حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی شفقتیں

مکرم مجید احمد سیالکوٹی صاحب کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن میں 19برس تک خدمت کی توفیق ملی۔

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں آپ رقمطراز ہیں کہ 1982ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اسلام آباد (پاکستان) کی کوٹھی بیت الفضل میں اچانک دل کے عارضہ سے بیمار ہوئے تو یہ عاجز اس وقت وہاں بطور مربی متعین تھا۔ حضور انور ؒ کی بیماری کی اطلاع ملنے پر ربوہ سے ناظر اعلیٰ حضرت مرزا منصور احمد صاحب، بعض افرادِ خاندان اسلام آباد پہنچ گئے۔ 9 اور10جون کی شب کو وفات کا سانحہ گذرا تو سارا ماحول سوگوار ہو گیا۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ اس مشکل وقت کو بڑی ہوش اورحوصلہ سے سنبھال رہے تھے۔ تجہیز و تکفین کے جملہ انتظامات اور جماعتوں کو اس نازک صورتحال سے باخبر رکھنا آپ ہی کا کارنامہ تھا۔ جب آپؒ جسدِ اطہر کے تابوت کو لے کر صبح سویرے ربوہ کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے فرمایا کہ تم تبرکات لے کر عصر تک ربوہ پہنچ جاؤ۔ یہ عاجز حسبِ ہدایت ربوہ پہنچ گیا اور انتخاب خلافت میں حصہ لینے کی سعادت پائی۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین کا عمل جاری تھا کہ اچانک میرا نام لے کر کہا گیا کہ قطعہ خاص میں آجاؤں۔ حضورؒ وہاں سراپا دعا، غم اور صبر کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ آپ نے میری دلجوئی کرتے ہوئے گلے لگایا اور فرمایا ’’تم نے بہت خدمت کی ہے‘‘۔ پھر مٹی ڈالنے کا کہا۔
1984ء میں آپ ؒہجرت کر کے لندن وارد ہوئے تو خاکسار کو بھی گلاسگو سے لندن میں یاد فرمایا اور خاکسار کے سپرد ڈاک کا کام ہوا۔ کام تھا کہ سمیٹے بھی نہ سمیٹا جاتا تھا۔ حضور انور تھے کہ ہر پہلو سے انتہائی تیز رفتار۔ ہم سب واقفین زندگی اورجماعت کے دوسرے کارکنان طفل مکتب تھے۔ لیکن آپ نے جو ہر شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے دین کا خوب کام لیا اور سب کو اپنی شفقتوںسے نوازا۔
آپ کو غلط تلفظ سے سخت کوفت ہوتی۔ ایک دو دفعہ مجھے بھی ایسا پکڑا کہ میں پانی پانی ہو گیا۔ آپؒ ہربات واضح ، معین اور صاف چاہتے۔ غیرواضح، مبہم بات، ادھورے پیغام اور غیر مصدقہ اطلاع دینے والے کو وقت کا ضائع کرنے والا گردانتے۔
آپ شفقت و محبت کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے جس کا فیضان عام تھا لیکن کارکنوں اور واقفین زندگی کیلئے تو سراپا رحمت تھے۔ اس عاجز کی چھوٹی بیٹی (جو MTA پر نظمیں پیش کرتی تھی) سے بہت پیار کرتے، اس کے ملبوسات کی ذمہ داری خود اٹھالی۔
میری اہلیہ جب پتے میں پتھری اور لبلبہ کے مرض میں مبتلا ہوئی تو کئی بار عیادت کا پیغام اور پھول بھجوائے۔ آپریشن کی کامیابی اور شفاء کا معجزہ ہم نے دیکھ لیا۔
ہم تقریباً چودہ سال ایسٹ لندن کے مشن ہاؤس ’’بیت الاحد‘‘ کی بالائی منزل کے دو کمروں میں رہائش پذیر رہے۔ رہائشگاہ تنگ اور خستہ ہوگئی اور ہم بیمار رہنے لگے تو ایک دن حضورؒ کی خدمت میں حقیقت حال لکھ کر تبدیلی رہائش کی درخواست کی۔ حضورؒ کی ہدایت پر اسی وقت اسلام آباد ٹلفورڈ میں گھر مل گیا۔ چند روز بعد عید کے دن حضورؒ اسلام آباد تشریف لائے تو میری درخواست پر گھر میں بھی تشریف لائے اور بے تکلفی سے معائنہ فرمایا۔ کچن سے خود ہی تیار شدہ اشیاء سے تھوڑا تھوڑا چکھ کر ہمیں خوش کر دیا۔ کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ زمانے گزر گئے اس کی کوئی مثال نہیں لاسکے۔ اب وہ آیا ہے تو زمانہ اس کی نظیر لانے سے عاجز آگیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں