حضرت حاجی احمد جی صاحبؓ

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اکتوبر و نومبر 2010ء میں مکرمہ صفیہ بیگم رعنا صاحبہ نے اپنے نانا حضرت حاجی احمد جی صاحبؓ آف داتہ ضلع ہزارہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت حاجی احمد جی صاحبؓ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد ولی ملاں موسیٰ اگرچہ ایک زمیندار تھے لیکن ولی اللہ تھے اور ہر وقت مسجد میں مصروفِ عبادت رہتے۔ ابھی حضرت حاجی صاحبؓ انیس برس کے تھے کہ والد کی وفات ہوگئی۔ آپؓ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ پارسا اور غریب نواز تھے۔ ہر فصل سے بیواؤں اور یتیموں کو حصہ دیتے۔ ہر جمعرات کو سارا دودھ غرباء میں تقسیم کردیتے۔ سنّی العقیدہ تھے۔ آپؓ کو قبروں کی پُوجا اور بدرسومات سے نفرت تھی۔ چنانچہ جب وہابیوں سے ملے تو وہابیت قبول کرلی۔ لیکن تسکین نہ ہوئی تو یہ فرقہ بھی چھوڑ دیا اور دعاؤں میں لگ گئے کہ خدا سیدھی راہ دکھادے۔ اسی اثنا میں حج کا ارادہ کیا۔ لیکن والدہ اجازت نہ دیتی تھیں۔ آخر بڑی منّت سماجت کے بعد والدہ سے اجازت لی۔ سفر کٹھن اور لمبا تھا اس لیے والدہ نے دو ملازم بھی ساتھ روانہ کیے۔
پیدل اور گھوڑے پر لمبا سفر طے کرکے مناسکِ حج ادا کرکے ہندوستان واپس آنے تک دس ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ واپسی کے اس سفر کے دوران پنجاب میں سے گزرتے ہوئے ایک درخت کی چھاؤں میں سستانے لگے تو کشفی حالت طاری ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور قادیان کا نام بھی بتایا گیا اور آواز آئی کہ اتنا سفر کیا ہے اب اس شخص سے بھی ملتے جاؤ۔ آپ ایک دم بیدار ہوگئے اور کسی راہ گیر سے راستہ پوچھ کر قادیان کی طرف چل دیے۔ حضرت اقدسؑ اس وقت چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھتے ہی کہا: سبحان اللہ! یہ وہی مبارک پُرنُور چہرہ ہے جسے مَیں نے کشف میں دیکھا ہے۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کو مصافحے کا شرف بخشا اور فرمایا کہ مَیں نے ابھی ابھی جس کو دیکھا ہے یہ وہی شخص ہے جو میری طرف آ رہا ہے۔ پھر حاجی صاحبؓ نے سب حال خدمت اقدس میں عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ بے شک خدا نیک روحوں کو میری طرف بھیجے گا۔
آپؓ چند ہفتے قادیان میں حضورؑ کی خدمت میں رہے۔ آپؓ کے ایک خادم فقیر محمد صاحب نے چند دن بیمار رہ کر قادیان میں ہی وفات پائی اور وہیں دفن کیے گئے۔
حضرت حاجی احمد جی صاحبؓ نے 1902ء میں بیعت کی اور آپؓ کو حضورؑ نے اپنے 313 اصحاب میں شامل فرمایا۔ جب آپؓ حضورؑ سے اجازت لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے تو وہاں چیدہ چیدہ لوگوں کو سارا حال سنایا اور اپنی احمدیت کی اطلاع دی۔ چنانچہ چند بڑے زمیندار بھی احمدی ہوگئے۔ لیکن آپؓ کی مخالفت بھی شروع ہوگئی۔ لوگ آپؓ کو مسجد میں حالتِ سجدہ میں دیکھتے تو کوڑاکرکٹ پھینک دیتے۔ گاؤں کی مسجد کی تعمیر کا نصف خرچ آپؓ نے اٹھایا تھا جبکہ باقی نصف سارے گاؤں نے مل کر دیا تھا۔ لیکن آپؓ کو اتنا تنگ کیا گیا کہ آپؓ کو اپنے لیے اپنے گھر کے اوپر لکڑی کی ایک مسجد بنوانی پڑی۔ لیکن شرپسندوں نے اس کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی۔ تاہم خدا تعالیٰ کی قدرت تھی کہ مسجد بالکل محفوظ رہی جبکہ ساتھ والا ایک گھر جل کر خاکستر ہوگیا۔الغرض خداتعالیٰ نے آپؓ کے ایمان میں ترقی کے مسلسل سامان کیے۔ تکالیف برداشت کرتے ہوئے آپ مخالفین کی مشکل وقت میں مدد بھی کرتے رہے اور انسانی ہمدردی کو ہمیشہ مقدّم رکھا۔
حضرت حاجی صاحبؓ نہایت خشوع خضوع سے نمازیں اور تہجد ادا کرتے۔ التزام سے روزے بھی رکھتے، ہر سال جلسہ سالانہ پر جاتے اور ہفتہ عشرہ وہاں قیام کرتے، اپنی آمدنی کا حساب رکھتے اور ہر قسم کے چندے ادا کرتے۔ آپؓ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ بہت بارعب، وجیہ اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ اپنی عادات و اطوار کی وجہ سے ہردلعزیز تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔نومبر 1930ء میں بیمار ہوئے اور دنیا سے رخصتی کے کچھ اشارے بھی ملے تو آپؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! سردیوں کی لمبی راتوں میں تہجد پڑھنے کے لطف سے محروم نہ کر۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی دعا قبو ل فرمائی اور شفا عطا فرمائی۔ بعدازاں 31؍اگست 1936ء کو 80 سال کی عمر میں آپؓ نے وفات پائی۔ ضلع ہزارہ سے لوگ جوق در جوق آپؓ کی وفات کا سُن کر آئے۔ احمدیوں اور سنّی احباب نے علیحدہ علیحدہ آپؓ کی نماز جنازہ ادا کی اور پھر آپؓ کی ہی زمین میں آپؓ کو سپردخاک کردیا گیا۔ آپؓ کا احمدیت سے لگاؤ ہی تھا کہ بعدازاں لوگ آپؓ کے داتہ گاؤں کو چھوٹا ربوہ کہتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں