حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم عبدالشکور اسلم صاحب اپنی یادوں کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ 1980ء میں جب میری عمر تقریباً 20 سال ہو گی، حضورؒ اس وقت Syngenic Corporation کے ڈائریکٹر تھے اور اس سلسلے میں کراچی آتے رہتے تھے۔ میرے والد عبدالغفور منوری صاحب اس کے منیجر تھے۔ اور انہوں نے میری ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ جب بھی میاں صاحب آئیں تو میں اُن کے ساتھ رہوں۔ چنانچہ جب بھی حضورؒ کراچی تشریف لاتے تو مجھے خدمت کا موقع مل جاتا۔ ایک دفعہ حضورؒ نے کراچی آنے سے قبل کچھ ہو میوپیتھی ادویات خریدنے کے لئے فون کیا۔ کیونکہ والد صاحب موجود نہ تھے اس لئے میں نے فون سنا۔ حضورؒ نے ادویات کے نام لکھوانے شروع کئے۔ میری تعلیم چونکہ اتنی نہ تھی اس لئے میں نے اردو میں وہ نام لکھنے شروع کردئیے۔ شروع میں تو میں سمجھا کہ دو یاتین ادویات ہون گی۔ مگر وہ تقریباً پچیس چھبیس کے لگ بھگ تھیں۔ جب حضورؒ سارے نام لکھوا چکے تو بڑی شفقت سے پوچھا کہ آپ نے ادویات کے spelling ٹھیک طرح سے لکھے ہیں نا؟ میں نے عرض کی کہ میں نے تو اردو میں لکھے ہیں۔ حضورؒ اس پر بجائے غصہ ہونے کے نہایت پیار اور تحمل سے گویا ہوئے کہ کوئی بات نہیں میں آپ کو Spelling لکھواتا ہوں۔ اور شروع سے آخر تک تمام ادویات کے نام کے Spelling بھی حضورؒ نے لکھوائے۔ میرا شرم سے برا حال تھا مگر پیارے آقا کی زبان سے ایک بھی لفظ ایسا نہ نکلا جس سے ناراضگی کا شبہ بھی ہوتا ہو۔ دیکھنے کو تو عام سا واقعہ ہے مگر فی ذاتہٖ ایک اعلیٰ خلق کا مظاہرہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے کنری (سندھ) میں جماعتی کپاس کی ایک فیکٹری لگوائی تھی۔ حضورؒ اس فیکٹری کے ڈائریکٹر تھے۔ آپؒ جب بھی کنری تشریف لے جاتے تو پھل وغیرہ ساتھ لے جاتے جنہیں خریدنے کی ذمہ داری خاکسار کے سپرد تھی۔ حضور ؒ کو شریفے بہت پسند تھے۔ ایک دفعہ اتفاق سے شریفوں کا موسم نہیں تھا۔ اس لئے باوجود بہت ڈھونڈنے کے اچھے شریفے نہ مل سکے۔ چنانچہ میں باقی پھل لے آیا اور حضورؒ کے پوچھنے پر شریفے نہ لانے کی وجہ بیان کہ ابھی پکے نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ جیسے بھی ہوں لے آؤ۔ چنانچہ میں دوبارہ مارکیٹ گیا اور کافی دیر تلاش کے بعد کچھ شریفے جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی لے آیا۔ اگلے دن حضورؒ کراچی سے کنری تشریف لے گئے اور قریباً پچیس دن کے قیام کے بعد جب واپس آئے تو خاکسار سے گویا ہوئے کہ شکور میں تمہارے لئے ایک تحفہ لایا ہوں۔ حضورؒ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کنری سے واپس آتے تو آم یا پپیتے وغیرہ لے آتے اور ہمیں دے دیتے۔ مگر جب حضورؒ نے وہ جانا پہچانا سا لفافہ میرے ہاتھ میں دیا اور فرمایا کہ میں نے ان شریفوں کو آٹے میں بھی رکھا مگر یہ ابھی تک سخت ہیں۔ یہ لے جاؤ اور جس سے لئے ہیں اس کو دکھاؤ۔ میری بچپن سے ہی یہ عادت تھی کہ خریدی ہوئی چیز واپس کرنے کبھی نہ جاتا تھا۔ چنانچہ مجھے آج تک افسوس ہے کہ میں نے بغیر سوچے سمجھے عادتاً حضورؒ سے کہہ دیا کہ میاں صاحب میں ہرگز واپس کرنے نہ جاؤں گا، میں نے تو پہلے ہی آپ سے کہا تھا مگر آپ نے خود ہی خریدنے پر مجبور کیا تھا۔ قربان جاؤں اس مالک پر کہ اپنے ادنیٰ غلام کی اس دلیری پر بھی ماتھے پر کوئی شکن نہ لائے۔ بلکہ کمال شفقت سے بولے کہ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ دکاندار کو واپس کرکے ان کے بدلے پیسے لے آؤ یا ان کے بدلے اور شریفے لے آؤ۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ اسے اک بار دکھا دو تا کہ آئندہ جب بھی تم اس سے کچھ خریدو تو اس کے دل میں نرمی پیدا ہو اور تمہیں اچھی چیز دے۔
میں اور میرے والد صاحب مرحوم آفس میں ہی رہائش پذیر تھے اور آفس کے کچن میں ہی کھانا وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ حضورؒ میرے والد صاحب سے خاص شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے اور فیکٹری کے بعض کاموں کے لئے والد صاحب کو بالکل خودمختار کر دیا تھا جس سے آفس کا کچھ عملہ شاید ناخوش تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ فیکٹری کے ایک بالا افسر نے مجھے منع کردیا کہ جس وقت وہ آفس میں ہوں توکسی قسم کا کھانا پکانا نہ کیا جائے۔ چنانچہ میں حکم کی تعمیل کرتا۔ ایک دفعہ حضورانورؒ تشریف لائے تو میں حضورؒ کے لئے ہوٹل سے چائے لے آیا۔ حضورؒ نے بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ تو آفس میں ہی چائے وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ پھر آج بازار کی چائے کیوں لے آئے۔ چنانچہ مجھے ساری حقیقت حضورؒ کو بتانا پڑی۔ حضورؒ نے بڑے پیار سے نہ صرف آفس میں کھانا پکانے کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ یہ بھی تاکید فرمائی کہ بازار کا کھانا تو صحت کے لئے موزوں نہیں ہے، وہ تو صرف مجبوری کے تحت کھایا جا سکتا ہے۔ آپ آئندہ سے آفس کے کچن میں ہی کھانا پکایا کریں۔ آپ کو آئندہ کو ئی منع نہیں کریگا۔
1982ء میں منصبِ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے جب حضورؒ کراچی تشریف لائے تو میرے والد صاحب کی درخواست پر مجھے ایک فیکٹری میں کام دلوانے کے لئے فیکٹری کے مالک کے ساتھ فیکٹری تک چھوڑنے کے لئے گئے۔ آپؓ نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ میری فیکٹری کے مالک سے بات ہوئی ہے اور وہ شکور کو600روپے ماہانہ تنخواہ دے گا۔ مگر جب مہینہ کے آخر میں مجھے تنخواہ ملی تو وہ 400 روپے تھی۔ تقریباً دو ماہ بعد حضور ؒ پھر کراچی تشریف لائے اور والد صاحب سے میرے کام اور تنخواہ کے بارے میں پوچھا۔ والد صاحب نے بتایا کہ 400روپے ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ بعد میں حضورؒ نے مجھے فون کرکے بلایا۔ اُس وقت حضورؒ اس فیکٹری کے مالک کے گھر پر ہی تشریف فرماتھے۔ حضورؒ نے ان سے نہایت سختی سے پوچھا اور ان کی سرزنش کی کہ جب آپ نے مجھ سے 600روپے ماہانہ کی بات ہوئی تھی تو بچے کو 400کیوں دیے۔ اگر آپ کے پاس پیسے کم تھے تو مجھ سے مانگ کر دے دیتے۔ کم ازکم میری عزت کا خیال کرتے۔ حضورؒ اس قدر غصے میں تھے کہ میں نے اس سے پہلے حضورؒ کو اتنے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔ دوسری طرف میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا کہ حضورؒ ایک ادنیٰ سے خادم کی خاطر اپنے دوست سے اس قدر ناراضگی کا اظہار فرمارہے ہیں۔ چنانچہ میں نے عرض بھی کی کہ میاں صاحب رہنے دیں آ پ خفا نہ ہوں ہوسکتا ہے کہ انہیں غلطی لگ گئی ہو۔ مگر حضورؒ کا غصہ کم نہیں ہوا اور اسی وقت حضورؒ اپنا سامان لے کر ان کے گھر سے تشریف لے گئے۔
ایک دفعہ جب حضرت میاں صاحب کراچی میں مبارک احمد صاحب کھوکھر کے گھر تشریف فرما تھے تو کسی کام کے لئے مجھے فون کرکے بلایا اورفرمایا کہ فوراً چلے آئیں۔ اس وقت مَیں فیکٹری میں کام کر رہا تھا اور دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ یہ دوپہر کے کھانے کا وقت تھا مگر میں حضورؒ کے حکم پر کھانا کھائے بغیرہی چلا آیا۔ جب میں پہنچا تو حضورؒ دوسری منزل پر لے گئے اور آپؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کھانا تو نہیں کھایا ہوگا۔ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ حضورؒ نے فرمایا آپ بیٹھیں میں آپ کے لئے کھانا لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ حضورؒ نیچے تشریف لے گئے اور کچھ دیر بعد کھانے کی ٹرے پکڑے واپس سیڑھیاں چڑھ کر واپس آئے۔ میں نے جلدی سے حضورؒ کے ہاتھ سے ٹرے پکڑلی تو حضورؒ خود ایک چھوٹی میز اٹھا کر قریب لے آئے اور مجھ سے فرمایا کہ کھانا یہاں پر رکھیں اور کھانا شروع کریں۔ حضورؒ میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے کھانے کے لئے نوالہ توڑا اور کھانا شروع کیا مگر کھایا نہ جائے۔ حضورؒ نے میری اس کیفیت کو بھانپتے ہوئے فرمایا کہ میں نیچے جارہا ہوں آپ اس وقت تک کھانا کھائیں۔ مگر میٹھا ہم اکھٹے ہی کھائیں گے۔ چنانچہ یہ کہہ کر میاں صاحب نیچے چلے گئے اور اس دوران میں نے جلدی جلدی کھانا ختم کرلیا۔ تھوڑی دیر حضورؒ دوبارہ تشریف لے آئے اور اب کی بار آپؓ کے ہاتھ میں کھیر کی پیالیاں تھیں۔ اور حضورؒ نے میرے ساتھ بیٹھ کر کھیر کھائی۔ اس کے بعد حضورؒ خود چائے بھی لے آئے اور ہم نے چائے پی۔
خلافت کے بعد ایک دفعہ حضورؒ کراچی تشریف لائے اور گیسٹ ہاؤس میں مجلس عرفان کے بعد سب کو مصافحہ کا شرف بخشا۔ جب میرے والد صاحب سے مصافحہ فرمایا تو فرمایا کہ آپ ادھر کھڑے ہو جائیں کیونکہ مجھے آپ کو ایک تحفہ دینا ہے۔ حضورؒ نے دوبارہ مصافحہ کا سلسلہ شروع کردیا۔ مگر تھوڑی ہی دیر گزرنے کے بعد حضور ؒ مصافحہ کو روک کر اپنے کمرہ میں چلے گئے اور اپنی کلائی کی گھڑی لاکر والد صاحب کو دی۔ دراصل حضورؒ خود تو مصافحہ کیلئے گھنٹوں کھڑے رہتے مگر آپؓ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ میرے بوڑھے والد صاحب کو انتظار میں کھڑا کیا جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں