حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم جنوری 2021ء)

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مئی و جون 2012ء میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی سیرت و سوانح پر مبنی ایک مضمون مکرم داؤد احمد عابد صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپؓ کا مختصر ذکرخیر 8؍اکتوبر 1999ء کے اخبار میں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔

داؤد احمد عابد صاحب

عبد اللہ بن شفیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آنحضورﷺ کو اپنے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب کون تھے؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت ابوبکرؓ۔ مَیں نے پوچھا ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا:حضرت عمرؓ۔ مَیں نے پوچھا پھر کون؟ انہوں نے بتایا حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ۔ مَیں نے پوچھا:اُن کے بعد؟ تو وہ خاموش رہیں۔
ترمذی اور مسند احمد بن حنبل کی روایات میں عشرہ مبشرہ کے اسماء میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ بھی شامل ہیں۔ یہ سعادت مند دس لوگ جنہیں آنحضورﷺ نے زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی وہ سب اپنے شجرہ نسب میں فھر بن مالک بن النضر پر ملتے ہیں، یہیں ان سب کا سلسلہ نسب آنحضورﷺ سے بھی ملتا ہے، ان میں سے حضرت ابوعبیدہ حارث بن فھر بن مالک کی اولاد میں سے جبکہ دیگر تمام لؤی بن غالب بن فھر بن مالک کی اولاد میں سے ہیں، اور آنحضورﷺ کا بھی یہی شجرہ نسب بنتا ہے۔
آپؓ کا نام عامر بن عبد اللہ بن الجراح الفھری القریشی ہے جبکہ آپ کی کنیت ابوعبیدہ تھی اور آنحضورؐ نے آپ کو امین ھذہ لامّۃ یعنی امّت اسلام کا امین قرار دیا ہے۔ آپ ہجرت سے 40 سال قبل 548 عیسوی کو پیدا ہوئے۔ آپؓ کی والدہ ماجدہ امیمۃ بنت عثمان بن جابر بن عبدالعزیٰ ہیں۔ آپ طویل القامت، نحیف الجسم تھے، آپ کے چہرہ پر رگیں نمایاں اور داڑھی ہلکی تھی۔
حضرت ابوعبیدہؓ ابتدائی دس اسلام قبول کرنے والے سعادت مند السابقون الاوّلون میں شامل ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ کو اسلام کی تبلیغ کی، اور یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایمان لانے سے اگلے دن کا واقعہ ہے جب حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عثمانؓ بن مظعون، حضرت عبیدہؓ بن الحارث، حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت ابو سلمہؓ بن عبد اللہ کی معیت میں آنحضورﷺ کی بیعت کا شرف حاصل کیا، اس وقت آپؓ کی عمر 27 برس تھی۔
حضرت ابوعبیدہؓ نے ہجرت حبشہ کی توفیق بھی پائی۔ آپؓ کو امیرالامراء کا لقب دیا گیا۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے آنحضورؐ کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی توفیق پائی۔ دورانِ جنگ آپؓ کی تمام تر توجہ آنحضورؐ کی طرف مبذول رہتی تھی۔ جب بھی آپؓ کو محسوس ہوتا کہ اس وقت آنحضورﷺ کو میری ضرورت ہے تو آپؓ ایک وارفتگی کے عالم میں آنحضورﷺ کی طرف لپکتے۔ آپؓ ان چند صحابہ میں سے ہیں جو غزوہ احد میں آنحضورؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں:جنگ احد میں جب آنحضورﷺ کو تیر لگا اور آپؓ کے گال مبارک میں خَود کی دو کڑیاں پیوست ہو گئیں تو میں آپؐ کی طرف بھاگا، ایسے میں مَیں نے ایک انسان کو دیکھا کہ وہ مشرق کی جانب سے اُڑتا چلا آتا ہے، اس پر مَیں نے دعا کی کہ یا اللہ! اسے اطاعت بنا دے۔ یعنی اللہ خیر کرے کوئی دشمن نہ ہو بلکہ آپؐ کا کوئی مطیع وفرمانبردار ہو۔ جب ہم دونوں وہاں پہنچے تو ابوعبیدہ مجھ پر سبقت لے جاچکے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابوبکر مَیں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ کام مجھے کرنے دیں اور یہ کڑیاں مَیں آنحضورؐ کے رُخ انور سے نکالوں۔ اس پر میں نے انہیں یہ کام کرنے دیا۔ اس پر انہوں نے اپنے دو دانتوں سے اس خود کی ایک کڑی کو پکڑ کر کھینچا، نتیجۃً کڑیاں دانتوں سمیت زمین پر گرگئیں، پھر آپ نے دوسری کڑی کو اپنے دوسرے دو دانتوں سے کھینچا سو وہ بھی کڑیوں کے ساتھ ہی گرگئے۔ اس موقع پر آپؓ نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جو اپنے نبی کے رخ انور کو خون آلود کر دے، حالانکہ وہ انہیں ان کے ربّ کی طرف بلاتا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ آپؓ کا باپ غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے جنگ میں شامل تھا، جسے آپؓ نے خود قتل کیا۔
آنحضورﷺ کے یہ دلیر اور جاں نثار صحابی ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے، اور ہمیشہ آنحضورﷺ کے اعتبار پر پورا اترتے تھے، اسی بِنا پر آپؐ مختلف وفود کو بھجواتے وقت آپؓ کو ان وفود کی امارت سپرد فرماتے، خواہ وہ کسی سریہ پر بھجوانا مقصود ہوتا یا کسی قوم کی تعلیم وتربیت کا معاملہ ہوتا۔ چنانچہ جب اہل یمن نے آنحضورﷺ کی خدمت اقدس میں کسی کو بھیجنے کی درخواست کی تو آنحضورﷺ کی نظر انتخاب آپؓ پر پڑی۔ پھر جب اہل نجران اسلام لانے کو آئے تو ان کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی آپؓ کا انتخاب کرکے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مَیں تم لوگوں کے ساتھ ایک امین شخص کو بھیجوں گا جو حقیقی امین ہے، حقیقی امین ہے، حقیقی امین ہے۔
بخاری شریف میں آیا ہے کہ آنحضورﷺ نے آپؓ کو جزیہ وصول کرنے کے لیے بحرین بھی بھیجا۔
آپؓ ان سعادت مند صحابہ میں سے ہیں جنہیں قرآن کریم جمع کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔
ابوجمعہ حبیب بن سباع روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضورﷺ کی موجودگی میں دوپہر کا کھانا کھایا جبکہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ حضورؐ! کیا کوئی ہم سے بھی بہتر ہے جبکہ ہم آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کے ہمراہ جہاد کیا۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا: ’’ہاں! ایک قوم جو تم لوگوں کے بعد ہوں گے، وہ مجھ پر ایمان لائیں گے جبکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ ‘‘
آنحضورؐ نے آپؓ کو تین سو سے زیادہ افراد کے ایک سریہ کا امیر بنا کر بھیجا جسے ’’غزوہ خبط‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان کے پاس بہت کم زاد راہ تھی، جب وہ ختم ہوئی تو درختوں کے پتوں کو پیس کر نگل جاتے اور اس پر پانی پی کر گزارہ کرتے۔ عربی میں خبط کے ایک معنے درخت کے گرے ہوئے پتوں کے بھی ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ بھی اس سریہ میں شامل تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ اسی بے سروسامانی کے عالم میں ہم چلے جارہے تھے کہ ایک ساحل سمندر کے نزدیک پہنچے، دُور سے ہمیں ایک ٹیلہ نما چیز دکھائی دی، قریب پہنچے تو وہ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی تھی، حضرت ابوعبیدہؓ جو امیر سریہ تھے پہلے انہوں نے کہا کہ یہ مُردار ہے اسے نہیں کھانا، پھر آپؓ نے اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ ہم جہاد پر نکلے ہیں اور کھانا ختم ہونے کے باعث اضطرار کی کیفیت بھی ہے اس لیے اس کا کھانا جائز ہے۔ سو ہم تین سو لوگ مہینہ بھر وہاں رہے، اور خوب توانا ہو گئے۔ وہ مچھلی جو رزق کے طور پر خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے صحابہ کو عطا فرمائی اس کی آنکھ کے گھیرے میں 13 لوگ سما جاتے تھے جبکہ اس کی پسلی کو کھڑا کرنے سے ایک اونٹ سوار اس کے نیچے سے اپنے کجاوے سمیت گزر جاتا تھا۔ حضرت جابرؓ مزید بتاتے ہیں کہ ہم نے اس میں سے کچھ گوشت سکھا بھی لیا، جب ہم مدینہ واپس پہنچے تو آنحضورﷺ سے اس امر کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کے لیے نکالا، اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ، سو اس مچھلی کے گوشت کا کچھ حصہ آپؐ کی خدمت اقدس میں بھی پیش کیا گیا جسے آپؐ نے تناول فرمایا۔
اسی طرح سریہ ذی القصہ میں بھی آنحضورﷺ نے آپؓ کو امارت تفویض فرمائی جس میں آپؓ نے کامیابی حاصل کی۔ آٹھ سن ہجری میں غزوہ ذات السلاسل ہوا جس کی قیادت حضرت عمرو بن العاص کر رہے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ دشمن کی تعداد توقع سے کافی زیادہ ہے، اس بِنا پر آنحضورﷺ نے حضرت ابو عبیدہ کی سرکردگی میں کمک روانہ فرمائی جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔
جب آنحضورﷺ کی وفات ہوئی تو انتخابِ خلافت کے حوالے سے کوئی حل نہیں نکل رہا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا کہ ہم آپ کی بیعت کرلیتے ہیں کیونکہ مَیں نے آنحضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر اُمّت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری اُمّت کے امین آپ ہیں۔ اس پر آپؓ نے جواب دیا کہ میں خود کو اس شخص پر کیونکر ترجیح دے سکتا ہوں جسے آنحضورؐ نے ہماری امامت کا ارشاد فرمایا ہو۔
اگرچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ یہ اعلان فرما چکے تھے کہ میں ان دو یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدؓہ میں سے کسی ایک کو بطور خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں مگر ابوعبیدہؓ کے ایک جملہ نے ساری روک دُور کردی۔ پھر آپؓ نے انصار مدینہ کے جذبات کو سمجھتے ہوئے انہیں اس دلپذیر انداز میں نصیحت فرمائی کہ قیام خلافت کی راہ بآسانی ہموار ہو گئی۔ آپؓ نے فرمایا: اے گروہ قریش، تم وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے اسلام اور رسول خدا کی تائید ونصرت اور مدد کا بیڑا اٹھایا تھا، سو تم ہی وہ نہ بن جانا جو سب سے پہلے بدل گئے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کے علاقہ کی فتح کے لیے چار قائدین کا انتخاب فرمایا تو آپؓ ان میں سے ایک تھے۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے آپؓ کو شام ارسال کی گئی افواج پر سپہ سالار مقرر فرمایا۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: میں کبھی بھی اس فیصلے کو بدلنے کا نہیں جو ابو عبیدہ بن الجراح نے کیا ہو۔
حضرت عمرؓ نے منصب خلافت پر متمکّن ہونے کے بعد سب سے پہلا خط آپؓ ہی کو ارسال فرمایا جب جنگ یرموک کے دوران آپؓ کو اس فوج کی کمان دی گئی جس کی قیادت اُس وقت حضرت خالد بن ولیدؓ کر رہے تھے۔ آپؓ نے اس معاملہ کو اس وقت تک حضرت خالد بن ولیدؓ سے خفیہ رکھا جب تک کہ حضرت خالد نے اس جنگ میں فتح حاصل نہیں کر لی، فتح ہو گئی تو اس بات کی خبر انہیں کی، اس پر حضرت خالدؓ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، جب آپ کو خط مل گیا تھا تو کس بات نے آپ کو مجھے اس بات کے بتانے سے منع کیا؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے پسند نہیں کیا کہ میں آپؓ کی جنگ کی فتح میں حائل ہوں کیونکہ ہم دنیا کی سلطنت کے خواہاں نہیں ہیں، نہ ہی ہم دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، ہم سب تو خدا کی خاطر بھائی بھائی ہیں۔ عین جنگ کے دوران جب کمان کی تبدیلی کا حکم آیا تو دونوں جانب سے غیر معمولی زیرکی کا مشاہدہ دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے لشکر سے یوں مخاطب ہوئے: تمہاری طرف اس اُمّت کے امین کو بھیجا گیا ہے۔ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالد کے بارہ میں فرمایا: خالد خداتعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں اور یہ اپنے خاندان کا کیا ہی بہترین جوان ہیں۔
حضرت عمرؓ جب فوت ہونے لگے تو فرمایا کہ آج اگر ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں انہیں اپنے بعد خلیفہ بنا دیتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھتا تو میں کہہ دیتا کہ میں نے اللہ اور رسولؐ کے امین کو اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے۔ اور فرمایا کہ اگر میں کوئی تمنا کروں تو صرف ابو عبیدہ بن الجراح کے سے لوگوں سے بھرے گھر کی تمنا کروں گا۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے ایک مرتبہ جبکہ وہ شام کے امیر تھے وہاں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو میں قبیلہ قریش کا ایک مسلمان ہوں، تم میں سے خواہ کوئی سرخ ہو یا سیاہ اگر وہ تقویٰ میں مجھ پر فضیلت رکھتا ہے تو میری یہ خواہش ہے کہ میں اس کے حلیہ میں ہوتا۔
حضرت عمرؓ شام کے دورہ پر تشریف لائے، اپنا استقبال کرنے والوں سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے؟ انہوں نے پوچھا وہ کون؟ فرمایا: ابوعبیدہ بن الجراح۔ چنانچہ وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور امیرالمومنین سے معانقہ کرتے ہیں۔ پھر انہیں اپنے گھر میں لے جاتے ہیں، حضرت عمرؓ دیکھتے ہیں کہ گھر میں سوائے ان کی تلوار، ڈھال اور سواری کے اَور کچھ بھی نہیں ہے، حضرت عمرؓ مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے بھی ویسا ہی سازوسامان بنوا لیا ہوتا جیسا لوگ بنواتے ہیں؟ آپ نے جواباً فرمایا: یہ سب مجھے میرے آرام کی جگہ تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ابوعبیدہ، ہم سب کو دنیا نے بدل دیا سوائے آپ کے۔
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ کسی شخص کے ہاتھ 4400 دینار آپ کو بھجوائے، اور اس شخص سے ارشاد فرمایا کہ دیکھنا کہ وہ اس رقم سے کیا کرتے ہیں؟ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے اس رقم کو وصول کرتے ہی اسے مستحقین میں تقسیم فرمادیا۔ اُس شخص نے حضرت عمرؓ کے پاس آکر سب ماجرا سنایا تو آپؓ نے فرمایا کہ اللہ کاشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اس طرح کے اعمال بجالانے والے نیک لوگ بھی پیدا فرمائے ہیں۔
عمواس کے علاقے میں طاعون پھوٹی تو اس وقت اسلامی فوج وہاں تھی جس کی قیادت حضرت ابوعبیدہؓ فرما رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کو ان کے بارہ میں خدشہ پیدا ہوا۔ انہوں نے آپ کو لکھا کہ اگر میرا یہ خط شام کو ملے تو صبح سے قبل میرے پاس چلے آؤ اور اگر صبح کو ملے تو شام سے قبل چلے آؤ، مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ معاملہ فہم تھے فوراً اس کی تہ تک پہنچ گئے کہ آپ مجھے طاعون سے بچانا چاہتے ہیں، اس لیے بڑے باادب انداز میں معذرت لکھ بھیجی کہ مجھے حضور کا خط ملا ہے اور اس سے مَیں آپ کا قصد جان گیا ہوں، لیکن مَیں چونکہ اس وقت مسلمانوں کی فوج میں ہوں، میں ان کو اس مصیبت کے وقت چھوڑ نہیں سکتا، سو ازراہ کرم مجھے اس حاضری سے اجازت مرحمت فرمادیجیے۔ جب حضرت عمرؓکو آپ کا خط ملا تو وہ رو دیے۔لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہؓ کی وفات کی خبر آئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر نہیں بھی آئی تو آ جائے گی کہ اس بیماری سے نجات کی کوئی راہ نہیں۔ مسلمان فوج کی تعداد وہاں 36000 تھی جن میں سے صرف 6000 زندہ بچے تھے۔ باقی سب اس طاعون کی نذر ہو گئے۔
حضرت ابوعبیدہؓ اردن کے ایک چھوٹے سے گاؤں غور میں دفن ہوئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر58 برس تھی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت معاذ بن جبلؓ نے پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں