حضرت حکیم مولوی قطب الدین بدوملہویؓ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ستمبر 1999ء میں حضرت حکیم مولوی قطب الدین صاحب بدوملہویؓ کا تفصیلی ذکر خیر مکرم احمد طاہر مرزا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
بدوملہی ضلع نارووال (سابق ضلع سیالکوٹ) کے علاقہ میں سب سے پہلے حضرت حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ نے وسط 1891ء میں بیعت کی اور 1892ء میں آپؓ بمعہ اہل خانہ ہجرت کرکے قادیان تشریف لے گئے۔ آپؓ کے والد مولوی غلام حسین صاحب سکنہ چدھڑ ضلع گوجرانوالہ ، عربی و فارسی کے زبردست عالم تھے۔ انہوں نے عربی و فارسی میں کئی کتب تفسیر وغیرہ قلمی لکھی تھیں۔ وہ ایک عالم باعمل تھے اور اُن کا شغل ایک حجرہ میں بیٹھ کر دینی کتب کے مطالعہ میں مصروف رہنا تھا۔ ہزاروں افراد اُن کے مرید تھے۔ حضرت حکیم صاحبؓ نے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ اپنے والد صاحب سے پڑھا اور کچھ فارسی کتب پڑھنے کے بعد گجرات، جہلم اور لکھوکھی سے صرف و نحو، عربی اور منطق کی تعلیم حاصل کی۔ پھر لدھیانہ جاکر مزید علم حاصل کیا۔ انہی دنوں سر سید احمد خان لدھیانہ آئے تو لوگوںنے اُن کا بہت استقبال کیا اور کئی سو روپیہ اکٹھاکرکے اُنہیں دیا۔ اس کے بعد میر عباس علی صاحب لدھیانوی نے حضرت مسیح موعود کو لدھیانہ آنے کی دعوت دی تو حضور نے جواباً فرمایا: ’’مَیں نے ایک رؤیا دیکھا ہے کہ مَیں ایک شہر میں گیا ہوں تاکہ وہاں کے لوگوں کی اصلاح کروں تو انہوں نے مجھ میں ایک ایسی بات دیکھی جو اُن کو ناگوار گزری اور انہوں نے میری مخالفت کی اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ شہر ہو…‘‘۔ اس پر میر صاحب نے لکھا کہ ہو سکتا ہے وہ کوئی اَور شہر ہو۔ چنانچہ حضور نے آنے کی تاریخ مقرر فرمادی۔
حضرت حکیم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب ہمیں پہلے ہی بتا چکے تھے کہ حضور اس زمانہ کے مجدد ہیں۔ وہ اپنی خط و کتابت بھی ہمیں دکھاتے رہے۔ مقرر ہ تاریخ پر مَیں بھی اپنے استاد صاحب کے ہمراہ اسٹیشن پر گیا۔ تقریباً پچاس آدمی استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی میری آنکھیں پُرنم ہوگئیں اور میری طبیعت نے پلٹا کھایا۔ حضور گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر محلہ نواں پنڈ تشریف لے گئے جہاں حضور کا قیام تھا۔ حضور کی آمد کی خبر سن کر لوگ جوق در جوق آنے لگے اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اُس وقت ابھی بیعت کا سلسلہ شروع نہ ہوا تھا۔
پھر مَیں مزید تحصیل علم کے لئے امرتسر چلا گیا جہاں سے ہر جمعہ کے روز قادیان چلا جاتا۔ حضور کے لئے سیب یا انار یا کچھ مصری بطور ہدیہ لے جاتا جسے حضور نہایت خوشی سے قبول فرماتے۔ میری طب پڑھنے کی خواہش پر حضور نے مجھے حکیم محمد شریف صاحب آف امرتسر صاحب کے پاس اپنی سفارش کے ساتھ بھیجا چنانچہ اگرچہ حکیم صاحب نے پڑھانا چھوڑ دیا تھا لیکن کہنے لگے کہ آپ میرے ایک ایسے دوست کی سفارش لائے ہیں جسے مَیں ردّ نہیں کر سکتا۔ کچھ عرصہ بعد حکیم صاحب نے مجھے لاہور طبیہ کالج بھجوادیا۔
طب کی تعلیم سے فارغ ہوکر مَیں نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر گزشتہ اولیاء کے مقدس مقامات دیکھنے کی اجازت لی اور میرٹھ، دہلی، جے پور، اجمیر، جودھپور ، سکندر آباد اور کئی مقامات سے ہوتا ہوا اور تبلیغ کرتا ہوا تقریباً ایک سال بعد واپس آیا اور حضور کو سارے حالات سنائے۔
بیعت کے آغاز کے بعد گو مَیں بدستور معتقد رہا اور مخالفانہ باتوں کا مجھ پر اثر نہ ہوا لیکن بیعت سے رکا رہا کہ اتنا بڑا دعویٰ بھی ہو اور پھر اپنے اندر وہ بات نہ پاؤں جو اہل اللہ کی صحبت میں سنی جاتی ہے تو پھر مجھے کیا فائدہ!۔ پھر حضور کے ارشاد پر ایک عرصہ حضور کے پاس قیام کیا اور جب بیعت کی درخواست کی تو آپ نے پوچھا کہ کیا آپ کا اطمینان ہوگیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور کی صداقت کے متعلق تو مجھے کبھی بھی شک نہیں ہوا، ہاں ایک خلش تھی سو وہ بھی بڑی حد تک خدا نے دور فرمادی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ بیعت کے بعد انسان کو پختہ ہوجانا چاہئے کیونکہ بیعت سے پھرنے والے پر گرفت ہوتی ہے۔ اس فرمان سے میرے اندر استقلال پیدا ہوگیا اور پھر کبھی تردد پیدا نہ ہوا۔ 1892ء کے سالانہ جلسہ پر حضور نے 313؍اصحاب کی فہرست میں میرا نام بھی شامل فرمایا۔
آپؓ کا نام مذکورہ فہرست میں 27؍ نمبر پر ہے جبکہ ’’انجام آتھم‘‘ میں چھٹے اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں 26؍ویں نمبر پر درج ہے۔ آپؓ کی تبلیغ سے آپ کے بھائی نے بیعت کرلی لیکن والد صاحب نے نہ کی۔ اگرچہ انہوں نے مخالفت نہیں کی بلکہ ایک دفعہ حضور کی خدمت میں عربی میں ایک خط لکھا جسے سن کر حضور نے فرمایا اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِِیْہِ۔
ہجرت کرکے قادیان چلے آنے کے بعد آپؓ نے کچھ عرصہ حضور کے مکان کے ایک کمرہ میں قیام کیا اور طب شروع کردی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے شرف تلمذ بھی حاصل ہوا اور اُن کے معاون کے طور پر اُن کے مطب میں بھی کام کیا۔ اگر کوئی مہمان بیمار ہو جاتا تو آپؓ اس کی خدمت اور تیمارداری کرتے۔ مدرسہ احمدیہ میں عربی کی تعلیم بھی دیتے رہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کی بیماری میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ حضور کے ارشاد پر آپؓ چھ ماہ بغرض تبلیغ لاہور میں مقیم رہے۔ نیز حضور کے ارشاد پر دیگر کئی شہروں میں بھی متعدد دفعہ بغرض تبلیغ بھجوائے گئے۔ ایک بار حضور نے کچھ احمدیوں کو تحقیق کی غرض سے نصیبین جاکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب سے بچنے کے آثار معلوم کرنے کی تحریک فرمائی تو آپؓ نے بھی اس تحریک پر لبیک کہا۔ حضور نے نام پیش کرنے والے تین احباب کو پچاس پچاس روپے تیاری کے لئے عطا فرمائے مگر پھر کسی وجہ سے یہ تجویز رہ گئی۔ آپؓ کو چونکہ مطالعہ کا بھی شوق تھا اس لئے کئی حوالے مختلف کتب سے نکال کر حضور کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے جس پر حضور بہت خوشی کا اظہار بھی فرماتے۔
اکتوبر 1947ء میں حضرت حکیم صاحبؓ قادیان سے ہجرت کرکے راولپنڈی آکر آباد ہوگئے اور 20؍اکتوبر 1948ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں