حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ 2004ء میں خواتین سے خطاب

اگر ماں باپ خود نمازی بن جائیں تو بچے ایک وقت میں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے سدھر جائیں گے۔
تمہاری عزت اور تمہاری انفرادیت اور تمہارا وقار اور تمہارا احترام اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرو۔
4؍ ستمبر2004ء کوجلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ کے موقع پر لجنہ اماء اللہ سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا خطاب۔

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالّٰصّٰئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّلَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا۔ وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللہَ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَااللہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ۔ وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ۔ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا۔ وَکَانَ اَمْرُاللہِ مَفْعُوْلًا (الاحزاب:38-36)

یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کئے ہوئے ہیں۔ اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے معاملہ میں اُن کو فیصلہ کا اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ بہت کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور جب تُو اُسے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے انعام کیا اور تو نے بھی اُس پر انعام کیا کہ اپنی بیوی کو روکے رکھ (یعنی طلاق نہ دے) اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور تُو اپنے نفس میں وہ بات چھپا رہا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تُو لوگوں سے خائف تھا اور اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تُو اس سے ڈرے۔ پس جب زید نے اس عورت (یعنی اپنی بیوی) سے اپنی حاجت پوری کر لی، ہم نے اسے تجھ سے بیاہ دیا تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے متعلق کوئی تنگی اور تردّد نہ رہے جب وہ (منہ بولے بیٹے) اُن سے اپنی حاجتیں پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا فیصلہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا ہے۔
ان آیات کی تلاوت و ترجمہ اور نظم کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے اپنا خطاب شروع فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:
یہ آیات جو ابھی پہلے آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہیں ان کومَیں نے بنیاد بنایا ہے۔ ان میں بعض نصائح کی گئی ہیں کہ یہ یہ باتیں اختیار کرو، یا وہ باتیں جن کا ذکر کیا گیا ہے ان پر عمل کرنے والے ایسے لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں جب ان پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اجر عظیم عطا ہو گا اور ان کے لئے مغفرت کے سامان بھی ہیں اور اجر عظیم بھی ہے۔ گویا یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مومن کو، مومن بننے کے لئے اختیار کرنا چاہئے، اس کے بغیر مومن نہیں کہلا سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے کل کے خطبے میں کہا تھا کہ اَسْلَمْنَا تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یعنی ہم نے قبول کر لیا اور اب ہم قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو احمدی مسلمان بنانے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ مسلمان تو دنیا میں کافی تعداد میں ہیں۔ بڑے بڑے ملک مسلمانوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن صحیح عمل جو آج اسلام پر ہو رہا ہے یا صحیح تعلیم جو اسلام کی ہے وہ صرف اور صرف احمدی مسلمانوں کے پاس ہے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو سمجھا اور اس کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو فرمایا کہ جب قبول کر لیا ہے تو اب ایمان میں ترقی کی بھی کوشش کریں گے، مومن بننے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن بننے کے بعد بعض کے لئے بعض مراحل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل اور کامل یقین ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہو۔ اس پر مکمل ایمان ہو کہ وہ سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اس کی تمام صفات پر یقین ہو۔ اس بات پر یقین ہو کہ اس کے تمام احکامات پر عمل نہ کرنے والے تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اس بات پر یقین ہو کہ ہر چیز بڑی سے بڑی سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی چیز تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب چیزیں ہیچ ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں اگر خدا نہ چاہے۔ تو یہ خیال رکھیں اور سمجھیں کہ اگر خدا نہ چاہے تو مجھے دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام لانے کے بعد تم اپنے اندر جب تک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتے۔ اور مومن کہلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہونا چاہئے، اس کی صفات پر مکمل یقین ہونا چاہئے۔ اس بات پریقین ہو کہ اس کے احکامات پر عمل کرنے والے جو ہیں وہی تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اس کے احکامات پر عمل نہ کیا تو تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اس بات پر یقین ہو کہ ہر چیز بڑی سے بڑی سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی چیز تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سب چیزیں ہیچ ہیں۔ کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر یہ یقین ہو کہ اگر خدا نہ چاہے تومجھے دنیا کا بڑے سے بڑا آدمی یا بادشاہ بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اگر خداتعالیٰ مجھے فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس میں روک نہیں ڈال سکتی۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ خداتعالیٰ کی ذات پر مکمل اور کامل یقین ہونا چاہئے۔ اور یہ خیال رہے کہ اگر خداتعالیٰ مجھے فائدہ پہنچانا چاہتا ہے، مجھے کوئی چیز دینا چاہتا ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس میں کوئی روک نہیں ڈال سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے عبادت کے جو طریق بتائے ہیں اس کے مطابق، ان کے مطابق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہنا چاہئے گویا کہ ہمیشہ اپنی روحانی حالت کو بڑھاتے چلے جانا ہے۔ اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کا تخت بنانا ہے اور جب دل کو اللہ تعالیٰ کا تخت بنانا ہے تو پھر شیطان کو دل سے نکالنا ہو گا۔ پھرشیطان کی اس دل میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے،اس کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا،دنیا داری کی تمام باتوں کو دل سے نکالنا ہو گا۔ گویا روحانیت کی منازل طے کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہے تو تقویٰ پر چلنا ہے اور یہ اس وقت ہی ہو گا جب مکمل فرمانبرداری ہو گی، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش ہو گی۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نمازیں تم پر فرض ہیں انہیں ادا کرو۔ بلکہ ایک جگہ تو یہ فرمایا ہے کہ

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ (الذاریات: 56)

یعنی مَیں نے جنّ اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں۔ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت تو ایک عام مسلمان بلکہ انسان کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے ایمان میں ترقی کرنے والوں کو تو بہت بڑھ کر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں ان کی اہتمام سے ادائیگی کرنی چاہئے۔ پھر اپنے بچوں کی نگرانی کریں آیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں یا نہیں۔ اگر ماں باپ نمازیں پڑھ رہے ہوں گے تو بچے خود بخود اس کے عادی ہو جائیں گے۔ بہرحال ماں، کیونکہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے، اپنے خاوند کے گھروں کی بھی نگران ہے تو اس لحاظ سے گھر کے مال اور سامان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے نگرانی کرنے کی،حفاظت کرنے کی، اپنے خاوندوں کی اولاد کی، ان کی نسل کی، اپنی اولاد کی کہ انہیں خدا کا قرب حاصل کرنے والا بنائیں۔ بچوں کی نگرانی کریں۔ گھر میں سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ 10سال کے بچے ہوں تو پابندی کروائیں کہ وہ نماز پڑھیں۔ جب بچوں کو نمازوں کی عادت ہو جائے گی تو انہیں بہت سی برائیوں سے بچنے کی بھی توفیق ملے گی۔ بڑے ہو کر سکولوں اور کالجوں میں جا کر یونیورسٹیوں میں جا کر،دوستوں میں بیٹھ کر نوجوانی کی عمر میں جو بعض غلط قسم کی باتیں بچے سیکھ جاتے ہیں۔ اگر عبادت کرنے والے ہوں گے، اگر بچوں کے ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں گے، تو بچے گندی حرکتیں، باتیں یا فضولیات اور لغویات جو ہیں یہ سیکھ ہی نہیں سکتے۔ اس لئے ماؤں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی ٹریننگ کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بتا دیا ہے کہ جو عبادت کرنے والے ہیں وہ برائیوں میں نہیں پڑا کرتے جیسا کہ فرمایا کہ

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآء وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت:46)

یعنی یقینا نماز سب بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔
ماؤں باپوں کو شکوہ ہوتا ہے، بعض دفعہ آتے ہیں میل ملاقات کے لئے،کہ ہمارے بچے بگڑ رہے ہیں،یہاں کے معاشرے کا ان پر اثر ہو رہا ہے۔ اگرماں باپ خود بھی اپنے ایمانوں کو مضبوط کر رہے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی مکمل فرمانبرداری کر رہے ہوتے، عبادات کی طرف توجہ ہوتی اور بچوں کوبھی اس کی عادت ڈالتے، بچپن سے ہی پیار سے محبت سے سمجھاتے کہ عبادت کرنی چاہئے، نماز پڑھنی چاہئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایت اور یہ حکم جو ہے اس پر عمل کرنے کی برکت سے بچے کبھی نہ بگڑتے۔ بلکہ ان لوگوں میں شمار ہوتے جو عمر کے ساتھ ساتھ، عقل پیدا ہونے کے ساتھ، شعور حاصل ہونے کے ساتھ ایمان میں ترقی کرنے والے ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نسلوں کو بچانے کے، اپنے آپ کو بچانے کے طریقے بھی سکھا دئیے ہیں۔ اگر ہم عمل نہ کریں تو پھریہ تو ہمارا قصور ہے۔ اکثر جب میں نے پوچھا ہے ماں باپ سے تو کافی تعداد میں ماں باپ ایسے ہیں جو نمازوں میں باقاعدہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہوش کریں اور ابھی سے اس طرف توجہ دیں۔ اپنے آپ کو بھی سنبھالیں۔ اپنے بچوں کو بھی سنبھالیں، اپنی نسلوں کو بھی سنبھالیں۔ اور اپنے ایمان کی بھی حفاظت کریں اور اپنی نسلوں کے ایمانوں کی بھی حفاظت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں شمار ہوں۔
عام طور پر دونوں میاں بیوی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں بچوں کی تربیت بھی کرتے ہیں پتہ نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری نمازوں کے باوجود ان کی تربیت صحیح نہیں ہو رہی۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری نمازوں کا، ایمان کی مضبوطی کا جو حق ہے وہ ہم نے ادا نہیں کیا۔ اس لئے اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ ماں باپ بچپن میں ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔ اس سے بھی ایک عمر کے بعد بچہ بگڑ جاتاہے۔
بہرحال مختصر یہ ہے کہ نمازوں کی عادت ڈالنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی۔ اب بھی اگر ماں باپ خود نمازی بن جائیں تو بچے ایک وقت میں آپ کی دعاؤں کی وجہ سے سدھر جائیں گے۔ اگر بچہ احمدیت پر قائم ہے اور جو بھی احمدیت پر قائم ہو توانشاء اللہ تعالیٰ ایک وقت آئے گا کہ وہ نیکیوں کی طرف بھی آ جائے گا۔ اور یہ بہرحال ضروری ہے کہ ایمانوں کی مضبوطی کے لئے نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے کی شرط ہے۔ اور نیکیوں پر قائم ہونے کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات جوہے وہ خداتعالیٰ کی عبادت ہے۔ اس کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ جب مکمل فرمانبرداری ہو گی تو پھر سچائی پر بھی قائم ہونے والی ہوں گی۔ دنیاوی مفاد یا دنیاوی فائدے پہنچانے والی باتیں آپ کو خداتعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے سے روکنے والی نہیں ہوں گی۔ کبھی آپ کے دل میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ مَیں فلاں جگہ غلط بات کہہ کر کوئی دنیاوی فائدہ اٹھا لوں یا کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ فلاں عورت نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اس لئے اس کو بدنام کرنے کے لئے مَیں اس کے متعلق کوئی غلط بات مشہور کردوں۔ یا ساس سسر سے ناراضگی کی صورت میں غلط باتیں ان کی طرف منسوب کردوں۔ یا بچوں کی غلطی چھپانے کے لئے نظام کے سامنے یا قانون کے سامنے غلط گواہی دے دوں۔ اگر یہ تمام باتیں کسی میں پائی جاتی ہیں تو اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا۔ اس لئے مومن کے لئے حکم ہے

وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْر

یعنی جھوٹ کہنے سے بچو۔ پھر فرمایا کہ مومنوں کی اللہ کے خالص بندوں کی یہ بھی نشانی ہے کہ

لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ۔

جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔
بعض دفعہ بعض عورتوں کو عادت ہوتی ہے بلاوجہ جھوٹ بول جاتی ہیں، مذاق میں یا دوسری عورت کو نیچا دکھانے کے لئے۔ مثلاً یہی کہ کپڑا خریدا ہے سستا لیکن اگردوسری عورت کے کپڑے کی گھر میں تعریف ہو گئی یا زیور کی تعریف ہوئی اور وہ کہے کہ اتنے میں خریدا ہے، پہلی والی فوراً کہے گی کہ میں نے بھی اتنے میں لیا ہے یا اس سے بڑھا کر اپنی قیمت بتائے گی تاکہ اپنی بڑائی بیان ہو۔ تو اپنی بڑائی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی بیان ہو رہا ہو گا۔ صرف اپنی اہمیت بتانے کے لئے، اپنے آپ کو امیر ظاہر کرنے کے لئے یہ غلط بیانی سے کام لیا ہے تو یہ سب جھوٹ ہے اور جھوٹ میں ہی شمار ہو گا۔ اور پھر ایسی عورتوں کے یا باپوں کے بچے جو ہیں ان میں بھی پھر غلط بیانی اور جھوٹ کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر جب بچے گھر سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں تو پھر ماں باپ کو دکھ ہو رہا ہوتا ہے، تکلیف ہو رہی ہوتی ہے کہ ہمارے بچے فلاں فلاں خرابی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان میں فلاں فلاں خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ ہم سے جھوٹ بولتا رہا کہ میں فلاں جگہ جاتا ہوں اور غلط بیانی سے کام لیتا رہا اور کر کچھ اور رہا ہوتا تھا۔ فلاں برائی میں مبتلا ہو گیا۔ اب بڑی پریشانی ہے۔ اگر جائزہ لیں تواس کی عادت خود ماں باپ نے ڈالی ہوتی ہے۔ کیونکہ بچے کے سامنے غلط باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے مواقع پر دوسروں کے بارے میں غلط باتیں بچوں کے سامنے کرتے ہیں تو اس سے بچے بھی سچ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک سچ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یا جیسا کہ مَیں نے کہا بچوں کی غلط حمایت کر دی اس سے بھی بچوں میں غلط بیانی اور جھوٹ کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ صبر سے کام لیا کریں۔ زندگی میں بہت سے مواقع آتے ہیں کاروبار میں نقصان ہو گیا، چوری ہو گئی، ڈاکہ پڑ گیا وغیرہ وغیرہ۔ یا بعض دفعہ خاوند کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ عورت کی ضرورت کے مطابق اس کو رقم مہیا نہیں ہو رہی تو شور مچا دیتی ہیں بعض عورتیں، واویلا کرتی ہیں، خاوندوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنی ڈیمانڈز بعض دفعہ اتنی زیادہ بڑھا لیتی ہیں کہ خاوند کو گھر میں خرچ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر دفعہ خاوند ہی صحیح ہوتے ہیں اور عورتیں ہی غلط ہوتی ہیں۔ عورتیں بھی صحیح ہوتی ہیں بعض جگہ۔ لیکن ان عورتوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ڈیمانڈز کرتی ہیں۔ تو اس سے ہر وقت گھروں میں لڑائی جھگڑا فساد تُو تکارہوتی رہتی ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ خاوند ان کے ناجائز مطالبات کی وجہ سے جب کبھی رستے سے اکھڑ جاتے ہیں ایسی صورت میں جب لڑائی ہو رہی ہو تُو تکار ہو رہی ہو تو وہ پھر ایسے خاوند بھی ہیں کہ بیویوں پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا خاوند اپنی بیویوں کے ان مطالبات کو ماننے کی وجہ سے، انہیں پورا کرنے کے لئے، قرض لینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سارا گھر ایک وبال میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ خاوند سے قرض خواہ جب قرض کا مطالبہ جب کرتے ہیں وہ ان سے ٹال مٹول کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک اور جھوٹ شروع ہو جاتا ہے اور جب وہ ادا نہیں کرتا تو پھر خاوند کی چڑ چڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بچوں پہ سختیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے ڈسٹرب ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو ایک شیطانی چکر ہے جو بعض ناجائز مطالبات کی وجہ سے، صبر کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے چل جاتا ہے۔ اور پھر یہ ہوتاہے کہ بچے ایک عمر کے بعد ایسے گھروں میں، گھر سے باہر سکون کی تلاش کرتے ہیں اور پھر ماں باپ کی تربیت سے بھی جاتے ہیں۔ پھر برائیاں پیدا ہونی شروع ہوتی ہیں اور جب ماں باپ کو ہوش آتی ہے تو اس وقت، وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ ایمان کی مضبوطی تبھی قائم ہو گی جب صبر کی عادت بھی ہو گی۔
پھر عاجزی ہے۔ یہ بھی ایمان کی طرف لے جانے والا ایک بڑا اہم قدم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عاجزی دکھاتے ہوئے جھکنا ہے اور اس کے بندوں سے بھی عاجزی سے پیش آنا ہے۔ جتنی زیادہ عاجزی ہو گی اتنا زیادہ انسان ایمان میں ترقی کرتا ہے۔ جس میں عاجزی نہیں اس میں ایک قسم کا تکبر ہے۔ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہے۔ دوسروں سے بڑا سمجھتا ہے۔ بعض عورتوں میں اپنے روپے پیسے دولت کی وجہ سے تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ مردوں میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت میں کیونکہ عورتوں سے مخاطب ہوں اس لئے عورتوں ہی سے کہہ رہا ہوں اور وہ دوسری عورتوں کو اپنے سے کمتر عورتوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتیں، کچھ نہیں سمجھتیں۔ بلکہ بعض دفعہ ایسا حقارت کا سلوک ہوتا ہے جیسے وہ بیچارے انسان ہی نہیں ہیں۔ چاہئے تو یہ کہ اگر تمہارے پاس روپیہ پیسہ،دولت آ گئی ہے، تمہارے حالات دوسرے سے بہتر ہیں تو اپنی بہن کے لئے دل میں ہمدردی پیدا کرو،۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھو۔ اس کے جذبات کا خیال رکھو۔ شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے سے بچو۔ صرف دکھاوے کے لئے اپنی بیٹی کا جہیز نہ بناؤ بلکہ ضرورت کے مطابق بناؤ۔ اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو جہیز لے کر جانے والی بچیاں ہی بعض دفعہ ظالم خاوندوں کے ہاتھوں یا ظالم سسرال کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل مانگنا چاہئے۔ صرف جہیز پر انحصار نہیں۔ دعاؤں کے ساتھ بچیوں کو رخصت کرنا چاہئے نہ کہ اپنی دولت اور لڑکی کے جہیز یا فلیٹ یا مکان جو اس کو دیا گیا ہے اس پر انحصار کرتے ہوئے، اس پر گھمنڈ کرتے ہوئے۔ کبھی کسی غریب یا اپنے سے کم پیسے والے کی بچی کی رخصتی کو تحقیر کی نظر سے کبھی نہ دیکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل شامل ہوں گے تبھی بچیاں بھی اپنے گھروں میں خوش رہیں گی،آباد رہیں گی۔ بہرحال ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہئے۔ ہمیشہ عاجزی دکھانی چاہئے اور ہمیشہ عاجزانہ دعائیں مانگنی چاہئیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ عاجزی دکھانے سے، غریب کے ساتھ گھلنے ملنے سے اس کی تکلیفوں کا احساس ہو گا اور جب تکلیفوں کا احساس ہو گا تو اس کی خاطر قربانی کاجذبہ ابھرے گا۔ اس سے ہمدردی کا جذبہ ابھرے گا۔ اس کی ضروریات کو پورا کرنے کا خیال پیدا ہو گا۔ تو اس جذبے سے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خاطر دل میں پیدا ہو گا ایمان میں بھی ترقی ہو گی اس لئے فرمایا کہ اپنے بھائی بندوں کی تکلیفوں کا احساس بھی دل میں پیدا کرو۔ اور جب دل میں پیدا کر لو تو اس کو دل میں ہی نہ رکھو بلکہ عملاً اس کی ضرورت بھی پوری کرنے کی کوشش کرو۔ یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بہتر حالت میں کر دیا ہے۔ پہلے کی نسبت مالی لحاظ سے بھی وہ اچھی حالت میں ہیں۔ اس لئے ضرورت مندوں کے لئے غریبوں کے لئے ان کو خرچ کرنا چاہئے۔ اگر یہاں ان کو ایسا کوئی نہیں ملتا جس کو دے سکیں،مدد کر سکیں تو جماعت میں ایسی مدّات ہیں۔ جماعت کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہئے۔ پھر بہتوں کے پاس زیور بھی ہیں ان پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو زکوٰۃ دینی چاہئے، زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے۔
یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے تحریک جدید یا وقف جدید کا چندہ دے دیا اب زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ زکوٰۃ بہرحال اپنی جگہ واجب ہے۔ اپنے ایمان میں مضبوطی کے لئے اپنے چندوں کو بھی بڑھائیں۔ یہ بھی ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
پھر فرمایا کہ مومنوں میں شامل ہونے کے لئے صائمات میں شامل ہونا بھی ضروری ہے۔ روزہ داروں میں شامل ہونا بھی ضرور ی ہے۔ اپنے آپ کو خدا کی خاطر جائز ضروریات سے روکنا بھی ضرور ی ہے۔ قربانی کی عادت اپنے اندر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ صائمات میں سب آجاتے ہیں۔ تاکہ خداتعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر سکو اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر سکو۔
پھر ایمان میں ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فروج کی حفاظت کرنے والیاں ہوں۔ اس کے مختلف پہلو ہیں۔ کان بھی فروج میں داخل ہے۔ آنکھ بھی فروج میں شامل ہے۔ منہ بھی فروج میں شامل ہے۔ اس طرح دوسری اخلاقی برائیاں ہیں جن سے بچنا اور اپنی حفاظت کرنا ہے۔ ایک احمدی عورت دوسری اخلاقی برائیوں میں تو ملوث نہیں ہوتی۔ الحمدللہ، پاک دامن ہیں لیکن صرف اس سے ایمان میں ترقی نہیں ہوتی۔ کوئی بھی شریف عورت کسی بھی مذہب کی یا لامذہب بھی ہو تب بھی انتہائی اخلاقی برائیوں سے بچنے والی ہوتی ہیں۔ کئی ہیں، بے شمار ہوں گی۔ تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کان آنکھ منہ کی بھی حفاظت کرو یہ بھی فروج میں داخل ہیں۔ ایک ایمان میں ترقی کرنے والی کو ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ کان کی حفاظت یہ ہے کہ غلط اور ایسی مجالس جن میں لغویات کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں نہ بیٹھو۔ عورتوں کو عادت ہوتی ہے کہ جہاں اکٹھی ہوئیں فوراً دوسروں کی ایسی باتیں جو ان کو ناپسند ہوں ان کے بارے میں کرنے لگ جاتی ہیں۔ یہ ایسی حرکت ہے جو بڑی گھٹیا حرکت کہلانی چاہئے۔ جب آپ خود پسند نہیں کرتیں کہ کوئی آپ کی پیٹھ پیچھے کوئی ایسی بات کرے جو آپ کی بدنامی کا باعث ہو تو پھر دوسروں کے بارے میں بھی یہی خیالات رکھنے چاہئیں،یہی سوچ رکھنی چاہئے۔ ایسی مجلسوں سے بچ کر آپ اس چغلی کی برائی سے اپنے کان اور منہ کو محفوظ کر لیں گی۔ پھر آنکھ کی حفاظت ہے اس میں ہر قسم کے فضول نظاروں سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ یہاں ٹی وی چینل پر بعض غلط قسم کے پروگرام،ننگے پروگرام آ رہے ہوتے ہیں ان کو دیکھنے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔ کیونکہ یہی پھر بڑی اخلاقی برائیوں کی طرف لے جانے والی چیزیں بن جاتی ہے۔ پھر پردہ ہے یہاں آ کر اس کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہیض اگر پاکستان میں، جو پاکستان سے آئی ہیں برقعہ پہنتی ہیں تو یہاں آ کربرقعہ پہننے میں کیا قباحت ہے، کیا روک ہے۔ ایسے خاوند بھی غلط کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہاں برقعہ معیوب ہے اور اگر برقعہ پہنا تو ہمارے ساتھ باہر نہ نکلو۔ ان کوبھی اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور آپ کو بھی اس بات کا سٹینڈ لینا چاہئے کہ یہ پردہ جو ہے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ایسے خاوندوں کو بھی، جیسا کہ مَیں نے کہا، خدا کا خوف کرنا چاہئے اور کیونکہ آپ پاکدامن ہیں، پاکباز ہیں، ایک احمدی عورت ہے، ایک مومن بننے کی کوشش کرنے والی عورت ہے آپ کو سٹینڈ لینا چاہئے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض عورتیں خود ہی خاوند نہ بھی کہہ رہے ہوں یا لڑکیاں خود ہی ایسی ہیں کہ اس احساس کمتری کی وجہ سے کہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں پردہ نہیں کرتیں یابرقعہ نہیں پہنتیں یا حجاب نہیں لیتیں۔ تو یہ بھی غلط ہے۔ لوگ تو تمہاری عزت کرتے ہیں اس وجہ سے کہ تم ایک محفوظ لباس میں ہو۔ مذاق تو اس وقت اڑے گا جب تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر رہی ہو گی۔ کیونکہ جب برقعہ اترتا ہے پھر اور جرأت پیدا ہوتی ہے تو جین اور قمیص پہننا شروع کر دیتی ہیں۔ تجربے میں آئی ہیں جو باتیں وہ بیان کر رہا ہوں۔ اور جین اورقمیص بھی ایسی جو کافی چست ہوں جسم کے ساتھ چمٹی ہوتی ہیں۔ پھر جین کے ساتھ کہتی ہیں کہ دوپٹے اور سکارف کا جوڑ نہیں ہے،حجاب کا جوڑ نہیں ہے اسے بھی اتار دو۔ جب سر ننگا ہوتا ہے تو پھر اور جرأت پیدا ہوتی ہے اور پھر جین کے ساتھ لمبی قمیص کی جگہ چھوٹی قمیص لے لیتی ہے۔ پھر اور جرأت ہوئی تو بلاؤز نے لے لی جس سے جسم کا ننگ بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔ اور جب یہاں تک پہنچ گئیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو پھر گمراہی ہے، گمراہی میں گر جاتی ہیں۔ پھر والدین روتے ہیں کہ ہماری بچیاں ہمارے قابو میں نہیں ہیں۔ تو جب قابو میں کرنے کا وقت تھا اس وقت تو قابو نہیں کیا گیا۔
یہ پردہ تو قرآن کا بنیادی حکم ہے۔ مختلف قوموں نے یعنی مسلمان ملکوں کی قومیں جو ہیں انہوں نے اس کے مختلف طریقے اپنی سہولت کے لئے بنائے ہوئے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کہا کرتے تھے کہ ترکی عورت کا پردہ سب سے اچھا ہے۔ برقعہ اور نقاب۔ اس میں عورت محفوظ بھی رہتی ہے کام بھی کر سکتی ہے۔ آزادی سے پھر بھی سکتی ہے اور پردے کا پردہ ہوتا ہے۔ ایک مبلغ نے مجھے بتایا وہ ترکوں میں تبلیغ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب میں تبلیغ کرتا ہوں تو ترک کہتے ہیں کہ ہم کونسا اسلام قبول کریں۔ تم ہمیں صحیح اسلام کی دعوت دے رہے ہو وہ اسلام قبول کریں یاجو تمہاری عورتیں ظاہر کرتی ہیں۔ اسلام میں تو حکم ہے کہ پردہ کرو اور پردہ نہیں کر رہی ہوتیں۔ کئی عورتیں ہماری واقف ہیں جو پردہ نہیں کرتیں۔ ایک دفعہ مَیں نے کہا تھا کہ دعوت الی اللہ کے لئے اپنا نمونہ دکھانا بھی ضروری ہے اور یہ اپنا نمونہ تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تو دیکھیں آپ کے نمونہ کی وجہ سے یہ جو مثال سامنے آئی ہے دوسروں کو اعتراض کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ اس سے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل نہ کرکے ایسی عورتیں اس حکم عدولی کی وجہ سے گناہگار ہو رہی ہیں بلکہ اس نمونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ اور اس طرح دوہرا گنا ہ سہیڑ رہی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرکے تم گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گی۔
پس ایک احمدی عورت جس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت اس لئے کی ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی ناپاکیوں سے بچائے اور انجام بخیر ہو اور انجام بخیر کی طرف قدم بڑھائے اس کو اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہو گا۔ اپنے لباس کا بھی خیال رکھنا ہو گا اور اپنے پردے کا بھی خیال رکھنا ہو گا،اپنی حرکات کا بھی خیال رکھنا ہو گا،اپنی گفتگو کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ ایک بچی نے مجھے پاکستان سے لکھا کہ اگر مَیں جین کے ساتھ لمبی قمیص پہن لوں تو کیا حرج ہے۔ اثر ہو رہا ہے نا۔ تو مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ جین کے ساتھ قمیص لمبی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی برائی نہیں ہے بشرطیکہ پردے کی تمام شرائط پوری ہوتی ہوں۔ لیکن مجھے یہ ڈر ہے، اس کو بھی مَیں نے یہی کہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ لمبی قمیص پھر چھوٹی قمیص میں اور پھر بلاؤز کی شکل میں نہ آ جائے کہیں۔ تو جو کام فیشن کے طور پر،یا دیکھا دیکھی کیا جاتا ہے ان میں پھر مزید زمانے کے مطابق ڈھلنے کی کوشش بھی شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر اور بھی قباحتیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر جب وقت آتا ہے محسوس ہوتی ہیں۔ اس لئے ان راستوں سے ہمیشہ بچنا چاہئے جہاں شیطان کے حملوں کا خطرہ ہو۔ آپ نے اور آپ کی نسلوں نے ایمان میں ترقی کرنی ہے اس لئے وہی راستے اختیار کریں جو زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف لے جا نے والے ہوں۔ اور ذاکرات بننے کی کوشش کریں، عابدات بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادات میں باقاعدہ ہوں۔ اپنی عبادات اعلیٰ معیار تک لے جانے والی ہوں اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی ہوں۔ اپنی نمازوں کو سنوار کو ادا کرنے والی بنیں۔ اپنی راتوں کو بھی عبادات سے سجائیں۔ اپنی نسلوں کو بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق عمل کرنے والا بنانے کی کوشش کریں تاکہ اس زمانے کے امام کی بیعت میں شامل ہونے کا جو مقصد ہے اس کو حاصل کرنے والی ہوں۔ بچیوں کو بھی جو جوانی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں یا پہنچ چکی ہیں مَیں یہی کہتا ہوں کہ تمہاری عزت اور تمہاری انفرادیت اور تمہارا وقار اور تمہارا احترام اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا اور نفسانیت کو چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ جہاں لوگ ابتلا میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا۔ خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے مثلاً غصے میں آ کر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں، فوجداریاں ہو جاتی ہیں۔ مگر اگر کسی کا ارادہ ہو تو بلااستصواب کتاب اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم کو دیکھے بغیر اس کے احکامات کو دیکھے بغیر اس کا کوئی عمل نہیں ہو گا کوئی اس کی حرکت نہیں ہو گی جو اس کے بغیر ہو۔ اس کے مطابق نہ ہو یعنی کوشش یہ ہو گی کہ مَیں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کروں۔
پھر فرمایا ‘’اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا۔ تویقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے فرمایا

وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن (الانعام:60)

سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا۔ بسا اوقات وہ اس جگہ مؤاخذہ میں پڑے گا۔ سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایا کہ ولی جومیرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں۔ سو جس قدر کوئی محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے۔ لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں۔ ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔ (الحدیث)۔

جو شخص میرے ولی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدرعالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہو گا‘‘۔
پھر فرمایا کہ: ’’لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں لیکن متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے۔ مصائب کی کوئی حد نہیں۔ انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے’‘یعنی بیماریاں آتی ہیں۔ ’’کہ ہزار ہا مصائب پیدا کرنے کو کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ رہتا ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایک جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہو اہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ10-9جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ سب کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنے اور اس زمانے میں جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان احکامات کو کھول کر ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے ان کے مطابق عمل کرنے والے بنائے اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو نیکیوں سے بھرپور اور خوشیوں سے بھرپور زندگیوں سے نوازے۔ اب دعا کر لیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں