جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

احمدی جتنا بھی شکر اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حبل اللہ کی پہچان کروائی اور اس کو پکڑنے کی توفیق دی۔
شکر نعمت کی اول اور بنیادی اینٹ یہی ہے کہ اپنی نمازوں کو، اپنی عبادتوں کو سجائیں
(شکرنعمت کے موضوع پر قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کے حوالہ سے تاکیدی نصائح)
اختتامی خطاب سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ۔ 5؍ستمبر 2004ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔ وَاذْکُرُوا نِعْمَتِ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآء فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا۔ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقََذَکُمْ مِّنْھَا۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ۔ (آل عمران :104)

یہ آیت ان آیات میں تلاوت کی گئی تھی جو ابھی آپ کے سامنے شروع میں تلاوت کی گئی ہیں۔ ترجمہ بھی آپ نے سن لیا۔
آپ لوگ جو آج یہاں بیٹھے ہوئے یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے پرفضل، انعام اور احسان پر جتنا بھی شکر کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور ہمیں اُن برکات سے حصہ لینے والا بنا دیا جن کے بارے میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی، جس کو سلام کہنے کے لئے برف پر گھٹنوں کے بَل چل کر جانابھی پڑے تو جا کر سلام کہنے کی تاکید فرمائی تھی۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے،خوش بختی ہے۔ لیکن صرف اس خوش بختی پر خوش نہیں ہو جانا کہ
اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ انعام کر دیا اور بس یہی اب ہماری انتہا تھی، اور یہی ہمارا مقصد تھا بلکہ فرمایا کہ اب تمہارے پر اور زیادہ فرض بنتا ہے کہ اللہ کی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑو تاکہ یہ انعامات کا سلسلہ چلتا رہے۔ اور اللہ کی رسی کیا ہے جس کو پکڑنے سے ان انعامات کو حاصل کرتے رہو گے؟ تو فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آخری شریعت ہے۔ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جیسے کہ قرآن کریم کے بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رسی ہے جس کا ایک سرا زمین پر ہے اور دوسرا سرا آسمان پر ہے۔ یعنی یہی وہ کتاب ہے جس پر عمل کرکے تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہو۔ اس کے فضلوں کے وارث ٹھہر سکتے ہو۔ اس کی رضا حاصل کر سکتے ہو۔ پھر اس رسی کو تم تبھی مضبوطی سے پکڑ سکتے ہو جب اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مکمل اور کامل ایمان ہو،جس پر یہ کتاب اتری ہے۔ اور آپؐ پر کامل ایمان لائے بغیر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپؐ کی کامل اطاعت کے بغیر
اللہ تعالیٰ تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں خود آپؐ کے ذریعے یہ پیغام دیتا ہے کہ

فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ (آل عمران: 32)

کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، اس تک پہنچنا چاہتے ہو، اس کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میری پیروی کرو،میرے سے تعلق جوڑو،مَیں جو کہتا ہوں اس پر عمل کرو کیونکہ میرا کوئی بھی عمل خداتعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہیں ہے۔ میری کوئی بھی بات میری نہیں ہے بلکہ خدا کی کہی ہوئی ہے۔ پھرآپؐ نے ہی فرمایا تھا کہ آخری زمانے میں مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا اس کو مان لینا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے حدیث بتاتی ہے کہ مشکلات میں پڑ کربھی اس کو میرا سلام پہنچانا ہوا تو ضرور پہنچانا۔ اس میں اس مسیح و مہدی نے بھی وہی تعلیم دینی ہے اسی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں نے دی ہیں۔ اور جو اسلام میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ بگاڑ پیدا ہو جائے گا،یہ پیشگوئی تھی تو اسے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے اسی مسیح و مہدی نے درست کرنا ہے۔ اس لئے قرآن، حدیث و سنت کی جو تشریح آنے والا مسیح و مہدی کرے،جس طرح وہ وضاحت کرے وہی سچی اور حقیقی ہو گی۔ اس لئے اس کے مطابق عمل کرنا، اس کی جماعت میں شامل ہونا، کیونکہ وہی میرا عاشق صادق ہے اور اس کا ہر فعل اور عمل اور قول اسی طرح ہے جس طرح میرا ہر فعل اور ہر قول۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللہَ۔ یَدُاللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (الفتح:11)

یعنی وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں صرف اللہ کی بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً فرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔ مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پاس سے الہام بنا لیتے ہیں۔ اتنا بڑا دعویٰ کوئی اپنے پاس سے نہیں کر سکتا اور پھر دعویٰ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی تائید اور نصرت کے نظارے بھی دکھا رہا ہے اور ہر آن دکھا رہا ہے۔ تو اب اس زمانے میں جبکہ مسیح موعود کا ظہور ہوئے بھی ایک سو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا وہی مسلمان حبل اللہ کو پکڑنے والا کہلائے گا جو اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب قرآن کریم کو پکڑے گا، اس کے احکامات پر عمل کرے گا،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور عمل کے مطابق عمل کرے گا۔
ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھاکہ آپ کے اخلاق واطوار کیا تھے؟ توآپؓ نے کہا کہ حضورؐ کے اخلاق واطوار تو قرآن کریم کے عین مطابق تھے۔ پھر حضرت عائشہؓ نے کہا کہ کیا قرآن کریم میں نہیں پڑھاکہ

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:5)

کہ اے رسول تو یقینا اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے۔ اور پھر جو امام الزمان مسیح دوران اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو ماننے والا ہو گا،آپ کے ارشادات پر عمل کرنے والا ہو گا، وہی رسی کو پکڑنے والا کہلائے گا کیونکہ انہی چیزوں سے اب یہ حبل اللہ قائم ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی جتنا بھی شکر اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حبل اللہ کی،اس رسّی کی پہچان کروائی اور اس کو پکڑنے کی توفیق دی۔ نہیں تو جیسا کہ اس آیت میں ہے پہلے زمانے کی طرح اب پھر انسان، انسان کی گردن کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔ اب چند دن پہلے ہی آپ نے سنا ہو گا کہ خبریں بھی اخباروں میں آ رہی ہیں،ٹیلیویژن پہ بھی کہ روس میں کس طرح ظالمانہ اوربہیمانہ طور پر بچوں پر ظلم کیا گیا۔ جب ان کو یرغمال بنایا گیا اس وقت پتہ نہیں ان پر کیا کیا ظلم ہوئے۔ اور پھر بظاہر جو رہائی دلانے کی کارروائی ہوئی اس میں کس طرح سینکڑوں جانیں بے دردی سے ضائع ہو گئیں۔ پھر آج کل مسلمان،مسلمان سے کس طرح لڑ رہے ہیں حتیٰ کہ احمدیوں کی مخالفت میں ایک ہونے والے جب نمازوں کا وقت آتا ہے تو ایک دوسرے کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان لوگوں نے کیا حبل اللہ کو پکڑناہے۔
کل پرسوں ہی ایک مسلمان لیڈر کا بیان تھا کہ مسلمانوں کی ساکھ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنا نہیں چھوڑتے، ایک دوسرے کے لئے برداشت کا مادہ پیدا نہیں کرتے۔ تو جہاں یہ اُس زمانے کے مسلمانوں کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مسلمانوں کے لئے، آپ کی قوت قدسی سے اثر پانے والے مسلمانوں کے لئے، خوشخبری تھی وہاں اس نعمت کا شکر نہ کرنے والوں کے لئے انذار بھی تھا کہ اگر کسی وقت بھی تم تقویٰ سے دور گئے،اللہ کی رسی کو نہ پکڑا اور تفرقہ بازی سے باز نہ آئے تو پھر تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر جا کھڑے ہو گے اور کوئی بھی ہوا کا تیز جھونکا تمہیں اس گڑھے میں گرا دے گا۔ اس لئے یہ رسّی جو اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار سال تک کا یہ دور گزرا ہے۔ اس میں عمومی طو ر پر تو یہ تاریک دور ہی تھا مسلمانوں پہ۔ اس تاریک دور کے بعد، اس تاریک زمانے کے بعد تمہیں مسیح موعود کے ذریعے سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے دی ہے۔ اس کومضبوطی سے پکڑ لو اور بجائے مسیح موعود کی مخالفت کرنے کے اس کی جماعت میں شامل ہو جاؤ۔ اور پھر اس میں احمدیوں کے لئے بھی سبق ہے کہ جس طرح دوسروں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرکے تقویٰ سے دور ہٹ کر آپس میں دشمنیاں پیدا کر لی ہیں اور آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ اسی طرح اگر تم ان احکامات پر عمل نہیں کرو گے، تقویٰ سے دور ہٹتے جاؤ گے اور صرف نام کے احمدی مسلمان ہو گے تو اللہ تعالیٰ کا تمہارے سے کوئی ایسا رشتہ نہیں ہے کہ امتیازی سلوک ہو۔ اللہ تعالیٰ کوئی امتیازی سلوک نہیں کرے گا کہ تم ان برائیوں میں پڑو جس میں دوسرے پڑے ہوئے ہیں او رپھر وہ انجام نہ ہوجو دوسروں کا ہوا تھا۔ اس لئے انجام بخیر کے لئے ہمیشہ تقویٰ پر چلتے رہو اور مکمل فرمانبرداری اختیار کرو تاکہ ایمان لانے والے کہلا سکو۔ پس یہ ہمارے لئے بڑی فکر کی بات ہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے، اپنے جائز ے لینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات کیا ہیں جن پر چلنا ضروری ہے، جن پر چل کر ہم تقویٰ پر قدم مار سکتے ہیں، یا مارنے والے کہلا سکتے ہیں۔ جن پر چل کر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کہلا سکتے ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے بچ سکتے ہیں۔ جن پر عمل کرکے آپس کی رنجشوں کو دور کر سکتے ہیں۔ جن پر چل کرہم ایک دوسرے حقوق کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اور جن پر چل کر ہم اس جہنم کی آگ کی لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ ان میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عبادت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اس طرح اس کی عبادت کریں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ہے۔ اور پھر انسان کی تو بنیادی غرض ہی دنیا میں آنے کی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہو۔ تو جب بنیادی غرض ہی انسان کی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو اس کے بعد تو یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر مزید احسان ہے اور اس کا ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس بنیادی مقصد کو پورا کرنے پر پھر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اجر سے نوازتا ہے۔ اور اس بات کو سب سے زیادہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے یعنی نماز کے دوران اس قدر لمبا کھڑے ہوتے تھے کہ اس کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے۔ اس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا آپؐ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں پہلے بھی اور بعد کے بھی تو آپ کیوں اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں۔ جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے کیا میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح۔ باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر)
تو یہ وہ پیارا اسوہ حسنہ ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ آپؐ،جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت دی بلکہ اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آپؐ نے بہت سے صحابہؓ کو جنت کی بشارت دی، آپؐ نے تو عبادت میں اس طرح توجہ فرمائی اور فرماتے رہے اور ہم جنہیں اپنے اعمال کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے، اللہ کے سلوک کا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو کچھ بھی علم نہیں ہے، ہم عبادتوں سے لاپرواہ ہو جائیں۔
پس شکر نعمت کی اول اور بنیادی اینٹ یہی ہے کہ اپنی نمازوں کو اپنی عبادتوں کو سجائیں اور اس طرف توجہ دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو یا دکرنے والوں، اپنی عبادت کرنے والوں کو ہی شکر گزاروں میں شمار کیا ہے۔
کَنْزُالْعَمَّال میں لکھا ہے کہ

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم:8)

اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔ تو اس میں آگے کہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم جب تو مجھے یاد کرتا ہے توتوُ میری شکر گزاری کرتا ہے۔ اور جب تُو مجھے بھلا دیتا ہے تو توُ میری ناشکری کرتا ہے۔ (کنزالعمال جلد 2صفحہ 53)
اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے تو جس طرح شکر گزاری کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا بہت سنوار سنوار کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ سر سے اتارنے کے لئے جس طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جس طرح مرغی دانے پہ ٹھونگے ما ر رہی ہوتی ہے اس طرح جلدی جلدی نماز پڑھی، سجدے کئے اور چلے گئے۔ بلکہ سنوار کر پورے خشوع و خضوع سے نمازوں کی ادائیگی ہونی چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بتایا کہ بعض دعائیں ایسی ہیں جو مَیں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے سنی ہیں۔ جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو ترک نہ کروں گا۔ میں نے آپؐ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ میرے اللہ مجھے اپنا سب سے بڑا شکر گزار بنا دے اور ایسا بنا دے کہ میں سب سے زیادہ تیرا ذکر کرنے والا اور سب سے زیادہ تیری نصیحت پر عمل کرنے والا بنوں اور سب سے زیادہ تیری وصیت کو یاد رکھنے والا بنوں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 311مطبوعہ بیروت)
پس یہاں بھی جو ہمیں شکر گزاری کا طریق بتایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہے اور جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی فرمایا ہے کہ

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنَ (الذاریٰت: 57)

یعنی جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننے کے لئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو اپنی عبادتوں سے سجایا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پانچ وقت باقاعدہ نمازیں ادا کرنے کی طرف ہر ایک کو توجہ دینی چاہئے۔ او رپھر عبادات سے اپنی راتوں کو بھی سجائیں۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ان نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا جائے گا اور ہم ایک مضبوط رسی کوبھی پکڑے رہیں گے۔
پھر ایک روایت میں آتاہے۔ حضرت عبداللہؓ بن غنامؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت یہ کہا

اَللّٰھُمَّ مَا اَصْبَحَ بِی مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنْکَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ، فَلَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ۔

اے اللہ جو بھی نعمت مجھے ملی وہ تیری ہی طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں اور تمام تعریفیں اور شکر تیرے ہی لئے ہیں۔ تو گویا اس نے اپنے دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے اسی طرح شام کے وقت کہا تو اس نے اپنے رات کا شکر ادا کر دیا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب)
پس یہ شکر گزاری کے جذبات ایک مومن کے دل میں،ایک احمدی کے دل میں ہر وقت رہنے چاہئیں کہ اس نے اپنے فضل سے ہمیں احمدیت کی نعمت سے نوازا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اس کا شکر ادا کرنے والے اس کی مخلوق کے بھی شکر گزار ہوتے ہیں۔ بلکہ فرمایا کہ جو مخلوق کا شکر گزار نہیں وہ خداتعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہے۔ جیسا کہ روایت میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ نے منبر پر کھڑے ہو کر فر مایا۔ ’’جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتے وہ بڑی نعمت پر بھی شکر نہیں کرتے اور جو بندوں کا شکرنہیں کرتا وہ اللہ کابھی شکر ادا نہیں کرتا۔ نعمائے الٰہی کا ذکر کرتے رہنا شکر گزاری ہے اور اس کا عدم ذکر کفر یعنی ناشکری ہے۔ جماعت ایک رحمت ہے اور تفرقہ بازی(پرا گندگی) عذاب ہے‘‘۔ (مسند احمدبن حنبل جلد 4صفحہ 278)
تو اللہ کے بندوں کا شکر کرنا بھی ضروری ہے۔ آپ لوگ جو یہاں ان ملکوں میں رہتے ہیں، پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکاہوں،ان لوگوں کا بھی آپ کو شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے ملک میں آپ کو رہنے کی جگہ دی اور آپ کے لئے بہتری کے سامان پیدا ہوئے۔ کیونکہ اگر کسی شخص کو کسی سے کوئی فیض پہنچے تو اس کا شکر گزار ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر عام طور پر تم کسی سے فائدہ اٹھا رہے ہو اور ایک دفعہ اس نے کسی کام سے انکار کر دیا یا سخت بات کہہ دی، بعض دفعہ روز مرہ کے معاملات میں بھی ہو جاتا ہے،یا ایسی بات کہہ دی جس سے تمہیں مایوسی ہوئی تو فوراً بے صبری کی حالت میں آ کر اس کے خلاف بعض لوگ بولنا شروع کردیتے ہیں جب کہ آپ کے بہت سے کام وہ پہلے کر چکاہوتا ہے۔ اگر شکرگزاری کا خیال ہو اور اگر ایک دو دفعہ بھی انکار ہو گیا ہے تو ان پہلے کاموں کی وجہ سے ہی خاموش رہنا چاہئے۔ بلکہ انکار کے بعد تو ایسے شخص کے لئے دعا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر کرو، اس کے لئے دعا بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر بھی کرو کہ اس نے تمہیں صرف اپنے بندوں پر انحصار کرنے سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی اس وجہ سے۔ اگر اس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں تو پھر تفرقہ بازی پیدا ہو جائے گی اور پھر تفرقہ بازی کا حال تو آج کل آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ جیسے کہ پہلے ہی بتا چکا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کی رسی بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے گی اور پھر فرمایا کہ اس کا نتیجہ عذاب ہی نکلے گا۔ اور جماعت کی وجہ سے جو رحمت ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہر حال میں شکرگزاری کے خیالات رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دعا سکھائی ہے یہ کرنی چاہئے۔ فرماتا ہے۔

رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔ اِنِّی تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف: 16)۔

اے میرے رب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے۔ یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اور بلا شبہ میں فرمانبردار وں میں سے ہوں۔
پس اپنی اور اپنی نسلوں کے لئے دعا کے ساتھ ہمیشہ فرمانبرداری میں رہنے کی کوشش کریں اور تقویٰ کے جو طریق ہیں ان پر چلنے کی کوشش کریں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اصل شکر تقویٰ اور طہارت میں مضمر ہے۔ فرمایا کہ:’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان کا پوچھنے پر الحمدللہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے‘‘۔ یعنی کسی نے پوچھا مسلمان ہو تو اس نے کہا ہاں الحمدللہ میں مسلمان ہوں۔ پوچھا کسی نے احمدی ہو؟ ہاں الحمدللہ میں احمدی ہوں۔ احمدی کو بتا دیا کہ یہ سچا شکرنہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو۔ کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا‘‘۔ فرمایا:’’مجھے یاد ہے ایک ہندو سررشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا کہ امرتسریا کسی جگہ میں وہ سر رشتہ دار تھا جہاں ایک ہندو اہلکار درپردہ نماز پڑھا کرتا تھا مگر بظاہر ہندو تھا۔ میں اور دیگر سارے ہندو اسے بہت برا جانتے تھے اور ہم سب اہلکاروں نے مل کر ارادہ کرلیا کہ اس کو ضرور موقوف کرائیں’‘۔ یعنی اس کی نوکری ختم کروائیں گے۔ ’’سب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی۔ میں نے کئی بار شکایت کی کہ اس نے یہ غلطی کی ہے اوریہ خلاف ورزی کی ہے۔ مگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی تھی‘‘۔ یعنی اس پر کوئی توجہ نہ ہوتی تھی افسروں کی۔ ’’لیکن ہم نے ارادہ کر لیا ہوا تھا کہ اسے ضرور موقوف کرا دیں گے۔ اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لی تھیں’‘۔ بہت سی اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں ڈھونڈی تھیں۔ اور کہتا ہے کہ ’’میں وقتاً فوقتاً ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے روبرو پیش کیا کرتا تھا‘‘۔ جو افسر تھا اس کو پیش کر دیتا تھا، انگریز افسر تھا۔ تو ’’صاحب اگر بہت غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا تو جونہی وہ سامنے آ جاتا تو گویا آگ پر پانی پڑ جاتا‘‘ تھا۔ ’’معمولی طور پر نہایت نرمی سے فہمائش کر دیتا۔ گویا اس سے کوئی قصور سرزد ہی نہیں ہوا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 49جدید ایڈیشن) تو یہاں فرماتے ہیں جو نیک نیتی سے کام کر رہے ہوں،عبادات کر رہے ہوں، شکر گزار ہوں تو پھر دنیاوی جو روکیں ہیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’اے رب العالمین تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا تو نہایت رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں’‘۔ بے انتہامجھ پر احسان ہیں۔ ‘’میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 103)
پھر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے میں، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں، حقوق العباد بھی ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کے رزق میں فراخی ہو اور بری موت سے اس کو بچایا جائے۔ تو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے اور صلہ رحمی کرے۔ (مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ)
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اس معاشرے میں آپس کی رشتہ داریاں اور تعلقات بھی ہیں۔ ماں باپ ہیں رشتہ داریوں میں بھائی ہیں ان کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ ماں باپ کی خدمت کا حکم ہے۔ بہن بھائیوں سے اچھے سلوک کا حکم ہے۔ عزیزوں رشتہ داروں سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ ہمسایوں سے اچھے سلوک کا حکم ہے۔ بیوی اور اس کے قریبی عزیزوں سے صلہ رحمی کا حکم ہے تاکہ آپس میں پیار محبت بڑھے۔ آپس میں ایک حسین معاشرہ قائم کرنے کی توفیق ملے۔ پس وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مان لیا اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے رسول کے حکم پر عمل کر لیا اس لئے ہم جماعت میں شامل ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والوں میں شمار ہونے لگے۔ لیکن عمل ان کے یہ ہیں کہ اپنے عزیزوں سے، رشتہ داروں اور بیویوں کے رشتہ داروں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکا م پر عمل کرنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا تو یہی حکم ہے کہ آپس کے رحمی رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو۔ خاوند بیویوں کے حقوق ادا کریں اور بیویاں خاوندوں کے حقوق ادا کریں اس سے تمہارے گھر بھی قائم رہیں گے اور تمہاری نسلیں بھی بہتر طور پر پروان چڑھیں گی۔ بعض دفعہ معاشرے کا اثر ہو جاتا ہے۔ تو اپنے آپ کو سنبھالنا چاہئے۔ جو ایک عہد ہے ایک بندھن ہے جس کو جوڑا ہے اس کو ذرا ذرا سی باتوں سے اس کو توڑنا نہیں چاہئے۔ بھائی ہیں دوسرے بہن بھائیوں کے حقوق ادا کریں۔ اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا کریں جیسا کہ میں نے کہا ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں۔ دلوں کی آپس کی محبت پیدا کرنے والے ہوں۔ آپس میں ایک ہو کر رہنے والے ہوں تبھی اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑنے والے ہوں گے اور تبھی اس رسی کے ذریعہ سے آگ کے گڑھے سے نجات پانے والے ہوں گے، اس سے بچائیں جائیں گے اور ہدایت کے رستوں پر چلنے والے ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں۔ (اس فقرے میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آ گئے)۔ اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسایہ ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں،نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو۔ خدا ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو اور جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ (چشمہ ٔ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 209-208)
پھر فرمایا:’’میری نصیحت یہی ہے کہ دو باتوں کو یاد رکھو۔ ایک خداتعالیٰ سے ڈرو دوسرے اپنے بھائیوں سے ایسی ہمدردی کرو جیسی اپنے نفس سے کرتے ہو‘‘ جیسے اپنے آپ سے کرتے ہو۔ ’’اگر کسی سے کوئی قصور اور غلطی سرزدہو جاوے تو اسے معاف کرنا چاہئے نہ یہ کہ اس پر زیادہ زور دیا جاوے اور کینہ کشی کی عادت بنا لی جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 69جدید ایڈیشن)
پھر آپ نے آیت

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَاِن وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی … (النحل:91)

کی تفسیر میں فرمایا کہ:’’یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے؟ بس یہی کہ تم نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو‘‘۔ لوگوں سے عدل سے پیش آؤ،انصاف سے پیش آؤ۔ ‘’پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں۔ کیونکہ احسان میں ایک خود نمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے۔ لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے‘‘ فطری جوش سے’’نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا‘‘۔ وہ کبھی دکھاوے کی بات نہیں کر سکتا۔ ’’پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو۔ اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے۔ خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کرکے اس کی فرمانبرداری کرنا۔ اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے

اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی

یہ ہے کہ اس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے بلکہ اگرفرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آئے‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 31-30)
پھر آپؑ نے فرمایا :’’میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خداتعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں’‘۔ کنجوس نہیں ہیں اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں۔ یعنی صرف دنیا پہ گرے ہوئے۔ ’’اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خداتعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے مَیں اور میرا خدا ان سے بیزار ہے۔ میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں۔ کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اوّل درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کودنیا پر مقدم رکھ لیا ہو۔ لیکن وہ مفسد لو گ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں’‘۔ ایسی غلط حرکتوں میں مشغول ہو جاتے ہیں ’’کہ صرف دنیا ہی دنیا ان کے دل میں ہوتی ہے‘‘۔ فساد والی حرکتیں۔ ’’نہ ان کی نظر پاک ہے، نہ ان کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیرکسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں اور وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اس میں رہتا ہے اور اسی میں مرتا ہے۔ وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں۔ وہ عبث کہتے ہیں’‘ فضول کہتے ہیں ‘’کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں۔ کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے‘‘۔ (تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 62-61)
پس چاہئے کہ ہر احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ ہر کوئی اپنا جائزہ لے۔ کیا اس کے خیال میں اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں؟ یا پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا جو عہد کیا ہے وہ اس کو پورا کر رہا ہے ؟کیا وہ حقوق اللہ اور حقو ق العباد کو نبھاتے ہوئے اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے ہے؟ اگر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کیں، اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے تو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم نے ہدایت کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہ خیال غلط ہے کہ اب ہم ہدایت پا جائیں گے کیونکہ ہم نے مسیح موعود کو مان لیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی پڑھتے ہیں۔ اگر اس پر عمل نہیں کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے تو پھر وہ کاٹے جائیں گے۔ کیونکہ ان پر عمل نہیں کر رہے توصرف خیال ہے، تصور ہے کہ ہم نے رسی کو پکڑا ہوا ہے جبکہ اس رسی کو نہیں پکڑا ہوا۔
اللہ تعالیٰ سب کو حقیقی معنوں میں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعائیں قبول ہوں۔ جس طرح کہ آپ نے خواہش کی ہے کہ ایسے لوگ میری جماعت میں شامل ہونے والے ہوں اور ہر ایک کوشش کے ساتھ عبادات کرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے جماعت کے ساتھ جڑا رہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اب دعا کر لیں۔
(دعا کے بعد فرمایا): جلسہ کی حاضری جو امیر صاحب نے بتائی ہے ایک ہزار تین سو ترانوے ہے اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ بارہ ممالک کی نمائندگی ہے۔ پچھلے سال یہ حاضری پانچ سو کے قریب تھی۔ اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں