حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں

رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم زبیر خلیل خان صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی بیان کرتے ہیں کہ حضور انورؒ نومبائعین کو عام نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ بلکہ خلافت کے ساتھ جس کا تعلق قائم ہوگیا وہ اس وجود کا حصہ بن جاتا۔ آپ ؒ مختلف اقوام کے نومبائعین کے ساتھ بہت ہی محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ نومبائعین بھی حضور پر جان نچھاورکرنے کو تیار رہتے تھے۔ حضورؒ نے اپنے خطبے کے دوران جرمن قوم میں تبلیغ کے لئے یہ مثال بھی دی کہ اگر لیور کو ایک خاص جگہ پر رکھ کر کوئی وزن اٹھایا جائے تو آسانی سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ اگر جرمن قوم کے دل اﷲ اسلام احمدیت کے لئے فتح کردے تو پھر جرمن قوم ایک ایسی قوم ہے جو کہ پھر لیور کا کردار ادا کرے گی۔
دعا اور ہومیوپیتھک دوا کے ذریعہ آپؓ کے علاج کا نومبائعین میں بہت شہرت اور چرچا تھا۔ بعض ایسے ایسے مریض آپ کی دعا اور دوا سے صحت یاب ہو گئے تھے جن کو ہر طرف سے جواب دیدیا گیا تھا۔ اس طرح بعض گھرانوں میں کئی سالوں کے بعد اولاد کی نعمت ملی تھی۔ اس لئے یہ لوگ آپ سے بہت ہی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔
حضور ؒ سے خاکسار کا تعارف پشاور میں 60ء کی دہائی میں ہوا۔ جب خاکسار ابھی طفل تھا اور اپنی خالہ کے ہاں مہمان گیا ہوا تھا۔ وہاں مقابلہ جات میں خاکسار نے حضورؓ سے انعام حاصل کیا تو آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم حافظ صاحب کے بیٹے تو نہیں؟ خاکسار کے مثبت جواب پر ماتھا چوما اور انعام دیا۔ خا کسار کے والد مرحوم حافظ عطاء الحق صاحب قادیان میں آپؓ کی کلاس کے مانیٹر تھے۔ چونکہ پڑھائی میں خاصے ہوشیار تھے اس لئے کبھی کبھار آپؓ کو بھی سبق یاد کرانے چلے جایا کرتے تھے۔
ہم کبھی کبھار ربوہ جاتے تو آپؒ سے ملاقات ہوجاتی۔ 1970ء کے انتخابات کے موقع پربھی ملاقات رہی۔ آپ جب خلیفۃالمسیح منتخب ہونے کے بعد اپنے بیرونی ممالک کے دورہ سے واپس پاکستان آئے تو خاکسار اس وقت فوج میں کیپٹن تھا۔ ایک اہم معاملے میں جماعت کی مدد کرنے پر خاکسار کو بطور سزا دو سال کیلئے Hard area میں بھجوادیا گیا تو آپؒ نے تسلی والا خط تحریر فرمایا۔
جب تک خاکسار شعبہ تبلیغ جرمنی سے وابستہ رہا آپ کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا۔ ایک دفعہ محترمی امیر صاحب خصوصی طور پر خاکسار کو حضور انورؒ سے ملوانے لے گئے۔ اور خاکسار کے لئے خصوصی دعا کی درخواست کی۔ مسکرا کر فرمانے لگے: مجھے سارا علم ہے اور میں اسے اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔
حضور انورؒ ان دنوں شعبہ تبلیغ کے کاموں سے اتنے خوش تھے کہ ایک مرتبہ انٹرنیشنل شوریٰ میں خاکسار کا نام جب کسی کمیٹی کے لئے پیش کیا گیا تو فرمانے لگے کہ ہاں انہوں نے جرمنی میں تبلیغ کا کام بڑے ہی عمدہ رنگ میں منظم کررکھا ہے۔ عجیب وغریب محبت اور شفقت تھی جوآپ اپنے غلاموں سے کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ جلسہ سالانہ انگلستان کے موقع پر رات کے وقت ایک دوست اونچی آواز میں خاکسار کا نام پکار رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ حضور انورؒ نے آم بھجوائے ہیں۔ جہاں ایسا سلوک ہو وہاں انسان محسوس ہی کر سکتا ہے بیان تو نہیں کر سکتا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں