حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کی حسین یادیں

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی وجون 2021ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

یوں تو مجھے سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زیارت کا شرف پہلی مرتبہ قادیان میں 1945ء میں حاصل ہواتھاجب میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں داخل ہوا تھا لیکن مضبوط، پُرمحبت و پُرشفقت تعلق کی ابتدا 1949ء میں اس وقت ہوئی جب میں تعلیم الاسلام کالج لاہور میں فرسٹ ائیر میں داخل ہوا۔ حضورؒ ان دنوں کالج کے پرنسپل تھے اور یہ تعلیم الاسلام کالج کے عروج کا دَور تھا۔ حضورؒکے حسن انتظام سے تعلیم الاسلام کالج لاہور نے دیگر تمام کالجوں کو ہرمیدان میں مات کر دیا تھا۔

1965ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا وصال ہوا تو میں مسجد فضل لندن کا امام اور برطانیہ کا مشنری انچارج تھا۔مرکز سلسلہ سے ہزاروں میل دور ہم سب احمدیان برطانیہ مرکز کی طرف سے کسی خبر کی طرف کان لگائے بیٹھے تھے اور اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ مسند خلافت ثالثہ پر کون متمکن ہوتا ہے! اس کیفیت میں جب جماعت کے اکثر احباب مشن ہاؤس لندن میں جمع تھے، ہمارے انگریز مخلص احمدی بھائی جناب بلال نٹل مرحوم میرے دفتر میں میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ اگلا خلیفہ کو ن ہوگا لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہ کون ہوں گے؟میں حیرا ن ہو گیا کہ ان کو قبل از وقت کیسے معلوم ہوگیا کہ کون مسند خلافت پر رونق افروز ہونے والے ہیں؟ میں نے انہیں کہا کہ ابھی تو انتخاب کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔اس پر انہوں نے جیب سے ایک تصویر نکال کر میرے ہاتھ میں دی اور شدّت جذبات سے گلوگیر آواز میں کہا یہ حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحبؒ کی تصویر ہے جو انہوں نے مسجد فضل لندن کے باغ میں کھنچوائی تھی اور مجھے ازراہ شفقت دی تھی۔میں ان دنوں سے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو جانتا ہوں جب وہ آکسفورڈ کے طالب علم تھے اور ان کے بے حد قریب رہا ہوں۔ تقوی اللہ، حسن اخلاق اور عشق محمد رسول اللہﷺکی جوجھلک میں نے ان میں دیکھی ہے وہ مجھے اس یقین محکم پر قائم کرتی ہے کہ اس منصب جلیلہ کے اس وقت وہی اہل ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جماعت اس امانت کو ان ہی کے سپرد کرے گی۔

محترم بلال نٹل صاحب مرحوم کی موجودگی ہی میں مرکز سے بذریعہ تار یہ اطلاع ملی کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلافت ثالثہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں اور اس طرح ایک انگریز نَواحمدی کی دُور رس نگاہ نے اس گوہر بے بہا کو شناخت کرنے کی توفیق پائی جس سے اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں عظیم کام لینے تھے اور حضورؒ کی پارسائی ، خدا ترسی ، تقویٰ اور عشق محمد رسول اللہ ﷺپر ان کو یعنی مکرم بلال نٹل صاحب کو گواہ ٹھہرانے کا شرف عطا فرمایا۔
ڈیون شائر (انگلستان ) کے علاقے میں ایک انگریز خاندان ایسا ہے جس کے ساتھ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گہرے تعلقات چلے آتے ہیں۔ اس خاندا ن کی کافی بڑی زرعی جائیداد اور اپنا ایک خوبصورت فارم بھی ہے۔حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ جب آکسفورڈ میں طالب علم تھے تو موسمی تعطیلات میں مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی معیت میں اس فارم پر تشریف لے جایا کرتے تھے اور خاندان کے ساتھ خوب گھل مل کر ایام رخصت گزارا کرتے تھے۔ حضرت چوہدری صاحبؓ کی معیت میں خاکسار کو دو تین مرتبہ اس فارم پر رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس دوران زیادہ تر پرانی باتیں دہرائی گئیں۔ صاحبزادگان، جو وقتاً فوقتاً اس فارم پر تشریف لاتے رہے ان، کا تذکرہ ہوتا رہا۔

کسرصلیب کانفرنس کے موقع پر

اس خاندان کی ایک بڑی بوڑھی خاتون سے میں نے دریافت کیاکہ مجھے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے بارہ میں کچھ بتائیں کہ ان کا شغل فارم پر کیا ہوا کرتا تھا۔ بڑی بوڑھی کہنے لگیں کہ وہ سامنے کمرہ ہے جس میں ہمیشہ میرزا ناصر احمد ٹھہرا کرتے تھے۔ صبح صبح جب میں ان کے کمرے کے سامنے سے گزرتی تھی تو عجیب سی بھنبھناہٹ کی مسحور کن آواز میرے کانوں میں آیا کرتی تھی جو اکثر میں وہاں کھڑی ہو کر سنا بھی کرتی تھی۔ ایک دن جب میں نے مرزا ناصر احمدؒ سے پوچھا کہ تم صبح سویرے کیا پڑھتے رہتے ہو جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تو ناصر احمد نے بتایا کہ وہ اپنی مقدّس کتاب قرآن کریم کی تلاوت بآواز بلند کرتے ہیں۔
اس خاتون نے یہ بھی فرمایا کہ ایک شام کھانے پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ اور دوسرے صاحبزادگان موجود تھے۔ یہ ذکر چل پڑا کہ مستقبل میں ان کے کیا ارادے ہیں۔ ہر ایک نے بتایا کہ وہ مستقبل میں کیا بننا چاہتا ہے اور کس پیشے کو اختیار کرنا چاہتا ہے۔ جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ؒکی باری آئی تو آپؒ نے کہا کہ میں نے دین کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس کے علاوہ مجھے اور کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ ہی مجھے دنیا کی طرف کوئی رغبت ہے۔ انگریزوں کو اور بالخصوص عیسائیوں کو دین سے تو چونکہ کوئی رغبت یا سروکار نہیں ہوتا اور دنیا داری کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے یہ خاتون کہنے لگیں کہ اس وقت میری زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: What a waste of time? ۔ لیکن اب جب میں دیکھتی ہوں کہ وہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں تو مجھے اپنے کہے پر ندامت ہوتی ہے کہ کتنا غلط فقرہ میرے منہ سے نکل گیا تھا۔ حقیقی اور بامراد زندگی تو انہیں ہی ملی ہے۔
اس خاتون نے یہ بھی بتایا کہ حضورؒ اپنی جوانی میں بہت با حیا اور شرمیلی طبیعت کے مالک تھے۔ بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپؒ رخصتوں پر ہمارے فارم تشریف لاتے تو اردگرد کے بچے آپؒ کو ملنے کے لیے جوق در جوق آیا کرتے تھے۔ آپؒ جیب میں ان کے لیے چاکلیٹ وغیرہ رکھا کرتے تھے اور بچوں میں تقسیم کرنے میں بے حدخوشی محسوس کیا کرتے تھے۔ کھانے میں سختی سے یہ پابندی کرتے تھے کہ گوشت حلال ہو اور چونکہ حلال گوشت میسر نہ ہوتا تھا اس لئے خود مرغی اپنے ہاتھ سے ذبح کر کے کھایا کرتے تھے۔اس خاتون نے مجھے ایک تصویر بھی دکھائی جس میں حضورؒ خود مرغی ذبح کر رہے تھے۔
مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد میں نے پہلی مرتبہ حضورؒ کو کوپن ہیگن میں دیکھا۔آپؒ1967ء میں کوپن ہیگن کی احمدیہ مسجد کے افتتاح کے لیے تشریف لائے تھے۔ میں کوپن ہیگن میں حاضر ہوا۔ جب میری نظر آپؒ کے منور و تاباں چہرے پر پڑی تو دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت گلے سے لگالیا۔ دیر تک ملاقات کا شرف عطا فرمایا اور انتہائی پیار کا سلوک فرمایا۔

چند دن بعد حضورؒ انگلستان تشریف لے آئے۔احباب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ لندن ائیر پورٹ پر استقبال کا انتظام کیا گیا تھا۔ایک مختصر سا اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں مائیکرو فون کا بھی انتظام تھا۔حضورؒ اپنے خدام کے ساتھ تشریف لائے۔ نعرہ ہائے تکبیر سے لندن ائیر پورٹ کی عمارت گونج اٹھی۔ مَیں نے عرض کیا کہ جماعت سے خطاب فرمائیں تو فرمانے لگے مجھے تو اپنے خدام سے ملنے کا شوق ہے تقریریں تو بعد میں ہوتی رہیں گی، میں سب سے مصافحہ کروں گا۔ سب احمدیوں کو شرف مصافحہ اور کچھ کوشرف معانقہ بخشنے کے بعد حضور مشن ہاؤس تشریف لائے۔
حضورؒ مشن ہاؤس میں مقیم ہوئے۔ میں ساتھ والی بلڈنگ 61میلروز روڈ میں منتقل ہو گیا۔ اس بلڈنگ کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہ تھی۔ تازہ صفائی اور پینٹ کروانے کی و جہ سے بو اور گرد و غبار بھی تھا۔میں سار ا دن حضورؒ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اور رات گئے اپنے فلیٹ پر واپس آتا۔ ایک شام جب میں گھر گیا تو اپنی بڑی بچی امۃالجمیل کو موجود نہ پایا۔ میری بیوی نے بتایا کہ اسے دوپہر کو بوجہ پینٹ کی تیز بُو اور گردو غبار کے دمہ کا شدید حملہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے فوری ہسپتال میں منتقل کروا دیا ہے۔ میں دوڑا دوڑا ہسپتال پہنچا۔ رات کا وقت تھا۔ امۃالجمیل آکسیجن کے ٹینٹ میں نحیف و نزار لیٹی ہوئی تھی اور بڑی مشکل سے سانسیں لے رہی تھی۔ میں گھبرا گیا اور ڈاکٹر سے ،جو آن ڈیوٹی تھا، امۃالجمیل کی صحت کے بارہ میں دریافت کیا۔ اس نے کہا بچی کی حالت نازک ہے اور بچنے کی امید کم ہے لیکن ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔ میں واپس مشن ہائوس پہنچا۔ حضورؒ عشاء کی نماز پڑھا کر جا چکے تھے۔ میں نے حاضر ہو کر جمیلہ کی بیماری کا ذکر کر کے دعا کی درخواست کی۔یہ درخواست کرتے وقت شدّت جذبات سے میری آنکھیں بہنے لگی۔ حضورؒ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی دعاکرتا ہوں اور آپ بھی دعا کریں۔ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ جمیلہ کو شفا دے گا۔ میں بوجھل دل کے ساتھ گھر لَوٹا اور دعاؤں میں لگ گیا۔ رات آنکھوں میں کٹی اور فجر کی نماز کے لیے جب مسجد پہنچا تو حضور ؒنے فرمایا ہم نے رات کو جمیلہ کے لیے بہت دعائیں کیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت منصورہ بیگم صاحبہؒ نے یاد فرمایا۔ میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ کل رات حضورؒ کو بہت بے چینی رہی اور وہ جمیلہ کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ پھر فرمایا کہ فوراً ہسپتال جاؤ اور امۃالجمیل کا حال دریافت کرکے مجھے اطلاع دو۔میں ہسپتال گیا تو قبولیت دعا کا ایک زبردست نشان دیکھا۔ امۃالجمیل آکسیجن کے ٹینٹ کے باہر ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور چہرہ پُرسکون تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ تمہارے چلے جانے کے بعد غیرمعمولی طور پر بچی کی طبیعت سنبھلنی شروع ہوئی اور صبح تک معجزانہ طور پر اس کی حالت خطرے سے باہر ہو گئی۔ چند دنوں بعد امۃالجمیل گھر آ گئی۔ یہ حضورؒ کی دعاؤں کی قبولیت کا زبردست نشان تھاکہ راتوں رات امۃالجمیل کی کایا پلٹ گئی اور وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے حیات کی نعمت سے سرفراز ہوئی۔
حضور ؒکے اس دورہ میں قدم قدم پر قبولیت دعا کے نشانات جماعت احمدیہ یوکے نے دیکھے۔ سکاٹ لینڈ میں ایک مخلص احمدی محمد ایوب رہا کرتے تھے۔ یہ وہاں کی جماعت کے صدر بھی تھے۔ حضور ؒنے باتوں باتوں میں ان سے دریافت کیا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور ! تین لڑکیاں ہیں۔ اس پر حضورؒ نے مسکرا کر فرمایا:It is time you had a son ۔ ایوب صاحب نے مایوسی کے انداز میں جواب دیا کہ حضور! اب مجھے یہ امید نہیں ہے کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ حضورؒ نے بڑے جوش سے فرمایاکہ مایوسی گناہ ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جانا مومن کا شیوہ نہیں ہے۔میں دعاکروں گا اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کے نتیجے میں ضرورتمہیں لڑکا عطا فرمائے گا۔ کچھ عرصے کے بعد ایوب صاحب نے حضورؒ کو خط لکھاکہ ان کی بیوی کو حمل ٹھہر گیاہے۔حضور ؒدعا کریں کہ اولاد نرینہ عطا ہو۔حضور ؒنے جواباً تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لڑکا عطا فرمائے گا۔ اس کا نام ابراہیم رکھنا۔ یہ اطلاع حضور ؒنے بچے کی پیدائش سے پانچ چھ ماہ قبل ایوب صاحب کو دی۔ ایوب صاحب نے حضورؒ کا خط مجھے دکھایا۔ میں نے انہیں مبارک باد دی۔ کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ابراہیم کی ولادت ہوئی اور دعا کی قبولیت کا ایک زبردست نشان ہم سب نے دیکھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کھانا بہت کم کھاتے تھے۔ پُرخوری کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ اکثر بیماریاں پُرخوری سے جنم لیتی ہیں۔
مجھے یہ بھی سعادت ملی کہ حضور پر نور ؒکے سات دورہ ہائے یورپ اور دورۂ امریکہ میں حضورؒ کے قافلہ کا ممبر رہا۔ امریکہ کے دورہ میں حضورؒ کا پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہا۔یورپ کے تمام دوروں میں حضورؒ کی کار چلانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہوا۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
مجھے گیارہ بجے صبح کافی پینے کی عادت ہے اور عین گیارہ بجے طبیعت کافی پینے کے لیے بے تاب ہو جاتی ہے۔ میری اس عادت کا حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ کو بھی علم تھا۔1967ء میں جب حضور ؒ دورۂ یورپ پر تشریف لائے تو پروگرام میں سکاٹ لینڈ کا سفر بھی شامل تھا۔ مجھے حضور ؒکی کار کو ڈرائیو کرنا تھا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ بھی اس سفر میں ہمراہ تھے۔لندن سے چلتے وقت چوہدری صاحب نے ازراہ تفنّن فرمایا کہ اب کیا کروگے! حضورؒ تو گیارہ بجے کافی کے لیے نہیں ٹھہریں گے۔ میں نے عرض کیا چوہدری صاحب! خدا شکر خورے کو شکر دیا کر تا ہے۔ چوہدری صاحب ہنس پڑے۔ سکاٹ لینڈکے لیے ہم لندن سے صبح روانہ ہوگئے۔ گیارہ بجنے سے پندرہ منٹ قبل مَیں نے موٹر وے پر Services کا بورڈ دیکھا تو رفتار آہستہ کر دی اور servicesکی طرف مڑنے کا اشارہ دے دیا۔ حضورؒ نے دریافت فرمایا کہ کار مڑنے کا اشارہ دیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا سامنے services ہیں جہاں صاف ستھرے غسلخانے ہیں اور کچھ چہل قدمی بھی ہوجائے گی۔ حضورؒ نے فرمایا: یہ تو بہت اچھی بات ہے ، مَیں بھی کچھ دیر کے لیے کار سے باہر آنا چاہتا تھا،غسلخانے سے بھی فارغ ہو جائیں گے۔ جب مَیں نے کار کھڑی کی اور حضورؒ کار سے باہر نکلے تو حضرت چو ہدری صاحبؓ بے اختیار ہنس پڑے اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا: آخر تم گیارہ بجے کی کافی کے لیے ٹھہر ہی گئے! میں بھی ہنس پڑا۔ حضور ؒنے اصل بات دریافت فرمائی تو چوہدری صاحبؓ نے حضورؒ کو بتایاکہ امام رفیق کو گیارہ بجے کافی پینے کی عادت ہے اور جو گفتگو میری اور حضرت چوہدری صاحبؓ کی لندن میں ہوئی تھی وہ بیان فرمائی۔حضورؒ بھی ہنس پڑے اور مجھے یہ فائدہ ہوا کہ اس کے بعد حضورؒ کا یہ معمول بن گیا کہ دوران سفر عین گیارہ بجے سے کچھ دیر قبل بار بار فرماتے: امام رفیق! کار کسی ریسٹورنٹ پر روکو تمہاری کافی کا وقت ہو گیا ہے۔

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

1971ء میں جب میں حضورؒ کا پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوا تو بھی حضورؒ از راہ شفقت عین گیارہ بجے ڈاک دیکھتے دیکھتے ارشاد فرماتے تم جلدی سے نیچے جا کر کافی پی کر آؤ۔ میں ڈاک دیکھ لیتا ہوں۔ حضور اقدس نے پہلے ہی دن مجھے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ میری کار اب تم ہی ڈرائیو کیا کرو۔ مجھے تمہاری ڈرائیونگ سے اطمینان اور سکون ہوتا ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ سال تک جب تک میں ربوہ میں حضورؒ کا پرائیویٹ سیکرٹری رہا ،مجھے یہ سعادت حاصل رہی۔ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب میں حضور ؒکی کار ڈرائیو کر رہا تھا،حضورؒ اور بیگم صاحبہ حسب معمول پچھلی سیٹوں پر تشریف فرما تھے اور حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب میرے ساتھ اگلی سیٹ پر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ امام صاحب! کار بہت گرد آلود ہے اس کی صفائی کا انتظام بھی کیا کریں۔حضرت میاں صاحب کی یہ بات حضورؒ کو بہت ناگوار گزری۔ حضورؒ نے نسبتاً اونچی آواز میں اُن کو مخاطب کر کے فرمایا : منور ! یہ تو امام صاحب کا احسان ہے کہ ہماری کار ڈرائیو کرتے ہیں۔ و ہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں ،ڈرائیور نہیں۔ تم نے غلط بات کی ہے۔ کار کی صفائی ان کا کام نہیں۔ اس کے لیے اَور لوگ مقرر ہیں۔ شام کو جب حضورؒ ٹہلنے کے لیے باہر تشریف لائے تو بھی حضرت میاں صاحب کی بات پر افسوس کااظہار فرمایا۔
1971ء میں جب حضورؒ نے مجھے دوبارہ انگلستان کے لیے امام اور مشنری انچارج مقرر فرمایا تو مجھے ازراہ شفقت فرمایا کہ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ تمہیں پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ سے ہٹایا جائے اور واپس انگلستان بھجوایا جائے لیکن مجھے انگلستان کی جماعت کے بہت سارے دوستوں نے لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ تمہیں واپس انگلستان بھجوا دیا جائے اس لئے بامر مجبوری واپس بھجوا رہا ہوں۔
روانگی سے دو دن قبل حضورؒ نے اپنے باغ میں شامیانے لگوا کر خاکسار کو دعوت طعام سے نوازا۔ جس میں خاندان مسیح موعودؑ کے معزز ارکان کے علاوہ بعض ناظران اور وکلاء صاحبان کو بھی مدعو فرمایا۔ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز تھا۔
ربوہ میں پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ پر کام کرنے کے دوران ایک روز مَیں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ میری خواہش حضور انور اور بیگم صاحبہ کو دعوت طعام پر بلانے کی ہے لیکن میری حیثیت کا بھی مجھے علم ہے۔حضورؒ نے فوراً فرمایا کیوں نہیں جب بھی کہو ہم تمہارے گھر کھانے پر آ جائیں گے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور دو چار دن میں انتظامات مکمل کر کے حضورؒ کو مع بیگم صاحبہ اور بعض صاحبزادگان کے اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ حضورؒ مع دیگر افراد خاندان تشریف لائے۔ میرے والدین، ایک بہن اور ان کے بچے بھی شامل تھے۔رات گئے تک حضورؒ تشریف فرما رہے اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔
میرا گھر اگرچہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے بالکل ملحق تھا اور دفتر سے میرے گھر کا صرف چند قدم کا فاصلہ تھالیکن پرائیویٹ سیکرٹری کا چارج سنبھالنے کے پہلے ہی روز حضورؒ نے ازراہ شفقت فرمایا کہ تمہارا دوپہر کا کھانا ہمارے یہاں سے دفتر آ جایا کرے گا۔ اور پھر ڈیڑھ سال تک یہ معمول رہا کہ عین دوپہر کے وقت کھانا اندر سے آجاتا تھا۔ ایک دو مرتبہ میرے عرض کرنے پر کہ میرا گھر تو صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے ، حضور ؒکے گھر سے کھانے کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔حضور ؒنے میری درخواست نا منظور فرمائی اور کھانا بدستور اندر سے ہی آتا رہا اور یہ سلسلہ میری انگلستان واپسی کے دن بھی جاری رہا۔
حضور ؒکی شفقتوں اور محبتوں اور پیار بھرے حسن سلوک کا مَیں جس قدر مورد رہا، مَیں ان سب کو احاطۂ تحریر میں لانے سے قاصر ہوں۔

مَیں نے حضورؒ کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور انہیں ایک عظیم روحانی بزرگ، متقی اور باخدا انسان پایا۔ ان کا اندر اور باہر ایک تھے۔ بہت باحیا اور پردہ پوش شخص تھے۔ کبھی بات دل میں نہ رکھتے تھے۔ناراض بھی ہو جاتے تھے تو بہت جلد معاف فرما دیتے تھے۔میں نے جتنا عرصہ ان کے قریب کام کیا، اس سارے عرصہ میں وہ مجھ پر عنایات کی بارشیں کرتے رہے۔میری چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال فرماتے۔ ہمیشہ پیار سے ’’ امام رفیق‘‘ کے نام سے یاد فرماتے۔ اپنے تمام یورپین دوروں اور امریکہ کے دورے میں اس عاجز کو شامل رکھا۔پاکستان میں سربراہان مملکت اور بعض اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کے دوران اس عاجز کو اپنے ساتھ رکھا۔ یہی حال حضرت منصورہ بیگم صاحبہؒ کا تھا۔ وہ بھی مادر مہربان کی طرح اس عاجز سے سلوک فرماتی تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں