حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (سیرت صحابیات نمبر 2011ء) میں حضرت اُمّ ہانیؓ کی مختصر سیرۃ و سوانح مکرمہ زوباریہ احمد صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت اُمّ ہانیؓ کا اصل نام ’فاختہ‘ یا ’ہند‘ تھا۔ آپ حضرت ابوطالبؓ کی بیٹی اور حضرت علیؓ کی حقیقی بہن تھیں ۔ آپؓ کا نکاح ہبیرہ بن مخزم سے ہوا تھا جو قریش کے مشہور شاعر تھے لیکن اسلام کی نعمت سے محروم رہے۔ فتح مکّہ کے وقت نجران کی طرف بھاگ گئے۔ ان کے ہاں چار بیٹے حضرت عمروؓ، حضرت جادہؓ، حضرت ہانیؓ اور حضرت یوسفؓ پیدا ہوئے۔ چاروں نے اسلام کے لئے عظیم خدمات سرانجام دیں ۔
بعض روایات کے مطابق حضرت اُمّ ہانیؓ نے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپؓ فرمایا کرتی تھیں کہ ہم رات کو کعبہ کے پاس رسول اللہ کی تلاوت سُنا کرتے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ آپؓ نے فتح مکّہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ بہرحال آپؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت عقیدت تھی اور توکّل باللہ مثالی تھا۔ آپؓ کے شوہر نے اپنی نظموں میں آپؓ کو متنبّہ کیا تھا کہ اسلام لانے کی صورت میں آپؓ کو کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن آپؓ ثابت قدم رہیں اور اپنے چاروں بچوں کی تنہا پرورش کی ذمہ داری بہت بہادری سے اور بہترین رنگ میں کی۔
فتح مکّہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کے گھر تشریف لے گئے اور شکرانے کے آٹھ نفل اداکئے۔ یہ چاشت کا وقت تھا۔ یہیں آنحضورؐ نے کھانا کھایا۔ یہ کھانا روٹی کے سوکھے ٹکڑے تھے جو پانی میں بھگوکر کھائے اور سالن کی جگہ سرکہ ٹکڑوں پر چھڑک لیا۔آنحضورؐ نے فرمایا: ’’اے اُمّ ہانی! سرکہ بہترین سالن ہے، وہ گھر فقیر نہیں ہوتا جس میں سرکہ ہو‘‘۔
اُس رات بھی آپؓ ہی کے ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمارہے تھے جب معراج کا کشف ہوا۔ حضرت اُمّ ہانیؓ بیان فرماتی ہیں کہ اُس روز عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آپؐ ہمارے گھر سوگئے تھے۔ ہم نے فجر کی نماز ادا کی۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے اُمّ ہانی! مَیں بیت المقدس گیا ، وہاں نماز پڑھی اور پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ ادا کی۔ مَیں نے عرض کیا کہ یہ بات لوگوں کو نہ بتائیں آپؐ کو لوگ جھوٹا کہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مَیں لوگوں کو یہ ضرور بتاؤں گا۔
حضرت اُمّ ہانیؓ کو غزوۂ خیبر میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور آپؓ کا یہ شرف بھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے بالائی جانب پڑاؤ کیا تو آپؓ کے سسرالی رشتہ دار بنومخزوم کے دو آدمی دوڑ کر آپؓ کے ہاں آئے اور اُن کے پیچھے حضرت علیؓ بھی آئے تاکہ اُن کو قتل کرسکیں ۔آپؓ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے کہا کہ مَیں نے اُن کو پناہ دی۔ پھر آپؓ آنحضورؐ کے پاس آئیں ۔ آنحضورؐ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! خوش آمدید، کیسے آنا ہوا؟ آپؓ نے سارا واقعہ عرض کیا تو آنحضورؐ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! جس کو تُو نے اَمان دی اُسے ہم نے اَمان دی، علی ان دونوں کو قتل نہیں کرے گا۔
حضرت اُمّ ہانیؓ سادہ طبیعت کی خوش مزاج خاتون تھیں ۔ مہمان نوازی اور سلیقہ شعاری اپنی والدہ سے پائی تھی۔ فصاحت و بلاغت اپنے والد سے ملی تھی۔ قرآن کریم پر تدبّر کرتی رہتی تھیں ۔ کثرت سے ذکرالٰہی کرتیں ۔ فقہ سے خاص دلچسپی تھی۔ بعض فقہی مسائل اور بعض قرآنی آیات کے مفہوم براہ راست آنحضورؐ سے دریافت کئے ہوئے تھے۔ آپؓ سے 46 احادیث مروی ہیں ۔
حضرت اُمّ ہانیؓ نے لمبی عمر پائی اور چاروں خلفائے راشدین سے فیضیاب ہوئیں ۔ حضرت امیر معاویہؓ کے زمانہ میں 50ہجری میں وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں