حضرت رسائیدار خداداد خان صاحبؓ

روزنامہ الفضل ربوہ 28فروری 2012ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت رسائیدار خداداد خان صاحبؓ کا ذکرخیرشامل اشاعت ہے۔
حضرت خداداد خان صاحب ولد محترم پہلوان خان صاحب بلوچ قوم سے تعلق رکھتے تھے اور بھیرہ کے ایک نزدیکی گاؤں گھوگھیاٹ ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ آپ فوج میں ملازم تھے۔ آپ نے 1901ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم میں محفوظ ہے۔ جب وصیت کا آسمانی نظام جاری ہوا تو آپؓ اور آپ کی اہلیہ حضرت کرم بی بی صاحبہؓ نے السابقون الاوّلون میں جگہ پائی۔ آپؓ کا وصیت نمبر3 تھا۔
حضرت خداداد خان صاحبؓ مخلص اور جاں نثار احمدی تھے۔ حضرت اقدسؑ کی وفات پر آپ نے ظہورِ خلافت پر کامل یقین رکھتے ہوئے خلیفہ کے انتخاب کی خبر سے پیشتر ہی حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کے ہاتھ پر بیعت کا خط لکھ دیا جو بعد ازاں اخبار بدر میں بھی شائع ہوا۔ ازاں بعد ایک مضمون میں آپؓ نے وہ اشارے بیان فرمائے جن کے نتیجہ میں آپؓ کو یقین تھا کہ حضرت مولوی صاحبؓ ہی خلیفۃالمسیح منتخب ہوں گے۔ مثلاً قبل از خلافت حضرت مولوی صاحبؓ کی خدماتِ دین اور اعلیٰ اخلاق۔ پھر حضرت اقدسؑ کا صدر انجمن احمدیہ کے وقت حضرت خلیفۃالمسیح کو میر مجلس بنانا۔ نیز حضرت اقدس کا شعر:

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے

چند دیگر امور کے علاوہ ایک اہم بات جس کا مشاہدہ حضرت خداداد خان صاحبؓ نے بھی اپنی ذاتی زندگی میں کیا وہ قبولیتِ دعا تھی مثلاً آپؓ کی دوسری شادی کے بعد اولاد کا عطا ہونا اور غیرمتوقّع طور پر دفتری حالات میں پیش آمدہ تکالیف کا راحت سے بدل جانا۔
اپنے مضمون میں حضرت خداداد خان صاحبؓ نے مزید لکھا کہ جو دلائل حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے بارہ میں ہوسکتے ہیں، وہ سب حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ میں موجود ہیں۔ اور یہ نکتہ بھی بیان فرمایا کہ کبھی کوئی اپنی کوشش سے خلیفہ نہیں بن سکتا، یہ خدا کا کام ہے۔ زیادہ کتابیں لکھنے والا یا بڑا لیکچرار خلیفہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ پہلے زمانہ میں بڑے سے بڑا فاتح بھی خلیفہ نہ ہوا۔ خدا تعالیٰ دلوں کی صفائی اور حالت سے خوب واقف ہے۔ وہ کسی کی خواہش کا پابند نہیں ہے۔ جس کو لائق سمجھتا ہے یہ عہدہ دے دیتا ہے۔
فروری 1911ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے اپنے ایک خواب کی بِنا پر ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کے ذریعے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور فریضہ تبلیغ کو باحسن وجوہ ادا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں کئی بزرگوں سے استخارہ کروایا گیا اور بشارات کے نتیجے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اجازت سے ایک انجمن ’’انصاراللہ‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ازراہ شفقت فرمایا: ’’مَیں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں‘‘۔ حضرت میاں خدا داد خان صاحبؓ کا نام اس انجمن کی ابتدائی فہرست میں آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔
آپؓ اپنی ملازمت کے سلسلے میں کراچی بھی رہے۔ 1909-10ء میں آپ جماعت احمدیہ کراچی کے سیکرٹری تھے۔ 1920ء تک آپ قادیان کے محلہ دارالفضل میں رہائش پذیر ہوچکے تھے۔
حضرت خدا داد خان صاحبؓ نے دو شادیاں کیں۔ آپؓ کی اہلیہ اوّل حضرت کرم بی بی صاحبہ 1887ء میں پیدا ہوئیں اور 27جنوری 1965ء کو حیدرآباد سندھ میں وفات پاکر بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں دفن ہوئیں۔ دوسری بیوی محترمہ عمری بیگم صاحبہ (جن سے شادی کی اجازت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پہلی بیوی سے حسن سلوک میں کمی نہ آنے کی شرط پر عنایت فرمائی تھی) 17اکتوبر 1918ء کو بعمر تقریباً 38سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
حضرت خدا داد خان صاحبؓ نے یکم نومبر 1928ء کو ساہیوال کے گاؤں عارف والہ میں وفات پائی۔ نعش قادیان لائی گئی جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مقبرہ بہشتی میں تدفین ہوئی۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے محترم سردار عطاء اللہ خان صاحب اور محترم سردار سیف اللہ خان صاحب اور ایک بیٹی محترمہ زینب بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر مرزا عبدالرؤف صاحب (ابن حضرت مرزا عبدالکریم صاحبؓ چٹھی مسیح) شامل تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں