جماعت احمدیہ بیلجیم کے جلسہ سالانہ 2006ء پر سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

یہاں مسجد کی تعمیر آپ لوگوں نے کرنی ہے۔ یہ دینی مہم ہے اس کے لئے اپنے دلوں کو کھولیں اور بڑھ چڑھ کر مسجد کی تعمیر کے لئے قربانی کریں۔
پس آپ کا یہ کام ہے کہ ہمّت کس لیں اور انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ کی تبلیغ کے میدان بھی وسیع ہوں گے۔
آج ہم میں خدا کا مسیح تو براہِ راست موجود نہیں ہے لیکن اُس کی دی ہوئی تعلیم اور اُس کا قائم کیا ہوا نظام اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام موجود ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جماعتی ترقی وابستہ کر رکھی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے تھے اُنہیں ہم ہر نیا دن چڑھنے پر ہر روز نئی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اپنے مسیح کی جماعت کو ایسے لوگ عطا فرماتا رہے گا جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں گے اور اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہوں گے اور مسیح موعود کی آواز پر جو اُس کے نمائندے کے ذریعے سے اُن تک پہنچ رہی ہے، لبیک کہتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے ہر وقت اُس کا خوف دل میں رکھنے کی کوشش کریں۔ توحید پر قائم ہوں۔ دنیا کی چکاچوند کبھی اُس کے شرک میں مبتلا کرنے والی نہ ہو۔ ہمیشہ عبادت کی طرف توجہ کریں۔
اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف بہت توجہ دیں۔ نمازوں کے لئے سوائے اشد مجبوری کے کوشش ہونی چاہئے کہ باجماعت ادا کی جائیں۔
اگر ہماری عورتوں اور بچیوں کے تقویٰ کے معیار بلند ہو گئے تو ہماری موجودہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلنے والی ہوں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی تقویٰ پر چلنے والی ہوں گی کیونکہ وہ اُن ماؤں کی گودوں میں پلنے والی ہوں گی جنہوں نے ڈرتے ڈرتے اپنے دن بسر کئے اور تقویٰ سے اپنی راتیں بسر کیں۔ احمدی عورت اگر چاہے تو ایک انقلاب پیدا کرسکتی ہے۔
جماعت احمدیہ بیلجیم کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 4؍جون 2006ء کو برسلز میں
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج آپ کا یہ جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب جلسہ منعقد کرنے کا اعلان فرمایا تو آپ کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ افرادِ جماعت میں تقویٰ کے معیار کو بڑھایا جائے تا کہ لوگ آئیں، جمع ہوں، اکٹھے ہوں، تقاریر سنیں، پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملیں۔ جب مختلف قوموں اور طبیعتوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو ملیں گے تو ایک احساس ہو گا کہ ہم ایک جماعت ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سُن کر احساسِ ہمدردی پیدا ہو گا۔ ایک دوسرے کے لئے دعا کی تحریک ہو گی۔ تقاریر سنیں گے اور سب سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فیضیاب ہو کر ایک روحانی انقلاب طبیعتوں میں پیدا ہو گا۔ آج ہم میں خدا کا مسیح تو براہِ راست موجود نہیں ہے لیکن اُس کی دی ہوئی تعلیم اور اُس کا قائم کیا ہوا نظام اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق خلافت کا نظام موجود ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جماعتی ترقی وابستہ کر رکھی ہے۔
پس آج جب آپ اس جلسے پر آئے ہیں تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق جماعت نے تو ترقی کرنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے فرمائے تھے اُنہیں ہم ہر نیا دن چڑھنے پر ہر روز نئی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔ آج دنیائے احمدیت میں کئی مثالیں موجود ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر کئی سعید فطرت لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جس میں کسی کی تبلیغ کا کوئی ہاتھ نہیں، کوئی دخل نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اپنے مسیح کی جماعت کو ایسے لوگ عطا فرماتا رہے گا جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں گے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہوں گے اور مسیح موعود کی آواز پر جو اُس کے نمائندہ کے ذریعے سے اُن تک پہنچ رہی ہے، لبّیک کہتے ہوئے
نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے۔ لیکن آپ لوگ جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں، جن میں سے اکثریت پرانے احمدیوں کی ہے یا اُن کی اولادیں ہیں جن کے باپ دادا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سچے دل سے آپ کی ہر بات کو سنا اور مانا اور لبّیک کہا اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہوئے۔ جن کے اموال و نفوس میں اللہ تعالیٰ نے بے انتہا برکت ڈالی۔ جس کا ثبوت آپ جو اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ کی اپنی ذات ہے۔ اُن لوگوں نے تنگیاں برداشت کیں، ترشیاں برداشت کیں، تکلیفیں بھی اُٹھائیں لیکن اُن کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ اُن کے ایمان ہر دن چڑھنے پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور سچے دل کے ساتھ مسیح موعود کی جماعت کے ساتھ جڑے رہے اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کئے رہے۔ تو آپ لوگ اگر اپنے بڑوں کی نیکیوں کو نظر میں نہیں رکھیں گے، اُن کی قربانیوں کو پیشِ نظر نہیں رکھیں گے اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی کوشش نہیں کریں گے تو جیسا کہ میں نے کہا، خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اپنے مخلصین کی جماعت عطا فرماتا رہے گا جو تقویٰ پر بھی چلنے والے ہوں گے اور قربانیاں کرنے والے بھی ہوں گے لیکن آپ لوگ جو اُس پر عمل نہیں کر رہے اُن برکتوں سے محروم ہو جائیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں۔
پس اپنی زندگی کے مقصد کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے مقصد کو سمجھیں اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں جو کچھ سنا ہے، اس کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں، اچھی تقریریں ہوئی ہوں گی، نصائح بھی ہوئی ہوں گی، علمی باتیں بھی ہوئی ہوں گی۔ صرف سن لینا اور نعرے لگا دینا ہی کافی نہیں ہے۔ ہم وہ قوم نہیں جو نعرے لگا کر یا چند لمحوں کے لئے جوش میں آ کر خوش ہو جائیں کہ چلو ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا بلکہ ہم وہ قوم ہیں اور ہمیں ایسا بننا چاہئے اور تبھی ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے والے ہو سکتے ہیں جب ہم تقویٰ پر چلنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرنے والے ہوں، اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی تمام حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ ہمیشہ اس بات کی تلاش میں رہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی اور انقلاب لانا چاہتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ماننے والوں سے کیا توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ ہمیشہ اسی سوچ میں ہمیں اپنی زندگی گزارنی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ تعلیم کیا تھی؟ جب ہر ایک کی یہ سوچ ہو گی اور وہ حقیقی معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہو گا تو تبھی آپ کی جماعت میں شمار ہوگا۔
جلسہ سالانہ کے حوالے سے ہی مَیںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ہمیں یاد دہانی ہو جائے کہ آپؑ اپنی جماعت میں کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہتے تھے، کیا بنانا چاہتے تھے؟ کیا توقعات تھیں؟ کیا معیار تھے جو آپ کی خواہش تھی کہ آپ کی جماعت کے لوگ حاصل کریں؟ آپؑ فرماتے ہیں:
’’اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ اُن کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں۔ اور اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو۔ اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔ اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو۔ اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔ (شہادۃالقرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ394)
پس یہ تبدیلی ہے جو آپؑ اپنی جماعت کے افراد میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ آج مادیت کے اس زمانے میں جہاں قدم قدم پر دوسری دلچسپیاں ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیںتو ان باتوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جن کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔ آخرت کی طرف دل اُس وقت جھکتا ہے جب دنیا کی دلچسپیوں نے دل پر قبضہ نہ جمایا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کی ہیں، ہم فائدہ اُٹھانے والے تو ہوں لیکن ہماری زندگیوں کا یہی مطلوب و مقصود نہ بن جائیںاورہم صرف ان کو حاصل کرنے کی دوڑ میں نہ لگ جائیں۔ صرف انہی کو حاصل کر کے ہم خوش نہ ہو جائیں کہ ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا۔ یہ چیزیں تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ آنی جانی ہیں۔ آج آئیں گی اور کل چلی جائیں گی۔ کئی لوگ ہیں جو ہزاروں لاکھوں یورو (Euro) کماتے ہیں لیکن جب کاروبار کو دھکّا لگا تو کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔ اپنی جائیدادوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بینکوں نے جائیدادوں کی قرقیاں کر دیں۔ یا لاکھوں کمائے لیکن بدقسمتی ایسی کہ صحت کی حالت ایسی ہو گئی کہ اُس کواپنی کسی خواہش کو پورا کرنے، کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے اپنے پر خرچ بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے اگر کوئی غذا ہے اور اُس کو کھانے کی خواہش ہے تو کھا نہیں سکتے۔ صحت ایسی ہو گئی ہے کہ ان نعمتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو استعمال ہی نہیں کر سکتے۔ یا اولاد ایسی ناخلف اور نا ہنجار ہے کہ اس فکر میں ہی صحت برباد ہو رہی ہے کہ ہمارے بعد یہ سب کچھ لُٹا دے گی۔ یا ایسی اولاد ہے جو ماں باپ کی عزت کرنا نہیں جانتی، نافرمان ہے۔ غرض بے شمار وجوہات ہیں جو پیدا ہو جاتی ہیں۔ پس ہر احمدی کو سب سے پہلے اپنی پیدائش کے مقصد کو یاد رکھنا چاہئے۔ یہ مقصد یاد رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو ملیں گی ہی اور دنیا کی جو نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں، اُن کو تو آپ حاصل کر ہی رہے ہوں گے لیکن اُن کے بد اثرات سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا۔ لیکن اگر اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتے رہے اور اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ فلاں کے باپ دادے کیسے تھے؟ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث وہی لوگ ہوں گے یا ایسے بزرگوں کی وہی اولاد وارث بنی رہے گی جو اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نیکیوں پر قدم مارنے والی تھی اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والی تھی اور اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والی تھی۔ اُن لوگوں کی اللہ تعالیٰ کچھ بھی پروا نہیں کرتا جو اُس کے احکام پر چلنے والے نہیں ہوتے اور اُس کے عبادت گزار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَاؤُکُمْ۔ (الفرقان:78)

اُن سے کہہ دے کہ میرا ربّ تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا نہ ہو، اُس کی عبادت نہ ہو۔ پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں لئے رکھیں۔ کبھی ایسے لوگوں میں شمار نہ ہوں جو راہ سے بھٹک جانے والے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔ بلکہ ہمیشہ اُن میں شمار ہو جانے کی کوشش کرنی چاہئے جن سے اللہ تعالیٰ نے قبولیتِ دعا کا وعدہ فرمایا ہے۔ خالص ہوتے ہوئے اُس کے حضور جھکنے والے اور اُس سے دعائیں مانگنے والے بنیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصّہ اُنہیں کے شاملِ حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اِس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ۔ (الفرقان:78)
فَإِنَّ اللَّہَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِينَ (آل عمران:98)

یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم دعا نہ کرو اور اُس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو۔ خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں۔ وہ تو بے نیازِ مطلق ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد1صفحہ563-564 حاشیہ نمبر11)
پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے ہر وقت اُس کا خوف دل میں رکھنے کی کوشش کریں۔ توحید پر قائم ہوں۔ دنیا کی چکا چوند کبھی اُس کے شرک میں مبتلا کرنے والی نہ ہو۔ ہمیشہ عبادت کی طرف توجہ کریں۔ عبادت پر توجہ دیں تا کہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن سکیں۔ اور عبادات کا بہترین ذریعہ نمازیں ہیں جو پانچ وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں جن کی ادائیگی فحشاء سے بھی روکتی ہے اور کسی بھی قسم کے شرک سے بھی محفوظ رکھتی ہے بشرطیکہ یہ نمازیں خالص اللہ کے لئے ادا کی جائیں، نہ کہ دکھاوے کے لئے۔ پھر اسی طرح دوسری عبادات ہیں۔ پس جب یہ خالص ہو کر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بجا لائی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی بھی ہوں گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، زہد و تقویٰ میں ترقی کی طرف لے جانے والی بھی ہوں گی۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، عبادات میں سب سے بنیادی چیز نماز ہے کیونکہ نماز کے بارے میں ہی کہا گیا ہے کہ یہ عبادت کا مغز ہے۔ پس ہر احمدی کو جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، دنیا و آخرت کے فضلوں کا اپنے آپ کو وارث بنانا چاہتا ہے، اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور عبادات میں سب سے بہتر ذریعہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں، نماز ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’نماز اصل میں دعا ہی ہے… اگر( انسان کا) نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے۔ کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ گویا خود ہلاکت کے نزدیک جاتا ہے‘‘۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 54مطبوعہ ربوہ)
پس اپنی نمازوں کی حفاظت کی طرف بہت توجہ دیں اور پھر ہلاکت سے بچیں اور نمازوں کے لئے سوائے اشد مجبوری کے کوشش ہونی چاہئے کہ باجماعت ادا کی جائیں۔ یہی قیامِ نماز کا مطلب ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کا ستائیس گنا زیادہ ثواب ہے۔ (صحیح المسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ … حدیث1477)۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کے لئے خاص کوشش کریں۔
ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسوہ قائم کر کے ہمیں سمجھا دیا کہ نماز باجماعت کے لئے انتظام کرو۔ آخری بیماری کے وقت میں بھی جب بھی آپؐ کو ہوش آتا تھا، آپؐ نماز کا وقت پوچھتے تھے اور ایک دفعہ سہارے سے مسجد میں آئے اور جب دیکھا کہ مومنین نماز پڑھ رہے ہیں تو بڑے خوش ہوئے اور پھر آ کر آپؐ حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ نماز میں بیٹھ بھی گئے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیؤتم بہ حدیث 687)، (صحیح بخاری کتاب الاذان باب اہل العلم والفضل احق بالامامۃ حدیث680)
اُس حالت میں بھی آپ نے نماز کی طرف توجہ دی۔ اور پھر آپ دیکھیں کہ نماز قائم کرنے کے لئے جب ابتدائی دور میں آزادی ملی، عبادت کی آزادی میسر آئی تو سب سے پہلے آپؐ نے مسجد کی تعمیر فرمائی تاکہ باجماعت نمازوں کے لئے ایک جگہ میسر آ جائے۔ چنانچہ تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہجرت کے بعد چند دن قباؔ کے قیام کے دوران بھی آپؐ نے وہاں مسجد کی تعمیر کروائی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 349ہجرۃ الرسولﷺ /بناء مسجد قباء دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
اور پھر جب چند ہفتوں کے بعد مدینہ آ گئے تو یہاں مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 350ہجرۃ الرسولﷺ /بناء مسجدالمدینۃ… دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
کیوں؟ اس لئے کہ آپ سب سے زیادہ نماز باجماعت کی اہمیت جانتے تھے اور جانتے تھے کہ مسلمانوں کو اکٹھا رکھنے کے لئے، اُن میں ایک جمعیت پیدا کرنے کے لئے، اُن میں وحدانیت پیدا کرنے کے لئے، اُن کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے یہ مساجد ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا گھر ہونے کی وجہ سے یہ کردار ادا کرنے والی ہیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ’’ تم جہاں جماعت کا قیام کرنا چاہتے ہو اور جہاں تبلیغی میدان ہموار کرنا چاہتے ہو وہاں مسجد تعمیر کر دو‘‘۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4صفحہ 93مطبوعہ ربوہ)
یہ ٹھیک ہے کہ باجماعت نماز کے لئے کوئی بھی جگہ میسر آ جائے تو نماز باجماعت ہو سکتی ہے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو تمام زمین ہی مسجد بنائی گئی ہے۔ جہاںنماز کے لئے وقت ہوا ایک مسلمان یا مومنین کی جماعت نماز ادا کر سکتی ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قول النبی ﷺ جعلت لی الارض مسجدًا و طہورًا حدیث 438)
لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ پیغام پہنچانے کے لئے، تبلیغ کی راہیں ہموار کرنے کے لئے مساجد کی تعمیر ضروری ہے۔ اور جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں یہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے نظر آتا ہے کہ جہاں مسلمان اکٹھے ہوئے، جمع ہوئے، مسجد تعمیر ہو گئی۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہوئی مسجد تعمیر کی گئی۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی توفیق دے کہ یہاں مسجد تعمیر کرسکیں۔ مجھے پتہ لگا ہے کہ اب کچھ صورت بنتی نظر آرہی ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کی طرف کچھ پیش رفت شروع ہوئی ہے۔ یہاں جو جگہ ہے اللہ کرے یہاں باقاعدہ مسجد بن جائے اور جب باقاعدہ مسجد بن جائے گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح احمدیت کا تعارف اور جماعت کا پیغام اس علاقے اور اس ملک میں پہنچتا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچتا ہے، اسلام کا پیغام پہنچتا ہے۔ اس کے لئے آپ کو دعا بھی کرنی چاہئے اور اس کی تعمیر کے لئے ابھی سے تیار بھی ہو جانا چاہئے۔ صرف تیاری نہیں بلکہ اب اس مدّ کے لئے رقم اکٹھی کرنی شروع کر دینی چاہئے۔ مسجد فنڈ کے لئے بڑھ چڑھ کر قربانیوں میں حصہ لینا چاہئے۔ اول تو خدا کرے کہ یہاں ایسے سامان پیدا ہو جائیں کہ اسی جگہ پر مسجد کی اجازت مل جائے، ان لوگوں کے دل اللہ تعالیٰ کھول دے اور مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی روک نہ ڈالیں، لیکن اگر یہاں نہیں بھی بنتی تو مسجد تو انشاء اللہ تعالیٰ بننی ہے۔ ایک نہیں کئی مساجد بننی ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ لوگوں نے ہی تعمیر کرنی ہیں۔
مَیں نے شروع میں جو باتیں کی ہیں، باہر کی دنیا بھی سن رہی ہوتی ہے تو اُن سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ شاید بیلجیئم کی جماعت میں اللہ نہ کرے ایمان کی اور اخلاص کی بہت کمی ہو گئی ہے۔ مَیں باہر والوں کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیلجیئم کی جماعت بھی بڑی مخلص ہے۔ یہ بات جو مَیں نے کی تھی وہ تمام ایسے احمدیوں کے لئے کی تھی جو اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے والے نہیں ہیں۔ یہ صرف بیلجیئم کے لئے کوئی خاص نہیں ہے۔ لیکن اس وقت مَیں کیونکہ یہاں اس جلسے سے آپ لوگوں کو مخاطب ہوں اس لئے یہ سٹیج استعمال ہو رہا ہے۔
بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ اس مسجد کی یہاں تعمیر آپ لوگوں نے کرنی ہے۔ اُس کے لئے ابھی سے فنڈ قائم کریں اور بڑھ چڑھ کر اس میں قربانیاں پیش کریں۔ جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں پڑھا تھا کہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں‘‘۔ آج یہ دینی مہم ہے اس کے لئے اپنے دلوں کو کھولیں اور بڑھ چڑھ کر مسجد کی تعمیر کے لئے قربانی کریں۔ آج دنیا کے ہر ملک میں جس طرح جماعت کی مساجد تعمیر ہو رہی ہیں، آپ کو بھی اب مزید انتظار کئے بغیر اس مہم میں شامل ہو جانا چاہئے تا کہ آپ اس مہم میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے والے بنیں۔ بعض لوگوں کو بعض جگہوں پر اعتراض ہوتا ہے کہ شہر سے دور ہے، لوگوں کی رہائش سے دور ہے۔ جب ایک جذبہ سے آپ کام کریں گے اور نیت ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کو تعمیر کرنے کے بعد آباد بھی کرنا ہے تو تمام دُوریاں بھی ختم ہو جائیں گی اور تمام تکلیفیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ پس آپ کا یہ کام ہے کہ کمرِ ہمت کس لیں اور انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ کی تبلیغ کے میدان بھی وسیع ہوں گے۔ مسجد کو دیکھنے کے لئے لوگوں کے وفود بھی آئیں گے اور روشن مینار اسلام کی خوبصورت تعلیم کے نور کو بکھیرنے والے ہوں گے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ مسجد کی تعمیر کے ساتھ آپ کی تبلیغ کے میدان کس قدر وسیع ہو گئے ہیں۔
پس آگے بڑھیں اور اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اپنی پوری کوشش کریں۔ نہیں تو یاد رکھیں کہ یہ کام تو ہوکر رہنے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہوں گے لیکن جو لوگ اس میں حصہ نہیں لیں گے وہ ثواب سے محروم ہو جائیں گے۔ چاہے تھوڑے ہی ہوںلیکن مجھے پتہ ہے کہ بیلجیئم کی جماعت میں ایسے مخلصین ہیںکہ اگر تمام جماعت نہیں بھی کرے گی تو یہ ٹھیک ہے کہ تھوڑے بھی ایسے نکل آئیں گے جو انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والے ہوں گے اور اُس کو مکمل کر کے چھوڑنے والے ہوں گے۔
مسجد کے ضمن میں یہ بات کر رہا ہوں کہ بعض شدت پسند آجکل کے حالات کی وجہ سے، مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے ان ملکوں میں بہت زیادہ مخالفت کر رہے ہیں، اسلام کے خلاف ایک رَو چلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بعض جگہوں پر مساجد کی تعمیر میں روکیں بھی پڑتی ہیں۔ لیکن اس مخالفانہ ردّ عمل کی وجہ سے آپ لوگوں نے خاموش ہو کر نہیں بیٹھ جانا بلکہ اس ردّ عمل کو زائل کرنا ہے اور اس کے لئے بہترین ذریعہ آپ کا اپنا کردار ہے۔ اگر آپ لوگوں نے اپنے نیک نمونے اپنے ماحول میں قائم کئے اور قائم کرتے رہیں گے، جہاں جہاں آپ کی رہائش ہے اور جہاں جہاں آپ کے نماز سینٹر ہیں وہاں کے ماحول میں اگر یہ تأثر آپ قائم کریں گے اور اُس ماحول میں اُن لوگوں میں یہ تأثر قائم ہو جائے گا کہ یہ لوگ تو کچھ اور طرح کے لوگ ہیں جو قانون کا احترام کرنے والے بھی ہیں، ہمسایوں سے نیک سلوک کرنے والے بھی ہیں، شرافت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بھی ہیں، نیکیوں میں بڑھنے والے بھی ہیں اور اپنے خدا سے لَو لگانے والے بھی ہیں تو یہ روکیں خود بخود زائل ہو جائیں گی۔ اور اس سے جہاں آپ اپنے ماحول میں نیک اثر ڈال کر اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم کو دنیا پر ظاہر کر رہے ہوں گے وہاں آپ پر خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی پڑ رہی ہو گی کہ یہ لوگ میری خاطر میرے دین کی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے اپنی برائیوں کو دور کرتے ہوئے اور میرے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی حسین تعلیم کے سفیر بنے ہوئے ہیں۔
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ’تقویٰ، پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں‘ اور جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق یہ نمونے حاصل کر لیں گے تو جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جو اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں، دنیا کی حسنات حاصل کرنے والے بھی ہوں گے اور آخرت میں بھی اُس کی جنت کے وارث بننے والے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنے والے ہوں اور آپ کے ان پاک نمونوں کی سچائی اور آپ کے قول و فعل کی یکرنگی اس قدر پُراثر اور پُرتاثیر ہو کہ کوئی انگلی آپ پر یہ اشارہ کرتے ہوئے نہ اُٹھے اور نہ کبھی اُٹھ سکے کہ یہ لوگ بھی باقی مسلمانوں کی طرح، باقی لوگوں کی طرح ہیں جن کے قول کچھ اور ہیں، جن کی تعلیم کچھ اور ہے اور جن کے عمل کچھ اور ہیں۔ جن کے خول تو خوبصورت اور چمکتے ہوئے ہیں لیکن ان کا اندرونہ غلاظت اور گندگی سے پُر ہے‘ اُس کے اندر جھوٹ ہے۔ بلکہ آپ کو دور سے آتا دیکھ کر آپ کے ماحول کا ہر شخص یہ اشارہ کرے کہ دیکھو یہ وہ شخص آ رہا ہے جس کا ظاہر و باطن ایک ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو اسلام کی خوبصورت تصویر دکھاتا ہے اور پھر خود بھی اس پر عمل کرتا ہے اور یہ اُس کا عملی نمونہ ہے۔ یہ سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر ہے کہ اگر حق بات کے لئے اُس کو اپنے خلاف یا اپنے عزیز کے خلاف یا اپنے قریبی کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو یہ دے دے گالیکن سچائی سے منہ نہیں موڑے گا، جھوٹ کو قریب نہیں پھٹکنے دے گا۔ ان لوگوں کی تعلیم کے مطابق جھوٹ شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے اور یہ تو خدائے واحد کے عبادت گزار ہیں اور اُس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جو وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے آیا تھا۔
پس یہ سچائی کے نمونے آپ نے قائم کرنے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی کبھی آپ کی طرف سے جھوٹ کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے نرم دلی اور باہم محبت کے بھی اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کبھی اپنے بھائی کی جڑیں کاٹنے والے نہ ہوں۔ اپنے جذبات پر کنٹرول ہو۔ اگر کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرے تو محض لِلّٰہ اُسے معاف کرنے والے ہوں۔
پھر عورتوں کو بھی خاص طور پر مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے ہیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بھی بلند کرنے ہیں۔ کیونکہ اگر ہماری عورتوں اور بچیوں کے تقویٰ کے معیار بلند ہو گئے تو ہماری موجودہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلنے والی ہوں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی تقویٰ پر چلنے والی ہوں گی کیونکہ وہ اُن ماؤں کی گودوں میں پلنے والی ہوں گی جنہوں نے ڈرتے ڈرتے اپنے دن بسر کئے اور تقویٰ سے اپنی راتیں بسر کیں۔ احمدی عورت اگر چاہے تو ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہے۔ اگر خاوند دین سے دوربھی ہٹے ہوئے ہیں، اگر نمازوں میں سست ہیں تو اُنہیں موقع کی مناسبت سے آہستہ آہستہ سمجھا کر دین کے قریب لائیں۔ اُن کو اُن کے مقصدِ پیدائش سے آگاہ کریں۔ بعض دفعہ بچے باپوں کے نمونوں کو دیکھ کر خراب ہو رہے ہوتے ہیں اس لئے ماؤں کی بھی اور اُن باپوں کی بھی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہے ۔
پس یہ مَردوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اور عورتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ مَردوں کی اصلاح کی کوشش کریں تا کہ اپنی اگلی نسل کو یورپ کے لغو ماحول کی دلدل میں ڈوبنے سے بچا سکیں۔ نام نہاد آزادی سے اپنی نسلوں کو بچا سکیں۔ اگر آج اس طرف توجہ نہ دی تو پھر بعد میں ہاتھ مَلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بچوں کو گھروں میں وہ ماحول دیں جس سے بچے ماں باپ کے پاس زیادہ وقت گزارنے والے ہوں۔ اس بارے میں کئی دفعہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لیکن اس طرف کئی گھر پوری طرح توجہ نہیں دیتے۔ ماں باپ اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم ان یورپین ممالک میں آ گئے ہیں، یہاں ہمارے معاشی حالات پہلے سے بہتر ہو گئے ہیں اور ہمارے بچوں کو بھی بہتر تعلیمی ماحول میسر ہے۔ یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا، آپ کے بڑوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا بنانے کی کوشش کی اور بنا کر دکھایا۔ اور حتی الوسع یہ حق ادا کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے اموال و نفوس میں برکت ڈالی۔ آپ لوگوں پر جیسا کہ مَیں نے کہا تھا یہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں، مالی کشائش ہے یہ آپ کے کسی کمال کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اُن بندوںپر فضل کی وجہ سے ہے جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ نے سنیں اور جس کا فیض اُن کی نسلیں یا آپ پا رہے ہیں۔ اگر ان فضلوں کو جاری رکھنا ہے تو اپنا تعلق بھی اُس زندہ خداسے جوڑنا ہو گا جو زندگی دینے والا، زندگی بخش ہے اور روحانی اور مادی نعمتوں کو عطا کرنے والا ہے۔
پس ان فضلوں کو جو آپ پر ہوئے، تمام مَردوں اور عورتوں کو شکر کے جذبات سے پُر کرنے والا ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکنے والا بنانا چاہئے اور یہی چیز پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آپ کو اُس کے فضلوں کو مزید حاصل کرنے والا بنائے گی اور بناتی چلی جائے گی، جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ۔ (ابراہیم:8)

یعنی اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اَور بھی زیادہ دوں گا۔
پس یہ بہتر حالات آپ لوگوں کو مزید شکر گزار بنانے والے ہوں۔ اس کشائش کی وجہ سے آپ شکر گزار بنتے ہوئے دنیاوی جھمیلوں میں پڑنے والے نہ ہوں۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہ کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے والے نہ ہوں۔ دنیاوی آسائشوں کی وجہ سے اپنے بچوں کی تربیت سے غافل نہ ہو جائیں۔ اُن کو دینی تعلیم دینے سے غافل نہ ہو جائیں۔ اپنی نمازوں کی حفاظت اور اپنے بچوں کی نمازوں کی حفاظت سے غافل نہ ہو جائیں کہ وہ ایک ثانوی حیثیت بن جائیں۔ کیونکہ اگر یہ صورتحال ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے جن فضلوں کو آپ پر نازل فرمایا ہے اُن کو واپس لینے کی بھی طاقت رکھتا ہے۔
پس ہمیشہ اُس کی پناہ میں رہتے ہوئے اُس کے فضلوں کو جذب کرنے والا بنیں۔ اس جلسے سے آپ لوگوں نے جو بھی روحانی فائدہ حاصل کیا ہے۔ اُس سے مسلسل فائدہ اُٹھانے کے لئے اللہ اور اُس کے بندوںکے حقوق ادا کرنے والے بنیں۔ آپ کی نسلیں آپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں اور جماعت کے لئے بہترین وجود بننے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کی نسلوں کا خلافتِ احمدیہ سے ہمیشہ پختہ تعلق قائم رکھے اور آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام دعاؤں کے وارث بنیں۔ اللہ ہر شر اور ہر فتنے سے آپ سب کو محفوظ رکھے اور آپ کو اپنے دین کے بہترین مددگاروں میں سے بنائے۔
اب دعا کر لیں۔ (دعا)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں