جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

آج اگر کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ ختم نبوت کی پہچان ہے تو وہ احمدی ہے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنے والے اگر کوئی ہیں تو وہ احمدی ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ قرآن اور حدیث کی رُو سے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اُس کا صحیح فہم و اِدراک عطا فرمایا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مقام خاتم النبیّین ؐ کی پُرمعارف تشریح
اگرآج مسلمان اپنا اسلام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو سوائے خاتم الانبیاء کے عاشقِ صادق کے پیچھے چلنے کے اور کوئی راستہ نہیں۔ اس لئے اس مسیح و مہدی کی دشمنی کو چھوڑ دیں۔
قرآنِ کریم میں کئی آیات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف نبی آ سکتا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نبی کا آنا آپ کے مقام کو اونچا کرتا ہے نہ کہ کم۔
آج آپ احمدی ہیں جنہوں نے اس خاتم النبیّین کے مقام کو پہچاننا ہے۔ آپ ہیں جنہوں نے اس مقام سے دوسروں کو بھی آشنا کرنا ہے۔ اپنی عبادتوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں جو اس خاتم الانبیاء نے کئے۔ اور جس کے نمونے ہمیں اس کے غلامِ صادق نے دکھا کر ہم سے توقع کی کہ ہم بھی ایسے بنیں اور اس سنّت پر چلیں۔
اختتامی خطاب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 28 دسمبر 2005ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان بمقام قادیان دارالامان (انڈیا)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا(الاحزاب:41)

اس زمانے میں جبکہ جماعت احمدیہ کے تمام دنیا میں پھیل جانے کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں میڈیا کی وجہ سے بھی اور گزشتہ دس گیارہ سال میں ایم ٹی اے کی وجہ سے بھی احمدیت کا تعارف دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو چکا ہے۔ اور اگر کسی جگہ ان ذرائع سے یہ تعارف نہیں ہوا تو غیر از جماعت مُلّاں نے ہمارے خلاف زہر اُگل کر یہ تعارف کروا دیا ہے۔ اُس کا فائدہ مُلّاں کو تو پتہ نہیں ہوا کہ نہیں لیکن جماعت کی تبلیغ خوب ہو رہی ہے۔ بعض ملکوں میں احمدیوں کے خلاف ظالمانہ سلوک ہوتا ہے۔ کئی ملک اس میں شامل ہیں۔ جویہ سلوک ہے اور اس کی جورپورٹنگ ہے وہ بھی میڈیا کی وجہ سے منٹوں میں دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ بہرحال اب چاہے وہ مغربی دنیا ہو یا جو دوسرے دنیا کے ممالک ہیں ہر جگہ لوگ یہ جان گئے ہیں کہ مُلّاں احمدیت کے خلاف ہے یا احمدیت کے خلاف فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں بھی دورے پر جاؤ، اخبارنویسوں کے علاوہ جن شخصیات سے بھی ملو وہ یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ تمہارے میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟دوسرے مسلمان کیوں تمہارے خلاف ہیں؟ اصل بات تو اُنہیں یہ کہنی چاہئے کہ کیوں یہ نام نہاد مُلّاں تمہارے خلاف ہیں۔ ہمارے خلاف مسلمانوں کی جواکثریت ہے اُسے جماعت کے بارے میں صحیح علم ہی نہیں ہے ۔ صرف مُلّاں کے پیچھے چلنے کی وجہ سے بیچارے اختلاف رکھتے ہیں ۔ بہرحال جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ سب سے بڑا الزام ہم احمدیوں پر یہ لگایا جاتا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ اُن سے بڑا نبی تسلیم کرتے ہیں اور آخری نبی سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر ایک الزام ہے جو احمدیوں پر لگایا جاتا ہے۔
آج اگر کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ ختم نبوت کی پہچان ہے تو وہ احمدی ہے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر چلنے والے اگر کوئی ہیں تو وہ احمدی ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ قرآن اور حدیث کی رُو سے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اُس کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمایا ہے۔ مخالفین اپنے زعم میں، اپنے خیال میں اس آیت کی روشنی میںجو میں نے تلاوت کی ہے یہ الزام عائد کرتے ہیںکہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’محمدؐ تمہارے جیسے مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے ‘‘۔(الاحزاب:41)
جماعت احمدیہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ان لوگوں کو سمجھا رہی ہے اور حضرت مسیح موعود کے الہام کے زمانے سے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سمجھا رہے ہیں کہ دیکھو تم جو خاتم النبیین کی تشریح کرتے ہو کہ اب کوئی نبی نہیں آ سکتا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ خاتَم کا مطلب مہر ہے اور یہی ہر جگہ لغات سے ثابت ہے۔ تمام لغات دیکھ لیں، ان الفاظ کے ارد گرد معنی گھومتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یا یہ معنی ہیں کہ خوبصورت، بہترین اور کامل۔ لیکن اب علمی بحث سے تو یہ لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ اپنے لٹریچر میں خاتَم اور خاتِم کی بحث میں پڑ گئے ہیں بلکہ مَیں اُردو کی ایک لغت دیکھ رہا تھا اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام باہر صفحہ پر لکھے ہوئے تھے وہاں بھی خاص طور پر زیر ڈال کر خاتِم لکھا ہوا تھا۔ اور بھی اسی طرح بلکہ بعض جگہ تو قرآن میں بھی تحریف کر دی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ختم کرنے والا‘‘ اور اب نبوت ختم ہو گئی۔ بہر حال یہ تو ایک لمبی بحث ہے۔اس وقت مَیں یہ بیان کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کی رو سے اس مقامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح بیان فرمایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ عربی سے ترجمہ ہے کہ ’’پس جان لے اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے کہ نبی مُحدَّث ہوتا ہے اورمُحدَّث نبوّت کی انواع میں سے ایک نوع کے حصول کی وجہ سے نبی ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نبوّت میں سے صرف اس کی ایک نوع باقی رہ گئی ہے اور وہ رؤیا صادقہ و مکاشفات صحیحہ کی اقسام میں سے مبشّرات ہیں۔ اور وہی ہے جو خاص خاص اولیاء پر نازل ہوتی ہے۔ اور وہ وہ نور ہے جو درد مند قوم کے دلوں پر اپنی تجلّی فرماتا ہے۔ پس اے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والے اور بصیرت رکھنے والے! سُن کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بابِ نبوّت کلّی طور پر بند ہے؟ بلکہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی نبوّتِ کاملہ جو وحی شریعت کی حامل ہو وہ منقطع ہو چکی ہے۔ لیکن ایسی نبوت جس میں صرف مبشّرات ہوں، وہ قیامت تک باقی ہے اور کبھی منقطع نہیں ہو گی ۔اور تجھے اس بات کا علم ہے اور تُو نے کتبِ حدیث میں بھی یہ پڑھا ہے کہ رؤیا صالحہ نبوّت یعنی نبوّتِ تامہ کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ پھر جب رؤیاء صادقہ کو یہ مرتبہ حاصل ہے تو پھر وہ کلام کتنا عظیم ہو گا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے محدّثین کے قلوب پر نازل کیا جاتا ہے۔ پس جان لے، اللہ تعالیٰ تیری مدد فرمائے، کہ ہمارے کلام کا ماحصل یہ ہے کہ نبوّت جزئیہ کے دروازے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور اس نوع میں وہ مبشرات اور منذرات آتی ہیں جو اُمورِ غیبیہ پر مشتمل ہوتی ہیں یا لطائف قرآنی اور علومِ لدِنّی سے اُن کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن نبوّتِ کاملہ تامّہ جو وحی کے تمام کمالات کی جامع ہے، ہم اس کے منقطع ہونے پر اُس دن سے ایمان لاتے ہیں جب سے یہ آیتِ قرآنی نازل ہوئی۔

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن (الاحزاب:41) ‘‘

(ترجمہ عربی عبارت توضیح مرام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 60 تا 61 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم حصہ ہفتم صفحہ 50-51 حاشیہ۔ نظارت نشر و اشاعت قادیان 2004ء)
تو یہ بات تو اُسے سمجھ آئے گی جو کھرے اور کھوٹے میں تمیز رکھنے والا ہو گا، جو صاحبِ بصیرت ہوگا۔
اِن بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں بصیرت ہی نہیں رہی۔ اُن میں اتنی عقل ہی نہیں رہی کہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر سکیں۔ ان بظاہر پڑھے لکھے نام نہاد علماء سے تو وہ غریب اَن پڑھ، دیہاتوں کے رہنے والے، بظاہر جاہل نظرآنے والے زیادہ صاحبِ فراست و نظر ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آئے۔ یہ نورِ فراست و نورِ بصیرت جو ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے۔
پس مَیں ان لوگوں کو یہ کہتا ہوں کہ اگر نیک دل ہیں تو احمدیوں کے خلاف شور شرابا کرنے کی بجائے عقل استعمال کرتے ہوئے، خدا کا خوف دل میں رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں، اُس سے مدد مانگیں۔ کم علم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی بجائے اگر دل میں خوفِ خدا ہے تو پھر اس بات کی تلقین کریں کہ زمانہ اس بات کا متقاضی ہے، یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ مسیح و مہدی کا نزول ہو، کسی مصلح کا نزول ہو اور اس زمانے میں ایک دعویٰ بھی موجود ہے۔ اللہ سے یہ دعا مانگیں کہ تو ہماری رہنمائی فرما تا کہ ہم بھٹکے ہوؤں میں شمار نہ ہوں اور تیرے غضب کی پکڑ میں نہ آئیں۔ ہم سے یہ سوال نہ ہو کہ جب میرا بھی تمہیں یہ حکم تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی واضح طور پر فرما دیا تھا کہ جب آنے والا آئے تو اُسے میرا سلام پہنچانا۔(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 182 مسند ابی ہریرۃ۔ حدیث 7957۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
تو کیوں نہیں مانا۔ پس جب اس طرح مسلمان دعا کریں گے اور رب سے راہِ ہدایت مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ نیک نیتی سے دعا مانگنے والوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔
عام طور پر علماء کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ آئیں گے۔ ایک تو یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ وہ زندہ موجود ہیں یا نہیں، ہم تو بہر حال اُن کو فوت شدہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان لوگوں کے نظریات کے مطابق دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو کیا وہ نبی نہیں ہوں گے؟ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ توہین ہے کہ آپؐ کی نبوت کے اختتام تک پہنچانے کے لئے آپؐ کی اُمّت میں سے تو کوئی اس قابل نہ ٹھہرے اور بنی اسرائیل کے ایک نبی کی خدا کو مدد لینی پڑے۔ گویا خدا تعالیٰ بھی یہاں مجبورہو گیا کہ اُمّتِ مسلمہ میں کسی کو اعزاز نہ بخش سکا گو کہ وہ کتنا ہی نیک اور خدا کے آگے جھکنے والا ہو۔ یہ تو نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی صفات کا بھی انکار ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے انکار کے بھی مرتکب ہورہے ہیں۔ ایسے لوگ ہوش کے ناخن لیں اور سوچیں اور سمجھیں۔ بلا وجہ مسلمانوں کو ابتلا میں نہ ڈالیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
’’اللہ تعالیٰ ہمارے نبی خاتم النبیِّین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجے گا اور نہ سلسلۂ نبوّت کے منقطع ہونے کے بعد اُسے دوبارہ جاری کرے گا‘‘۔ (یعنی اُمّت سے باہر )’’اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا اُن میں اضافہ کرے۔ اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرے اور بھول جائے کہ وہ قرآنِ مجید کو کامل کر چکا ہے اور دینِ متین میں فتنے پیدا ہونے کی راہ کھول دے۔ کیا تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں پڑھتے کہ آنے والا مسیح آپؐ کی ہی اُمّت کا ایک فرد ہو گا۔ اور آپؐ کے دین کے تمام احکام کی اتّباع کرے گا۔ اور مسلمانوں کے طریق پر نماز ادا کرے گا۔(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 377 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم حصہ ہفتم صفحہ 53 حاشیہ۔ نظارت نشر و اشاعت قادیان 2004ء)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’ جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں تو وہ شخص جو اس مسیح کے نزول کو مانتا ہے جو بنی اسرائیل کا ایک نبی ہے تو بیشک وہ خاتم النبیّین کی نص کا منکر ہو گیا۔ پس افسوس ہے اُن لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ…… وہ آ کر قرآنِ کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرے گا اور بعض پر اضافے کرے گا اور اس پر چالیس سال تک وحی نازل ہوتی رہے گی اور وہ خاتم المرسَلین ہو گا۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور آپؐ کا نام اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء رکھا ہے۔ پھر آپ کے بعد کوئی نبی کیسے آ سکتا ہے‘‘۔(یعنی امت سے باہر)۔
(ترجمہ عربی عبارت تحفہ بغداد روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 34 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم حصہ ہفتم صفحہ 54 حاشیہ۔ نظارت نشر و اشاعت قادیان 2004ء)
تو اس قسم کے مختلف نوع کے نظریات عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے بارے میں مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھا کر عیسائی پہلے بھی سرگرم رہے اور مسلمانوں کو عیسائی بناتے رہے اور اب بھی دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں اور اب دنیا میں ان کے حملوں کی بھرمار ہو رہی ہے۔
پس آج اگر مسلمان اپنا اسلام زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو سوائے خاتم الانبیاء کے عاشقِ صادق کے پیچھے چلنے کے اور کوئی راستہ نہیں۔ اس لئے اس مسیح و مہدی کی دشمنی کو چھوڑ دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دکھانے کے لئے ایسے راستے ہمیں بتائے، جن پر ایک سطح پر رہنے والا جو انسان ہے اُس کی نظر نہیں جا سکتی۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِک (البقرۃ:5)

اور وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور اُس پر بھی جو تجھ سے پہلے اتارا گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
’’ایک اور صفت متقیوں کی بیان کی یعنی وہ

وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ(البقرۃ:5)

کے موافق ایمان لاتے ہیں۔ اور ایسا ہی جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اُس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر ہدایت کیا ہے؟‘‘(اس سے پہلے جوہدایت کی آیت ہے)’’ وہ ہدایت یہ ہے کہ ایسا انسان خود اس قابل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر وحی اور الہام کا دروازہ کھولا جاتا ہے‘‘۔ فرمایا’’ یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ نے وحی و الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا۔ جو لوگ اس اُمّت کو الہام و وحی کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآنِ شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں۔ اُن کے نزدیک یہ اُمّت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات اور برکات کا معاذاللہ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلّم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آ کر خاموش ہو گیا‘‘۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ یہ یقینا یاد رکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے۔ ورنہ عیسائیوں کے ہاں بھی مہر لگ چکی ہے۔ وہ اب کوئی شخص ایسا نہیں بتا سکتے جو اللہ تعالیٰ کے مخاطبہ مکالمہ سے مشرف ہو۔ اور ویدوں پر تو پہلے ہی مہر لگی ہوئی ہے……‘‘۔ فرمایا’’ مجھے افسوس ہوتا ہے جب مَیں مسلمانوں کے مُنہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے سنتا ہوں کہ اب مکالمہ مخاطبہ کی نعمت کسی کو نہیں مل سکتی…۔ اگر اسلام میں یہ کمال اور خوبی نہ ہو تو پھر دوسرے مذاہب پر اُسے کیا فخر اور امتیاز حاصل ہو گا؟‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 612 تا 614 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہے مقامِ ختم نبوّت اور یہ ہے اُس کامل شریعت کا کمال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری کہ اُس کی پیروی سے آپؐ کی اُمّت کے لوگوں کو بھی وحی و الہام ہوتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ پھر ہم میں اور دوسروں میں فرق کیا رہ گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’نبوّت کے معنی اظہارِ امر غیب ہے۔ اور نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے۔ یعنی عبرانی میں اس لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنی ہیں خدا سے خبر پا کر پیشگوئی کرنا۔ اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ کھلتے ہیں‘‘۔
(ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209-210)
فرمایا:’’ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرتِ صدیقی کی کھلی ہے۔ یعنی فنا فی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے، اُس پر ظلّی طور پر وہی نبوّت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوّتِ محمدی کی چادر ہے۔ اس لئے اُس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اُسی کے جلال کے لئے……‘‘۔ فرمایا:’’ غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے۔ نہ میرے نفس کے رُو سے۔اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا ۔ لہٰذا خاتم النبیّین کے مفہوم میں فرق نہ آیا‘‘۔ (ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207-208)
پس یہ ہے مقامِ ختم نبوت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے نبوت کا درجہ ملتا ہے۔ نہ یہ کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات سے ہی دستبردار ہو جائے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اگر بصیرت کی آنکھ ہو تو نظر آتا ہے۔ اگر تعصب کی آنکھ سے اپنے آپ کو پاک کر کے دیکھیں گے تو نظر آئے گا۔
سکینڈے نیویاکے ملک میں دورے کے دوران ایک موقع پر ان کی ایک وزیر نے ایک فنکشن میں باتوں کے دوران اس سے متعلق سوال پوچھا۔ گفتگو شروع ہو گئی تو مَیں نے اُسے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ہمیشہ سے قائم ہیں یا نہیں۔ یا کچھ صفات ویسی ہی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے کمی کر لی ہے یا ختم کر دی ہیں۔ وہ منسٹر تھی وہ کہنے لگی کہ یہ سب قائم ہیں۔یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ تو پھر مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت اور قدرت بھی ہے کہ وہ نبی بھیجتا ہے، تو آج بھی نبی بھیج سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ کسی پرانے نبی کو لائے جس کے بارے میں مسلمان بھی انتظار کر رہے ہیں اور دوسرے مذہب والے بھی انتظار کر رہے ہیں۔ تو کہنے لگی بات میں وزن تو ہے، logic تو ہے۔ تو اب دنیادار لوگوں کا ماننا نہ ماننا، مذہب کو تسلیم کرنا، یہ علیحدہ بات ہے لیکن کم از کم یہ اُن میں حیا ہے کہ اگر دلیل دل کو لگے تو کج بحثی نہیں کرتے۔ فتنہ فساد نہیں کرتے۔ پھر مخالفین کے لئے قتل و غارت نہیں کرتے۔
پس یہ غور کریں، انتظار کرتے کرتے اپنی عمریں ضائع نہ کریں اور آنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مان لیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جب حاضر ہوں تو سرخرو ہو سکیں۔ اور اسی سے مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ہی مقامِ ختم نبوت کو اپنے دلوں میں بٹھا رہے ہوں گے۔ ایک ایسے شخص کو مان رہے ہیں جو اُمّتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقِ صادق ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب پاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے اعزاز سے مشرف ہوا ہے۔ تو جو دولت آپ کے گھر میں موجود ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کے گھر کو اس سے کمتر چیز لینے کے لئے کیوں دیکھتے ہیں۔ اُس طرف کیوں نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ چشمہ جو تمہارے گھر میں موجود ہے اُس سے اپنی پیاس بجھاؤ بلکہ غیروں کو بھی اس طرف لاؤ۔ بجائے اس کے کہ ایسے سراب کی طرف دوڑا جائے جس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں لیکن کچھ نہیں ملتا۔
آج ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا میں ہماری یہ بات پہنچتی ہے۔ پس چاہئے کہ سب مسلمان اس سے فیض پائیں۔ اس چشمے سے فیض پائیں جس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فیض کا منبع ٹھہرایا ہے اور اپنا محبوب بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32 )۔

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ خدا کی ذات میں بخل نہیں اور نہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ اُن کی پوجا کی جاوے بلکہ اس لئے کہ لوگوں کو تعلیم دیں کہ ہماری راہ اختیار کرنے والے ہمارے ظل ّکے نیچے آجاویں گے۔ جیسے فرمایا

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32 )۔

یعنی میری پیروی میں تم خدا کے محبوب بن جاؤ گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر محبوب ہونے کی بدولت یہ سب اکرام ہوئے ۔مگر جب کوئی اور شخص محبوب بنے گا تو اُس کو کچھ بھی نہیں ملے گا؟ اگر اسلام ایسا مذہب ہے تو سخت بیزاری ہے ایسے اسلام سے۔ مگر ہرگز اسلام ایسا مذہب نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ مائدہ لائے ہیں کہ جو چاہے اُس کو حاصل کرے۔ وہ نہ تو دنیا کی دولت لائے اور نہ مہاجن بن کر آئے تھے۔ وہ تو خدا کی دولت لائے تھے اور خود اس کے قاسم تھے۔ پس اگر وہ مال دینا نہیں تھا تو کیا وہ گٹھڑی واپس لے گئے؟ ‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 176-177 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
تو اس مائدہ میں نبوّت کا فیضان بھی ہے۔ جو شخص فنا فی الرسول ہو گیا اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ محبوب بھی بن گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ اُس کو نبوت کے مائدے سے نوازنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ نبوت کی تعریف میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ کثرت سے الہام اور وحی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں پانا ہی نبوت کی نشانی ہے۔
پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور فیضان ہے کہ آپ کے پیچھے چل کر، فنا ہو کر، اللہ تعالیٰ کا محبوب بن کر انسان اس انعام سے بھی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیشگوئی بھی موجود ہے اور ایسی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کی تائیدات بھی موجود نظر آ رہی ہیں ۔ سچا دعویٰ خود بولتا ہے اور گزشتہ سو سال سے زائد کی جماعت احمدیہ کی جو تاریخ ہے اس بات کی گواہ ہے۔ اس کو دیکھ کر اب تو مسلمان ہوش میں آئیں۔ اتنا عرصہ گزر گیا ہے اور یہ جماعت اللہ کے فضل سے ترقی پر ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ دیکھ لیں اس عرصہ میں کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے ہیںاور اُن کا کیا حشر ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دنوں بھی اخباروں میں ایک (جھوٹے)دعویدار کاذکر تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’سعادتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32 )۔

یعنی آؤ میری پیروی کرو تاکہ اللہ بھی تم کو دوست رکھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو۔ اگر حقیقتِ مذہب یہی ہے تو پھر نماز کیا چیز ہے؟ اور روزہ کیا چیز ہے؟ خود ہی ایک بات سے رُکے اور خود ہی کرے۔ اسلام محض اس کا نام نہیں ہے۔اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سررکھ دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرامرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لیے ہیں اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں۔ یہ فخر اسلام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کواوّلیت کا ہے۔ نہ ابراہیم کو ،نہ کسی اور کو۔ یہ اسی کی طرف اشارہ ہے

کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الْمَآءِ وَالطِّیْنِ۔

اگرچہ آپؐ سب نبیوں کے بعد آئے، مگر یہ صدا کہ میر امرنا اور میرا جینا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے دُوسرے کے منہ سے نہیں نکلی‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 428-429 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقامِ ختم نبوت ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے اعلیٰ ترین معیار قائم ہوئے جن کا خدا تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں آپ کے ذریعہ سے اعلان فرمایا۔ دیکھیں کس خوبصورتی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مقامِ ختم نبوت کو بیان فرمایا ہے۔ جس کو اتنی باریکی میں جا کر اس مقام کا فہم و ادراک ہوا، اُسے یہ کہنا کہ ختمِ نبوت کے منکر ہیں، ظلم نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتابِ وحی الٰہی اگرچہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اُس کو نصیب نہیں۔ گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدّت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے۔ لیکن خدا کا کلام اُس کے برخلاف گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ وہ دعا سکھلاتا ہے کہ

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ:7-6)۔

اس دعا میں اس انعام کی امید دلائی گئی ہے جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان تمام انعامات میں سے بزرگ تر انعام وحی یقینی کا انعام ہے کیونکہ گفتارِ الٰہی قائمقام دیدارِ الٰہی ہے‘‘۔ (کہ اللہ میاں کا کلام جو ہے وہی اللہ میاں کو دکھانے کا ذریعہ بنتا ہے) ’’کیونکہ اسی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس اگر کسی کو اس اُمّت میں سے وحی یقینی نصیب ہی نہیں اور وہ اس بات پر جرأت ہی نہیں کر سکتا کہ اپنی وحی کو قطعی طور پر مثل انبیاء علیہم السلام کے یقینی سمجھے اور اُس کی ایسی وحی ہو کہ انبیاء کی طرح اس کے ترکِ متابعت اور ترکِ عمل پر یقینی طور پر دنیا کا ضرر متصوّر ہو سکے تو ایسی دعا سکھلانا محض دھوکا ہو گا ۔کیونکہ اگر خدا کویہ منظور ہی نہیں کہ بموجبِ دعا

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ:7-6)،

انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اس اُمّت کو بھی شریک کرے تو اُس نے کیوں یہ دعا سکھلائی…‘‘۔ فرمایا ’’لیکن یاد رہے کہ ضرور ان انعامات میں جو نبیوں کو دئیے گئے اس اُمّت کے لئے حصہ رکھا گیا ہے‘‘۔ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 487-488)
پھر فرماتے ہیں کہ:
’’ واضح ہوکہ آیت

اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم

میں مومنوں کے لئے ایک خوشخبری ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے وہ سب کچھ تیار کر رکھا ہے جو اُس نے گزشتہ نبیوں کو دیا تھا۔ اور اسی لئے اُس نے یہ دعا سکھائی تا طالبوں کے لئے خوشخبری ہو۔ پس اس سے لازم آیا کہ محمدی خلفاء کا سلسلہ مثیل عیسیٰ پر ہو تا موسوی سلسلہ کے ساتھ (اس کی) مماثلت مکمل ہو جائے اور کریم جب وعدہ کرتا ہے تو اُسے پورا کیا کرتا ہے‘‘۔
(ترجمہ عربی عبارت اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 170 حاشیہ، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 263-264 حاشیہ۔ نظارت نشر و اشاعت قادیادن 2004ء)
پس خدا تعالیٰ تو مسلمانوں کو یہ کہہ رہا ہے کہ دعا کرو تا کہ امتی نبی کے انعام سے حصہ پاؤ۔ جس کو سب سے زیادہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت ہے۔ لیکن نام نہاد علماء کیا کہتے ہیں کہ نہیں۔ یہ توہینِ رسالت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن کی اُمّت میں سے کوئی نبی آئے، ہاں باہر سے آ سکتا ہے۔ تو اس کے بعد یہ بتائیں کہ کیا توہینِ رسالت بلکہ اللہ تعالیٰ کی توہین کے بھی یہ لوگ مجرم ٹھہرتے ہیں یا احمدی؟
بہر حال قرآنِ کریم میں کئی آیات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف نبی آ سکتا ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نبی کا آنا آپ کے مقام کو اونچا کرتا ہے نہ کہ کم۔ ایک حدیث میں آتا ہے، ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور ابوعبداللہ سے روایت ہے جو جہینی کے موالی اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے مصاحبوں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھنا مسجدِ حرام کے سوا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیاء ہیں اور آپؐ کی مسجد تمام مساجد سے آخری، یعنی افضل ہے۔(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل الصلاۃ بمسجدی مکۃ و المدینۃ۔ حدیث 3376) تو اب اس حدیث کے اگر ظاہر معنی لینے ہیں تو پھر اس مسجد کے بعد کوئی مسجد بھی نہیں بن سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسجد آخر المساجد ہو گئی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کیا سمجھا ، پہلے بھی ہم دیکھ آئے ہیں۔ کچھ اَور اقتباسات مَیں پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُرحکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور مجھے خدا کی پاک اور مطہّر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں اُس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حَکَمْ ہوں۔ یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے مجھے مشرّف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلاواسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو‘‘۔ (اربعین نمبر 1، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 345)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے نہ ہوتے اور قرآنِ شریف جس کی تاثیریں ہمارے ائمہ اور اکابر قدیم سے دیکھتے آئے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں، نازل نہ ہوا ہوتا تو ہمارے لئے یہ امر بڑا ہی مشکل ہوتا کہ جو ہم فقط بائبل کے دیکھنے سے یقینی طور پر شناخت کر سکتے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور دوسرے گزشتہ نبی فی الحقیقت اسی پاک اور مقدس جماعت میں سے ہیں جن کو خدا نے اپنے لطف خاص سے اپنی رسالت کے لئے چُن لیا ہے۔ یہ ہم کو فرقانِ مجید کا احسان ماننا چاہئے جس نے اپنی روشنی ہر زمانہ میں آپ دکھلائی اور پھر اس کامل روشنی سے گزشتہ نبیوں کی صداقتیں بھی ہم پر ظاہر کر دیں۔ اور یہ احسان نہ فقط ہم پر بلکہ آدم سے لے کرمسیح تک اُن تمام نبیوں پر ہے کہ جو قرآنِ شریف سے پہلے گزر چکے اور ہر یک رسول اس عالی جناب کا ممنونِ منّت ہے جس کو خدا نے وہ کامل اور مقدس کتاب عنایت کی جس کی کامل تاثیروں کی برکت سے سب صداقتیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں جن سے اُن نبیوںکی نبوت پر یقین کرنے کے لئے ایک راستہ کھلتا ہے۔ اور ان کی نبوتیں شکوک اور شبہات سے محفوظ رہتی ہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد اول صفحہ 290-291 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)
تو یہ مقامِ ختم نبوت ہے کہ آپ نے ہمیں صحیح ادراک باقی نبیوں کا بھی بتایا کہ وہ نبی آئے تھے۔ یہ نبوت کا، خاتَم ہونے کاصحیح ادراک ہے کہ گزشتہ نبیوں کی بھی تصدیق کی ہے ۔ اور اُن کی نبوت پر بھی اپنی نبوت کی مہر ثبت کی ہے نہ کہ صرف اتنا کہ آپکے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کے لئے اس قدر دعا کرتے تھے جس کا نمونہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کے دل میں ایک پیاس لگا دی تھی کہ لوگ مسلمان ہوں اور خدائے واحد کے پرستار ہوں‘‘۔ فرمایا’’ جس قدر کوئی نبی عظیم الشان ہوتا ہے اسی قدر یہ پیاس زیادہ ہوتی ہے اور یہ پیاس جس قدر تیز ہوتی ہے اسی قدر جذب اور کشش اس میں ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم الانبیاء اور جمیع کمالات نبوّت کے مظہر تھے اسی لیے یہ پیاس آپؐ میں بہت زیادہ تھی ۔اور چونکہ یہ پیاس بہت تھی اسی وجہ سے آپؐ میں جذب اور کشش کی قوت بھی تمام راستبازوں اور ماموروں سے بڑھ کر تھی جس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگاکہ آپؐ کی زندگی ہی میں کُل عرب مسلمان ہو گیا۔ یہ کشش اور جذب جو مامورین کو دیا جاتا ہے وہ مستعد دلوں کو تو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور ان لوگوں کو جو اس سے حصہ نہیں رکھتے دشمنی میں ترقی کرنے کا موقعہ دیتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 421 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
ابھی بھی یہی ہوتا ہے۔ کسی اعتراض کرنے والے نے کبھی سوچا ہے کہ مقامِ ختم نبوت کیا ہے؟ سب نبیوں سے زیادہ آپؐ کو یہ فکر تھی کہ اللہ تعالیٰ کے قریب لوگوں کو لایا جائے۔ یہ تھا نبوت کا مقام کہ جو سب نبیوں سے زیادہ آپ کو یہ فکر تھی۔
پھر آپ فرماتے ہیں :

’’لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک

میں کیا مشکل ہے؟ قرآنِ مجید میں ہے کہ

خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْا َرْضِ جَمِیْعَا (البقرۃ:30)۔

زمین میں جو کچھ ہے وہ عام آدمیوں کی خاطر ہے۔ تو کیا خاص انسانوں میں سے ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے لئے اَفلاک بھی ہوں؟ دراصل آدم کو جو خلیفہ بنایا گیا تو اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ وہ اس مخلوقات سے اپنے منشاء کا خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے موافق کام لے۔ اور جن پر اُس کا تصرف نہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سورج، چاند، ستارے وغیرہ‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 213 ۔ ایڈیشن 2003ء ۔مطبوعہ ربوہ)
تو دیکھیں یہ مقام ہے جو آپؑ نے خاتم الانبیاء کا بیان فرمایاکہ صرف نبیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کی پیدائش پر آپ کی مہر ثبت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ آپ کو پیدا کرنا تھا۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامُتّبع نہیں بن سکتا جبتک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیّین یقین نہ کر لے۔…… ہمارا مُدّعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے۔ اور تمام جھوٹی نبوّتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں‘‘۔ (یہ نبوت کی توہین کرنے والے ہیں جو دین میں بدعتیں پیدا کرنے والے ہیں)’’ان ساری گدّیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ؟‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 64 ۔ ایڈیشن 2003 ء۔مطبوعہ ربوہ)
دیکھ لیں ایسے ایسے معجزات بعض جگہ گدی نشینوں کے بیان کئے جاتے ہیں جن کو ہم نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی نہیں سنا۔ وہ تو اپنے پیروں فقیروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھا دیتے ہیں۔ تو مقامِ ختم نبوت کی تو وہ توہین کرنے والے ہیں نہ کہ ہم۔
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیّین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو۔ بغدادی نماز ، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں‘‘ (مختلف قسم کی نمازیں) ’’کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے۔ اور ایسا ہی یَا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا وجود بھی نہ تھا۔پھر یہ کس نے بتایا تھا؟ شرم کرو۔کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اِسی کا نا م ہے؟ اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا اِن باتوں کو ما ن کر، ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میںنے خاتم النّبیّین کی مہر کو توڑا ہے۔ اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میںبدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبو ت پر ایما ن لا کر آ پؐ کے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آ نے ہی کی کیا ضرورت ہو تی۔ تمہار ی ان بد عتو ں اور نئی نبو تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبّوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے۔ پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدّی نشینوں کو سجدہ کرنا یااُن کے مکانات کا طواف کرنا، یہ تو بالکل معمولی اَور عام باتیں ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 65 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں الزام دینے کی بجائے اور اندھی مخالفت کرنے کی بجائے زمانے کی حالت کو دیکھیں کہ زمانہ کیامحسوس کر رہا تھا۔ کیا یہ زمانہ اس کا مطالبہ نہیں کر رہا؟ صرف احمدیوں پر الزام نہ لگائیں بلکہ تحقیق کریں۔ اور احمدی خود بھی اپنے ماحول میں اس میں ان کی مدد کریں۔ دعوتِ الی اللہ کے پیغام کو مزید وسیع کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو مزید وسیع کریں۔ اُنہیں بتائیں کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنا رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے، ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں۔ اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر

حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ

ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو، قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں؟بالخصوص قصّوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں ۔اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرِ اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جلّ شانُہٗ نے قرآنِ شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔

اور اسی پر مریں۔ اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآنِ شریف سے ثابت ہے ان پر سب ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہلِ سنّت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اورجو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے، وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اُس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے ان اقوال کے مخالف ہیں۔

اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ وَالْمُفْتَرِیْنَ‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 323-324)

مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچیں۔ صرف ہم پر الزام تراشی نہ کریں۔ اپنے اندر دیکھیں کہ کیا آپ نے اُس مقامِ ختم نبوت کو پہچانا ہے جس کی چند جھلکیاں مَیں نے دکھائی ہیں؟ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں۔ صرف اس بات پر جوش میں نہ آ جائیں کہ نبوت کا دعویٰ کیوں کیا ہے؟ ہم پر الزام لگا کر اور ابھی تک اپنی بات پر اڑے رہ کر کہیں حضرت مسیح موعودؑ کی اس دعا کے نیچے نہ آ جائیں۔ میں پھر بڑی ہمدردی کے جذبے سے مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ توبہ کریں۔ توبہ کریں اور توبہ کریں۔ احمدیوں کے خلاف دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ مختلف حرکات ہو رہی ہیں، اُن کو چھوڑ دیں۔ اپنے جائزے لیں کہ کیا اس عظیم نبی کی اُمّت کے افراد کو ایسا ہونا چاہئے۔ کیا ظلم و تعدّی کی یہ مثالیں دکھانی چاہئیں۔ کیا آج کل جو اُمّت کے حالات ہیں، جو حالت گزر رہی ہے، اُن پر نظر رکھتے ہوئے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے؟ یا یہ چیز یہ احساس دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اُس کے آگے رو رو کے دعائیں مانگیں۔بجائے اس کے کہ غیروں کے آگے جھک رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے۔
لیکن آپ احمدی، مسیح موعود کے ماننے والے جو اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں، یہ باتیں آج مَیں نے صرف غیروں کو سنانے کے لئے نہیں کہیں بلکہ آپ کے لئے بھی ہیں کہ اس مقام کو سمجھیں اور اپنے اندر اور اپنی نسلوں کے اندر وہ معیار قائم کرتے چلے جائیں ۔کیونکہ آج آپ احمدی ہی ہیں جنہوں نے اس خاتم النبییّن کے مقام کو پہچاننا ہے۔ آپ ہیں جنہوں نے اس مقام سے دوسروں کو بھی آشنا کرنا ہے۔ اپنی عبادتوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں جو اس خاتم الانبیاء نے کئے۔ اور جس کے نمونے ہمیں اس کے غلامِ صادق نے دکھا کر ہم سے توقع کی کہ ہم بھی ایسے بنیںاور اس سنّت پر چلیں۔ آج آپ ہیں جنہوں نے اس خاتم النبیین اور محسنِ انسانیت کے صلح، آشتی اور محبت کے پیغام کو مشرق میں بھی پہنچانا ہے اور مغرب میں بھی پہنچانا ہے اور شمال میں بھی پہنچانا ہے اور جنوب میں بھی پہنچانا ہے اور تمام دنیا کے ہر انسان کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان کروانے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑنا۔ اگر آج ہم میں سے ہر ایک نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا اور اس غلامِ صادق کا غلام ہونے کے بعد جس نے اس(قادیان کی) بستی سے اس نبیوں کے سردار کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کا بیڑااُٹھایا تھا ،اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا اوراگر ہم یہ کام نہ کریں گے توہم بھی ان لوگوں کی صف میں کھڑے ہوں گے جنہوں نے باوجود محبت اور اُمّتی ہونے کے دعوے کے اس مقامِ ختم نبوت کو نہیں پہچانا۔ اس دعویٰ کو اپنے عمل سے ثابت نہیں کیا۔
یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔(تذکرہ صفحہ 260شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء) اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق یہ کام کر رہا ہے اور پہنچا رہاہے اور اللہ کے فضل سے آج دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کا پیغام پہنچ چکا ہے لیکن ہم اگر اس سے بے اعتنائی برتتے رہے اور توجہ نہ دی تو اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکیں گے جن برکات کا وعدہ ہے۔ اللہ ہر احمدی کو ہمیشہ ان برکات سے فیضیاب کرتا چلا جائے۔
خدا تعالیٰ آپ کو اس جلسہ کی برکات سے ہمیشہ نوازتا رہے۔ اس روحانی ماحول میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی جو جھولیاں آپ نے بھری ہیں، اللہ کرے کہ یہ ہمیشہ بھری رہیں۔ آپ کی نسلیں بھی اس سے فیض پاتی رہیں۔ اللہ کرے آپ سب ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام دعاؤں کے وارث بنے رہیں۔ آمین
اب دعا کر لیں۔ (دعا)
دعاکے بعد حضور ایدہ اللّٰہ نے فرمایا:
اس وقت جلسہ سالانہ کے انتظام کی جو یہ رپورٹ ہے اس کے مطابق اس سال کی جو حاضری ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستّر ہزار(70000) ہے۔ گزشتہ سال یہ بتیس ہزار(32000) تھی۔ (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں