حضرت اما م عبدالرحمٰن اوزاعیؒ

شام میں فقہ اسلامی کے سب سے بڑے نمائندہ حضرت امام اوزاعیؒ ہیں جن کا اصل نام عبدالعزیز تھا جو آپؒ نے بدل کر عبدالرحمٰن رکھ لیا۔ آپؒ کا تعلق دمشق کے نواحی قصبہ الاوزاع سے ہے۔ 88ھ میں پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم کا کچھ حصہ یمامہ میں مکمل کرکے وہیں سرکاری ملازمت میں داخل ہوگئے۔ پھر بیروت چلے گئے اور وہاں وفات پائی۔ آپؒ بڑے فصیح و بلیغ تھے اور آپؒ کی فضیلت اہل شام میںمسلّم تھی۔
امام اوزاعیؒ بڑے نڈر تھے۔ ایک دفعہ خلیفہ المنصور آپؒ کے پاس حاضر ہوا اور نصیحت کرنے کے لئے کہا تو آپؒ نے فرمایا کہ تمہاری رعیت کا ہر شخص ان مصائب و تکالیف کی شکایت کرتا ہے جن میں تُو نے انہیں مبتلا کر رکھا ہے۔
اسی طرح خلیفہ سفاح کے چچا عبداللہ بن علی کے دربار میں آپؒ نے بلا جھجک اُسے کہہ دیا کہ اُس نے امویوں کا قتل عام کرکے عہد شکنی کی ہے۔ جب عبداللہ نے پوچھا کہ کیا علویوں کی خلافت شرعی نہیں کیونکہ آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ کے حق میں خلافت کی وصیت فرمائی تھی تو آپؒ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہوتی تو حضرت علیؓ خلافت کے فیصلہ کے لئے حَکَم نہ فرماتے۔ اِس پر اُس نے آپؒ کو اپنے دربار سے باہر نکال دیا لیکن اس بے باک اظہار پر آپؒ کی توقع کے مطابق قتل کا فرمان جاری نہ کیا۔
حضرت امام اوزاعی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے مومن بھائیوں سے ملنا اپنے اہل کی ملاقات اور مال سے بہتر ہے۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ اپنے اہل و عیال کی ذمہ داریوں سے تنگ آکر بھاگنے والا بھاگے ہوئے غلام کی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا روزہ و نماز قبول نہیں کرتا جب تک وہ واپس نہ لَوٹ آئے۔
حضرت امام اوزاعیؒ 157ھ میں بیروت میں وفات پاگئے اور شہر کے دروازہ پر واقع بستی حنتوس میں دفن ہوئے۔ آپؒ کے ذکر خیر پر مشتمل یہ مختصر مضمون مکرم محمد احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍ ستمبر 1998ء میں شائع ہوا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں