڑی کے کھڑاواں پہنتے ہیں۔ ایسے بھگتوں کو مرنے کے بعد جلانے کی بجائے قبر میں اکڑوں بٹھاکر دفناتے ہیں۔ یہاں ہندوؤں میں چوری کرنا اور بھیک مانگنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ محنت مزدوری یا قرضہ پر گزارہ کرلیتے ہیں۔
میلوں اور شادی بیاہ پر رات بھر گانا بجانا اور تاش بینی جاری رہتی ہے۔ ڈھولکی بجانے کے سب استاد ہیں۔ لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ جو گھر میں میسر ہو وہ بے تکلّف پیش کردیتے ہیں۔ مذہبی تعصب بالکل نہیں ہے۔ بلکہ مذہبی باتیں شوق سے سنتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے بلکہ محبت اور ہمدردی سے رہنا پسند کرتے ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہندو مسلمان ایک دوسرے کی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں مگر کھانے کا انتظام الگ الگ ہوتا ہے۔
نگرشہر سے چند میل کے فاصلہ پر ایک قدیم اور یادگار مسجد ہے جو سنگ مرمر کے بڑے بڑے بلاکوں سے بنائی گئی ہے۔ قریب ہی سادہ پتھروں سے بنا ایک اونچا مندر بھی موجود ہے۔ ایک وسیع تالاب بھی پہاڑ کے دامن میں بنا ہوا ہے۔ ویسے سارے علاقہ میں کئی کچے اور پختہ تالاب ہیں جو موسمی بارشوں سے بھر جاتے ہیں اور علاقہ بھر کے جانور، انسان، چرند پرند یہی پانی پیتے ہیں بلکہ کپڑے دھونے اور نہانے کا بھی یہی تالاب واحد ذریعہ ہیں۔ نگرشہر کے قریب واقع جبل (پہاڑ) میں ہندوؤں کا ایک پرانا مندر ہے جہاں ہر سال ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے اور یہاں کے تالاب میں گنگایاترا کی طرح سب اشنان کرتے ہیں۔ یہاں ہر قوم اور ہندو ذات کی الگ الگ محفل لگتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے تھرونگرپارکر کے علاقہ کو احمدیت اپنے نُور سے منور کر رہی ہے اور یہاں کے لوگوں کی اخلاقی، طبّی، معاشرتی اور روحانی ترقی میں خدمت بجالارہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں