حضرت سیدہ چھوٹی آپاؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2جولائی 2008ء میں محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر کے قلم سے حضرت سیدہ چھوٹی آپاؒ کے بعض اخلاق حسنہ بیان کئے گئے ہیں۔
٭ حضرت چھوٹی آپا کو جن خدمات کی توفیق ملی ان میں سر فہرست وہ قلمی کام ہے جو حضر ت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں آپ نے کیا۔بتاتی تھیں کہ شادی کے شاید پہلے دوسرے د ن ہی حضرت مصلح موعود نے مجھے کوئی چھوٹی سی بات لکھوانے کے لئے قلم دیا اور پھر مجھے قلم تھما ہی دیا۔ حضورؓ کے الہامات، تقاریر کے نوٹس، نظمیں، خطوط کے جوابات، مضامین، طبی نسخے، عطر کے نسخے اور حساب کتاب بہت کثرت سے آپ نے لکھے۔ حضور کی بیماری میں تو عملاً پرائیویٹ سیکرٹری کے کام کا بہت سا حصہ آپ کے ہاتھوں ہوتا تھا۔ تفسیر صغیر کا عظیم الشان ترجمہ حضورؓ نے آپ کو ہی لکھوایا۔
٭ چھوٹی آپا کی ایک نمایاں خوبی احمدی خواتین اور بچیوں کیلئے مادرانہ شفقت کا انداز تھا۔ غریب امیر کا فرق نہ تھا۔ ہر ایک کی شادی میں شامل ہوتیں، مریض کی عیادت کرتیں، ولادت پر مبارکباد دیتیں، خوشی کے مواقع پر گھر والوں کو تحفہ دیتیں،کبھی اپنے ہاتھ سے نومولود بچوں کے لئے سویٹر بن کر پیش کرتیں، غمی کے مواقع پر گھروں میں جا کر دلجوئی کرتیں۔ کئی مواقع پر زچہ کی نگہداشت کیلئے کئی کئی دن ہسپتال جاکر رہتیں۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ کو قرآن مجید سے عشق تھا۔ یہ عشق حضرت چھوٹی آپا کو بھی ملا۔ خود قرآن کے نو ٹس لیتی تھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ترجمہ کلاس اور درس القرآن M.T.Aپر باقاعدہ اور بڑے اہتمام سے سنتیں اور قرآن شریف ہاتھ میں ہوتا۔ پہلے ہر رمضان میں گھر پر قرآن مجید کا درس دیتی رہیں جب حضورؒ کا درس M.T.A پر آنے لگا تو خود درس دینا بند کردیا۔ قرآن مجید کا جو نسخہ زیراستعمال رہا اس میں دودو سو صفحات کے فاصلہ سے آیات پر Crossریفرنس ہے۔ حضرت مصلح موعو دنے ان کو پڑھانے کے لئے قرآن شریف کے درس کا سلسلہ شروع فرمایا تھا ۔ بعض واقفین زندگی نے بھی اس میں شامل ہونے کی خواہش کی تو حضورؓ نے اوپر کمرہ میں یہ درس جاری کر دیا اور واقفین مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھ کر درس میں شامل ہوتے۔ ربوہ میں چھوٹی آپا صبح سویرے لڑکیوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کر دیتی تھیں۔
٭ آپ میں غیر معمولی صبر و ضبط کی صفت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات دل ہلا دینے والا صدمہ تھی مگر انتہائی صبر و سکون کے ساتھ اس کو برداشت کیا۔ سفر میں گرمی دھوپ پیاس پر دوسرے لوگ تکلیف کا اظہار کرتے مگر آپ کی زبان پر کبھی شکایت کا حرف نہ آتا۔ گھٹنے کی تبدیلی، پتہ نکالنے اور پیٹ کے آپریشن ہوئے۔ ان کے صبر وضبط نفس کا عینی شاہد ہوں۔
٭ چھوٹی آپا کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ رات گئے تک مطالعہ کرتی تھیں۔ مگر نمازوں میں ناغہ کا کوئی تصور نہ تھا ۔ الحاح کے ساتھ اوّل وقت میں نماز اد اکرتی تھیں۔ گھٹنوں میں شدید درد کی تکلیف تھی مگر نماز میں تساہل کا کوئی سوال نہ تھا۔ اور روزہ کی پابندی تو اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایک سال ہم نے ڈاکٹری ہدایت دلوائی کہ روزہ رکھنا مناسب نہیں ۔
٭ حضرت چھوٹی آپا کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جب قادیان سے ہجرت کا سفر کیا تو آپ حضورؓ کے ساتھ شریک سفر تھیں ۔
٭ ایک سعادت جو سالہا سال تک آپ کو حاصل رہی وہ حضرت اماں جانؓ کی خدمت اور معیت تھی۔ قادیان میں حضرت اماں جانؓ کے گھر کے جملہ انتظامات آپ کے پاس تھے اور یہ خدمت ربوہ میں بھی جاری رہی۔ حضرت مصلح موعود کی وفات کے بعد جب حضرت چھوٹی آپا پہلی دفعہ حضورؓ کے مزار پر دعا کے لئے گئیں تو بی بی متین اور خاکسار بھی ہمراہ تھے۔ چھوٹی آپا نے دعاکے لئے ہاتھ اٹھائے مگر دو ایک منٹ کے بعد وہاں سے ہٹ کر حضرت اماں جانؓ کے مزار کے سامنے کھڑی ہوئیں اور لمبی دعا کرکے پھر حضورؓ کے مزار پر واپس جاکر دعا کی۔ بعد میں بتایا کہ جب میں نے حضورؓ کے مزار پر دعا شروع کی تو ایسا محسوس ہوا کہ حضورؓ نے سامنے آ کر گھور کر مجھے دیکھا کہ ساری عمر تو میں یہ سبق دیتا رہا ہوں کہ پہلے اماں جانؓ کا خیال رکھنا ہے اور پھر اس کے بعد میرا۔ مگر تم ان کے مزار پر دعا سے پہلے میرے مزار پر دعا کر رہی ہو۔
٭ کئی بار چھوٹی آپا نے یہ ذکر کیا کہ حضورؓ فرماتے تھے کہ تمہاری یہ بات مجھے بہت پسند ہے تم میرے بچوں سے محبت کرتی ہو اور ان سے شفقت کرتی ہو۔
٭ حضرت چھوٹی آپا کو خلافت احمدیہ کی اطاعت اور ادب و احترام میں حد درجہ بلند مقام حاصل تھا۔ خود بھی دربار خلافت کے ہر حکم کو شرح صدر کے ساتھ ماننا اپنی سعادت سمجھتی تھیں بلکہ یہی ہمیں سکھاتیں اور ایسا ماحول قائم کرتی تھیں جس سے یہ روح زندہ رہے ۔ میں نے ان کو ہمیشہ خلافت کا وفادار فدائی پایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں