حضرت حکیم عبدالصمد صاحب دہلویؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جنوری 2003ء میں حضرت حکیم عبدالصمد دہلوی صاحبؓ کے حالات زندگی اُن کی بیٹی مکرمہ مبارکہ مسعود صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔

حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ

آپؓ حکیم محمد عبدالغنی صاحب ولد حکیم محمد بلاقی مہتمم شاہی دواخانہ قلعہ دہلی کے ہاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ اہل حدیث مسلک تھا۔ گھر پر ابتدائی تعلیم کے بعد کئی مدارس اور علماء سے استفادہ کیا۔ ایک رات تفسیر جلالین پڑھتے ہوئے اُس آیت پر اٹک گئے جس میں حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کا ذکر ہے۔ اپنے استاد سے پوچھا تو انہوں نے جواب دینے کی بجائے معروف عقیدہ بیان کردیا۔ آپ دوسرے استاد کے پاس گئے تو انہوں نے بھی جھڑک دیا اور کہا کہ ایک تُو ہے اور دوسرا مرزا ہے جس کو اس آیت کا جنون ہے۔ ایک اَور استاد سے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے بارہ میں مزید معلومات ملیں ۔ جب حضورؑ دہلی تشریف لائے تو آپ نے حضورؑ کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ سچے کا چہرہ ہے اور بیعت کرلی۔
بیعت کے بعد مخالفت کا طوفان اٹھا۔ والدین نے بات کرنا چھوڑ دی۔ کھانا مل جاتا تو کھالیتے ورنہ روزہ رکھتے۔ اکثر چنے کی دال بھگوکر کھالی۔ کئی بار آپؓ کو زہر دے کر اور حملہ کرکے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیشہ آپؓ کو بچالیا۔ آپؓ کے مویشیوں کے باڑہ کی گھاس پھونس کی چھت کو آگ لگانے کی بھی متعدد کوششیں ہوئیں لیکن ناکام رہیں اور آگ خود ہی بجھ جاتی رہی۔ کئی بار غیبی آواز کے ذریعہ آپؓ کی راہنمائی کی گئی اور دشمن اپنے منصوبہ میں ناکام ہوگیا۔ آپؓ صاحب رؤیا و کشوف اور دعاگو بزرگ تھے۔ دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے کئی بار آپؓ کو غیب سے کھانا کھلایا۔
آپؓ کی بیٹی نے ایک بار آپؓ سے پوچھا کہ دعا کیسے قبول ہوتی ہے۔ فرمایا: رزق حلال کھاؤ، دل میں خوف خدا ہو، اللہ تعالیٰ پر توکل ہو، پاک صاف رہو اور ہمیشہ سچ بولو۔ آپؓ ایک حاذق حکیم تھے لیکن سودخوروں سے جو فیس لیتے تھے وہ گھر کی بجائے غرباء پر خرچ کرتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد آپؓ لاہور آگئے پھر پنڈی گئے اور وہاں سے کراچی جانے کا ارادہ کیا لیکن کرایہ کی رقم نہ تھی۔ دعا کی تو ایک شخص نے راستہ میں روک کر کچھ رقم پیش کی اور کہا کہ اُس نے کسی زمانہ میں آپؓ سے علاج کروایا تھا۔ گنی تو رقم اتنی ہی تھی جتنا کرایہ تھا۔ ایک شادی کے موقع پر کسی عزیزہ کا سونے کا ہار گم ہوگیا تو آپؓ نے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ بیٹھک میں نواڑ کے پلنگ میں سے ہار نکال لو۔ کسی نے وہاں چھپادیا تھا۔
کراچی میں کچھ دن اپنی بیٹی کے ہاں قیام کیا پھر ایک دوکان خرید لی جس کے ساتھ ایک چھوٹا کمرہ بھی تھا۔ دن کو دوکان مطب بن جاتی اور رات کو گھر کے افراد اُس میں سو جاتے۔ کچھ ہی دنوں میں ایک لاعلاج مریض کو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ذریعہ سے معجزانہ شفا عطا فرمائی تو اُس کے بیٹے نے آپؓ کو ایک مکان تحفۃً پیش کردیا جس کے قریب ہی ایک دوکان کرایہ پر لے کر آپؓ نے مطب قائم کرلیا۔
ایک بار آپؓ کے گھر میں فاقہ تھا۔ بہت پریشانی میں دعا کر رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور 500 روپے دے کر کہا کہ فلاں دوائی بنادیں، ایک ہفتہ بعد آکر لے جاؤں گا۔ آپؓ نے کہا کہ ہم پہلے پیسے نہیں لیتے۔ اُس نے اصرار سے پیسے دیئے اور چلاگیا۔ اُس کے گھر سے نکلنے کے فوراً بعد آپؓ کے بیٹے نے اُسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی اور اُس کا حلیہ بتاکر گلی میں کھڑے ہوئے افراد سے بھی دریافت کیا لیکن کسی نے بھی اُسے نہ دیکھا تھا۔ آپؓ نے بتایا کہ یہ فرشتہ تھا اور یہ غیبی امداد تھی۔
آپؓ کے بیٹے کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اپریشن کے بغیر اولاد نہیں ہوسکتی۔ آخر اُن کی اہلیہ کو اپریشن کے لئے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔ آپؓ کے بیٹے نے جب اپریشن سے کچھ دیر پہلے آپؓ کو دعا کے لئے عرض کیا تو آپؓ ناراض ہوئے کہ ہم دعا کر رہے ہیں، میرے مولا کو اگر اولاد دینی ہے تو اسی سے دے گا۔ چنانچہ وہ اپنی اہلیہ کو ہسپتال سے گھر لے آئے۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد اُن کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو آپؓ نے فرمایا کہ آئندہ لڑکا پیدا ہوگا۔ ایک سال بعد ہی لڑکا پیدا ہوگیا۔ یہ دونوں بچے صاحب اولاد ہیں۔
آپؓ کی وفات ہوگئی تو بھی آپؓ نے خواب کے ذریعہ اپنے بچوں کی بارہا راہنمائی کی اور بشارتیں دیں جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوئیں۔ ایک بار آپؓ کی نواسی کا اپریشن ہوا اور ٹانکوں میں پیپ پڑگئی تو اُس کی والدہ کو آپؓ نے خواب میں آکر ایک نسخہ بتایا کہ پاؤ بھر تیل کو خوب گرم کرو پھر چولہا بند کرکے اس میں دو کھانے کے چمچ رتن جوت ڈال دو، پھر چھان کر بوتل میں رکھ لو۔ اس تیل سے پیپ ختم ہوگیا اور تجربہ نے بتایا کہ کیسا ہی زخم ہو وہ ٹھیک ہوجاتا ہے۔
آپؓ تہجد کے لئے کافی پہلے اٹھتے لیکن اپنے بچوں کو فجر سے کچھ دیر پہلے اٹھادیتے کہ وہ بھی دو چار نفل پڑھ لیں۔ باجماعت فجر کی نماز پڑھاتے اور پھر قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور بچوں سے حدیث اور ملفوظات کی کتب پڑھواکر سنتے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور بہت سے سعید طبع لوگوں نے آپؓ کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ آپؓ کے والد نے بھی 98 سال کی عمر میں قادیان جاکر بیعت کی سعادت حاصل کی۔
آپؓ موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہؓ میں مدفون ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں