جلسہ مذاہب عالم کا انعقاد اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘

جلسہ مذاہب عالم کا انعقاد اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘

(محمود احمد ملک)

(مطبوعہ رسالہ’’انصارالدین‘‘ برطانیہ ستمبر و اکتوبر 2021ء)

روس کا عظیم مفکّر اور ادیب کاؤنٹ لیو ٹالسٹائے دنیا کے مشہور انشاپردازوں میں سے ایک ہے جس نے انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے سنگم پر اپنی تخلیقات سے تہلکہ بپا کیے رکھا۔ اُس نے نوّے (90) سے زائد کتب لکھیں جن کا شمار دنیا کے بہترین ادبی شاہکاروں میں ہوتا ہے۔

1903ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ ٹالسٹائے کی خط کتابت لمبا عرصہ رہی۔ آپؓ نے اپنے ایک خط میں احمدیہ عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات مسیح ناصریؑ کے بارے میں کی گئی تحقیق بیان کی اور اس خط کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصویر، قبر مسیح کی تصویر اور رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا ایک شمارہ بھی بھجوادیا۔ اس خط کے جواب میں ٹالسٹائے نے 5؍جون کے محرّرہ اپنے خط میں لکھا کہ وفات عیسیٰ کے ثبوت اور اُس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ عقل مند انسان حیاتِ عیسیٰ کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔… ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر (حضرت) مرزا احمد کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے تو مَیں بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ ریویو میگزین میں مجھے دو مضامین بہت پسند آئے …۔ نہایت شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کیے گئے ہیں۔
بعدازاں حضرت مفتی صاحبؓ نے ٹالسٹائے کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بھجوایا۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ٹالسٹائے نے برملا اقرار کیا کہ
The ideas are very profound and true.
ٹالسٹائے کا تبصرہ تو محض ایک مثال ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اسلام کے بنیادی عقائد کو منطقی انداز میں پیش کرتے ہوئے لکھی جانے والی بہترین کتب میں سے ایک ہے۔ اور اگرچہ ٹالسٹائی نے تو اسلام کو باقاعدہ طور پر قبول نہیں کیا لیکن سینکڑوں ایسے افراد بھی ہیں جن کا تعلق مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف قوموں سے ہے جنہیں خداتعالیٰ نے اس کتاب کے مطالعے کے نتیجے میں اپنے فضل سے اسلام قبول کرنے اور پھر اسلام کی بھرپور خدمت بجالانے کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ ان ہی خوش قسمت افراد میں ایک نام محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب مرحوم کا بھی ہے۔
محترم آرچرڈ صاحب اپنی خودنوشت سوانح حیات میں اپنی قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام کا پیغام مجھے ایک احمدی حوالدار کلرک مکرم عبدالرحمن دہلوی صاحب نے پہنچایا تھا اور کسی طرح یہ انتظام بھی کرلیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ قادیان سے براہ راست میرے نام بھیج دی جائے۔ اگرچہ میری روحانی استعداد ایسی نہیں تھی کہ مَیں اس کتاب کے مندرجات کوآسانی سے سمجھ سکتا تاہم کتاب کے کچھ حصوں نے مجھے بہت متأثر کیا۔

محترم آرچرڈ صاحب بیان فرمایا کرتے تھے کہ دراصل یہی کتاب تھی جس کو بار بار پڑھنے کے نتیجے میں آپ کا ذہن مادیت پرستی اورعیشِ دنیا کی طرف سے ہٹ کر اسلام احمدیت کی پاکیزہ تعلیم سے روشناس ہوا اور پھر اسلام کی آغوش میں آکر آپ نے وہ اخلاقی اور روحانی ترقی حاصل کی کہ براعظم یورپ کے پہلے واقف زندگی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
اسی حوالے سے ایک روشن مثال مکرم اکبر تشاکا احمدی صاحب آف امریکہ کی ہے۔ وہ اپنی قبولِ اسلام کی داستان رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مَیں 11؍ اگست 1939ء کو اٹلانٹک سٹی کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا اور اٹلانٹک سٹی میں ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1972ء کا واقعہ ہے کہ مَیں ایک کتب فروش کے پاس ’’صوفی ازم‘‘ کے بارے میں چند کتب خرید رہا تھا جب میری نظر کچھ دُور رکھی ہوئی ایک کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پر پڑی جس پر تحریر تھا کہ یہ کتاب احمدیہ مسلم جماعت کے بانی کی تصنیف ہے۔ چونکہ مَیں نے احمدیت کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا اس لیے میرا خیال تھا کہ یہ کسی بہت پرانے مذہب کا نام ہے۔ جب مَیں نے کتاب کھول کر دیکھی تو اندر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تصویر چسپاں تھی۔ تصویر دیکھ کر میں مبہوت ہوگیا کیونکہ میری نظر سے اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا شخص نہیں گزرا تھا جس کی تصویر اس کی روحانیت کی ایسی وضاحت کے ساتھ ترجمانی کرتی ہو۔ پھر جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو گویا ایک قیمتی خزانہ مجھے حاصل ہوگیا اور میرے پاس موجود اسلام کے بارہ میں تمام کتب اس کے مقابلے میں ہیچ محسوس ہوئیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کی تائید میں لکھی جانے والی اس عظیم الشان کتاب کے معرضِ وجود میں آنے کا پس منظر یوں ہے کہ 1896ء میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ادیانِ عالَم پر اسلام کی برتری اور دنیابھر کی الہامی کتب پر قرآن کریم کی عظمت ثابت کرنے کے لیے ایک مضمون رقم فرمایا تھا جو لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ اعظم مذاہب میں پڑھ کر سنایا گیا۔ اس عظیم الشان مضمون نے اپنوں اور غیروں کی زبان اور قلم سے شاندار خراج تحسین وصول کیا۔ بعدازاں یہ مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا اوراس کتاب کو ’علم الادیان‘ کے تقابلی جائزہ اور اسلام میں عبادات اور حقوق العباد کی فلاسفی کے حوالے سے عوام و خواص میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب تک نصف صد سے زائد زبانوں میں اس کے تراجم مکمل ہوچکے ہیں۔
اس عظیم الشان مضمون کو قلمبند کرنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں کہ 1896ء کے نصف دوم میں ایک سادھو منش انسان جن کا نام شوگن چندر تھا، تلاشِ حق میں قادیان آئے۔ وہ تعلیم یافتہ تھے اور کبھی سرکاری ملازم بھی رہے تھے لیکن بعض حوادث اور عیال و اطفال کی وفات کی وجہ سے اُن کے خیالات کا رُخ بدل گیا اور وہ صداقت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ جب قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعودؑ کے وہ ایسے گرویدہ ہوئے کہ یہیں رہ جانے پر آمادہ ہوگئے۔ اُن کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ ایک جلسہ اعظم مذاہب منعقد کرائیں۔ حضورؑ کی بھی شاید یہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایسی کانفرنس منعقد ہو جس میں قرآن شریف کے فضائل کے بیان اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کا موقع ملے۔ چنانچہ حضورؑ کی خواہش کی تکمیل کے لیے (سوامی) شوگن چندر صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں اور بہت جلد انہوں نے ہندوؤں کے ہر طبقہ میں رسوخ حاصل کر کے اس جلسے کی تجویز پیش کر دی۔ اس جلسے کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے حضور علیہ السلام کی طرف سے ہررنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی گئی۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی

بالآخر 26 تا 28؍ دسمبر 1896ء کی تاریخوں میں ٹاؤن ہال لاہور میں اس جلسے کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو حضرت اقدس علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور بیماری کے باوجود ایک مضمون قلمبند کرنا شروع کیا جسے حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے جلسے میں پڑھ کر سنانا تھا۔ اسی دوران حضرت مولانا صاحبؓ سیالکوٹ میں بیمار ہوگئے۔ چنانچہ مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کو متبادل کے طور پر تیاری کروائی جانے لگی۔ اگرچہ خواجہ صاحب کو اردو خوانی کا ملکہ تو حاصل تھا لیکن آیاتِ قرآنی کی تلاوت میں خامی تھی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ بیماری کے باوجود لاہور تشریف لے آئے اور حضورؑ کی خواہش کے مطابق مضمون پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔

خواجہ کمال الدین صاحب

جلسے سے قبل ہی حضور علیہ السلام کو الہام ہوا کہ ’’یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے 21؍دسمبر 1896ء کو ایک اشتہار شائع کرکے تاکید فرمائی کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔ اس اشتہار میں دیگر تمام مضامین پر اس مضمون کے غالب رہنے کی الہامی خبر بیان کی گئی تھی۔ چنانچہ لاہور میں مخالفین کی طرف سے اس اشتہار کو اُتارنے اور پھاڑ کر ضائع کردینے کی کوششوں کے باوجود احمدیوں نے اس اشتہار کی بھرپور اشاعت کی اور کئی راتیں شہر کی نمایاں جگہوں پر اسے آویزاں کرنے کے لیے غیرمعمولی مشقّت برداشت کی۔
اسی دوران اس جلسے کے انعقاد کی راہ میں بھی مخالفین کی طرف سے بہت روکیں پیدا کی گئیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوتی چلی گئیں۔ حتّٰی کہ پروگرام کے مطابق ٹاؤن ہال نہ مل سکا تو اسلامیہ ہائی سکول کی زیادہ وسیع عمارت مل گئی۔ اور جب جلسے کے دوران حضور علیہ السلام کے رقم فرمودہ مضمون کو پڑھے جانے کا وقت ہوا تو اتنی مخلوق وہاں پہنچی کہ گنجائش نکالنے کے لیے سمٹنا اور سکڑنا پڑا۔
مختلف مسلمان علماء کے چند مضامین کے بعد جب سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تحریر فرمودہ مضمون حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھنا شروع کیا تو لوگوں نے بے اختیار سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنا شروع کردیا۔ ہزاروں انسانوں کا مجمع بے حس و حرکت ہمہ تن گوش بیٹھا تھا۔ وقت ختم ہوگیا لیکن مضمون ابھی باقی تھا۔ اس پر اگلے مقرر نے اپنا وقت بھی حضورؑ کے مضمون کے لیے پیش کردیا لیکن مضمون پھر بھی مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ سامعین کی تشنگی اُن کے چہروں سے عیاں تھی اس لیے حضورؑ کے مضمون کے لیے وقت مزید بڑھایا گیا اور پھر اس مضمون میں لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے منتظمین نے جلسے کے پروگرام میں ہی ایک دن کا اضافہ کردیا۔ جب مضمون ختم ہوا تو حاضرین کی زبانیں بے اختیار اس مضمون کی تعریف میں رطب اللّسان ہوگئیں۔ اور پھر دنیابھر میں جہاں جہاں اس مضمون کی بازگشت سنائی دی وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ’’مضمون بالا رہا‘‘ اور ’’اَللّٰہُ اَکْبَر۔ خَرِبَتْ خَیْبَر‘‘ پر مُہرِصداقت ثبت ہوتی چلی گئی۔
جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں دس مذاہب کے 16 نمائندگان شریک ہوئے۔ جلسے سے قبل عیسائیوں نے ایک میٹنگ کی اور متّفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس جلسے میں شمولیت سے انکار کر دیا تاہم دو عیسائی لیڈروں نے ذاتی طور پر اس جلسے میں شرکت کی جن میں سے ایک نے اظہارِ خیال بھی کیا۔ مسلمانوں میں سے سر سید احمد خان صاحب نے جلسے میں شریک ہونے سے انکار کیا اور دعوت نامے کے جواب میں کہا کہ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی مشہور مسلم علماء مثلاً مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی، مولوی عبدالحق صاحب محدّث دہلوی اور سید محمد علی صاحب کانپوری نے اس جلسے کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور ایسا شکست خوردہ کردار اپنایا گویا ان کی دینی غیرت سوئی ہوئی ہے۔
جلسے میں شامل ہونے والے اکثر مضامین نے اصل سوالوں کی بجائے ضمنی باتیں بیان کیں یا جزوی طور پر کسی ایک سوال پر ہی اپنی رائے دی یا اپنے مضمون کے آغاز میں بیان کی جانے والی دلیل کو خود ہی بعد میں ردّ کر دیا۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے نبوت اور معجزے کی غیر متعلق بحث کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’’انبیاء فوت ہو چکے، اُمّتِ محمدیہ کے بزرگ ختم ہوچکے۔ وارثِ انبیاء ولی تھے، وہ کرامات رکھتے تھے لیکن وہ نظر نہیں آتے، زیر زمین ہو گئے۔ آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے…‘‘۔
حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانیؓ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کے مذکورہ دعوے کے فوراً بعد حضرت اقدس علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں حضورؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ
’’اندھا ہے جو کہتا ہے کہ ہم کہاں سے نشان دکھلائیں، آؤ مَیں نشان دکھاتا ہوں اور مَیں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
یہ فقرات بذاتِ خود نشان تھے کیونکہ حضورؑ کا مضمون مولوی صاحب کے مضمون کے بعد پڑھا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الٰہی تائیدیافتہ اس مضمون نے نہ صرف مقامی طور پر بلکہ پورے ہندوستان اور دنیابھر کے دانش کدوں میں ایسا زلزلہ بپا کیا کہ نہ صرف عظیم مفکّرین اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللّساں ہوگئے بلکہ اُس زمانے کے اخبارات نے بھی جلسہ اعظم مذاہب سے متعلق اپنی رپورٹس اور ریویوز میں واضح طور پر اس مضمون کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اسے جلسے میں پڑھے جانے والے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین قرار دیا۔ دنیابھر سے تعلق رکھنے والے عظیم دانشوروں کا اس مضمون کے لیے اظہارعقیدت یقیناً سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی کے لیے بھی شاندار خراج تحسین ہے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مضمون بلاشبہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کی بے نظیر تفسیر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بے پایاں عشقِ قرآن کا مظہر ہے۔ جس طرح سو سال پہلے یہ مضمون دنیابھر کے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی ایک شاندار فتح کا اعلان تھا اور دیگر الہامی کتب کے مقابل پر قرآن کریم کی برتری کا بے مثال اظہار تھا، اسی طرح آج بھی یہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کو دنیا کے سامنے ایک نمایاں شان کے ساتھ پیش کرنے کے قابل ہے کیونکہ یہ وہ اعجازی مضمون ہے جس کے غلبے کی بشارت دیتے ہوئے جلسے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے فرمادیا تھا کہ اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نُور ہے جو دوسری قوموں کو شرمندہ کردے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدائی وعدوں کے مطابق اس جلسے میں نصرتِ الٰہی کے روحانی نظارے کا وہ سماں پیدا ہوا جس نے مذاہبِ باطلہ کے محلّات سینکڑوں سال بعد ایک بار پھر زمیں بوس کردیے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے اس مضمون میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پانچ اہم سوالات کا قرآن کریم کی روشنی میں جواب دیا ہے اور ایسے دلنشیں پیرائے میں تشریح فرمائی ہے جو روحوں پر وجد طاری کردینے والی اور اسلام کی عظمت کو دلوں میں قائم کرنے والی ہے۔ پانچ سوالات یہ تھے:
1۔ انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں۔
2۔ حیات بعدالموت۔
3۔ انسانی پیدائش کا مقصد۔
4۔ دنیا اور آخرت میں اعمال کا اثر۔
5۔ علم اور معرفت کے ذرائع۔

اب تک 55 سے زائد زبانوں میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے تراجم شائع ہوچکے ہیں جبکہ چند زبانوں میں یہ کتاب زیرترجمہ ہے۔
اس کتاب نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اذہان اور مختلف زبانیں بولنے والے دانش مندوں کے خیالات میں جو مثبت انقلاب برپا کیا ہے اُس کی چند مثالیں قبل ازیں اسی مضمون میں شامل کی گئی ہیں۔ اسی ضمن میں عرض ہے کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں بیان شدہ مضمون کو خراجِ عقیدت پیش کرنے والوں میں بہت سے عرب علماء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ مصر سے تعلق رکھنے والے محترم حلمی الشافعی صاحب مرحوم جو پیٹرولیم انجینئر تھے اور بعد از ریٹائرمنٹ اپنی زندگی وقف کرکے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مترجم کے فرائض سرانجام دینے لگے اور عربی لٹریچر میں گرانقدر اضافہ اور غیرمعمولی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ آپ کے قبول احمدیت میں خداتعالیٰ کا غیرمعمولی فضل یوں شامل تھا کہ محترم مصطفی ثابت صاحب نے جب آپ کو تبلیغ شروع کی تو گو کہ آپ کو یہ گفتگو پسند نہ تھی لیکن خوش قسمتی سے دونوں ایک ایسے صحرا میں ملازم تھے جہاں اوقاتِ کار کے بعد باتیں کرنے کے علاوہ کوئی اَور شغل ممکن ہی نہ تھا اور نہ ہی کوئی شہر قریب تھا۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو اس نے مجبور کر دیا کہ یہ گفتگو ممکن ہوئی جو آپ کے قبولِ احمدیت پر منتج ہوئی۔ پھر قبولِ احمدیت کے بعد محترم حلمی صاحب کا اپنے محترم والد کو، جو کٹر وہابی تھے، احمدیت کے بارے میں بتانے کا طریقہ بھی بہت پُرحکمت تھا۔ چونکہ آپ کے والد بھی ممتاز علماء میں سے ایک تھے اس لیے جب آپ گھر گئے تو اپنے ہمراہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا عربی ترجمہ بھی لے گئے اور اپنے والد کو کتاب میں سے منتخب عبارات پڑھ کر سنائیں۔ آپ کے والد اتنا اعلیٰ کلام سن کر بہت متأثر ہوئے اور اسلام کی حمایت میں ایسی کتاب لکھنے والے کی بہت تعریف کی۔ تب محترم حلمی صاحب نے ان سے پوچھا کہ ایسی عبارات لکھنے والے کا آپ کے نزدیک کیا درجہ ہے۔ اُن کے والد نے نہایت بشاشت سے مصنّف کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد محترم حلمی صاحب نے پوچھا کہ ایسی عبارتیں لکھنے والا اگر مسیح ہونے کا دعویٰ کرے تو پھر!؟… چنانچہ اس طرح آپ نے احمدیت کے بارے میں نہایت حکمت سے اپنے والد محترم کو بتایا اور چونکہ وہ آپ کے اعلیٰ کردار سے بھی متأثر تھے اس لیے انہوں نے بعد میں زیادہ مخالفت نہیں کی۔
سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍جولائی 2021ء میں مکرم فتحی عبدالسلام صاحب آف شام کی وفات پر اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے اُن کے قبول احمدیت میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے غیرمعمولی پاکیزہ اثرات کا بھی ذکر فرمایا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ 1998ء میں مصطفی ثابت صاحب سے میرا تعارف ہوا اور ایک سال بعد انہوں نے مجھے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ دی جسے پڑھنے کے بعد میرے اندر عجیب انقلاب پیدا ہوگیا اور مَیں نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں تفصیلی تحقیق کا فیصلہ کرلیا۔ یہی تحقیق جلد ہی قبول احمدیت پر منتج ہوئی۔
پس بلاشبہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اسلام کی تائید میں لکھی جانے والی ایسی زبردست کتاب ہے جو نہ صرف اسلام کی محبت کو دلوں میں قائم کردیتی ہے بلکہ قلوب کے اطمینان اور اذہان کی تسکین کا باعث بھی بنتی ہے۔ چنانچہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رضی اللہ عنہ جن کا شمار ہندوستان کے ایسے چنیدہ افراد میں ہوتا تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خدمات بجالانے کے لیے نیک نامی رکھنے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے میدان میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپؓ سیاسی اثرورسوخ کے حامل تھے اور تقسیم ہند کے وقت پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رُکن تھے۔ آپ ایک بار دلّی میں مسز سروجنی نائیڈو سے ملنے گئے جو کانگریس کی صف اوّل کی لیڈر تھیں۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے وقت صوبے کی گورنر بھی رہیں، انگریزی کی بہت اچھی شاعرہ تھیں اور ’’بلبل ہند‘‘ کے لقب سے معروف تھیں۔ حضرت چوہدری صاحبؓ بھی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ موصوفہ سے میں نے کہا کہ آپ کرشن اوّل کو تو مانتی ہیں کرشن ثانی کو کیوں نہیں مانتیں؟ مسز نائیڈو نے اپنے نوکر کو آواز دے کر کہا میرے سرھانے کے نیچے جو کتاب ہے وہ اٹھا لاؤ۔ نوکر کتاب لے کر آیا اور مسز نائیڈو کی طرف بڑھائی۔ انہوں نے کہا یہ چوہدری صاحب کو دو۔ چودھری صاحبؓ نے اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ آپؓ کے چہرے پر حیرت اور خوشی کی لہر دیکھ کر مسز نائیڈو نے کہا: کیا آپ اب بھی کہتے ہیں کہ مَیں کرشن ثانی کو نہیں مانتی؟
اسی طرح کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے جن کی دعوت الی اللہ کے میدان میں گرانقدر خدمات کی کسی قدر تفصیل ’’اصحاب احمد‘‘ جلد سوم میں موجود ہے۔ آپؓ کو تبلیغ کا ایسا جنون تھا کہ کسی مخالفت کی کبھی پروا نہیں کرتے تھے حتّٰی کہ فوج میں ملازمت کے دوران بھی ادارے کے قواعد کی پابندی کرتے ہوئے ہرممکن طریق پر دعوت الی للہ کا فرض ادا کیا کرتے تھے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ دسمبر1914 ء میں مجھے اپنی کور کے ہمراہ بنّوں اور میراں شاہ وغیرہ جانا پڑا۔ میں نے اپنے کمانڈنگ افسر میجر وارڈن کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیا توبعد مطالعہ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بہت عمدہ تالیف ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ تم اس کا اردو ترجمہ کردو تاکہ اپنی یونٹ کے عہدیداروں میں مَیں اس کی نقول تقسیم کروں۔ جب مَیں نے بتایا کہ اصل کتاب اردو میں ہی ہے تو انہوں نے اس کی سینتیس جلدیں سرکاری خرچ پر منگوانے کا حکم دیا۔ باوجود یکہ میں نے اُن سے کہا کہ اس کتاب کی فوجی یونٹ میں تقسیم سے فتنہ پیدا ہونے کا احتمال ہے کیونکہ غیراحمدی شکایت کریں گے کہ یہ احمدی بابو ان لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے، لیکن افسر موصوف نے کہا کہ ہم اس مخالفت کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ مَیں نے کہا کہ آپ برطانوی افسر ہیں، آپ کو تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ساری بلا میرے گلے آپڑے گی۔ مگروہ نہیں مانے اور کہا کہ ہم حکم دیتے ہیں کہ یونٹ میں تقسیم کرنے کے لیے کتابیں منگواؤ۔

خداتعالیٰ کی قدرت دیکھیے کہ جب کتابیں قادیان سے آگئیں تو اسی اثنا میں میجر رسالدار راجہ راج ولی خان کو غیراحمدیوں نے یہ شکایت کی کہ بابو فضل احمد کافر ہے اور ہمارا مذہب خراب کررہا ہے، ہم اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتے، اس لیے آپ ہمارا نمائندہ بن کر میجر وارڈن کے پاس جائیں اور انہیں ہمارے جذبات سے آگاہ کریں۔ لیکن راجہ ولی خان موصوف پہلے میرے پاس آئے اور ہنس کر کہنے لگے کہ اگر مَیں یہ رپورٹ صاحب تک پہنچاؤں تو ڈر ہے مبادا بے عزتی ہو کیونکہ میجر وارڈن آپ کے ہاتھ پر ہیں اور آپ جو کہیں گے وہ اسے ہی درست سمجھیں گے۔ آپ بتلائیں کہ آپ اس شکایت کا کیا جواب دیتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ میں میجر وارڈن کو یہ کہوں گا کہ صاحب! قرآن کریم تو عیسائیوں کو پکّا کافر کہتا ہے۔ پس جب آپ بڑے کافر ہوئے اور آپ کے ساتھ اِن لوگوں کا گزارہ ہوسکتا ہے تو میرے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا حالانکہ بقول اِن کے مَیں چھوٹا کافر ہوں۔
رسالدار صاحب سمجھ گئے اور وہ اُن لوگوں کو کہنے ہی والے تھے کہ شکایت نہ کرنا کہ اتنے میں سامنے سے افسر موصوف (میجر وارڈن) آگئے۔ رسالدار نے فوراً فال ان (Fall In) کرادیا۔ پھر میجر وارڈن نے قادیان سے آیا ہوا پیکٹ منگوایا اور ہرایک کو ایک ایک نسخہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا دیا اور ہر ایک نے شکریہ ادا کرتے ہوئے سیلوٹ کرکے کتاب لے لی۔ اس کے بعد انہوں نے اس کتاب کی بہت تعریف کی اور اسے پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میری میم صاحب تو اس کتاب کی عاشق ہے۔
حضرت شیخ صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں کہ چند روز بعد میجر وارڈن کا تبادلہ ہوگیا تو ہم اُنہیں الوداع کہنے بنوں ریلوے سٹیشن پرگئے۔اُن کی اہلیہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کی اس کتاب کو اپنے ساتھ لے جارہی ہوں، مَیں اس سے علیحدگی پسند نہیں کرتی۔ پھر کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کی بہت تعریف کی۔ اس افسر (مسٹر وارڈن) کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے دل پر اس کتاب کا ایسا اثر ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے کوئلوں پرپانی کے گرنے سے ٹھس ٹھس کی آواز آتی ہے، ایسا ہی میرے دل کے شعلے اس سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
قارئین محترم! اس شاندار کتاب کے تعارفی کلمات کے علاوہ چند مثالیں پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تائید کے ساتھ سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام کے قلم سے جو مضمون رقم کروایا تھا اور جس نے گزشتہ سوا سو سال میں ہر قوم کے نیک طبع قلوب اور پاکیزہ اذہان میں اسلام کی حقّانیت کا بیج بویا ہے اور اہلِ ایمان میں تعلق باللہ کے پودے کی آبیاری کی ہے، اس عظیم الشان مضمون کو زیرمطالعہ رکھنا ، اپنے ماحول میں اس کی ترویج کرنا، غیروں میں اس کی ہرممکن اشاعت کرنا یعنی تبلیغ و تربیت کے میدانوں میں اس سے کماحقّہٗ استفادہ کرنا ہم میں سے ہر احمدی کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں