جلسہ سالانہ جاپان 2006ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

آپس کے تعلقات اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح عبادات۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہے، بنیان مرصوص بنانے والی ہے۔
احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے خوبصورت پیغام کو اگر حقیقی طور پر اس ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں تو آپس میں محبت اور بھائی چارے اور ہمدردی کی فضا پیدا کریں ۔
خلیفۂ وقت یا نظام جماعت کسی سے صَرفِ نظر یا پردہ پوشی ایک حد تک کرتا ہے ۔اگر حدوں سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جائے ،یا یہ نظر آرہا ہو کہ جماعت کا وقار مجروح ہو رہا ہے توپھر یقینا سزا بھی ملتی ہے ۔پس عہدیدار خاص طور پر اور ہر احمدی عمومی طور پر اپنے رویّے بدلے ۔
اگرکسی بھائی سے معمولی غلطی ہوجاتی ہے تو اس کو معاف کرنے کی کوشش کریں ۔کسی کی غلطی پر مرکز کو بھی پوری طرح واضح نہ کر کے، لاعلم رکھ کر اتنی سزا نہ دلوائیں کہ وہ سزا اس جرم سے بھی زیادہ بڑھ جائے۔ ایک احمدی کے لیے چاہے وہ جیسا بھی ہو نظام جماعت سے علیحدگی اور خلیفۂ وقت کی ناراضگی موت سے کم نہیں ہوتی۔ پس عہدیداروں کو اپنے رویّے بدلنے چاہئیں۔ امیر جماعت کو اپنے رویّے بدلنے چاہئیں۔
جاپانی ماؤں سے مَیں کہتا ہوں کہ اب جب کہ آپ نے احمدیت کو قبول کرلیا ہے تو پاکستانی مردوں کے رویّے کی وجہ سے اپنے اللہ سے کئے گئے عہد کو نہ توڑیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جاپانی قوم سے بہت اعلیٰ توقعات رکھی ہیں ۔اور انشاء اللہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش نے پورا ہونا ہے ۔اور جب پورا ہونا ہے تو پھر کیوں نہ آج آپ جو چند ایک جاپانی احمدی ہیں اس کام کو سنبھال لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے سلطان نصیر بن کر کھڑے ہو جائیں ۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق جوڑنا ہے ، اگر خلافت سے تعلق جوڑنا ہے تو بجائے تکبر دکھانے کے ،بجائے اپنے عہدہ کا اظہار کرنے کے عاجزانہ راہیں دکھائیں ۔
جماعت احمدیہ جاپان کے 26ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر 13؍مئی2006ء کو ناگویا میں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جاپان کا جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس جلسہ سالانہ میں شرکت کی توفیق دی۔ کل خطبہ جمعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یہاں سے تمام دنیا میں نشر ہوا۔
جیسا کہ مَیں نے کل بھی خطبہ جمعہ میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے مزید بڑھانے کے لیے ہمیں اس کے آگے جھکنا چاہیے، اس کی عبادت کرنی چاہئے اس کا شکرگزار بندہ بننا چاہئے اور اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں اس کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا بھی ہے ۔اپنے اخلاق کو درست کرنا بھی ہے ۔نظام جماعت کی اطاعت بھی ہے۔ نظام جماعت کی مضبوطی کے لیے کوشش کرنا بھی ہے۔ اس وقت میں مختصراً چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا ۔
پہلی اور بڑی اہم بات یاد رکھیں کہ بندے کے بندے پر جو حقوق ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے اور یہ جذبہ اس وقت حقیقت کا روپ دھارتا ہے جب ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لیے محبت ،پیاراور ہمدردی کا جذبہ ہو ۔وہ اس حقیقت کو جانتا ہو کہ محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں ۔
آج جماعت احمدیہ ہر جگہ بڑے دعوے سے کہتی ہے کہ ہمارا یہ نعرہ ہے کہ محبت سب کے لیے اور نفرت کسی سے نہیں۔ لیکن اگر غیر جو احمدی نہیں ہیں ہمارے اندر کے حالات جاننے والے ہوں ،غور کریں کہ یہ سب سے محبت کے دعویدار اور نفرتوں سے کراہت والے جو لوگ ہیں ان کے اپنے عمل کیا ہیں؟ کہیں یہ دنیا دکھاوے کے لیے، دنیا کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے تو یہ نعرہ نہیں لگا رہے ۔کہیں یہ سیاسی شعبدہ بازوں کی طرح صرف کھوکھلے نعروں کا سہارا تو نہیں لے رہے تاکہ وقت کی ہوا کا رخ اپنی طرف پھیر کر اپنے ذاتی مقاصد حاصل کر لیں ۔ اگر یہ بات دنیا کو نظر آگئی تو ہر وہ احمدی چاہے وہ عہدیدار ہے یا ایک عام احمدی ہے ۔مرد ہے یا عورت ہے، احمدیت کے نام کو بٹہ لگانے والا ہے۔ جماعت کو بدنام کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کو اونچا کرنے کی بجائے آپ کو گمنام کرنے والا ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا تھا کہ میری طرف منسوب ہو کر پھر مجھے بدنام نہ کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 411 ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا تھا کہ تااس کے ذریعہ سے آپس میں محبت، مودت، پیار، بھائی چارہ بڑھے، ایک دوسرے سے تعارف حاصل ہو۔ (ماخوذ از آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)
اگر تو یہ تعارف نفرتوں میں بڑھنے کے لئے حاصل کرنا ہے تو نہ ہی اس تعارف کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ایسے جلسوں کے انعقاد کی کوئی ضرورت ہے ۔پس آپس کے یہ تعلقات اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح عبادات۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو جماعت میں مضبوطی پیدا کرنے والی ہے، بنیان مرصوص بنانے والی ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ اور کیسا پاک او رایک دوسرے کا ہمدرد بنانا چاہتے ہیں ؟ اس کی وضاحت آپ کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ کس طرح ہمیں اپنے آپ کو بدلنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ فرمایا :۔
’’ اور مَیں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے، خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں۔ مجھے خدا نے جو مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو۔اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ۔ اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤگے۔ کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے ۔سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو۔ تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے؟ کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو۔ نہیں، بلکہ مذہب اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے۔ او روہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں۔ خدا کے لئے سب پر رحم کروتاآسمان سے تم پر رحم ہو ۔آؤ مَیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو ‘‘۔(کمینہ پن اور کینوں اور حسد کو چھوڑ دو)’’اور ہمدردِ نوع انسان ہو جاؤ۔ اور خدا میں کھوئے جاؤ۔ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کروکہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہو تی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں۔ مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ترقی کرو، ترقی کرو۔ اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اوّل بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کردیتی ہیں۔ تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے۔ تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مار کھا کریک دفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہوجاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے۔ یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے۔ اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے‘‘ ۔یعنی اس کا انحصار اسی پرہے۔ ’’یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خداتعالیٰ فرماتا ہے

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:10)

یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا ‘‘۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 14-15)
تو یہ آپؑ کی خواہش اور آپؑ کی تعلیم اور وہ معیار ہے جو آپؑ اپنی جماعت میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔پہلی نصیحت یہی ہے کہ شر سے پرہیز کرواور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوگا بلکہ محنت کرواپنے دلوں کو پاک کرو تبھی فلاح پاؤ گے ۔
ہمدردی کا معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے اپنوں کے ساتھ تو ہمدردی کرنی ہی ہے۔ پہلی نصیحت ہی یہی ہے ۔ اس کے بارہ میں تو بڑے واضح احکامات موجود ہیں ۔اپنوں کے جذبات کا تو خیال رکھنا ہی ہے کیونکہ یہ جماعت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے۔ تم احمدی صرف اپنے تک ہی محدود نہ رہو ۔بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کُل بنی نوع انسان کی،کل انسانیت کی ہمدردی کرواور ہر شر سے پرہیز کرو۔تمہارے سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی دشمن کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم غلط طریق سے اس کو نقصان پہنچانے والے ہو۔اگر تم ایسا کرو گے تو تم اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والے نہیں ہو گے ۔تم انصاف پر قائم نہیں ہو گے ۔اور جو انصاف پر قائم نہ ہو وہ دوسرے کو کیا دعوت دے سکتا ہے کہ آؤ میرے دین کے حسن کو دیکھو ۔تم کس طرح بتا سکتے ہو کہ میں اس نبی کو ماننے والا ہوں جو ہر طرف محبتیں بکھیرنے والا تھا ۔تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ میں اُس تعلیم کو ماننے والا ہوں جو دشمن سے بھی عدل وانصاف کا حکم دیتی ہے ۔اور یہ اعلان کرتی ہے کہ

لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ (سورۃ المائدۃ آیت 9)

یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو ۔تمہاری باتیں سن کر غیر یقینا یہ کہیں گے کہ ٹھیک ہے تمہاری تعلیم تو بہت اچھی ہے ۔مگر یہ بتاؤ تمہیں اس تعلیم نے کیا فائدہ دیا جو ہمیں اس طرف بلا رہے ہو ۔تم احمدی خود تو ایک دوسرے کے لیے دلوں میںبغض وکینے لئے بیٹھے ہو۔تم خود تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہو۔تم خود تو دنیاوی نام ونمود کے لئے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے اپنے دوستوں سے بھی ،احمدیوں سے بھی ،اپنے ماتحتوں سے بھی عدل وانصاف سے کام نہیں لے رہے۔ پہلے اپنے آپ کو سنبھالو،پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے اپنے آپ کو بے داغ کپڑے کی طرح صاف کرو۔ پھر ہمیں کہنا کہ اسلام کی تعلیم بڑی اچھی ہے۔ پہلے خود اپنے اندر اپنی تعلیم کے مطابق ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت اور ہمدردی کا نمونہ پیش کرے اور

رُحَمَآء بَیْنَھُمْ (الفتح:30)

کی مثال قائم کرے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار اور محبت سے پیش آنے والے بنو۔ کیونکہ تم آج جس خوبصورت تعلیم کا حوالہ دے رہے ہو اور یہ کہہ رہے ہو کہ ہمیں اس کو اپنانا چاہئے ، ہمیں اس کی تبلیغ کر رہے ہو اگر اس کو دیکھتے ہوئے کوئی آپ کو کہے کہ میں اگرتمہارے میں شامل ہو گیا تو کل تم مجھ سے بھی وہی سلوک کرو گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم سے دور رہ کر مَیں تمہارے سے بہتر تعلقات رکھوں، نہ کہ قریب آکر خود بھی ان بغضوں اور کینوں کے بیج اپنے دل میں بوؤں۔
پس اپنے پیغام کو،احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے خوبصورت پیغام کو اگر حقیقی طور پر اس ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں تو آپس میں محبت اور بھائی چارے اور ہمدردی کی فضا پیدا کریں ۔اگر نہیں تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دیکھ کر اگر کوئی احمدیت میں شامل ہو بھی جاتا ہے تو کل اپنے ساتھ مختلف سلوک دیکھ کر دین سے متنفر بھی ہو سکتا ہے اور اگر کوئی شخص مرد یا عورت آپ عہدیداروں ،چاہے وہ امیر ہو یا کوئی بھی اَور ہو، یا ایک عام احمدی بھی ہو آپ لوگوں کے عمل اور رویّے دیکھ کر اور اپنے ذاتی مفادات کی ترجیحات کودیکھتے ہوئے دین سے متنفر ہوتا ہے تو اس کا گناہ ان دوڑانے والوں کے سر پر ہے ۔
پس مَیں عہدیداروں کو چاہے وہ امیر ہوں یا کوئی دوسرے عہدیدار ہوں پہلے کہتا ہوں کہ آپ کواللہ تعالیٰ نے خدمت کا جو یہ موقع دیا ہے اس میں چاہے صدر جماعت ہے یا ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہیں، امیر جماعت ہے آپ لوگوں کو ان لغو حرکات کو چھوڑنا ہوگا۔اور اگر نہیں چھوڑیں گے تو جماعتی طور پر جو ایکشن ہوگا وہ تو ہوگا ہی، اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی یہ سب کچھ ہے ۔اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ آپ لوگ، عہدیداران کس طرح کام کر رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہاری ان تمام حرکات سے آگاہ ہوں۔پس اگر اللہ کا خوف ہے تو اپنے دلوں کو بدلیں ۔اپنے عملوں کو ٹھیک کریں ۔اللہ نے جو خدمت کا موقع دیا ہے اس کو فضل الہٰی جانیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے اوپر احسان سمجھیں، نہ کہ گروپ بندیاں کر کے سیاست کی دکان چمکانے کی کوشش کی جائے۔ خلیفۂ وقت یا نظام جماعت کسی سے صَرفِ نظر یا پردہ پوشی ایک حد تک کرتا ہے ۔اگر حدوں سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جائے ،یا یہ نظر آرہا ہو کہ جماعت کا وقار مجروح ہو رہا ہے توپھر یقینا سزا بھی ملتی ہے ۔پس عہدیدار خاص طور پر اور ہر احمدی عمومی طور پر اپنے رویّے بدلے ۔اپنے اندر اپنے بھائیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کریں۔
اگرکسی بھائی سے معمولی غلطی ہوجاتی ہے تو اس کو معاف کرنے کی کوشش کریں ۔کسی کی غلطی پر مرکز کو بھی پوری طرح واضح نہ کر کے، لاعلم رکھ کر اتنی سزا نہ دلوائیں کہ وہ سزا اس جرم سے بھی زیادہ بڑھ جائے اور بے چارے کو مار کر ہی دم لیں ۔ایک احمدی کے لیے چاہے وہ جیسا بھی ہو نظام جماعت سے علیحدگی اور خلیفۂ وقت کی ناراضگی موت سے کم نہیں ہوتی۔ پس عہدیداروں کو اپنے رویّے بدلنے چاہئیں۔ امیر جماعت کو اپنے رویّے بدلنے چاہئیں۔اس بارہ میں پہلے بھی مَیں خطبات میں کہہ چکا ہوں۔ یا تو یہ عہدیدار خطبات سنتے نہیں ہیں یا وہ باتیں اپنے لیے نہیں سمجھتے یا مغلوب الغضب ہو کر ان باتوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔یاد رکھیں کہ اگر کسی کے خلاف سچی شکایت ہو تو مَیں اس کے بارہ میں بات کر رہا ہوں کہ اس کو اتنی ہی سزا ہونی چاہئے۔ اگر جھوٹی شکایت ہو اور صرف اپنی اَنانیت کی خاطر کسی کو سزا دلوائی جاتی ہے تویہ اس حدیث کے مطابق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرکوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے حق میں میرے سے فیصلہ کروالیتا ہے اور دوسرے کا حق مارتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں آگ کا گولہ ڈالتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات باب من اقام البینۃ بعد الیمین حدیث 2680)
اگر آ پ لوگ بھی خلیفۂ وقت سے کسی کے خلاف ایسے فیصلے کروا لیتے ہیں تو آگ کا ٹکڑا اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلے کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگرہمدردی کے جذبات سے پُر ہو کر سزا بھی دلوانی ہو تواصلاح کی خاطر سز ادلوانی چاہیے نہ کہ اپنے کینوں اور بغضوں کی تسکین کے لیے۔
پس یہ ہمدردی اور رحم کے جو جذبات ہیں عہدیدار بھی اپنے اندر پیدا کریں اور عام احمدی بھی اپنے اندر پیدا کریں ۔ہر احمدی کے آپس کے تعلقات بھی ایسے ہوں جو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں ۔کسی کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں۔ کسی کو ہنسی اور ٹھٹھّے کا نشانہ نہ بنائیں۔ یہ باتیں ہمدردی سے دور لے جانے والی ہیں ۔اس سے معاشرے میں فساد اور فتنہ پیدا ہوتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں اس وقت بڑھتی ہیں ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اس وقت ہوتی ہے جب بد ظنیاں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور پھر یہ بدظنیاں بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں جو تعلقات میں دراڑیں ڈالتی ہیں۔ فاصلے بڑھنے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ بدظنیاں پھر ایسی کہانیوں کی اختراع کرتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے ان بدظنیوں کو اللہ تعالیٰ نے گناہ قرار دیا ہے۔ پھر ان بدظنیوں کی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا تھا ایسی ایسی کہانیاں بنائی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور کسی کے متعلق یہ کہانیاں بناکر پھر معاشرہ میں اڑائی جاتی ہیں ۔الزام تراشیاں کی جاتی ہیں۔مجلسوں میں بیٹھ کر دوسرے کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں ۔کوئی برائی کسی میں ہے یا نہیں ہے اس کو اچھالا جاتا ہے، اپنے زبان کے مزے لینے کے لئے ڈِسکس (Discuss) کیا جاتا ہے اور یہی چیز غیبت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح باتیں کرنے کو مردہ بھائیوں کا گوشت کھانے والے کے برابر قرار دیا ہے۔
کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اگر کسی کی برائی جو اس طرح مجلس میں بیان کی گئی ہے اُس میں موجود ہو تو کیا پھر بھی اس کا بیان گناہ ہے؟ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو غیبت ہے۔ اور اگر یہ برائی اس میں ہے ہی نہیں تو یہ اس پر اتّہام ہے ۔اس پر جھوٹا الزام ہے۔ جھوٹی باتیں پھیلانے والی بات ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الغیبۃ حدیث 6593)
تو جو لوگ اس طرح بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت اور چغلی کرتے ہیں ان کو اس سے باز آجانا چاہیے۔
پھر حسد ایک ایسی بیماری ہے جو سارے معاشرہ میں فساد پیدا کرتی ہے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں حاسد کے شر سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ (سورۃالفلق) حاسد صرف اپنے ہی دل میں حسد نہیں رکھتا بلکہ دوسرے کی کاٹ کی کوشش میں بھی رہتا ہے۔ کیونکہ اپنے دل میں بھی چور ہوتا ہے ،خود حسد کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے بسااوقات حسد کرنے والے کے دل میں یہ بات گڑ جاتی ہے کہ دوسرا بھی میرے بارہ میں اسی طرح برا سوچ رہا ہوگا۔ پھر حاسد خود اپنے حسد کی وجہ سے اپنے حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور اپنا نقصان بھی کر رہا ہوتا ہے ۔اس لیے جہاں اپنے آپ کو حاسد کے حسد سے بچانے کی کوشش کریں اوردعا کریں ، وہاں خود بھی اپنے آپ کو دوسرے کے خلاف حسد سے بچائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسد سے بچوکیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتی ہے، جلا دیتی ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو جلا دیتی ہے ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی الحسد حدیث 4903)
پھر آپؐ نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ۔حسد نہ کرو ۔بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو۔باہمی تعلقات نہ توڑو۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کے رہو۔ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب ما ینہٰی عن التحاسد والتدابر حدیث 6065)
پس اس میں تمام برائیوں کا ذکر آگیا ہے جو ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔یاد رکھیں کہ ہر برائی جو ایک انسان کرتا ہے وہ دوسری برائی کو جنم دیتی ہے ۔پس یہ نہ سمجھیں کہ فلاں برائی کر دی تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔آہستہ آہستہ انسان ان دوسری برائیوں میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے ۔اور پھر نہ صرف یہ اپنی تباہی کے سامان کر رہا ہوتا ہے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی برباد کر رہا ہوتا ہے۔ان کے دلوںسے بھی برائیوں سے نفرت کو ختم کر رہا ہوتا ہے ۔جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہو اہے کہ یہ برائیاں بھائی بھائی سے تعلقات ختم کرتی ہیں ۔معاشرے سے ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کے احساسات کو مٹا دیتی ہیں اور سوائے دنگا اور فساد کے کچھ نہیں رہتا۔ پھر یہ معاشرے کے جو گند ہیں یہ انسانی گھریلو زندگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔جیسا کہ مَیں نے کہا تھا پھران برائیوں کا اثر اپنی اولاد پر بھی ہوجاتا ہے۔ بیوی پر بھی ہوتا ہے۔ میاں بیوی میں بھی اس وجہ سے دوری پیدا ہوتی ہے اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ رشتوں میں دراڑیں پڑتی رہتی ہیں ۔فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر علیحدگیاں ہوتی ہیں۔ یہاں کئی رشتے ٹوٹے ہیں۔ جاپانی عورتوں سے رشتے کئے گئے پھر خود بعض برائیوں میں پڑ گئے اور جن عورتوں نے ان برائیوں میں ساتھ نہیں دیا بلکہ ان برائیوں سے اپنے خاوندوں کو بچانے کی کوشش کی تو بجائے ان عورتوں کے احسان مند ہونے کے ،برائیوں کو نہیں چھوڑااور جو میاں بیوی کا ایک مقدس رشتہ تھاوہ توڑ دیا ۔اللہ کرے کہ ایسے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی جو اولادیں ہیں وہ برا اثر نہ لیں اور یہ جو جاپانی مائیں ہیں لیکن احمدیت پر قائم ہیں وہ اپنے بچوں کی احسن رنگ میں تربیت کرسکیں ۔
ان جاپانی ماؤں سے مَیں کہتا ہوں کہ اب جب کہ آپ نے احمدیت کو قبول کرلیا ہے۔ پاکستانی مردوں کے رویّے کی وجہ سے اپنے اللہ سے کئے گئے عہد کو نہ توڑیں ۔اور دل میں ہمیشہ یہ بات قائم رکھیں اور اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں کہ میاں بیوی کا تعلق ٹوٹنے کی وجہ سے آپ کے احمدیت کے ساتھ تعلق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
پھر بعض مرد اگر احمدیت کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے ہوتے گوکہ گھریلو زندگی ان کی ٹھیک ہے ،تو خود ان کی بیویاں جوجاپانی عورتیں ہیں، ان سے مَیں کہتا ہوں کہ خود اپنے آپ کو یا پاکستانی عورتیں بھی اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگین کرنے کی بجائے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور خاوندوں کے لیے نمونہ بن جائیں ۔
پھر بعض عورتوں کو یہ بھی شکوہ ہے کہ جب وہ مشن ہاؤس میں اجلاسات میں آتی ہیں تو اکثریت پاکستانی احمدی ہونے کی وجہ سے آپس میں اُردو میں باتیں کرتے ہیں اور سارے پروگرام اسی طرح ہوتے ہیں اور جاپانیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی ۔ایک تو مَیں پاکستانی عورتوں سے کہتا ہوں کہ اپنے رویّے بدلیں ۔خاص طور پر جو لڑکیاں ہیں اور جنہوں نے یہاں کی زبان سیکھی ہے ۔وہ زیادہ سے زیادہ جاپانی عورتوں سے اپنے تعلقات بڑھانے کی طرف توجہ دیں۔ اسی طرح مرد، مردوں کے ساتھ ان سے ان کی زبان میں بات کریں۔ اور جو لجنہ کا انتظام ہے، ہر اجلاس میں کچھ پروگرام جاپانی زبان میں بھی رکھیں تاکہ جاپانی عورتوں کی بھی اس میں شمولیت ہو۔ آپ لوگ ان کے ملک میں آئے ہیں خواہ وہ مرد ہیں یا عورتیں ،آپ کا کام ہے کہ ان کی زبان سیکھیں اور ان کو اپنے اندر جذب کریں ۔سچی ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دین کی باتیں سکھائیں اور ان کو احمدیت کے قریب لائیں تاکہ آئندہ وہ جماعت کے لیے مفید وجود بن سکیں اور احمدیت کو پھیلانے کا باعث بن سکیں ۔اگر آپ اس طرح نہیں کریں گی تو گنہگار بن رہی ہیں۔ اور جو مرد اس طرح نہیں کرتے وہ بھی گنہگار بن رہے ہیں ۔
لیکن مَیں جاپانیوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ پاکستانیوں کے رویّوں سے مایوس نہ ہوں۔ خود کوشش کر کے دین سیکھیں ۔اب یہاں مبلغین بھی ہیں، بعض اچھی جاپانی جاننے والی لڑکیاں اور عورتیں بھی ہیں۔ ان سے رابطے بڑھا کر دین سیکھیں اور کوشش کریں کہ جلد آپ ان پاکستانیوں کے لیے نمونہ بن جائیں۔ دین کسی کی جاگیر یا وراثت نہیں ہے۔ اگر آپ لوگ دین سیکھ لیں گی یا جو مرد ہیں وہ دین سیکھ لیں گے اور اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق جوڑ لیں گے تو یہاں جماعتی نظام چلانے میں آپ لوگ مددگار بن جائیں گے ۔آپ لوگوں کے بچے کل بڑے ہو کر جماعت کی صف اول میں شمار ہوں گے ۔پس اپنی تربیت کریں اور اپنے بچوں کی بھی تربیت کریں۔ کسی بھی قسم کی مایوسی یا شکوہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جاپانی قوم سے بہت اعلیٰ توقعات رکھی ہیں۔ اور انشاء اللہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش نے پورا ہونا ہے۔ اور جب پورا ہونا ہے تو پھر کیوں نہ آج جو آپ چند ایک جاپانی احمدی ہیں اس کام کو سنبھال لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے سلطان نصیر بن کر کھڑے ہو جائیں ،مددگار بن جائیں ۔پس آپ جو چند جاپانی مرد اور عورتیں ہیں آگے آئیں اور اپنی ذمہ داری کو نبھائیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خدمت کا موقع دیا ہے۔اس کو فضل الٰہی سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں ۔اللہ ساروں کو توفیق دے ۔
اس کے ساتھ ہی مَیں پاکستانی احمدی مردوں اور عورتوں سے بھی کہتا ہوں اور عمومی طور پر تمام جماعت سے کہ آپ کے بڑوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔یہ انعام یقینا ان کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ۔انہوں نے اس انعام کی قدر کی اور ہر حالت میں اللہ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وفا کا تعلق رکھتے ہوئے جیسے بھی ان پر حالات آئے وہ ان حالات کو صبر سے برداشت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پر قائم رہے۔ بعض خاندانوں پر ابتلا بھی آئے ، ان کو مالی نقصانات بھی برداشت کرنے پڑے لیکن انہوں نے خوشی سے احمدیت کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام سے کئے گئے عہد بیعت کو نبھایا ۔اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کئے رکھا اور پھران کی نیکیوں اوروفا اور اخلاص کے تعلق کو اللہ تعالیٰ نے نوازا۔ اور آج آپ جو اُن کی اولادیں ہیں آپ پر دنیاوی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے بہت فضل فرمایا ہے ۔پس اس فضل کو اپنی کسی لیاقت یا قابلیت کا نتیجہ نہ سمجھیں۔بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ان بزرگوں کی ان دعاؤں کا ،صبر اور حوصلہ کا نتیجہ ہے ۔ پس اس فضل کی قدر کریں۔ اور آپ کے باپ دادا نے جس طرح احمدیت کے تعلق کو مقدم رکھا تھا آپ بھی اس تعلق کو مقدم کریں اور ان آسائشوں کو،ان آسانیوں کو ،خدا تعالیٰ کے ان فضلوں کو جماعت سے تعلق اور جماعت کے وقار کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کریں ۔اپنے آپ کو احمدی صرف اس لیے نہ سمجھیں کہ ہمارے باپ دادا احمدی تھے بلکہ خود بھی دین کو سمجھیں اور عہد بیعت پر غور کریں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے جو عہد رکھا ہے ،شرائط رکھی ہیں ان پر غور کریں ۔تمام برائیوں کو بیزار ہو کر ترک کریںاور تمام نیکیوں کو اختیار کرنے کی کوشش کریں ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نیکیوں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔اور ہمیں فرمایا ہے کہ تمہارے لیے تمہارا رسول اُسوۂ حسنہ ہے ۔اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو ۔فرمایا کہ وہ تمام اعلیٰ اخلاق اپناؤ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے اور جن کا نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ۔اور یہ اعلیٰ اخلاق اپناتے ہوئے جب آپ دوسروں کو، غیر مسلموں کو بھی دوسروں سے ہمدردی کے جذبہ سے یہ اعلیٰ اخلاق دکھائیں گے تو لوگ آپ کی طرف بڑھیں گے ۔آپ کے نمونوں کی وجہ سے تبلیغ میںآسانی پیدا ہوگی ۔ورنہ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ لوگ آپ کی بات آپ کے منہ پر الٹا کر ماریں گے کہ پہلے اپنے آپ کوان اعلیٰ اخلاق سے متصف کرو اورپہلے اپنے آپ میں یہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرو ۔
اس قوم میں تو بعض اعلیٰ اخلاق پہلے سے موجود ہیں ۔اِن کو جو اِن کے پاس ہے اس سے بہتر دیں گے جو کہ آپ کی زندگیوں میں بھی نظر آرہا ہو،جو آپ کے عملی نمونوں میں بھی نظر آرہا ہو تبھی وہ آپ کی بات قبول کریں گے ۔پس اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں ،نیکیوں کو اختیار کریں ا ور برائیوں کو بیزار ہو کر ترک کریں ۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا ،اپنے عزیزوں سے،اپنے دوستوں سے ،اپنے ماتحتوں سے ،اپنے ہمسایوں سے، اپنے بیوی بچوں سے ایسا حسن سلوک کریں ،ا ن کی ہمدردی کا ایسا جوش آپ کی طبیعت میں ہو کہ ان کے دلوں میں آپ کی محبت ہر لمحہ بڑھتی چلی جائے ۔آپ کی امانتوں کے معیار ایسے بلند ہوں کہ دنیا اس کی مثال دے۔ جماعت کے اندر بھی اور باہر بھی ہر سطح پر آپ کی امانت کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے ماتحت ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ بے غرض ہو کر اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے والے ہوں ۔آپ کے سپرد جو دین کا کام کیا گیا ہے اس کو ایک امانت سمجھ کر ادا کرنے والے ہوں ۔اگر خلیفۂ وقت نے آپ لوگوں کے سپرد بعض ذمہ داریاں اور خدمات کی ہیں تو ان کا حق ادا کرنے والے ہوں ۔اپنے آپ کو عہدیدار سمجھنے کی بجائے قوم کا خادم سمجھیں ۔خدمت کے موقعے آپ میں عاجزی اور انکساری پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میںآپ کی گردن ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے مزید جھکنے والی ہو جائے ۔ایک دوسرے کی خاطر قربانیوں کے نمونے قائم کرنے والے بنیں ۔ایسی قربانیاں جو صحابہ نے ایک دوسرے کی خاطر دیں ۔اور اس کو اللہ تعالیٰ نے بھی بیان فرمایا کہ وہ اپنے نفسوں پر اپنے ساتھیوں کو ترجیح دیتے تھے ۔پس یہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح اور ان سے ہمدردی اور ان کی خاطر درد ہے جو محبت پیدا کرے گا۔ اور آپ کے اندر ایسا نور پیدا کرے گا جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تمام نوروں پر غالب رہے گا ۔پس اس نور کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اندر عاجزی پیدا کریں ۔تکبر کو اپنے سے دور کریں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں ۔ (تذکرہ صفحہ 595 ایڈیشن چہارم شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق جوڑنا ہے ، اگر خلافت سے تعلق جوڑنا ہے تو بجائے تکبر دکھانے کے ،بجائے اپنے عہدہ کا اظہار کرنے کے عاجزانہ راہیں دکھائیں ۔یہی قرآنی تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہے اور یہی وہ اخلاقی تعلیم ہے جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں بتا رہے ہیں ۔پس اگر اپنی بقا چاہتے ہیں ،اگر احمدیت سے اپنا تعلق جڑا رکھنا چاہتے ہیں تو اس تعلیم پر عمل کرنا ہوگا ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے جو عمل نہیں کرتا وہ کاٹا جائے گا اور جو کاٹا جائے گا وہ جماعت کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔اللہ تعالیٰ ایک کی جگہ سو پیدا کردے گا جو تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے ۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 619-620 اشتہار’’ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے‘‘ اشتہار نمبر262 مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب آپ میرے پاس آئے ،میرا دعویٰ قبول کیااور مجھے مسیح مانا تو گویا مِنْ وَجْہٍ آپ نے صحابہ کرام کے ہم دوش ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ یعنی صحابہ کرام کی طرح بننے کا دعویٰ کیا۔تو کیا صحابہ نے کبھی صدق ووفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا؟ ان میں کوئی کسل تھا؟ کوئی سستی تھی؟ کوئی کمزوری تھی؟ کیا وہ دل آزار تھے ؟کیا وہ لوگوں کی دلشکنی کیا کرتے تھے؟ جذبات کو ٹھیس پہنچایا کرتے تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟ کیا وہ منکسر المزاج نہ تھے؟ عاجزی نہیں دکھاتے تھے؟ بلکہ ان میں پرلے درجے کا انکسار تھا ۔سو دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے ۔کیونکہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے ۔اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچے کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحۃ:6)

کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ،سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اس میں یہ دعا پڑھیں ،دہرائیں، اس کے مطلب پر غور کریں ۔راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجًا تربیت پائی تھی ۔تو بجائے اس کے کہ آپ تدریجًا تربیت پائیں اگر آپ بگڑتے چلے جائیں گے تو اَور لوگ کھڑے ہو جائیں گے ۔پس اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔درد دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ آپ کی صحیح راہنمائی کرے۔ آپ کے دلوں کے بغضوں اور کینوں او ر تکبر اور غرور کو ختم کرے۔عاجزانہ راہیں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ یقینا یاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت، اگر خدا تعالیٰ کی لعنت ساتھ نہ ہو، کچھ بھی چیز نہیں ۔اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے ۔لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا ۔ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر و ہ ہمارے ساتھ ہو؟ اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا ہے کہ تقویٰ سے ۔سو اے میرے پیارے بھائیو ! کوشش کروتا متقی بن جاؤ ۔بغیر عمل کے سب باتیں ہیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں ۔سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤاور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ‘‘۔ (تمہارے اندر تکبر نام کا نہ رہے)۔ ’’کہ ہر یک خیر اور شر کا بیج پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (جو نیکی یا برائی ہے اس کا بیج دل میں ہی پیدا ہوتا ہے ۔)’’اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی‘‘۔(اگر دل شر سے خالی ہے توزبان پر بھی نیکی کے الفاظ ہی آئیں گے۔دوسرے کے جذبات کا، احساسات کا ہی خیال آئے گا) اور فرمایا کہ ’’اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی جو بھی برائی انسان کرتا ہے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے اور پھر آنکھ سے برائی ظاہر ہوتی ہے ،زبان سے برائی ظاہر ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتی ہے۔) ’’سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو۔ اور ‘‘۔ (یہ جوپاکستانی ہیں ان کو پتہ ہے کہ) ’’ جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو ‘‘۔(جو بھی دل میں برائیاں ہیں ان کو اپنے سامنے رکھو بجائے اس کے کہ ہر ایک دوسرے کی برائی تلاش کرے۔ ہر عہدیدار، ہر دوسرے احمدی کی برائی تلاش کرے۔ ہر احمدی اپنے عہدیداروں کی برائیاں تلاش کرے۔ ہر مرد، عورتوں کی برائیوں کی تلاش میں پڑا رہے۔ ہر عورت، مردوں کی برائیاں تلاش کرے ۔ہر ایک اپنی اپنی اصلاح کی کوشش کرے ۔تبھی اصلاح ہوگی۔ اور حسن ظنّی سے کام لیں بجائے بدظنیوں سے کام لینے کے۔) پھر فرمایا کہ ’’اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو‘‘۔ (یہ اپنی اصلاح کا اپنے جائزے لیتے رہنے کا طریقہ ہے)۔ ’’ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کردیوے او رپھر تم کاٹے جاؤ‘‘۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 547-548)
اس سے پہلے کہ تمہارا سارا دل ناپاک ہو جاوے اپنی برائیوں کو کاٹ کاٹ کر باہر پھینکو۔اگراس طرح نہیں کرو گے تو پھرتم بھی کاٹے جاؤگے ۔پھر تمہارا تعلق نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رہے گا، نہ جماعت سے رہے گا ۔
پس اللہ کرے کہ سب اپنے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو راسخ کرنے والے ہوں ۔اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں اور کاٹے جانے والوں میں شمار نہ ہوں۔ بلکہ ان لوگوں میں شمار ہوں جن کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں ۔
اللہ کرے کہ یہ جلسہ آپ سب کی حالتوں میں ،عاملہ میں بھی ،عہدیداروں میں بھی ،عام احمدیوں میں بھی ایک انقلاب لانے والا بن جائے اور آپ لوگ ان جماعتوں میں شمار ہو جائیں جو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہوتی ہیں اور ہر احمدی ایک نمونہ بن جائے اور اخلاص ووفا میں ترقی کرنے والا ہو ۔آمین ۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں