جلسہ سالانہ یوکے 2005ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

قرآن کریم میں ابتدا سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ملتا ہے اور اسلام کے ماننے کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ ایک خدا کو مانو اور اس کو تمام طاقتوں کا سرچشمہ تسلیم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جو مختلف احکامات اور تعلیم تمہیں قرآن کریم میں دی ہے یا جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اس کا محور خدائے واحد کی ذات ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اس وقت تک سچا ثابت ہو گا جب تک ہم مکمل طور پر اس کی اطاعت کے دائرے میں رہیں گے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے توحید کی اہمیت، اس کے تقاضوں اور برکات کا تذکرہ
توحید کا صحیح فہم و ادراک اور اس اعتقاد کا عملی نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں دکھائی دیتا ہے۔
پس مَیں اس ہمدردی کے جذبے سے مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں، ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو حسد کی آگ سے بچائیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے اور فرقہ بندیاں کرنے کی بجائے اس زمانے کے ہادی مسیح و مہدی کی جماعت سے حسد کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اس کی جماعت میں شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے اس مسیح و مہدی کو قبول کریں اس کی جماعت میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے حصہ پائیں۔ پھر مَیں درخواست کرتا ہوں کہ مسیح و مہدی کے پیغام کو سمجھیں۔
جہاں احمدیوں کو اپنی عبادتوں کے نمونوں کی مثال قائم کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی مثالیں قائم کرنی ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے اور وحدانیت کے قیام کی کوشش بھی کرنی ہے۔ مسلمانوں کی بھی اس طرف رہنمائی کرنی ہے اور غیرمسلموں کو بھی اس حسین تعلیم سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا اور اب دنیا کی بقا خدائے واحد کی عبادت اور اس کی آخری شریعت پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایک ہو کر ایک خدا کی طرف جھکو اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہر احمدی کو اپنے اپنے ماحول میں نیک نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو ختم کرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو ایک خدا کے ماننے والے کی عملی تصویر بنانا ہو گا۔
جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر31؍جولائی2005ء بروز اتوار
امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب
بمقام Rushmoor Arena – آلڈرشاٹ یوکے

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ وَاِنَّ اللہَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(آل عمران63:)۔

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا ًیہی سچا بیان ہے اور اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یقیناً اللہ ہی ہے جو کامل غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
قرآن کریم میں ابتدا سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ملتا ہے اور اسلام کے ماننے کی بنیادی شرط ہی یہ ہے کہ ایک خدا کو مانو اور اس کو تمام طاقتوں کا سرچشمہ تسلیم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جو مختلف احکامات اور تعلیم تمہیں قرآن کریم میں دی ہے یا جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اس کا محور خدائے واحد کی ذات ہے۔ پس یہ ایک ایسی بنیادی چیز ہے کہ اگر مسلمان اس کو سمجھ لیں تو دنیا میں مسلمانوں کی طرف منسوب ہونے والے تمام فساد ختم ہو جائیں۔لیکن کئی مسلمان ہیں جو اس کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توجہ دلانے کے اس بنیادی نکتے کو سمجھنے سے مسلمان انکاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ہم احمدیوں کو بھی توفیق دے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلتے ہوئے، دعائیں کرتے ہوئے، خدا کی وحدانیت کا فہم حاصل کرنے والے ہوں۔ اس تعلیم اور سنت پر عمل کرنے والے ہوں جس کی تلقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جس کا اُسوہ، جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھا۔ ہمارے اندر وہ عرفان پیدا ہو جائے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا مالک اور رب العالمین سمجھنے والے ہوں کیونکہ رب العالمین کے نکتے کو سمجھتے ہوئے ہی ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ نیکیاں بجا لا سکیں گے۔ چاہے وہ نیکیاں عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے ہوں یا بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہوں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ عقل اور سمجھ عطا کرے کہ ہم سب تعریفوں کا مستحق صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات کو سمجھیں اور خوشامدیوں کی طرح بندوں کی جھوٹی تعریفیں کر کے اپنے دلوں میں بُت نہ کھڑے کریں۔ ہمیں یہ فہم حاصل ہو کہ اس دنیا کی جو نعمتیں ہیں ان کا منبع، ان کو پیدا کرنے والا، ان کو دینے والا ہم صرف اور صرف خدا کی ذات کو سمجھیں۔ غرض کہ کوئی موقع بھی ایسا نہ ہو جب ہم اپنے آپ کو ربّ العالمین کے دائرے سے باہر سمجھنے والے ہوں۔ اللہ کی ذات کے سوا اپنا مالک، اپنا ربّ کسی اور کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہر ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اس وقت تک سچا ثابت ہو گا جب تک ہم مکمل طور پر اس کی اطاعت کے دائرے میں رہیں گے اور اس اقرار اور عمل کے لئے کیا کوشش ہونی چاہئے اس بارے میں مختلف روایات میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور اس کی وحدانیت کے اظہار کے لئے دعائیں بتائی ہیں اور اپنے عمل سے ہمیں دعاؤں کے نمونے سکھائے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ ابوزبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز کے آخر پر سلام پھیرکر یہ دعا کرتے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر مَیں نیکی بجا لانے کی کوئی طاقت اور شیطان سے بچنے کے لئے کوئی قوت نہیں پاتا۔ بادشاہت اسی کی ہے اور ہر قسم کی تعریف کا وہی مستحق ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ ہر قسم کی نعماء اور ہر فضل کا وہی مالک ہے اور ہر عمدہ تعریف کا وہی مستحق ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہم اطاعت کو صرف اسی کے ساتھ خاص کرتے ہیں اگرچہ کافر لوگ ناپسند ہی کریں۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد باب استجاب الذکر بعد الصلوٰۃ و بیان صفتہ حدیث 1343)
پس یہ وہ دعا ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے مضمون کو سمجھنے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ جب نماز کے بعد ایک مومن یہ دعا کرے گا تو گویا عملاً یہ اظہار کر رہا ہو گا کہ گو جب نماز کے بعد ظاہری طور پر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے، ایک خاص وقت کے لئے جو عبادت کا ، نماز کا وقت مقرر ہے اس سے فارغ ہو گیا ہوں۔ لیکن اس کے بعد بھی میرا دل اس بات کی گواہی دیتا رہے گا، اگلی نمازتک یہ گواہی چلتی رہے گی کہ عبادت کے لائق کوئی اور ذات نہیں ہے۔ صرف اور صرف یہی وحدہٗ لاشریک ہستی ہے اور دنیا کی مصروفیات مجھے اس سے دور نہیں لے جا سکیں گی۔ گو یہ دعا کرنے والا ظاہری طور پر اپنے کام میں مصروف ہو گا لیکن دل اللہ تعالیٰ کی طرف لگا رہے گا کیونکہ وہی ہستی ہے جو سب قدرتوں کی مالک ہے۔ وہی ہے جس نے ہر ایک کے کاروبار، مال، اولاد میں برکت ڈالنی ہے اور ڈالتا ہے۔ اور وہی ہے جو یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ یہ سب کچھ تباہ کر دے۔ اور پھر یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! یہ عبادتیں اور یہ تیرا دل میں جو خوف ہے یا کوئی بھی نیکی جو معاشرے میں امن اور محبت کی فضا پیدا کرنے والی ہے وہ مجھے تیری تمام صفات کا فہم اور اِدراک دینے والی ہو۔ ہر نیکی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا فہم عطا کرنے والی ہو۔ اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ پس اللہ سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! تو میری مدد فرما اور مجھے شیطان کے ہر اس فعل سے بچا جو تجھ سے دور لے جانے والا، تیری وحدانیت پر میرے ایمان کو کمزور کرنے والا ہو۔ پس اے کائنات کے مالک! مجھے ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمتوں کے سائے میں رکھنا۔ مجھے اپنی نعمتوں سے نوازتے رہنا۔ مجھے اپنا کامل اطاعت گزار اور فرمانبردار بندہ بنانا۔ تو یہ دعا جو ہے نماز کے بعد اس ماحول سے نکل آنے کے بعد جو نماز میں دعا کے لئے خاص ماحول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی طرف توجہ دلاتی رہے گی۔ دنیاوی کاموں میں پڑنے کے بعد بھی دل اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا رہے گا۔ دل بایار رہے گا۔ تو تبھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر قائم ہیں یا اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں قائم ہے۔ تو یہ طریقے ہیں، یہ اسلوب ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحدانیت قائم کرنے کے لئے ہمیں سکھائے۔ پس توحید کو قائم کرنے کے لئے ہمیں ان نمونوں کی پیروی کرنی ہو گی جس کی ایک مثال میں نے دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ توحید بغیر پیروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 178) پس کامل توحید کا فہم اور ادراک اگر حاصل کرنا ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چل کر ہی حاصل ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا تصور ہمارے دلوں میں قائم کرنے کے لئے مختلف انداز میں اُمّت کو نصائح فرمائی ہیں۔ مختلف مواقع پر نصائح فرمائی ہیں۔
چنانچہ ایک روایت میں آتا ہےکہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے اس قول کی اس کے رب نے تصدیق کی اور فرمایا میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں سب سے بڑا ہوں اور جب وہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ واحد ہے۔تو اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ مَیں واحد ہوں۔ اور جب وہ کہتا ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میں واحد ہوں۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میرا کوئی شریک نہیں۔اور جب وہ کہتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے اور حمد کا وہی مستحق ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہت میری ہی ہے اور ہر قسم کی حمد کا مَیں ہی مستحق ہوں۔ اور جب بندہ کہتا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کی مدد کے بغیر نیکیاں بجا لانے کی ہمت اور شیطان سے بچنے کی کوئی طاقت نہیں پاتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور کسی کو میری مدد کے بغیر نیکیاں کرنے کی ہمت نہیں اور نہ شیطان سے بچنے کی طاقت ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جو یہ کلمات اپنی بیماری میں بھی کہتا ہے اور وفات پا جاتا ہے تو اسے آگ نہیں چُھوئے گی۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء ما یقول العبد اذا مرض حدیث 3430)
تو یہ دعا جو پہلی حدیث میں بھی سکھائی گئی ہے توحید کے اقرار اور اللہ تعالیٰ کا دل میں خوف قائم کرنے کے لئے ایسی دعا ہے جو مستقل اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دل میں تصور قائم کر دیتی ہے اور یوں انسان اعمال ہی وہ بجا لاتا ہے جو اس کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اس کی توحید قائم کرنے والے ہوں۔ تو یقیناً ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ سے بچنے اور جنت میں جانے کی بشارت دیتا ہے۔
پھر ایک اور روایت میں آتا ہے۔ ایک جگہ آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے معاذ! کیا تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں مَیں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ معلوم ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ قرار دیں۔ پھر فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں کا اللہ پہ کیا حق ہے؟ حضرت معاذؓ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ معلوم ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب ما جاء فی دعاء النبیؐ امتہ الیٰ توحید اللہ تبارک وتعالیٰ حدیث 7373)
تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر پیار کی نظر ڈالنے کا انداز جو اس کی توحید کا اقرار کرتے ہیں جو مالک ہے، رب ہے، تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ اس پر ایک عاجز بندے نے کیا حق جتانا ہے لیکن اس عاجز بندے کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ حق دیا ہے کہ تم کیونکہ میری وحدانیت کا اقرار کرتے ہو اور میرے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اس لئے تمہارا بھی حق ہے کہ مَیں تمہیں عذاب سے دُور رکھوں، جہنم کی گرمی تم تک نہ پہنچنے دوں۔پس میری وحدانیت کے حق کو اسی طرح ادا کرتے رہو۔
ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اظہار کے لئے دعا کا طریق یوں سکھایا۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یہ دعا دن میں سو مرتبہ کی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے اور ہر قسم کی تعریف کا وہی مستحق ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تو یہ دعا اس کو دس غلام آزاد کرنے کا اجر ملنے کے مساوی ہو گی اور اس کی ایک سو نیکیاں شمار ہوں گی اور اس کی ایک سو خطائیں مٹا دی جائیں گی اور یہ دعا اس کو اس روز شام تک شیطان سے بچانے والی ہو گی اور اس سے افضل عمل کرنے والااور کوئی نہ ہو گا سوائے اس شخص کے جو اس سے زیادہ اعمال صالحہ بجا لایا ہو گا۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب فضل التھلیل حدیث 6403)
تو دیکھیں کہ اس اقرار سے گناہوں سے بھی بچ رہے ہیں اور دعا کا جو ثواب ہے اس سے بھی فیض پا رہے ہیں اور پھر اسی فیض سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہے کیونکہ اس دعا کی برکت سے شیطان سے بھی بچ رہے ہیں اور جب شیطان سے بچ رہے ہیں تو ظاہر ہے پھر نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔
پھر صحابہ کے توحید کے اقرار اور اللہ تعالیٰ سے محبت کے اپنے اپنے انداز بھی تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں کوشش کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی خالص توحید دل میں بٹھائے۔ ایک واقعہ کا یوں روایت میں ذکر ملتا ہے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریّہ کے لئے ایک شخص کو امیر بنا کر بھیجا۔ (جنگ کا وفد بھیجا) وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے وقت قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ۔ پڑھتا تھا۔ جب یہ لوگ واپس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس امر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا اس سے پوچھو کہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ چنانچہ پوچھنے پر اس صحابی نے بتایا کہ میں یہ اس لئے کرتا تھا کہ یہ خدائے رحمٰن کی صفت ہے اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اسے پڑھتا رہوں۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بتا دو کہ پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب ما جاء فی دعاء النبیؐ امتہ الیٰ توحید اللہ تبارک و تعالیٰ حدیث 7375)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اس نکتہ کو خوب سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید ہی ہے جس کے اقرار اور ہر وقت کے ذکر سے اب اسلام لانے کے بعد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے بعد خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی کو قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ بار بار پڑھتے ہوئے سنا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ فلاں شخص اس تلاوت قرآن کریم کو کم سمجھ رہا ہے۔ اس کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے یہ سورۃ اپنے مضامین کے لحاظ سے قرآن کے ایک تہائی کے برابر ہے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل قل ھو اللہ احد حدیث 5013)
اس پر مسلمانوں میں سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سورۃ تین دفعہ پڑھ لی تو سارا قرآن کریم ختم ہو گیاحالانکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے مضامین کے لحاظ سے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اس میں اظہار کیا گیا ہے۔ تو اصل تو انہی صحابی نے اس نکتے کو سمجھا تھا۔ ہر بار جب پڑھتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا ایک نیا مضمون ان پر کھلتا ہو گا۔ ان آیات کی طرف توجہ جاتی ہو گی جن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے لاشریک ہونے کا بیان ہے۔ اگر ان مضامین کو ذہن میں رکھا جائے اور تمام قرآن کریم میں اس طرح کے جو مضامین آتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اظہار ہو رہا ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تہائی قرآن کریم کی تعلیم تو اس کے سامنے آ گئی اور یہ توحید کا مضمون ہی ہے جو نبیوں کا خاصہ ہوتا ہے۔
پس جو توحید کے مضمون پر غور کرنے والے لوگ ہیں یہ وہ ہیں جو نبیوں کے اُسوہ پر چلنے والے ہیں اور اس تعلیم کا اور توحید کا صحیح فہم اور اِدراک اور صحیح نمونہ جو قائم کیا اور جو اعلیٰ معیار قائم ہوئے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی تھی۔ اس لئے وہی لوگ کامیاب ہیں جو آپ کے اس اُسوہ پر چلنے والے ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو توحید کے مضمون کی اس قدر تاکید فرمائی اور اس لئے آپ نے بار بار اس مضمون کو بیان فرمایا۔ کیونکہ پہلی اُمّتیں اس مضمون کو بھلا کر اپنے اوپر عذاب لانے والی بنی تھیں۔ قرآن کریم میں بھی اس مضمون کا بہت ذکر ہے۔
ایک موقع پر آپ نے اُمّت کو شرک سے بچنے اور نیکیوں پر قائم رہنے کی دعا اس طرح سکھائی۔ یحی بن عبد اللہ بیان کرتے ہیںکہ ابو عبدالرحمن بن حبلیٰ نے ان کو بتایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے ایک ٹکڑا نکالا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔ اے اللہ! جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے تُو ہر ایک چیز کا رب ہے اور ہر چیز کا معبود ہے۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تُو واحد ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں اور اس امر کی ملائکہ بھی گواہی دیتے ہیں۔ مَیں شیطان اور اس کے شرک سے تیری پناہ میںآتا ہوں اور مَیں اس چیز سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ ڈال دوں یا اپنے آپ کو کسی مسلمان کے خلاف مجبور کر کے لے جاؤں۔ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو سکھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ رات کو سوتے وقت یہ دعا اس وقت کیا کریں جب وہ سونا چاہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 616 مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ حدیث 6597 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)
دیکھیں اس دعا میں توحید کے مضمون کے ساتھ شرک سےبچنے کے مضمون کو بھی ساتھ رکھا گیا ہے اور یہ اصل میں توحید کا مضمون ہی ہے۔ دوسرے اس کے علاوہ شرک سے بچنے اور توحید کے مضمون کے ساتھ دوسرے معاشرتی گناہوں سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلا دی ہے۔ اپنے بھائیوں کے خلاف غلط کام کرنے سے روکنے کی طرف بھی توجہ دلا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس بات کی پناہ بھی طلب فرمائی کہ کوئی ایساعمل ہو جو اللہ تعالیٰ کے قیام توحید کے مقصد کو پورا کرنے کے خلاف ہو۔ آپ تو تمام انسانیت کو ایک اُمّت بنانے کے لئے آئے تھے، ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے آئے تھے تا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید تمام دنیا پر قائم ہو۔ تو اگر مسلمان آپس میں پھٹے ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر رہے ہوں تو پھر وہ وحدانیت کس طرح قائم رہ سکتی ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار اور اس پر قائم رہنے کی دعا کے مضمون کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنے کے مضمون کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے تا کہ اس عمل سے حسین معاشرے کا قیام ہو سکے۔ توحید کا قیام ممکن ہو سکے۔ اور تمام مسلمان کم از کم ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کریں۔ اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے اور اب توحید کا قیام آپ کے پیچھے چلنے سے ہی ہو گا اور آپ کے پیچھے چلنے سے ہی ممکن ہے۔ اس کے لئے بھی مسلمانوں کو اللہ سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا مانگنی چاہئے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور اس نے عرض کیا مجھے کچھ ایسی دعائیں بتائیں جو میں کرتا رہا کروں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم یہ دعا کیا کرو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اَللہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا…۔ اور اللہ کی بہت زیادہ تعریفیں ہیں اور ربّ العالمین کے لئے ہر قسم کی پاکیاں ہیں۔ اللہ عزیز و حکیم کی مدد کے بغیر نیکی کرنے کی کوئی طاقت نہیں اور شیطان سے بچنے کی کوئی قوت نہیں۔ اس پر اس شخص نے کہا یہ سب باتیں تو میرے رب کے لئے ہیں۔ میرے لئے کیا ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے لئے یہ دعا کیا کرو کہ اے میرے اللہ! مجھے میرے گناہ بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت عطا کر اور مجھے اپنی جناب سے رزق عطا فرما۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب فضل التہلیل والتسبیح والدعاء حدیث 6848)
پس جس طرح اس زمانے میں اس بدوی نے جس کے دل میں نیکی سیکھنے کی خواہش تھی آپ سے دعا کے سلیقے سیکھے آج مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اندھی مخالفت جو ہے یہ اس کو بند کریں۔ اس بدوی کا ہی نمونہ دیکھیں ۔اپنے آپ کو جو بہت پڑھا لکھا اور عالم دین سمجھتے ہیں دعا کے مضمون کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ دنیا میں فتنہ و فساد اور مسلمانوں کے آپس میں پھٹے ہوئے ہونے کے نظارے کو دیکھ کر جس سے غیر فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے تعلقات میں مزید مسلمانوں میں دراڑیں پیدا کر رہے ہیں، آپس میں ان کو مزید پھاڑ رہے ہیں، اس سے سبق حاصل کریں اور سوچیں اور دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئیاں فرمائی تھیں ان کے خیال میں اگر وہ پوری نہیں ہوئیں تو اللہ کے آگے جھکیں اور دعائیں کریں کہ اے اللہ مسلمانوں کی حالت تو دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ تیرے وعدے تو تمام انسانیت کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے تھے۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اپنی وحدانیت دنیا میں قائم کرنے کے لئے اور کم از کم مسلمانوں کو ہی ایک کرنے کے لئے ہمیں ہدایت عطا فرما اور جو دعا اس بدّو کو اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی کہ کس طرح اس کو ہدایت ملے وہ دعا ہی مانگیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ ہدایت کی راہیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کے مسیح کی مخالفت برائے مخالفت نہ کریں صاف دل ہو کر اللہ سے مانگیں تو خدا تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔ مسلمانوں کو جن میں شرافت ہے عمومی طورپرچاہئےکہ ان بدنصیب مولویوں کے پیچھے نہ چلیں جن کا دین صرف فساد کرنا ہے۔ جو جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر مسلمان امت کو پھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صاف دل ہو کر اللہ تعالیٰ سے مانگیں کہ خدا تعالیٰ تُو ہی ہماری مدد فرما۔ اور جب صاف دل ہو کر اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے، جیساکہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا۔
اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو ہی اپنے سامنے رکھیں جس کا روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ باہم حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زائد چھوڑے رکھے۔ (صحیح البخاری کتاب الأدب باب ما ینھی عن التحاسد والتدابر حدیث 6065)
ایک دوسری جگہ ان باتوں کے ساتھ فرمایاکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الحسد حدیث 4210)
پس میں اس ہمدردی کے جذبے سے مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں، ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو حسد کی آگ سے بچائیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے اور فرقہ بندیاں کرنے کی بجائے اس زمانے کے ہادی مسیح و مہدی کی جماعت سے حسد کرنے اور اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کی بجائے اس کی جماعت میں شامل ہوں۔ کیونکہ ان کی عارضی کوششیں ہی ہیں جو نقصان پہنچانے کی ہو سکتی ہیں، نقصان پہنچا تو نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ خود مدد فرماتا ہے۔ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔اگر کسی کا چھوٹا سا معمولی نقصان ہو بھی جائے تو بحیثیت جماعت یہ جماعت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس جماعت نے تو اب الٰہی وعدوں کے مطابق ترقی کرنی ہی ہے۔ انشاء اللہ۔ پس اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے اس مسیح و مہدی کو قبول کریں اس کی جماعت میں شامل ہوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے حصہ پائیں۔ پھر مَیں درخواست کرتا ہوں کہ مسیح و مہدی کے پیغام کو سمجھیں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے۔ پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں۔ اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہبری کرتا ہوں‘‘۔(ملفوظات جلد 3 صفحہ 11۔ایڈیشن 1985ءمطبوعہ انگلستان)
پس خدا کی شناخت اگر کرنی ہے، دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو اگر قائم کرناہے تو مسیح موعود کو مان کر ہی کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ جو بھی کوشش کرو گے ناکام و نامراد ہو گے۔ اور اس کے نمونے آجکل یہ مسلمان اپنے اندر دیکھ ہی رہے ہیں جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بری حالت میں چھوڑا ہوا ہے۔ صرف اور صرف ایک وجہ ہے کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور عاشقِ صادق سے بغض اور کینے اور حسد میں بڑھے ہوئے ہیں اور اس کی جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو مسلمان ممالک ہیں اُن میں جہاں جہاں بھی جماعت ترقی کرتی ہے وہاں عرب ممالک سے یا دوسری جگہوں سے مولوی پہنچ جاتے ہیں اور احمدی مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف اس حسد کی آگ میں جل رہے ہیں کہ یہ لوگ ترقی کیوں کر رہے ہیں۔ مولوی کی جو روٹی ہے وہ ماری جا رہی ہے۔ جس جماعت کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا پر قائم کرنا ہے اور تمام دنیا کو اُمّتِ واحدہ بنانا ہے اس کو آپ کافر کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پھر میں ہمدردی کے جذبات سے کہتا ہوں کہ غور کریں، غور کریں اور اپنے اوپر رحم کریں مسلم اُمّہ پر رحم کریں۔ ان کو غلط رہنمائی نہ کریں اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جس کی طرف آپ منسوب ہو رہے ہیں کہ اللہ سے ہدایت مانگیں۔ اللہ آپ کو اس کی توفیق دے۔
پس دعا کے ساتھ پھر میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام پر غور کریں۔ صرف یہ نہ دیکھیں کہ کیونکہ ہمارے باپ دادا نے انکار کیا تھا اس لئے ہم نے انکار کرنا ہے۔ پہلے منکرین کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ قرآن کریم نے اس لئے مثالیں دی ہیں کہ اس سے بچیں۔ آئندہ بھی ایسا زمانہ آئے گا جب مسلمانوں کو اس کی ضرورت پڑے گی۔ اس لئے وہ نمونے نہ دکھاؤ جو پرانی اُمّتوں نے یا پرانی قوموں نے دکھائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں۔ کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خدا تعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا۔ اور جیسا کہ ضُعفِ ایمان کا خاصہ ہے یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے۔ سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو ۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں‘‘۔(یعنی میرے وجود کا مقصد ہیں، میرے آنے کا مقصد ہیں) ’’مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہوگا ۔ بعد اس کے کہ بہت دور ہو گیا تھا‘‘۔(یعنی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے اور بندوں کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا ہو گا۔)’’ سو مَیں انہی باتوں کا مجدّد ہوں اور یہی کام ہیں جن کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں‘‘۔(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 291 تا 294 حاشیہ)
پس ہر انصاف پسند کو چاہئے، ہر انصاف پسند جائزہ لے کر بتائے کہ کیا یہی حالات مسلمانوں کے نہیں ہو گئے جن کا بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ دینی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ کیا یہ زمانہ مطالبہ نہیں کرتا کہ کوئی مجدد آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ آئے۔ ہر انصاف پسند کا دل یہ کہتا ہے کہ ہاں اس کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بھی اخباروں میں اس مضمون پر کالم لکھے گئے ہیں لیکن جس دعویٰ کرنے والے کا دعویٰ موجود ہے اس کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ راہ ہدایت عطا فرمائے۔ اور جب ہم یہ دعا کریں گے تو پھر اپنے آپ پر بھی ہمیں غور کرنا ہو گا کہ ہم نے توحید کے قیام کے لئے ان باتوں پر عمل کیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائی ہیں؟ مسلمانوں کو تو میں اس لئے توجہ دلا رہا ہوں کہ اب ایم ٹی اے کے ذریعہ یا دوسرے میڈیا کے ذریعہ کچھ رجحان پیدا ہوا ہے۔ کچھ مخالفت میں سنتے ہیں، کچھ دلچسپی سے سنتے ہیں، کچھ چھپ کر اس لئے سنتے ہیں کہ پسند کرتے ہیں تا کہ ان تک احمدیت کی باتیں پہنچ جائیں، پیغام پہنچ جائے۔ اب دوسرے مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہمارے فنکشن کو دیکھتی ہے۔ خطبات کو، تقریروں کو سنتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام میں جو یہ تبدیلیاں ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے کے بعد ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارے اندر بھی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ کیونکہ یہ باتیں سنانے اور غیروں کے کان میں یہ باتیں ڈالنے کے بعد ایک احمدی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کو مزید اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس لئے جو احادیث مَیں بیان کر آیا ہوں ان کے مطابق احمدیوں کو خود بھی عمل کرنا چاہئے۔ احمدیوں کو بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر نیکیوں پر قدم مارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ احمدیوں کو خدائے واحد کے پیار اور اس کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اپنے عملوں کو مزید نکھارنا چاہئے۔ اس زمانے میں رابطے اتنے آسان ہو گئے ہیں، عام ہو گئے ہیں کہ کسی بھی ملک میں رہنے والے احمدی کا نمونہ دوسرے شہر یا ملک میں رہنے والے شخص کے لئے بعض دفعہ مثال بن رہا ہوتا ہے۔ یہاں سے کوئی افریقہ گیا تو وہ وہاں کا نمونہ دیکھ کے آئے گا۔ افریقہ سے یہاں آیا، یہاں سے پاکستان گیا، پاکستان سے بعض امریکہ گئے تو اس طرح ایک دوسرے کے نمونے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور خطوں سے پتا لگ رہا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ بعض جگہ سے شکایتیں بھی آتی ہیں کہ انہیں رابطوں سے پہلے غلطی سے کچھ اور سمجھتے تھے لیکن جب کہیں دوسرے ملک بھی جا کر بعضوںکا رابطہ ہواتو احمدیوں کے بڑے اچھے اچھے تأثرات ملے۔لیکن بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنے تو جوں جوں جماعت میں وسعت آتی جائے گی ان کمزوریوں کو تلاش کرنے اور نیکیوں سے ہٹانے کی طرف بھی مخالفین کی توجہ زیادہ ہو جائے گی۔
پس جہاں احمدیوں کو اپنی عبادتوں کے نمونوں کی مثال قائم کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی مثالیں قائم کرنی ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے اور وحدانیت کے قیام کی کوشش بھی کرنی ہے۔ مسلمانوں کی بھی اس طرف رہنمائی کرنی ہے اور غیر مسلموں کو بھی اس حسین تعلیم سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا اور اب دنیا کی بقا خدائے واحد کی عبادت اور اس کی آخری شریعت پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایک ہو کر ایک خدا کی طرف جھکو اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہر احمدی کو اپنے اپنے ماحول میں نیک نمونے قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو ختم کرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو ایک خدا کے ماننے والے کی عملی تصویر بنانا ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کر دے‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 241۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پس ہر کوئی جائزہ لے کہ کیا یہ ہمارے نمونے اس معیار تک پہنچ چکے ہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’ مَیں یقیناً کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیّبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ امر خوب سمجھ لو کہ مَیں جو اس مقام پر کھڑا ہوں میں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوں اور کوئی کہانی سنانے کے لئے نہیں کھڑا ہوں بلکہ مَیں تو ادائے شہادت کے لئے کھڑا ہوں۔ مَیں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، پہنچا دینا ہے۔ اس امر کی مجھے پروا نہیں کہ کوئی اسے سنتا ہے یا نہیں سنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ اس کا جواب تم خود دو گے۔ مَیں نے فرض ادا کرنا ہے ۔ میں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر مَیں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں۔ جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا، مَیں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے۔‘‘( ایک غیر معمولی تبدیلی ہو جاتی ہے۔)’’ اس میں بُغض، کینہ، حسد، ریا وغیرہ کے بُت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہو تاہے۔ یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحّد بنتا ہے جب یہ اندرونی بُت تکبر، خود پسندی، ریا کاری، کینہ و عداوت، حسد و بخل، نفاق و بدعہدی وغیرہ کے دُور ہو جاویں۔ جب تک یہ بُت اندر ہی ہیں اس وقت تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے میں کیونکر سچا ٹھہر سکتا ہے؟ کیونکہ اس میں توکُل کی نفی مقصود ہے‘‘۔ ( اس میںاللہ تعالیٰ پہ توکل نہیں ہے)’’ پس یہ پکّی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا ۔ ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنا لیا۔ مَیں بار بار کہتا ہوں کہ اس امر کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک یہ مخفی معبود موجود ہوں ہرگز توقع نہ کرو کہ تم اس مقام کو حاصل کر لو گے جو ایک سچے موحّد کو ملتا ہے۔ جیسے جب تک چُوہے زمین میں ہیں مت خیال کرو کہ طاعون سے محفوظ ہو۔ اسی طرح پر جب تک یہ چُوہے اندر ہیں‘‘ (اس قسم کے تکبر نخوت ریا جھوٹ وغیرہ یہ سب چوہے ہیں) فرمایا کہ ’’جب تک یہ چُوہے اندر ہیں اس وقت تک ایمان خطرہ میں ہے۔ جو کچھ مَیں کہتا ہوں اس کو خوب غور سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے قدم اٹھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ اس مجمع میں جو لوگ موجود ہیں آئندہ ان میں سے کون ہو گا اور کون نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے تکلیف اٹھا کر اس وقت کچھ کہنا ضروری سمجھا ہے‘‘۔ (اس وقت آپ کسی تکلیف میں تھے اور تشریف لائے۔ فرمایا کہ)’’ ضروری سمجھا ہے تا میں اپنا فرض ادا کر دوں‘‘۔ فرمایا’’ پس کلمہ کے متعلق خلاصہ تقریر کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود اور محبوب اور مقصود ہو۔ اور یہ مقام اُسی وقت ملے گا جب ہر قسم کی اندرونی بدیوں سے پاک ہو جاؤ گے اور ان بتوں کو جو تمہارے دل میں ہیں نکال دو گے۔‘‘(ملفوظات جلد 9 صفحہ 106 تا 108۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس ہر احمدی کے لئے یہ ارشاد بڑے خوف کا مقام ہے۔ ایک طرف تو ہمارے دعوے دنیا میں توحید کے قیام کے لئے ہیں۔ ایک طرف تو ہم مسلموں اور غیر مسلموں کو توحید کے معنی سکھانے کے لئے کھڑے ہیں۔ اور دوسری طرف اس کے خلاف عمل کرتے ہوئے ہم اپنے بھائیوں کے حقوق مارنے والے ہوں اور یوں لڑائی جھگڑوں فتنہ و فساد میں مبتلاہوں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزیں پسند فرمائیں۔ اگر وہ ہیں تو مومن ہو۔ ایک تو ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔دوسرے مل کر حبل اللہ کو پکڑو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ تفرقوں میں نہ پڑو۔(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب النھی عن کثرۃ المسائل من غیر حاجۃ … الخ حدیث 4481) اورحبل اللہ جسے پکڑ کر تم اللہ تک پہنچ سکتے ہو وہ نبی کی ذات ہے اس کی تعلیم ہے اس سے مضبوط تعلق ہونا چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی نبی ہیں اور حبل اللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو نبی قرار دیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی اپنے بعد قدرت ثانیہ کی خبر دی ہے(ماخوذ از رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) جو خلافت کی خبر دی ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہو گی۔ اس لئے یہ بھی حبل اللہ ہے۔ غرض اگر غور کرتے چلے جائیں تو ہر وہ چیز جو اس تعلق کو مضبوط کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ ہے وہ حبل اللہ ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی تعلیم جو آخری شریعت کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جس کا ہر حکم اور ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے جماعت کے تعلق کو مضبوط کرنے والا ہے وہ حبل اللہ ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو قرآن کریم کے سات سو حکموں میں سے ایک کی بھی نافرمانی کرتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے- (ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26) کیونکہ وہ اس حبل اللہ کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور پھر فرمایا کہ آپس کے تفرقے جو ہیں یہ بھی ایک وحدت ختم کرنے والے بن جاتے ہیں۔ اس لئے تفرقوں اور لڑائی جھگڑوں کو بھی ختم کرو۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ غصے اور غضب میں آ جاتے ہیں تو توحید سے دُور ہٹ رہے ہوتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنوں کی مثال تو ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے سے مہربانی سے پیش آنے میں ایک جسم کی سی ہے جس کا ایک حصہ اگر بیمار ہو اس کی وجہ سے سارا جسم بیقراری اور بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تراحم المومنین … الخ حدیث 6586) تو جب ایسی صورت ہو گی تبھی وحدت کی صورت بھی پیدا ہو گی اور جب یہ وحدت ہو گی تو توحید کے نظارے بھی نظر آئیں گے۔ تفرقہ اور آپس کی پھوٹ اور لڑائیوں اور نفرتوں سے تو دوری ہوتی ہوئی نظر آئے گی، دل پھٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پس یہ حالت ہے جو جماعت کے ہر فرد کی ہونی چاہئے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اور جس طرح حدیث میں آیا کہ ایک جسم کی طرح بن جائیں تبھی کہا جا سکے گا کہ وہ توحید کا علمبردار ہے اور تبھی ہر احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مصداق نظر آئے گا جس میں آپ نے فرمایا کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ فرمایا کہ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دور کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے۔ اور جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔(صحیح البخاری کتاب المظالم والغضب باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ حدیث 2442) تو یہ ہے توحید کے قائم کرنے کا ایک ذریعہ کہ ایک ہو جاؤ۔ ایک جسم بن جاؤ۔ ایک کی تکلیف پورے جسم کی تکلیف بن جائے۔ اور یہی طریق ہے جس سے جماعت کا ہر فرد ایک ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فکر کو دُور کر سکتا ہے اور اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کرنے والا بن سکتا ہے۔
پس چاہئے کہ اپنے دلوں کو بغض، کینے، حسد، ریا، بناوٹ وغیرہ کے بتوں سے پاک کرنے والے ہوں اور نفاق اور بدعہدی کے بتوں سے اپنے دلوں کو پاک کرنے والے ہوں۔ اگر اس طرف توجہ نہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ جو ہے یہ صرف منہ کی باتیں ہیں۔ زبانی جمع خرچ ہے۔ یہ دل سے نہیں نکل رہا۔ دلوں میں تو ان کینوں اور بغضوں کی وجہ سے دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ دل تو ٹیڑھے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دلوں کو سیدھا کرنے کے لئے نماز کے وقت میں یہ ظاہری علاج بتایا تھا کہ جب صفوں میں کھڑے ہو تو صفیں سیدھی کر کے کھڑے ہو۔(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا باب من یستحب ان یلی الأمام حدیث 976) کندھے سے کندھا ملا کر سارے کھڑے ہوں تا کہ دلوں کے ٹیڑھ بھی نکل جائیں۔ لیکن بعض دفعہ یہ ہوتا ہے گو ایک آدھ مثال ہوتی ہے، بہت کم ہوتا ہے۔ جن باتوں کا میں ذکر کر رہا ہوںیہ شاید جماعت میں ایک فیصد بھی نہ ہوں، لیکن جب یہ برائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں تو پھر بعض دفعہ پھیلتے ہوئے دیر نہیں لگتی کیونکہ معاشرے کا بھی اثر چل رہا ہوتا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ بعض دفعہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا کہ بعض رنجشیں ہیں۔ رشتہ داریوں میں ایسی رنجشیں چل رہی ہوتی ہیں۔ پس اگر توحید کے قیام کا دعویٰ کرنا ہے تو اپنے اندر بھی وحدانیت پیدا کرنی ہو گی اور شیطان کو اور شریکوں کے ان بتوں کو اپنے دلوں سے نکالنا ہو گا اور جماعت کی ترقی کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے، توحید کے قیام کے لئے، اپنے اندر مثالیں قائم کرنی ہوں گی۔ اور جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ان برائیوں کے چوہوں کو اپنے دلوں سے نکال باہر پھینکنا ہو گا۔ ورنہ یہ چوہے جب تک تمہارے دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں تمہارا وجود کسی وقت بھی شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اور جب اپنا دل ہی پاک نہ ہو تو دوسروں کو کیا تبلیغ اور کیا نصیحت کریں گے۔ مسلمانوں کو کیا سمجھائیں گے کہ تمہارے اندر سے برکت اس لئے اٹھ گئی کہ تم ایک نہیں اور فرقوں میں بٹ گئے ہو۔ وہ الٹا کر کہیں گے کہ تمہارے اندر سے یہ شرک کے گند مکمل طور پر صاف ہو گئے ہیں؟ غیر مسلموں کو کس منہ سے تبلیغ کریں گے؟ پس تمام دنیا کو اُمّتِ واحدہ بنانے کے لئے توحید کے جھنڈے تلے لانے کے لئے، دنیا سے فتنہ و فساد ختم کرنے کے لئے سب سے زیادہ کوشش اور مجاہدہ ایک احمدی نے کرنا ہے۔ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا احمدی ہو۔ پس جب ان مجاہدوں کے نظارے ہمیں نظر آنے شروع ہو جائیں گے تو آپ ہی ہیں جو توحید کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں گے کیونکہ اب جماعت احمدیہ کے علاوہ اور کوئی جماعت نہیں جو توحید کو دنیا میں قائم کر سکے۔ آپ ہی ہیں جو شرک سے دنیا کو پاک کرنے والے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے توحید کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں گے اور تمام دنیا کو توحید کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس نکتے کو سمجھنے والے ہوں اور اپنے دلوں کو ٹٹول کر ان کو ہر قسم کے شرک سے پاک کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے والے ہوں۔ آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں۔ ان جلسوں کا مقصد بھی توحید کا قیام اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ پس اس مقصد کو سمجھیں۔ اللہ کرے کہ یہ جلسہ آپ میں پاک تبدیلیاں لانے کا باعث بنے اور ہمارا ہر قدم توحید کے قیام کی طرف اٹھنے والا قدم ہو ۔اور اپنے دلوں کو ہر قسم کے چھوٹے سے چھوٹے شرک سے پاک کرنے والے ہوں اور اس توحید کے قیام کی برکت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتح کے نظارے جلد تر ہمیں دکھائے۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے گھروں میں لے جائے۔ سفر و حضر میں خود حفاظت فرمائے۔ آپ کے دلوں کو، آپ کی نسلوں کو توحید کے نور سے منور کرے۔ اور جو پاک تبدیلیاں آپ نے اپنے اندر اس جلسہ کے دوران پیدا کی ہیں وہ دائمی ہوں۔ ہمیشہ رہنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
اس وقت انہوں نے حاضری کی جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق 25249 کی حاضر ی ہے۔ گزشتہ سال کے تقریباً برابر ہی ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی ہے۔ اب یہاں سے آپ لوگوں کی انشاء اللہ تعالیٰ واپسی ہو گی۔ کچھ لوگوں نے جلدی گھر پہنچنا ہو گا۔ کچھ نے کام پہ کل جانا ہو گا۔ اس لئے جو ڈرائیو ہے ذرا احتیاط سے کریں۔ جو کاروں والے ہیں اگر تھکے ہوئے ہیں تو آرام کر کے سفر شروع کریں۔ خاص طور پر جو جرمنی وغیرہ سے یا جو یورپ کے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ہیں وہ فوراً رات کو سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک بات اَور میں کہنی چاہتا تھا کل وقت زیادہ ہو گیا تھا مَیں بتا نہیں سکا تھا ۔وہ بھی ایم ٹی اے کے پھیلاؤ سے متعلق ہے کہ اب ایم ٹی اے کے پروگرام جو ہیں وہ موبائل فون پر بھی سنے جا سکتے ہیں۔ یہ تصویر والے جو فون ہیں ان پر تصویر وغیرہ کے ساتھ سارے پروگرام اسی طرح ہی آتے ہیں۔ شاید بعض ملکوں میں یہ سہولت نہ ہو لیکن جہاں ہے وہاں بہرحال تصویر کے ساتھ اسی طرح آپ ایم ٹی اے کے سارے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔
[اس موقع پر حاضرین نے نعرے لگائے۔اسیران راہ مولیٰ۔ اسیران راہ مولیٰ (زندہ باد)۔ اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:]
اچھا اب ایم ٹی اے کے بارے میں یہ باقی بھی سن لیں کہ بعض سفر کرنے والوں کو ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ وہ اس لئے نہیں سنتے کہ سفر کے موقع پہ فلاں جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ موقع نہیں ملتا۔ فلاں وقت فلاں پروگرام آتا ہے۔ اور اکثر ایسے لوگ جو ہیں ان کے پاس موبائل فون بھی ہوتے ہیں تو اب یہ بہانہ بھی ختم ہو گیا۔ بس کے انتظار میں بیٹھے ہیں یا ٹرین کے انتظار میں بیٹھے ہیں تو فون لگا کے سن سکتے ہیں اور ہر مہینے کا بڑا معمولی سا اس کا چارج ہے۔ پانچ سات پاؤنڈ کے قریب۔ تو یہ سہولت جو ہے یہ تو بہت ساری بڑی بڑی کمپنیوںکے جو چینل ہیں ان کو بھی یہ سہولت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائی اور اللہ کرے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھانے والے ہوں۔
یہاں سے ایک دفعہ ہی نعرے لگا دیں تا کہ ان کا شوق بھی پورا ہو جائے۔ مرکزی انتظام کہاں ہے؟ مرکزی انتظام والے نعرہ لگا دیں تا کہ ایک دفعہ ہی پچھلوں کا شوق پورا ہو جائے۔ ربوہ کا نعرہ لگایا ہے، قادیان کا نہیں لگایا؟
(نعروں کے بعد حضور انور نے فرمایا:) اب دعا کر لیں۔ اب پہلے دعا کر لیں۔(دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں