حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم سعید گیسلر صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی کا مضمون شامل اشاعت ہے۔ (ترجمہ از مکرم چوہدری حمید احمد صاحب)۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میری حضورؒ سے پہلی ملاقات 1993ء کے جلسہ سالانہ پر ناصر باغ میں منعقدہ مجلس عرفان میں ہوئی۔ اس مجلس عرفان کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے اختتام پر سب کو حضور ؒ سے معانقہ کا موقع ملا۔ میں بھی قطار میں کھڑا ہو گیا اور آج جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو اپنی خوش قسمتی پر پھولے نہیں سماتا کیوں کہ آج تو لوگوں کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے ایسا ممکن ہی نہیں۔ اُس وقت میری نظر میں اسکی کوئی خاص اہمیت نہ تھی کیونکہ ابھی میں احمدی نہیں ہوا تھا گو کہ میں اس وقت مسلمان تھا لیکن خلافت کی اہمیت اور خلیفہ وقت کے مقام و مرتبہ سے ناآشنا تھا۔ لیکن مجالس عرفان کے علاوہ غیراحمدی احباب کے ساتھ مجلس سوال و جواب میں بھی حضورؒ کے بصیرت افروز جوابات نے مجھ پر بہت اچھا اثر چھوڑا۔ حضورؒ نے ایک سوال کے جواب میں یورپ کی صورتحال پر روشنی ڈالی اور جو حالات آپؒ نے 1993ء میں بتائے آگے چل کر ایسا ہی ہوا مثلاً آپؒ نے فرمایا کہ جرمنی متحد ہونے کے بعد دوبارہ ترقی کرکے یورپ میں ایک مقام پیدا کر لے گا اور اس کی طاقت پہلے سے بڑھ جائے گی اور اسی طرح یورپ بھی طاقتور ہو جائے گا اور اس وقت امریکہ کے مخالف کھڑا ہو جائے گا۔ 1993ء میں یہ باتیں سن کر انسان یقین نہیں کر سکتا تھا لیکن وقت نے گواہی دی کہ حضور ؒ نے حالات کا نقشہ جس طرح کھینچا تھا اسی طرح ہوا اور ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے 1993ء میں ہی قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔
حضورؒ سے دوسری ملاقات کا موقع اسطرح پیدا ہوا کہ میری بیوی جو کہ مسلمان نہیں تھی وہ بچوں کے ساتھ انگلستان کی سیر کرنا چاہتی تھی۔ گوکہ وہ اسلام سے کوئی زیادہ دلچسپی نہ رکھتی تھی لیکن میرے اصرار پر وہ مسجد فضل لندن جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ ملاقات تو مَیں نے اکیلے نے ہی کی۔ حضورؒ سے مصافحہ کی توفیق بھی ملی پھر حضور ؒ سے مختلف امور پر بات ہوئی۔ ملاقات کے بعد آپؒ نے فوٹو بنوانے کا پوچھا لیکن چونکہ میں ابھی نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور میں نے سنا ہوا تھا کہ اسلام میں تصویر بنوانی منع ہے اس لئے میں نے انکار کر دیا اور وہ نادر موقع گنوادیا۔ بہرحال میرے لئے یہ ایک خاص موقع تھا کہ کس طرح حضورؒ نے میرے لئے اتنا وقت نکالا اور میرا اسلامی نام سعید رکھا۔
حضور ؒ نے خانگی مسائل میں بھی میری مدد کی اور آپؒ کی تسلی سے ہی میں بڑے فیصلے کرنے کے قابل ہوا۔ جرمن احباب کے ساتھ کئی مجالس میں مجھے تلاوت کا موقع بھی ملتا رہا۔ حضورؒ میری تلاوت کو پسند فرماتے۔ اسی طرح بیت القیوم میں 100مساجد کے سلسلہ میں حضورؒ کے ساتھ ایک میٹنگ میں شامل ہوا۔ میں اس وقت سٹٹگارٹ میں رہائش پذیر تھا اور سو مساجد سکیم کے سلسلہ میں کوئی بھی ذمہ داری میرے سپرد نہ تھی۔ لیکن حضور ؒ نے فرمایا کہ اب سے سو مساجد سکیم کا کام گیسلر صاحب کریں گے۔ اس ذمہ داری کے حوالہ سے Wittlich میں مسجد بیت الحمد ناصر باغ کے بعد نئی تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی۔ حضورؒ نے اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ حضور ؒ نے مسجد کے معائنہ کے بعد فرمایا کہ مسجد میں نماز ادا کرنے والی جگہ چھوٹی ہے اور ارد گرد دفتر کچن اور دوسری جگہیں بڑی بنا دی گئی ہیں۔ یہ بات حضور ؒ نے ناپسند کی۔
مسجد Münster کا سنگ بنیاد رکھتے وقت حضورؒ نے ایک مسئلہ کی نشاندہی فرمائی کیونکہ منظور شدہ نقشے کے مطابق عورتوں کا نماز ہال مردوں کے دائیں جانب بن رہا تھا۔ حضورؒ نے آئندہ کے لئے واضح ہدایات دیں کہ عورتوں کی نماز کی جگہ بائیں طرف یا پیچھے ہونی چاہئے۔ کیونکہ سنت نبوی سے ثابت ہے کہ عورتیں یا تو مردوں کے بائیں جانب یا پیچھے نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ ایک دوسری جگہ حضورؒ نے فرمایا کہ بے شک چھوٹی مساجد ہی بنائیں لیکن کثرت سے بنائیں۔
بے شمار مواقع پر حضور ؒ نے ہم جرمنوں کو بار بار موقع دیا کہ ہم اپنے سوالات حضورؒ کے سامنے پیش کریں اور ہم نے ان مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب سوالات کئے۔ یہ سوالات مذہبی اور فیملی مسائل کے بارے میں ہوتے تھے اور اپنے تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات حضورؒ سے سنتے تھے۔ مجھے حضور کی بہت ساری مجالس عرفان میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ میں اکثر حیران ہوتا تھا کس طرح آپ سوالات کے تسلی بخش اور شافی جواب عطا فرماتے۔ حضور کا صرف یہی وصف آپ کی شخصیت کو بہت ممتاز کر دیتا ہے کہ چاہے مذہبی سوال ہو یا سیاست کے بارہ میں یا کسی بھی اور موضوع پر ، کبھی کبھی تو ابھی سوال مکمل بھی نہیں ہو پاتا تھا اور آپؒ اس کا جواب دے دیتے تھے۔ آپ علم کا ایک سمندر تھے مجھے حضور ؒ کی نوجوان خدام کے ساتھ مجالس عرفان سننے کا بھی موقع ملا ہے وہاں حضورؒ بالکل منفرد انداز میں جوابات دیا کرتے تھے۔ اور کوئی بھی بور نہیں ہوتا تھا اور گو کہ ان میں سے اکثر مجالس عرفان اردو میں ہوا کرتی تھی اور اس وقت مجھے اردو بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود حضورؒ کا انداز اور وہ ماحول اتنا دلچسپ اور قابل دید ہوتا تھا کہ انسان محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔
حضورؒ نے ایک مجلس عرفان میں جرمنی کی ترقی سے متعلق فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ مساجد میں آکر پناہ ڈھونڈیں گے۔ اس لئے آپؒ نے ہمیں بار بار توجہ دلائی کہ جلد از جلد مساجد کی تعمیر کریں کیوں کہ وقت کم ہے اس روحانی زندگی کے لئے مساجد کا ہونا بہت ضروری ہے۔ حضورؒ کے ان ارشادات کو سن کر ہمیں اپنی کمزوریوں پر ندامت ہوتی ہے۔ اسی طرح حضورؒ نے ہم جرمنوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یورپ میں اسلام کی ترقی آپ کے ذریعہ ہونی ہے اور یہ خداتعالیٰ کی ایک تقدیر ہے اسی لئے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد کو اللہ تعالیٰ نے جرمنی میں لا کر آباد کیا ہے۔ جنگ عظیم میں تباہی کے بعد جرمن ایک نئی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں یہاں بھی پاکستان کی طرح مخالفت ہوگی لیکن اسلام غالب آئے گا (انشاء اللہ )۔
ہومیوپیتھی میں بھی آپ یدطولیٰ رکھتے تھے اور میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ بالکل مایوس تھے اور انہیں حضورؒ کے ہاتھ سے معجزانہ شفاہوئی۔
حضور ؒ نظام جماعت کے اوپر عملدرآمد میں بہت سختی سے کاربند تھے اور اگر کوئی غلطی ہوتی تھی تو فوراً اس کی نشاندہی فرمادیا کرتے تھے اور تمام معاملات پر آپؒ کی بڑی گہری نظر تھی۔
حضورؒ کی وفات کی خبر اچانک آئی اور یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ میں نے ایک دن قبل آپ کو ایم ٹی اے پر دیکھا تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ یہ کوئی افواہ ہے۔ پھر مسجد فضل لندن جاکر مَیں نے آپؒ کا آخری دیدار کیا۔ حضورؒ کے دیدار کے وقت آپ کے چہرے پہ مکمل اطمینان تھا۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں