حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اگست 2008ء میں مکرم ضیاء الدین ضیاء صاحب نے اپنے مضمون میں کشمیر کے پہلے مربی سلسلہ حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحبؓ 1885ء میں ایک معزز زمیندار گھرانے میں محترم چوہدری عبدالکریم صاحب کے ہاں کھیراں والی نزد کپورتھلہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کپورتھلہ میں ہی حاصل کی۔ آپ 8 سال کے تھے تو والدمحترم کا انتقال ہوگیا اور کچھ عرصہ بعد والدہ بھی وفات پاگئیں۔
ایک جمعہ کے روز آپ اپنے استاد کے ہمراہ کپورتھلہ تشریف لے گئے تو ایک مسجد میں خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر احمدی وہاں سے اٹھ کر ایک دوسری جگہ جمعہ کی نماز کے لئے چلے گئے۔ یہ دیکھ کر آپ بھی اپنے استاد کے ساتھ اٹھ کر بگھی خانہ تشریف لے گئے اور نماز جمعہ ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر جماعت کا لٹریچر لے کر گاؤں تشریف لائے۔ لٹریچر پڑھ کر قبول احمدیت کا ارادہ کیا اور تحریری بیعت بذریعہ خط 1902ء میں اور قادیان آکر دستی بیعت 1903ء میں کی۔ بیعت کے بعد آپ واپس گاؤں پہنچے تو طاعون کا اتنا زور تھا کہ روزانہ 25,20 لوگوں کو دفنانے جاتے۔ چند دنوں میں گاؤں خالی ہوگیا۔ آپ کے عزیز بھی لقمۂ اجل بن گئے۔ صرف ایک بڑی بہن زندہ رہیں جنہیں خلافت ثانیہ میں احمدی ہونے کی توفیق ملی۔ پھر آپؓ لاہور اپنے ایک چچا کے پاس آگئے جو میڈیکل پریکٹس کرتے تھے۔ آپؓ نے یہاں مولوی فاضل کرکے ایک طبیہ کالج سے ممتازالاطباء کی سند بھی حاصل کی اور پھر محکمہ پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ہوئی تو انگریز افسر کے رخصت نہ دینے پر آپ نے اُسی وقت استعفیٰ دیدیا اور حضورؑ کے جنازہ میں شامل ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے قادیان میں ہی حضورؓ کے پاس رہ کر قرآن کریم اور دینی تعلیم کے علاوہ طب بھی پڑھی۔
1908ء میں آپ نے ایک کشفی نظارہ بھی دیکھا کہ بہت سے لوگ مسجد قادیان میں جمع ہیں۔ ایک جنازہ صحن میں پڑا ہوا ہے اور لوگوں نے خلیفۃ المسیح کا انتخاب کرنا ہے۔ مگر چند لوگ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے ان میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب بھی ہیں۔ ایک فرشتہ سفید لباس میں ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے اور ان کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے: افسوس ان لوگوں پر کہ انہوں نے تکبر کیا ہے، تکبر کیا ہے، تکبر کیا ہے۔ چنانچہ اس واضح اور قبل از وقت خواب کی بنا پر آپؓ نے خلافت ثانیہ کی برضا و رغبت بیعت کی اور جلد ہی اپنی زندگی وقف کردی۔ آپ کی پہلی تعیناتی بطور مربی سلسلہ لائل پور (فیصل آباد) میں ہوئی۔ پھر دھرم کوٹ بگہ اور زیرہ میں تعینات رہے اور کچھ عرصہ قادیان میں رہنے کے بعد 23؍اپریل 1917ء کو اکھنور کشمیر بھجوائے گئے۔
جون 1917ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کا نکاح محترمہ مریم بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھایا۔ جنہوں نے ریاست کشمیر کے محکمہ تعلیم میں سروس کرلی اور کشمیر کے مختلف شہروں میں گرلز پرائمری سکولوں کا آغاز کیا۔ قرآن مجید ودینی تعلیم بھی بچیوں میں جاری کی اور حضورؓ کی ہدایت پر کشمیری خواتین میں شلوار، قمیص اور دوپٹہ کے استعمال کو رائج کیا۔
حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحبؓ نے وادیٔ کشمیر میں چودہ سالہ قیام کے دوران علمی کام بھی سرانجام دیا اور دو کتب شائع کیں۔ پھر آپ جموں شہر میں تشریف لے آئے۔ تحریک آزادی کشمیر کے دوران آپؓ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو آپ قادیان چلے آئے اور وہاں رہائش اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ بعد حکومت نے آپ کی اہلیہ کو ملازمت سے معطل کردیا تو وہ بھی بچوں کے ہمراہ قادیان آگئیں۔
کشمیر میں حضرت مولوی صاحبؓ کے ہاتھ پر کئی معجزات ظاہر ہوئے۔ مکرم خواجہ عبدالحمید ٹاک صاحب صوبائی امیر کشمیر کہتے ہیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو میری گردن اکڑی ہوئی تھی اور میں کچھ کھا پی نہیں سکتا تھا۔ میری والدہ حضرت مولوی صاحب کے پاس گئیں۔ انہوں نے تسلی دی اور دعا کا وعدہ فرمایا۔ پھر چشمہ سے پانی منگواکر دعا کرکے دم کیا اور فرمایا کہ صرف یہ پانی پلانا اور کچھ نہ دینا۔ جب پانی ختم ہونے کو آئے تو اس میں چشمہ سے پانی منگوا کر اور ڈال دینا وہی دیتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل شفا ہوگئی۔
ایک بار ایک مخالف نے جلسہ میں احمدیوں کو مقابلہ کے لئے للکارا تو آپؓ نے کھڑے ہوکر اُس کا چیلنج قبول کرلیا۔ مخالف نے اگلے روز کا دن مقرر کیا لیکن اگلے روز وقت سے پہلے ہی وہ گاؤں چھوڑ گیا۔
اسی طرح ایک شخص جو حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں بہت گستاخی کیا کرتا تھا بلکہ آپؓ کے سمجھانے پر گستاخی میں بڑھتا چلا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا کیا ہوا کہ جب وہ کھانا کھانے لگتا تو اس کے کھانے میں ریت آجاتی۔ اُس کے بیوی بچے کہتے کہ ہمارے کھانے میں تو کوئی ریت وغیرہ نہیں آتی۔ آخر جب وہ بھوکا مرنے لگا تو اس کی بیوی نے اُس سے کہا جاؤ جاکے مولوی صاحب سے معافی مانگو۔ اُس نے ایسا ہی کیا تو آپؓ نے اُسے معاف فرمادیا اور استغفار کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ آئندہ اگر حضورعلیہ السلام کی شان میں گستاخی نہیں کروگے تو کھانے میں ریت نہیں آئے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
کشمیر کے قیام کے دوران آپ کے ہاں تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے ایک بیٹا چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ کی تنخواہ سے چونکہ گھر کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ اس لئے آپؓ کی یہ درخواست حضورؓ نے منظور فرمالی کہ آپؓ اعزازی مربی کے طور پر بلامعاوضہ خدمت کریں۔ جب آپ قادیان تشریف لائے تو وہاں آپؓ نے اپنا مطب کھول لیا۔ آپؓ کو قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کا عشق تھا چنانچہ بے شمار بچوں کو قرآن پڑھایا۔
جب حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ لندن سے واپس قادیان تشریف لائے تو اگلے روز آپؓ بچوں کو کہنے لگے کہ آئندہ خلیفہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ہوں گے اس لئے ان کی بہت عزت اور احترام کیا کرو۔ اور یہ بھی کہا کہ عبدالرحمن مصری میں مجھے تکبر اور منافقت کی بو آتی ہے، یہ شخص کینہ پرور ہے۔ یہ دونوں باتیں پوری ہوگئیں۔
آپؓ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ رات گئے تک لیمپ کی روشنی میں مطالعہ کرتے۔ ذاتی لائبریری بھی بنارکھی تھی۔ تمام مالی تحریکات میں حسب توفیق حصہ لیتے۔ بہت ہی سادہ طبیعت اور صابر اور قناعت پسند تھے۔ گھر میں گائے اور بکری وغیرہ بھی پالتے۔ میری والدہ اکثر تازہ مکھن دے کر مجھے حضرت اماں جانؓ کے ہاں بھجوایا کرتی تھیں۔ ایک روز جب میں مکھن لے کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ حضورؓ کے ہاتھ میں ایک پلیٹ میں سالن اور دوسرے ہاتھ میں روٹی تھی۔ حضرت اماں جانؓ کے کہنے پر حضورؓ نے تبرکاً لقمہ بناکر کچھ خود کھاکر باقی مجھے کھلایا۔
پاکستان بنا تو حضرت مولوی صاحبؓ کو سیالکوٹ کے کسی گاؤں میں زمین اور ایک آٹا پیسنے کی چکی الاٹ ہوئی۔ لیکن آپ کو گاؤں پسند نہ آیا اور آپؓ لاہور تشریف لے آئے جہاں بیگم کوٹ میں زمین اور مکان الاٹ ہوگئے۔ آپؓ نے یہاں جماعت قائم کی اور دو مراکز نماز قائم کئے۔ اور ربوہ منتقل ہونے تک اِس جماعت کے صدر بھی رہے۔
1953ء کے فسادات کے دوران قریبی احمدی آپؓ کی بڑی حویلی میں اکٹھے ہوگئے۔ مردوں اور عورتوں کو علیحدہ حصوں میں ٹھہرایا گیا اور درمیان میں چھ کنال کے پلاٹ میں چارپائی ڈال کر آپؓ بیٹھ گئے اور قرآن کریم پڑھنے لگے۔ جب مخالفین اکٹھے ہوکر حملہ کرنے آئے اور تین افراد تو قریباً اندر داخل ہو بھی گئے تو آپؓ نے اُن کو للکارا کہ مَیں مسیح موعود کا شیر ہوں، اگر ہمت ہے تو آگے بڑھو۔
اسی وقت اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی آگئی۔ ایک فوجی جیپ میں ایک کیپٹن اور چند فوجی اتفاقاً وہاں پہنچے جنہیں دیکھ کر مخالفین بھاگ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے آپؓ سے پوچھا کہ یہ لوگ یہاں کیا کررہے تھے۔ آپؓ بتایا کہ مجھ پر احمدی ہونے کی وجہ سے حملہ کرنا چاہ رہے تھے۔ اس پر انہوں نے آپؓ کے باغ میں اپنا کیمپ لگانے کی اجازت چاہی جو آپؓ نے خوشی سے دیدی۔ پھر اُن کے پوچھنے پر آپؓ نے قریبی علاقوں کے احمدیوں کے حالات جاننے کی خواہش کا اظہار کیا تو کیپٹن صاحب نے اگلے روز چند سپاہی آپؓ کے ساتھ کردیئے۔ چنانچہ آپؓ ہر دوسرے روز شیخوپورہ جاکر امیر ضلع محترم چوہدری انور حسین صاحب سے ملتے اور دوسرے احمدیوں کی خیریت معلوم کرتے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے غیروں کے ذریعے یہ انتظام بھی کردیا کہ شہر میں کرفیو کے باوجود آٹا، چینی، سبزی وغیرہ باقاعدہ پہنچتی رہی۔
ہنگاموں کے تین ماہ بعد ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ بابا جی میں بھی اس جتھے میں شامل تھا جو آپ پر حملہ کرنے کے لئے آیا تھا، ہم فوجیوں کو دیکھ کر بھاگے لیکن مَیں پکڑا گیا اور تین ماہ جیل میں گزار کر اب آپ سے معافی مانگنے حاضر ہوا ہوں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کو کھانا بھی کھلایا اور سفر خرچ بھی دیا۔ یہ احسان دیکھ کر وہ شخص رو پڑا اور پاؤں چومنے لگا۔ آپ نے اسے اٹھایا اور محبت سے اس کو الوداع کیا اور بس سٹاپ پر چھوڑنے آئے۔
1965ء کی جنگ کے دوران بھی بہت سے غیراحمدی بھی آپؓ کے ہاں پناہ گزین ہوگئے جن کی خوراک کا انتظام بھی آپؓ نے کیا۔ غیراحمدی آپؓ کے پاس اپنی امانتیں بھی رکھواتے تھے۔
1966ء میں آپؓ ربوہ تشریف لے آئے۔ ایک روز آپؓ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ فرمانے لگے کہ رات سے فرشتہ آرہا ہے اب میرا وقت آخری ہے میں دس بجے تک آپ لوگوں میں ہوں۔ میں نے آپ کی اس بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ قریباً گیارہ بجے آپؓ کے نواسے نے آکر آپؓ کی وفات کی اطلاع دی۔ یہ 7 جنوری 1968ء کا دن تھا۔ اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جنازہ پڑھایا۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں