حضرت استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ فروری 2003ء میں لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں شامل حضرت استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ کا تفصیلی ذکر خیر مکرمہ بشریٰ سمیع صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپ 1901ء میں سہارنپور میں حضرت چودھری حبیب احمد صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ 7 سال کی عمر میں پہلی بار قادیان گئیں تو پھر یہی دعا کرتی رہیں کہ خدا کسی طرح قادیان لے جائے خواہ یہاں کے کسی غریب آدمی سے شادی ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور 15 سال کی عمر میں حضرت مولوی غلام محمد صاحبؓ سے آپ کی شادی ہوئی اور آپ مستقل قادیان آگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا۔ 1918ء میں نصرت گرلز سکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ اَن گنت لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھایا۔ لجنہ اماء اللہ کی پہلی سیکرٹری مال بھی تھیں اور 1922ء سے 1961ء تک اسی حیثیت سے کام کیا۔ محلہ دارالفضل کی صدر اور لجنہ مرکزیہ کی انسپکٹرس بھی رہیں۔ لجنہ سٹور بھی چلایا اور بیرونی شہروں کے دورے بھی کئے۔ انتظامی صلاحیت بھی تھی اور معاملہ فہم بھی تھیں۔
حضرت مولوی غلام محمد صاحبؓ فروری 1926ء میں وفات پاگئے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ وفات سے قبل انہوں نے اپنی بیوہ اور بچوں کو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی نگرانی میں دیدیا تھا۔ یوں حضرت استانی صاحبہ اور آپ کے بچوں کو حضرت میاں صاحبؓ اور حضرت بو زینب صاحبہؓ کی بھرپور شفقت کا سایہ نصیب ہوا۔
حضرت استانی صاحبہ نے 1935ء میں سکول میں وضو کرنے کے لئے حوض اور ٹوٹیوں کے لئے چندہ کی تحریک کی۔ 1939ء میں آپ بھی ان خوش نصیب خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے سوت کات کر لوائے احمدیت تیار کیا۔ 1944ء میں وقف جائیداد کی تحریک پر آپ نے اپنے مکان کا تین چوتھائی حصہ پیش کردیا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی آگئیں اور ستمبر 1947ء میں لجنہ کراچی کی صدر منتخب ہوئیں۔ 1961ء میں محاسبہ مقرر ہوئیں۔ لجنہ مرکزیہ کے دفتر کی بنیاد میں بھی آپ نے اینٹ رکھی۔
عالمہ باعمل تھیں اور قول سدید کی قائل تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ایک بار فرمایا تھا کہ آپ خلیفہ وقت کے سامنے بھی سچ کہتے ہوئے نہیں گھبراتیں۔ لیکن دراصل حق گوئی کی یہ بے باکی نظام سلسلہ اور خلافت کی حفاظت کے لئے تھی نہ کہ تنقید کے لئے۔
غریب بچیوں کی تعلیم و تربیت اور شادیاں کروانے کا جنون تھا لیکن ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہونے دیتیں۔ بے شمار مستحقین کے خاموشی سے وظائف جاری کئے ۔ اپنے عزیزوں کو اس کارخیر میں شامل کرتیں لیکن برملا کہتی تھیں کہ مستحق کا نام نہیں بتاؤں گی، مدد کرسکتے ہو تو کرو، نہیں کرسکتے تو نہ کرو۔
پاکستان ہجرت کرتے وقت ہندوستان کی جائیداد کے کاغذات اپنے میاں کے سوتیلے رشتہ داروں کو دے آئیں اور پاکستان آکر ان کا کلیم نہ کیا کہ یہ تو خود دے کر آئی ہوں۔
آپ کے بیٹے مکرم غلام احمد عطاء صاحب ایک بار بچپن میں ایسے بیمار ہوئے کہ بچنے کی امید نہ رہی۔ بہت دعائیں کیں تو خواب دیکھا کہ ان کو ذبح کر رہی ہیں۔ آنکھ کھلنے پر عہد کیا کہ انہیں وقف کردیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قربانی قبول فرمائی اور وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہوں نے M.Sc میں گولڈمیڈل حاصل کیا تو بہت اعلیٰ نوکریوں کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اپنی والدہ کے کہنے پر وقف کے عہد کو پوری طرح نبھایا۔
19؍جون 1980ء کو 80 سال کی عمر میں حضرت استانی صاحبہ کی وفات ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں