حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم بشیر احمد ناصر سندھو صاحب اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ ہم جرمنی کے خدام واقعی ہی بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا بے حد پیار ملا۔ دراصل یہ تو انہی کا ظرف تھا جو ہم پراگندہ حال، ہجرزدہ، مجبور اور تہی دست جوانوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور ڈھارس بندھائی اور مردانہ وار جینے کا سلیقہ سکھایا۔ ہر ایک کے دکھوں کو سنا اور زبانی ڈھارس نہیں دی بلکہ دعائیں بھی دیں۔ ان دعاؤ ں کے ساتھ ایک سکینت اترتی ہم دیکھتے تھے۔ ہماری حالت یہ تھی کہ اکثر کا دین کا علم بھی ناقص ، دنیاوی لحاظ سے وطن میں بھی درماندہ اور غریب الوطنی ! ایسے میں ہم ایک حقیر پتھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ حضور رحمہ اللہ نے ہمیں تراشا اور سنوارا اور پیار دیا تو گویا کایا ہی پلٹ گئی۔
میری آپؒ سے پہلی ملاقات پاکستان میں قبل از خلافت ہوئی۔ آپ ؒ نے ایک مقامی جلسہ میں غیر از جماعت احباب کے تابڑ توڑ سوالوں کے انتہائی شستہ زبان میں مسکت جوابات دیئے۔ اس سے میری بچپن کی اس عمر میں ہی احمدیت پر ایمان پختہ ہو گیا کہ ہم صحیح ہیں اور مخالف غلط۔ محض کسی کے زبان سے کافر کہہ دینے سے ہم کافر نہیں ہوجاتے۔
جرمنی میں Rüdesheim میں ایک پکنک کے دوران حضورؒ تشریف فرماتھے اور ایسے میں احباب جماعت حضور اقدس کے پاس برا ئے دعا و شرفِ مصافحہ جا رہے تھے۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام و مصافحہ کے بعد، سامنے گھاس پر دو زانوں بیٹھنے کی کوشش کی۔ آپؒ نے کرسی کی طرف اشارہ کیا مگر میں نے اصرا ر کیا کہ میں نیچے ہی بیٹھوں گا اس پر میرا بازو پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا اور فرمایا ’’ نہیں آپ یہاں بیٹھیں‘‘ اور نہایت توجہ سے میری بات کو سنا اور دعا دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں