جلسہ سالانہ سویڈن 2005ء میں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

آپ کے بہتر معاشی حالات، مالی حالات اس بات سے آپ کو غافل نہ کردیں کہ آپ اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہیں اور اس امام کو ماننے اور آپ کے بزرگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج آپ ان ملکوں میں پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔ ان فضلوں کا تقاضا ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرنے والی بنیں اور نہ صرف خود اس تعلیم پر عمل کریں بلکہ اپنی اولادوں کی بھی اس فکر کے ساتھ نگرانی کریں اور تربیت کریں کہ کہیں وہ مغرب کے آزاد ماحول کی وجہ سے دین سے دور نہ ہٹ جائیں۔
پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے۔
اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے محروم ہوتے ہیں۔ جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں۔ اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں۔
پیسہ کمانے کے لئے بچوں کو ایسی جگہوں میں نہ بھیجو جہاں ان کے دین سے دور جانے کا احتمال ہو۔ خاص طور پر بچیوں کو ایسی ملازمتوں سے ضرور بچانا چاہئے جس میں کسی بھی قسم کی بے حجابی کا امکان ہو۔ پیسے کمانے کے لئے بچیوں کی زندگیاں برباد نہ کریں۔ احمدی بچی کو خاص طور پر ایسی ملازمتوں سے بچنا چاہئے جہاں اس کے تقدس پر حرف آتا ہو۔
صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں۔
جماعت احمدیہ سویڈن کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 17؍ ستمبر2005ء کو
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس وقت جو آپ خواتین یہاں میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ تین سکنڈے نیوین ملکوں سے آئی ہیں۔ آپ میں سے اکثریت بلکہ ایک لحاظ سے تمام ہی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ہیں۔ کچھ شائد ہندوستان سے بھی ہوں۔ کئی خاندان یہاں پاکستان سے آکر آباد ہوئے۔ آپ میں سے بعض خاندان چالیس پچاس سال پرانے بھی یہاں آباد ہیں جنہوں نے یہاں زندگیاں گزاریں، یہیں بچے پیدا ہوئے، جوان ہوئے، شادیاں ہوئیں، اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے اُن بچوں کی شادیاں بھی ہو گئیں۔ یہاں آنے والے اکثر خاندان بلکہ تمام خاندان ہی پاکستان سے یا ان ملکوں سے کسی سختی کی وجہ سے یہاںآئے یا معاشی حالات بہتر کرنے کی وجہ سے آئے۔ اور الحمدللہ کہ یہاں آنے والے تمام خاندان ہی پہلے کی نسبت بہت بہتر معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن یہ بہتر معاشی حالات آپ کو دین سے، اسلام کی خوبصورت تعلیم سے غافل نہ کردیں۔ یہ بہتر معاشی حالات آپ کو اس بات سے غافل نہ کردیں کہ آپ کے باپ دادا نے، بزرگوں نے بڑی قربانیاں دے کر احمدیت کو قبول کیا تھا اور پھر یہ کو شش کی تھی کہ اپنی نسلوں میں بھی اس انعام کو جاری رکھیں۔ آپ کے بہتر معاشی حالات، مالی حالات اس بات سے آپ کو غافل نہ کردیں کہ آپ اس زمانے کے امام کی جماعت میں شامل ہیں اور اس امام کو ماننے اور آپ کے بزرگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج آپ ان ملکوں میں پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔ ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں۔ بچوں کے لئے تعلیم کے مواقع میسر ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کئے آپ کو اللہ تعالیٰ کا مزید شکر گزار بننا چاہئے۔ اور کسی ذہن میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ یہ سب کچھ میرے خاوند یا میرے باپ یا میرے بیٹے کی زور بازو اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے جو آپ کو ملا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کے نام روشن کرنے والی بنیں۔ ان فضلوں کا تقاضا ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرنے والی بنیں اور نہ صرف خود اس تعلیم پر عمل کریں بلکہ اپنی اولادوں کی بھی اس فکر کے ساتھ نگرانی کریں اور تربیت کریں کہ کہیں وہ مغرب کے آزاد ماحول کی وجہ سے دین سے دور نہ ہٹ جائیں۔ خاص طور پر لڑکوں کی بڑی نگرانی کرنی پڑتی ہے۔
آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ ان ملکوں میں نئے شامل ہونے والے احمدی جو یہاں کے مقامی ہیں اور بعض دوسری قوموں کے بھی ہیںاور ان میں سے بھی اکثریت عورتوں کی ہے انہوں نے آپ کے نمونے دیکھنے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن عورتوں نے یعنی یہاں کی مقامی عورتوں نے مردوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں وہ ان مردوں کے نمونے بھی دیکھیں گی اور اتنا ہی دین سیکھیں گی اور سمجھیں گی جتنا ان کے پاکستانی خاوند یا پرانے احمدی خاوند دین پر عمل کرتے ہیں۔ اس لئے مردوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان کی تربیت کریں۔مردوں کو میں اس سے باہر نہیں کر رہا۔ لیکن عورتوں کے ماحول میں جب یہ نئی عورتیں آئیں گی یعنی نئی احمدی ہونے والی عورتیں آئیں گی جنہوں نے بیعت کی ہے اور احمدیت میں شامل ہوئی ہیں تو وہ آپ عورتوں کے نمونے بھی دیکھیں گی۔ لجنہ کے اجلاسوں میں، اجتماعوں میں وہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا اور عمل دیکھیں گی۔ دینی احکام کی آپ کتنی پابندی کرتی ہیں وہ یہ سب کچھ دیکھیں گی۔ آپ جس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں وہ دیکھیں گی۔ اور اگر آپ لوگوں کے قول و فعل میں تضاد ہو گا، اگر آپ کے رویّے اسلامی تعلیم کے خلاف ہوںگے۔ اگر آپ ایک دوسرے کی عزت اور احترام نہیں کر رہی ہوں گی تو آپ ان کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتی ہیں۔
پس ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ عورتوں کی جو پرانی احمدی عورتیں ہیں جو پاکستان سے ہجرت کرکے یہاں آئی ہیں یہ ہے کہ آپ اپنے نمونے ان لوگوں کے سامنے قائم کریں۔ ایسے نمونے قائم کریں جو اسلام کی حسین تعلیم کے نمونے ہیں تاکہ نئے شامل ہونے والوں کی تربیت بھی ہوسکے اور آپ کے ان نمونوں کی بدولت اور آپ کے ان نمونوں کی وجہ سے آپ کے لئے تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہوسکے۔ آپ احمدیت اور اسلام کا پیغام بھی آگے پہنچا سکیں۔ آپ کے لئے مزید راستے کھل سکیں جن پر چل کر آپ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کو پہنچائیں گی۔ یاد رکھیں آپ کے نمونوں کو دنیا بڑے غور سے دیکھتی ہے۔
آج یہاں ان ملکوں میں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہوگئے ہیں۔ مختلف جگہوں سے لوگ آئے ہیں جن میں عرب کے مختلف ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں ترکی وغیرہ کے لوگ بھی شامل ہیں اور دوسری قوموں کے بھی ہیں۔ تو ان مسلمان ملکوں کے لوگ جو یہاں آئے ہیں ان کو جب آپ تبلیغ کرتی ہیں یا مرد تبلیغ کرتے ہیں تو آپ کا اسلام پر عمل اگر ان سے بہتر نہیں ہے تو وہ آپ سے سوال کریں گے کہ تم میں ہماری نسبت کیا بہتری ہے؟ اسلام کے مطابق تمہارے کیا عمل ہیں جو ہمارے سے بہتر ہیں؟ پہلے یہ بتاؤ کہ زمانے کے امام کو مان کر تم نے اپنے اندر کیا انقلاب پیدا کیا ہے جو ہمیں کہہ رہی ہو کہ ہم بھی اس امام کو مان لیں۔
مَیں پہلے بھی ایک دفعہ بیان کر چکا ہوں۔ مثال دے چکا ہوں کہ انہی ملکوں میں، مغرب میں ہی ہمارے ایک مبلغ ترکوں میں تبلیغ کے لئے گئے توان ترکوں نے کہا کہ کون سے صحیح دین کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو۔تمہاری عورتیں تو خود اس پر عمل نہیں کر تیں۔ تو اس بیچارے نے بڑاا شرمندہ ہو کرپو چھا کہ ہماری عورتوں کے کیا عمل ہیں جو تم نے دیکھے ہیں؟ ۔ کیا برائی ہے جو تم نے ہم میں دیکھی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اسلام میں ایک حکم پردہ کا بھی ہے۔ ہماری عورتیں برقعہ پہنتی ہیں، اکثرپردہ کرتی ہیں جب کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں بغیر حجاب اور پردے کے پھرتی ہیں۔ تو جن چند ایک کو انہوں نے دیکھا ان سے انہوں نے پوری جماعت احمدیہ کو اس پیمانہ پر رکھا حالانکہ میرے خیال میں ایسی چند ایک ہوںگی۔ تو دیکھیں ان چند لڑکیوں یا عورتوں کی وجہ سے ان لوگوں نے احمدیت کے بارے میں بات سننے سے ہی انکار کر دیا۔ ایسی عورتیں یا لڑکیاں جماعت کی بدنامی کا باعث علیحدہ بنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ہمارے مرید ہمیں بدنام نہ کریں۔ یہ الفاظ میرے ہیں، کچھ اس قسم کے ملتے جلتے الفاظ ہی ہیں۔ تو دیکھیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف منسوب ہوکر پھر ایسی باتیں جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں ان سے بچنا چاہئے۔
پردہ ایک بنیادی اسلامی حکم ہے اور قرآن کریم میں بڑا کھول کر اس کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ لوگ جو قرآن کریم غور سے نہیں پڑھتے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اتنی سختی نہیں کی۔ یہ تو ایسا واضح حکم ہے جو بڑا کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اور پہلے بھی میں دو تین دفعہ کہہ چکا ہوں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شائد میں ہی اس کو سختی سے زیادہ بیان کر رہا ہوں ۔ حالانکہ میں وہ بیان کر رہا ہوں جو قرآن کریم کے مطابق ہے۔ میں وہ بات آپ کو کہہ رہا ہوں جو قرآن کریم کہتا ہے۔ قرآن کریم پردہ کے بارہ میں کیا کہتا ہے۔ یہ لمبی آیت ہے اس میں حکم ہے

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ (النور:32)

کہ اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں ۔

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْاٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآء بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَائِھِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِھِنَّ (النور:32)

اورپھر لمبی فہرست ہے کہ باپوں کے سامنے، خاوندوں کے سامنے ، بیٹوں کے سامنے جو زینت ظاہر ہوتی ہے وہ ان کے علاوہ باقی جگہ آپ نے ظاہر نہیں کرنی ۔
اب اس میں لکھا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لو۔ تو بعض کہتے ہیں کہ گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنے کا حکم ہے اس لئے گلے میں دوپٹہ ڈال لیا یا سکارف ڈال لیا تو یہ کافی ہو گیا۔ تو ایک تو یہ حکم ہے کہ زینت ظاہر نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر نکلوتو اتنا چوڑا کپڑا ہو جو جسم کی زینت کو بھی چھپاتا ہو۔ دوسری جگہ سر پر چادر ڈالنے کا بھی حکم ہے۔ اسی لئے دیکھیں تمام اسلامی دنیا میں جہاں بھی تھوڑا بہت پردہ کا تصور ہے وہاں سر ڈھانکنے کا تصور ضرور ہے۔ ہر جگہ حجاب یا نقاب اس طرح کی چیز لی جاتی ہے یا سکارف باندھا جاتا ہے یا چوڑی چادر لی جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ (النور:32)

بڑی چادروں کو اپنے سروں سے گھسیٹ کر سینوں تک لے آیا کرو۔ بڑی چادر ہو، سر بھی ڈھانکا ہو اور جسم بھی ڈھانکا ہو۔ باپوں اوربھائیوں اور بیٹوں وغیرہ کے سامنے تو بغیر چادر کے آسکتی ہو۔ اب جب باپوں اور بھائیوں اور بیٹوں کے سامنے ایک عورت آتی ہے تو شریفانہ لباس میں ہی آتی ہے۔ چہرہ وغیرہ ننگا ہوتا ہے ۔ تو فرمایا کہ یہ چہرہ وغیرہ ننگا جوہوتا ہے یہ باپوں اوربھائیوں اور بیٹوں اور ایسے رشتے جو محرم ہوں، ان کے سامنے تو ہو جاتا ہے لیکن جب باہر جاؤ تو اس طرح ننگا نہیں ہونا چاہئے۔ اب آج کل اس طرح چادریں نہیں اوڑھی جاتیں۔ لیکن نقاب یا برقع یا کوٹ وغیرہ لئے جاتے ہیں۔ تو اس کی بھی اتنی سختی نہیں ہے کہ ایسا ناک بند کرلیں کہ سانس بھی نہ آئے ۔ سانس لینے کے لئے ناک کو ننگا رکھا جاسکتا ہے لیکن ہونٹ وغیرہ اور اتنا حصہ، دہانہ اور اتنا ڈھانکنا چاہئے۔ یا تو پھر بڑی چادر لیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سر پر اوڑھیں، خود بخود پردہ ہو جاتا ہے، بڑی چادر سے گھونگٹ نکل آتا ہے۔ یا اگر اپنی سہولت کے لئے برقع وغیرہ پہنتے ہیں تو ایسا ہو جس سے اس حکم کی پابندی ہوتی ہو۔ تنگ کوٹ پہن کر جو جسم کے ساتھ چمٹا ہو یا ساراچہرہ ننگا کر کے تو پردہ، پردہ نہیں رہتا وہ توفیشن بن جاتا ہے۔ پس میں ہر ایک سے کہتا ہوں کہ اپنے جائزے خود لیں اور دیکھیں کہ کیا قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق ہر ایک پردہ کر رہا ہے۔
نئی آنے والی احمدی بہنوں سے میں کہتا ہوں کہ آپ نے احمدیت اور اسلام کی تعلیم کو سمجھ کر قبول کیا ہے۔ آپ یہ نہ دیکھیں کہ آپ کے خاوند کیسے احمدی ہیں یا دوسری خواتین کیسی احمدی ہیں ۔ آپ اپنے نمونے بنائیں۔ اسلامی تعلیمات کی خالص مثال قائم کریں ۔ اپنے خاوندوں کو بھی دین پر عمل کرنے والا بنائیں۔ اپنے بچوں کو بھی اسلام کی تعلیم کے مطابق تربیت دیں۔ اور دوسری پرانی پیدائشی احمدی بہنوں کو بھی، اپنے نمونے قائم کرکے ان کے لئے بھی تربیت کے نمونے قائم کریں۔ ان کے لئے بھی آپ مثال بنیں۔ بعض دفعہ بعد میں آنے والی نیکی اور تقوی میں پہلوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ افریقہ میں بھی مَیں نے دیکھا ہے پردہ کی پابندی اور اسلامی تعلیم پر عمل کرنے والی کئی خواتین ہیں جو مثال بن سکتی ہیں۔ امریکہ میں بھی وہاں کی مقامی کئی ایسی خواتین ہیں جو احمدی ہوئیں اور مثال بن گئیں۔ جرمنی میں بھی کئی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے بیعت کی اور مثال بن گئیں۔ یہاں آپ کے ملکوں میں بھی ایسی خواتین ہیں۔ان ملکوں میں بھی کئیوں کی پردے کی بڑی اچھی مثالیں ہیں اور دوسرے احکامات پر عمل کرنے کی بھی مثالیں ہیں ۔ تو نئی بیعت کرنے والیاں ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر کسی پاکستانی عورت میں کوئی برائی دیکھیں تو ٹھوکر نہ کھائیں۔ چند اگر بُری ہیں توبہت بڑی اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی بھی ہیں۔ پھر آپ نے کسی مرد یا عورت کی بیعت نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے۔ اپنے نمونے قائم کرکے جیسا کہ میں نے کہا پرانی احمدیوں کے لئے بھی تربیت کے سامان پیدا کریں۔ اس سے آپ کو دوہرا ثواب ہوگا آپ دوہرے ثواب کما رہی ہوں گی۔
پردہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت بند ہو جائے ۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں عورتیں جنگوں میں بھی جایا کرتی تھیں۔ پانی وغیرہ پلایا کرتی تھیں۔ دوسرے کاموں میں بھی شامل ہوتی تھیں ۔ پھر آنحضرتﷺ کی سیرت اور اسلام کے بہت سے احکام کی وضاحت اور تشریح ہمیں حضرت عائشہؓ کے ذریعہ سے ملی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے آدھا دین سکھایا ہے۔ اس لئے روشن خیالی، تعلیم حاصل کرنا، علم حاصل کرنا بھی بچیوں کے لئے ضروری ہے۔ اور ضرور کرنا چاہئے۔ نہ صرف اپنے لئے ضروری ہے بلکہ آئندہ ان بچوں کے لئے اور ان نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے جو آپ کی گودوں میں پلنے اور بڑھنے اور جوان ہونے ہیں اور جنہوں نے احمدیت کی خدمت کرنی ہے۔اگر مجبوری سے کسی کو کام کرنا پڑتا ہے، کسی جگہ ملازمت کرنی پڑتی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ان باتوں کا بہانہ بنا کر، ان ملازمتوں کا، نوکریوں کا یا تعلیم حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر پردے نہیں اترنے چاہئیں۔ اور یہاں مقامی جیسے کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ڈینش یا سویڈش شائد چند نارویجین بھی ہوں۔ مجھے ابھی کوئی ملی نہیں وہ تو کم ہیں۔ اس طرح پاکستانی خواتین بھی ہیں جو پڑھتی بھی ہیں، کام بھی کرتی ہیں، لیکن پردہ میں ۔ تو جو پردہ کی وجہ سے کام یا پڑھائی میں روک کا بہانہ کرتی ہیں ان کے صرف بہانے ہیں۔ نیک نیت ہوکر اگر کہیں اس وجہ سے روک بھی ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ آپ جہاں ملازمت کرتی ہیں ان کو بتائیں تو کوئی پابندی نہیں لگاتا کہ حجاب اتارو یا سکارف اتارو یا برقع اتارو۔اور پھر نیک نیتی سے کی گئی کوششوں میں اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں‘‘۔ یعنی اپنے آپ کو ڈھانک کر رکھیں۔ ’’وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔ جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدّنی امور کے لئے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے‘‘۔ بعض پیشے ایسے ہیں، بعض کام ایسے ہیں، بعض ملک ایسے ہیں جہاں کام کرنے بھی پڑتے ہیں، باہر بھی جانا پڑتا ہے ۔ تو وہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس پر پابندی نہیں ہے۔ فرمایا کہ: ’’باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بے شک جائیں لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔ مساوات کے لئے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔ اور نہ ان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں‘‘۔ جس طرح مرد نیکیاں کرتے ہیں عورتیں بھی نیکیاں کرتی ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ عورتیں نیکیوں میں مردوں سے بڑھ جاتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں عورتوں کی بڑی کثیر تعداد ہے جو مردوں سے نیکیوں میں بڑھی ہوئی ہے، ہر جگہ اور ہر ملک میں ہے۔
فرمایا کہ: ’’اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔ اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔ یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘
یورپ میں اب یہ پردے کا بڑا شوراٹھتا ہے۔ فرمایا کہ یورپ کو دیکھو کہ کیا ہوتا ہے۔ اب آپ دیکھ لیں، یہاں غیرضروری آزادی کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ہی طلاقیں بھی ہوتی ہیں اور گھر بھی برباد ہوتے ہیں۔ اور یہ نسبت مشرق کے مقابلے میں مغرب میں بہت بڑھی ہو ئی ہے۔ یہاں جو طلاقیں ہیں یا ایک عرصہ کے بعد گھر برباد ہوتے ہیں، مشرقی معاشرہ میں اتنے نہیں ہوتے یا ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جاتی ہے۔ اور آج کل یہاں جن لوگوں نے پاکستان سے آکر یورپ کے اثرکو قبول کیا ہے ہمارے چند ایک پاکستانی احمدی بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں، دوسرے تو اکثر ہیں، وہ چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں اس معاشرہ کے اثر کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے گھر برباد کررہے ہیں۔ اور اسی لئے آج کل دیکھ لیں آپ پاکستانی خاندانوں میں بھی طلاقیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ذرا سی ناراضگی کی وجہ سے یا کوئی لڑکی علیحدگی لے لیتی ہے یا لڑکا علیحدگی لے لیتا ہے، طلاق لے لیتا ہے۔
تو آپؑ آگے فرماتے ہیں کہ: ’’اسلام تقویٰ سکھانے کے واسطے دنیا میں آیا ہے ۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ298-297۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت اور ہر احمدی بچی کو تقویٰ پر چلتے ہوئے اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
ایک اور بات جس کی طرف میں احمدی خواتین کو توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ بچوں کی تربیت ہے۔ ان ملکوں میں آکر آپ پر کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے صرف معاشی حالات بہتر کرنے نہیں آئیں بلکہ جس طرح معاشی حالات بہتر ہوتے ہیں اس طرح ہی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور ان میں سے بہت بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت ہے۔ اگر یہ ذمہ داری احسن طور پر آپ نبھالیں تو یہ فکریں بھی دور ہوجائیں گی کہ اگلی نسلوں کو یورپ کی جو بعض گندی باتیں ہیں اُن سے کس طرح بچانا ہے۔ آزاد ماحول سے کس طرح بچانا ہے۔ اس ماحول کی اچھائیاں تو آپ اختیار کریں۔یہاں اچھائیاں بھی ہیں لیکن برائیوں سے بچنے کی بھی انتہائی کوشش کرنی ہو گی۔ ان قوموں میں کھلے دل سے آپ کی بات سننے کا بڑا حوصلہ ہے۔ آپ کو انہوں نے اپنے ملک میں جگہ دی ہے، یہاں آباد کیا ہے ۔ یہ بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔ یہ بھی ان ملکوں کی بڑی خوبی ہے۔ احمدیوں کو خاص طور پر ان کی مجبوریوں کی وجہ سے یہاں مغرب میں پناہ ملی ہے ۔ سچائی کا عمومی معیار بھی ان لوگوں کا ایشینز (Asians) کی نسبت بہت اونچا ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ سچائی کی تعلیم اور بڑی شدت سے سچائی کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ لیکن بہر حال آزادی کے نام پر یہاں ان ملکوں میں بعض اخلاق سوز حرکتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان سے آپ نے خود بھی بچنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی بچانا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ(انعام:152)

اوررزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس کے بہت سے معانی کئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم ہر زمانے کی تعلیم ہے۔ کوئی اولاد کو اس طرح قتل نہیں کرتا کہ چھری پھیری جائے۔ پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسی تربیت نہ کرو جس سے تمہاری اولاد برباد ہو جائے۔ اب تربیت کرنے کے لئے مختلف طریقے ہیں۔ان ملکوں میں جہاں بچوں کے لئے حکومت خرچ دیتی ہے رزق کی تنگی کا تو کوئی خوف نہیں ہے۔ چھوٹے بچوں کو خرچ ملتا ہے۔ بڑے ہوجائیں اور گھر میں رہ رہے ہوں تو تب بھی جو خرچ ملتا ہے اس سے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اَور بھی باتیں ہیں۔تو یہاں ان ملکوں کے لحاظ سے، آپ کی نسبت کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہے کہ ماں باپ دونوں پیسے کمانے کے شوق میں کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچوں کو یا گھروں میں چھوڑ جاتے ہیں یا بڑے بہن بھائی کے، جن کی خود بھی ابھی تربیت کی عمر ہوتی ہے، ان کے سپرد کر جاتے ہیں۔ پھر بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے ایک آزادی ہوتی ہے کہ بچوں کو اگر کچھ بھی نہ دے کر جائیں تو یہاں بچے خود ہی (کیونکہ ماں باپ تو موجود ہوتے نہیں) ایسی فلمیں یا انٹر نیٹ پر ایسے پروگرام یا دوسری چیزیں ہیں ان میں مصروف ہو جاتے ہیں جن سے اور بہت سی بیہودہ قسم کی باتیں ان کو پتہ لگ جاتی ہیں۔ حالانکہ بچوں کو ایسی فلمیں وغیرہ نہیں دیکھنی چاہئیں کہ ان کو دیکھ کر اخلاق خراب ہوتے ہیں۔ یا ماں باپ کے سر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے ذرا بڑی عمر کے جو بچے ہوتے ہیں وہ زیادہ تر باہر وقت گزارتے ہیں اور ماحول کی برائیوں میں پڑ جاتے ہیں ۔یا بعض ایسی خوفناک قسم کی شکائتیں آجاتیں ہیں کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو اپنی طرف سے کسی قابل اعتبار شخص کے سپرد کر جاتے ہیں خاص طور پر لڑکیوں کو اور وہ ایسے گندے ذہن کے ہوتے ہیں کہ وہ ان بچیوں کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک کردیتے ہیں کہ ساری زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ مگر ماں باپ اس فکر میں ہیں کہ ہم نے تو اپنے خرچ پورے کرنے ہیں۔ ایسے خرچ جو غیرضروری بھی ہیں اور نہ بھی کئے جائیں تو ان سے بچت ہو سکتی ہے ۔ بعضوں نے جوڑے بنانے ہیں، بعضوں نے زیور بنانا ہے۔ اور بعضوں کو اتنا سخت کریز (craze) ہوتا ہے جوڑوں اور زیوروں کا کہ اگر نیا جوڑا ہر فنکشن میں نہ پہنا جائے تو سمجھتے ہیں کہ ہماری بے عزتی ہوگئی۔ تو اس سے بھی بچنا چاہئے۔ صرف جوڑوں اور زیوروں کی خاطر کمائیاں نہ کریں۔ ضرورت کے تحت کرنی ہو تو ٹھیک ہے۔ پیسہ کمانے کے شوق میں بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہوتے اور اس طرح بچے ماں باپ کی مکمل توجہ نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔ خاوند کی جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے۔ اس لئے ماؤں کو،عورتوں کو بہرحال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے، گھر میں رہنا چاہئے۔ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پرسکون محبت والا ماحول میسر آنا چاہئے۔ جائزہ لے لیں اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے محروم ہوتے ہیں۔ ماں باپ کے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ملتا نہیں۔ ان کو توجہ چاہئے۔ اور جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں۔ اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں۔
پھر اس قتل نہ کرنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ پیسہ کمانے کے لئے ایسی جگہوں میں نہ بھیجو جہاں ان کے دین سے دور جانے کا احتمال ہو۔ جہاں یہ امکان ہو کہ وہ دین سے دور چلے جائیں گے۔ بعض والدین پیسے کے لالچ میں کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے، اپنے بچوں کو جب وہ ابتدائی بنیادی تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو چھوٹی عمر میں ہی ایسی جگہوں پر، ریسٹورانٹوں میں ، کلبوں میں یا اور جگہوں پر ملازم کرادیتے ہیں جہاں ان کے اخلاق خراب ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو ماؤں نے اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت کی ہو گی اور ایک درد کے ساتھ تربیت کی ہو گی تو ایک تو بچے خود بھی پڑھائی کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے اور معمولی تعلیم حاصل کرکے معمولی اور لغو نوکریاں تلاش نہیں کریں گے۔ اور اگر کوئی ایسا ہو بھی جو تعلیم میں اچھا نہ ہو تو ماں کی تربیت کی وجہ سے ماں کی بات ماننے والا ہو گا۔ اور اگر ملازمت بھی کرے گا تو ایسی کرے گا جو بہتر ملازمت ہوگی۔ خاص طور پر بچیوں کو ایسی ملازمتوں سے ضرور بچانا چاہئے، ضرور محفوظ رکھنا چاہئے جس میں کسی بھی قسم کی بے حجابی کا امکان ہو۔ پیسے کمانے کے لئے بچیوں کی زندگیاں برباد نہ کریں۔ اور جو بچیاں نوجوان ہیں، باشعور ہیں، عقل والی ہیں اور ضد کرکے ایسے کام کرنے کی کو شش کرتی ہیں انہیں بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ بھی اب بڑی ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے مرید ہو کر ہمیں بدنام نہ کریں۔ اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کو بھی آپ کے پاک مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد بعض ایسے احمدی کہلانے والوں کے نمونے نظر آجائیں گے جو دنیاوی گند میں پڑ گئے ہیں اور دوسرے لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ پس احمدی بچی کو خاص طور پر ایسی ملازمتوں سے بچنا چاہئے جہاں اس کے تقدس پر حرف آتا ہو۔
پھراب بعض دفعہ رشتے کرنے کے معاملات آجاتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ کریں جہاں دین نہ ہو اور صرف دنیاوی روپیہ پیسہ نظر آرہا ہو۔ اس کو دیکھ کر رشتہ کررہے ہو کہ ہماری بیٹی کے حالات اچھے ہو جائیں گے یا ہمارا بیٹا کاروبار میں ترقی کرے گا تو یہ چیزیں بیشک دیکھیں لیکن ایسے خاندان کا جہاں رشتے کررہے ہیں یا ایسے لڑکے یا لڑکی کا جہاں رشتہ کررہے ہیں دین بھی دیکھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت سب سے اہم چیزدین ہے جو تمہیں دیکھنا چاہئے۔ بعض کہتے ہیں ہم نے اس خاندان کو دیکھا ہے۔ بڑا نیک خاندان تھا یہ تھا وہ تھا اور اس کے باوجود ایسے حالات ہو گئے۔ تو آج کل تو لڑکے کی اپنی دینی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے۔ ہر جگہ حالات ایک جیسے ہیں۔دنیا اتنا زیادہ دنیاداری میں پڑ چکی ہے کہ جب تک خود لڑکے کی تسلی نہ ہو جائے ، کسی قسم کے رشتے نہیں کرنے چاہئیں کہ صرف پیسہ ہے اس کو دیکھ کر رشتہ کرلیا۔ ایسے بہت سارے رشتے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اگر صرف دنیا دیکھیں گے تو یہ بچیوں کو دین سے دور کرنے والی بات ہو گی۔ کئی ایسی بچیاں ہیں جو ایسے رشتوں کی وجہ سے جماعت سے تو کٹی ہیں، اپنے گھر والوں سے بھی کٹ گئی ہیں۔ ان سے بھی وہ ملنے نہیں دیتے۔ پس صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں۔ اور اسی طرح اور بھی قتل اولاد کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جہاں جہاں تربیت میں کمی ہے وہ قتل اولاد ہی ہے۔
پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی راہنمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں ۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں۔ اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی ،اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہر حال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنّت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنّت ہے۔ اگر اس کی بعض خواہشات خاوند کی آمد سے پوری نہ ہوتی ہوں مثلاً جیسے کسی کازیور یا کپڑے دیکھ کر، جیسے کہ پہلے بھی مَیں نے کہا ہے، اگر اس کا دل چاہے کہ میرے پاس بھی ایسا ہی ہو لیکن اپنے بچوں کی تربیت کے لئے وہ قربانی کرتی ہے تو یقیناً اس قربانی کی وجہ سے، اس کی اس سوچ کی وجہ سے کہ میرے بچے اچھی تربیت پا جائیں مجھے دنیاوی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔ اور ایسے بچے پھر فرمانبردار اور نیک بچے بن کر اس دنیا میں بھی ایک جنّت بنا رہے ہوتے ہیں اور نیکیوں پر قدم مارنے اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے یہ اپنے لئے اگلی دنیا میں بھی جنت بنا رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ مائیں بھی نہ صرف جنّتیں بنانے والی ہیں بلکہ جنّت کوحاصل کرنے والی بھی ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ماں جس کی وجہ سے اس کے بچوں کو جنّت مل رہی ہے اس کو اللہ میاں کہے کہ نہیں تم کو جنّت نہیں مل سکتی۔ اس کو تو اور زیادہ ضمانت دی جارہی ہے کہ تم جنت میں جانے والی ہو ۔ جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ اس دنیا میں بھی جنت کے نظارے دیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے امید رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے گا اور وہ اس کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوںگے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے جس طرح مجھ سے امید رکھتے ہیں ویسا ہی میں ان سے سلوک کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا بندہ بننا شرط ہے ۔
پس ہر احمدی عورت کو اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے، اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ ایک تو اس نے اپنے نمونے قائم کرنے ہیں تاکہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اور پیغام کو پہنچانے میں وہ ممدّ و معاون بن سکے اور اپنے اندر اسلامی تعلیمات رائج کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر عمل کرنے والی ہو ۔ دوسرے دعا کے ساتھ ہمیشہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے والی ہو۔ انہیں ہلاکت سے بچانے والی ہو اور جب آپ اس طرح ہوں گی تو آپ کی تربیت کی وجہ سے آپ کی اولادیں نسل درنسل جنّت کی ضمانت دیتی چلی جانے والی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں