حضرت احمد سرہندیؒ مجدد الف ثانی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23اپریل 2011ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے بارھویں صدی ہجری کے مجدّد حضرت احمد سرہندیؒ (مجدّد الف ثانی) کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
سرہند قلعہ کی بنیاد اور آبادی کا آغاز 760ھ کو بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کا قدیم نام سہرند تھا۔ ایک زمانہ میں یہ ہندوئوں اور غزنویوں کے درمیان سرحد کا کام دیتا تھا۔ کہتے تھے کہ یہ سرحد ہے اور اس کے آگے سے ہند شروع ہوتا ہے۔ سلطان محمد غوری نے سرہند کو فتح کیا تھا۔ بابر کئی بار یہاں آیا اور ہمایوں بھی یہیں سے دہلی آکر دوبارہ تخت و تاج کا مالک بنا۔ عہد مغلیہ میں اس شہر کی رونق اور آبادی کا یہ عالم تھا کہ یہاں 360 مساجد اور سرائیں پائی جاتی تھیں۔ الغرض حضرت سید احمد سرہندی کی پیدائش سے دو سو سال قبل سے یہ شہر آباد چلا آتا تھا۔
حضرت سیّد احمد ؒ کا نام مبارک احمد شیخ تھا۔ آپؒ کی پیدائش جمعۃالمبارک 14 شوال 1563ء کو سرہند میں حضرت مخدوم عبدالاحد صاحب کے ہاں ہوئی۔ آپؒ کا نسب نامہ حضرت عمرؓ بن خطاب سے جاملتا ہے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ کابل سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر بھی آپؒ ہی کے جدّامجد کے سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت سیّد احمدؒ حصول تعلیم کے لئے پہلے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اُس وقت یہ شہر علم کا مرکز تھا۔ یہاں شیخ یعقوب صاحب صوفی کشمیری اور مولانا کمال صاحب کشمیری سے استفادہ کیا۔ 17سال کی عمر میں یہاں سے فارغ ہوئے تو تعلیم کے سلسلہ میں لاہور اور دہلی کا سفر اختیار کیا۔ آپؒ نے عربی ، فارسی میں کئی رسائل تحریر کئے۔ آپ کا ایک مشہور رسالہ ’’تہلیلیہ‘‘ ہے جو آپؒ نے شیعہ مسلک کے ردّ میں تصنیف فرما یا ۔
آپؒ کی پیدائش بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانہ میں ہوئی جس نے اپنا نیا دین ’’دینِ الٰہی‘‘ جاری کیا تھا اور اس میں ہر مذہب کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 1014ھ میں اکبر کے انتقال کے بعد نورالدین جہانگیر تخت نشین ہؤا اور اُس نے سرہند کے حاکم کو تاکید کی کہ جس طرح ہو سکے آپؒ کو اُس کے پاس بھیج دے۔ حکم سُن کر آپؒ پانچ مریدوں کو لے کر روانہ ہوئے۔ بادشاہ نے امراء کو آپ کے استقبال کے لئے روانہ کیا۔ ایک خیمہ بھی لگوایا۔ پھر ملاقات کے لئے طلب کیا۔ جب آپؒ دربار میں تشریف لے گئے تو خلاف شرع آداب شاہی ادا نہ کئے۔ اکبر کے زمانہ میں یہ بات آداب میں شامل کر دی گئی تھی کہ جو دربار میں حاضر ہو وہ بادشاہ کے سامنے سجدہ کرے۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپؒ نے کہا کہ مَیں نے آج تک خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے آداب و احکام کی پابندی کی ہے۔اس پر بادشاہ ناراض ہوا۔ اس نے حکماً کہا سجدہ کرو ۔ آپ نے جواباً فرمایا کہ مَیں سوائے خدا کے اَور کسی کو سجدہ نہیں کرتا۔ اس پر جہانگیر نے خوا جہ عبدالرحمان مفتی اور افضل خاں کو فقہ کی کئی کتب دے کر بھیجا جنہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ سجدہ تحیّہ سلاطین کے لئے آیا ہے اس لئے آپ سجدہ کرلیں۔ لیکن آپ اس بات پر مضبوطی سے قائم رہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر بادشاہ نے سخت ناراض ہوکر آپؒ کو ’’گوالیار‘‘ کے قلعہ میں نظربند کردیا۔ آپ کی جائیداد اور کتب ضبط کرلی گئیں۔
قید میں آپؒ نے ریاضت کی اور غیر مسلم قیدیوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا۔ آپ کی صحبت سے ہزاروں غیر مسلم قیدی ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ قید کئے جانے کے تقریباً ایک سال بعد ہی جہانگیر نے نامعلوم وجوہات کے پیش نظر خود ہی آپؒ کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے آپ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
مولوی نواب صدیق حسن خاں صاحب نے اپنی کتاب ’’حجج الکرامہ‘‘ میں آپؒ کو گیارھویں صدی ہجری کا مجدّد قرار دیا ہے۔
حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی یوں محفوظ ہے۔ فرمایا: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلت فرمانے سے ہزار اور چند سال بعد ایک ایسا زمانہ آ رہا ہے کہ حقیقت محمدیؐ اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام سے متحد ہو جائے گی اور اس وقت حقیقت محمدیؐ کا نام حقیقت احمدیؐ ہو جائے گا اور ذات احمد جل سلطانہٗ کا مظہر بن جائے گی اور دونوں اسم مبارک اپنے مسمّٰی کے ساتھ متحقق ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت شیخ احمد سرہندیؒ 28صفر1034ھ کو 63برس کی عمر وفات پاگئے۔ آپؒ کی اولاد سات بیٹے تھے۔ تین کمسنی میں فوت ہو گئے تھے۔
آپؒ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات میں بارہا ملتا ہے۔ مثلاً فرمایا:
٭ ’’جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسان پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہو سکتی ہے۔ ہاں یہ فرق ہے کہ ’ال‘ کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کو الگ کیا جاوے۔ ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہوا۔ حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں اور اگر یہ مانا جاوے کہ ہر ایک قسم کی وحی منقطع ہو گئی ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ امور مشہودہ اور محسوسہ سے انکار کیا جاوے‘‘۔
٭ ’’مجدد صاحب لکھتے ہیں کہ یہی خوابیں اور الہامات جو گاہ گاہ انسان کو ہوتے ہیں اگر کثرت سے کسی کو ہوں تو وہ محدّث کہلاتا ہے۔‘‘
٭ ’’مجدّد صاحب نے بھی ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو علماء اس کا مقابلہ کریں گے اور اس کی تکذیب کریں گے‘‘۔
= حضرت حکیم خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بھی خداتعالیٰ پر اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کی جرأت کا یہ واقعہ بیان فرمایا ہے کہ:
اللہ کے اسماء پر، اللہ کے صفات وافعال پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے رسول پر جو لوگ اعتراض کرتے اور عیب لگاتے ہیں ان کو دُور کرو اور ان کا پاک ہونا بیان کرو۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے اعتراضوں کی آزادی اکبر بادشاہ کے عہد میں شروع ہوئی کیونکہ اس کے دربار میں وسعت خیالات والے لوگ پیدا ہوگئے۔ اس آزادی سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور مطاعن کا دروازہ کھول دیا۔ ان اعتراضوں کو دور کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کوشش کی ہے۔ چنانچہ شیخ المشائخ حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بہت کوشش کی ہے۔ اکبر نے جب صدر جہان کو لکھا کہ چار عالم بھیجیں جو ہمارے سامنے ان اعتراضوں کے جواب دیا کریں تو یہ بات حضرت مجدّد صاحب کے کان میں بھی پہنچی۔ انہوں نے صدر کو خط لکھا کہ آپ کوشش کریں کہ بادشاہ کے حضور صرف ایک ہی عالم جائے، چار نہ ہوں۔ خواہ کسی مذہب کا ہو مگر ہو ایک ہی۔ کیونکہ اگر چار جائیں گے تو ہر ایک چاہے گا کہ میں بادشاہ کا قرب حاصل کروں اور باقی تین کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر چار گئے تو بجائے اس کے کہ دین کا تذکرہ ہو ایک دوسرے کو ردّ کرکے چاروں ذلیل ہو جاویں گے اور اپنی بات کی پچ میں بادشاہ کو ملحد کر دیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں