حضرت سید عزیز الرحمن صاحب ؓ اور حضرت محمدی بیگم صاحبہؓ

ماہنامہ‘‘النور’’امریکہ مارچ 2012ء میں حضرت سید عزیزالرحمن صاحبؓ کے بارہ میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں افرادِ امریکہ کے تحت حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ اور حضرت محمدی بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے نام درج ہیں۔ یہ دونوں بزرگ کبھی امریکہ نہیں آئے لیکن ان کے ایک بیٹے مکرم سید عبدالرحمن صاحب 1920ء میں امریکہ آئے اور انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی کرکے ان کو تحریک جدید کے دفتر اوّل کا حصہ بنادیا۔
حضرت سید عزیز الرحمن صاحبؓ ولد سید حبیب الرحمن صاحب بریلی کے رہنے والے تھے لیکن کپورتھلہ میں مہاراجہ کے ہاں ملازم تھے۔ وہیں 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے کی توفیق پائی۔ 1901 ء میں آپؓ بریلی آئے جو اُس وقت مخالفینِ احمدیت کا گڑھ تھا اور جہاں احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اُس کٹھن دَور میں یہ خاندان بڑی استقامت سے احمدیت پر قائم رہا۔ آپؓ اُن حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانی، بھنگی تک بندکرایا گیا، گھر پر اینٹیں برسائی گئیں۔ میں نے گھر میں ایک بہت بڑا گڑھا کھود لیا تھا ہم سب وہاں رفع حاجت کرلیا کرتے تھے۔ چھوٹے بچے جب پانی سے بیتاب ہوکر بلکتے تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ میں صبر کرتا۔ رات کو پانی لانے کی کوشش کرتا لیکن مولویوں نے اپنے گرگے لگا رکھے تھے جو سختی سے پہرہ دیتے اور میرے گھڑے کو پھوڑ ڈالتے۔
ان مصائب کی شدّت کی وجہ سے آپؓ کا خاندان حضورؑ کی زندگی میں ہی ہجرت کر کے قادیان آگیا۔ اس مخالفت میں پہلے تو خود آپؓ کے والد محترم سید حبیب الرحمن صاحب بھی شامل تھے اور انہوں نے آپؓ کو عاق بھی کردیا تھا لیکن حضورؑ کی دعاؤں سے جلد وہ بھی احمدی ہوگئے اور اسی حالت میں وفات پائی۔
حضرت سید صاحب فرماتے ہیں: مخالفت کی شدّت میں احمدیوں نے مجھے بہت تسلی دی اور مبارکباد بھی دی۔ مگر میرے دل میں ایک گھبراہٹ تھی۔ میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضورؑ اس وقت ٹہلتے جاتے تھے اور ساتھ ہی لکھتے جاتے تھے۔ مجھے حضورؑنے فرمایا: بیٹھ جاؤ! وہاں کئی پلنگ رکھے تھے۔ مَیں ایک پلنگ پر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا اور حضور پائینتی کی طرف آکر بیٹھ گئے، مَیں اٹھنے لگا تو حضور نے فرمایا وہیں بیٹھے رہو۔ تب مَیں بیٹھ گیا اور میں نے عرض کی کہ حضور میرے والد نے مجھے عاق کردیا ہے اور حضور کو بھی سخت سست کہتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا: وہ مجھے جو کچھ بھی کہتے ہیں کہیں مگر تم پر ان کی تابعداری فرض ہے۔ مَیں یہ سُن کر بہت ڈرا اور اپنے والد صاحب سے جاکر صلح کرلی۔ اس کے بعد وہ اپنے پوتے محمد عبداللہ کی پیدائش کی خوشی میں کپورتھلہ آئے تو مَیں نے ان کے دائیں بائیں حضور کی کتابیں رکھ دیں اور اُن کو مخالفین کی صحبت سے بچایا۔ ایک دن صبح کو وہ فرمانے لگے کہ مَیں قادیان کو جاتا ہوں میں نے کہا کہ مجھے تنخواہ مل جائے تو آپ جائیں، فرمانے لگے میری جیب میں ایک دُوَنی ہے مَیں اسی سے سفر کرلوں گا کیونکہ میں نے گناہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ کپورتھلہ سے قادیان تک پیدل ہی آئے اور بیعت کرکے پیدل ہی گئے۔ الحکم 24؍جولائی 1901ء میں بیعت کنندگان کی فہرست میں حضرت حبیب الرحمن صاحبؓ (بریلی) کا نام شامل ہے۔ جب انہوں نے مئی 1906ء میں وفات پائی تو حضرت مسیح موعود ؑنے ان کا جنازہ غائب مسجد اقصیٰ میں پڑھایا۔
حضرت سید عزیزالرحمن صاحب ؓکی چند منتخب روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
٭… میرا ایک لڑکا کافی بڑا ہوگیا تھا اور وہ کھیلتا پھرتا تھا مگر مَیں نے اس کانام نہیں رکھا، میری نیت یہ تھی کہ مَیں اسے قادیان لے کر جاؤں گا اور حضرت صاحب سے نام رکھواؤں گا۔ اُن دنوں صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ کی تازہ شہادت ہوئی تھی۔ حضورؑ کی مجلس میں صاحبزادہ صاحبؓ کا ہی ذکر ہورہا تھا کہ نیّر صاحب نے یہ کہہ کر بچہ پیش کیا کہ حضور! یہ سید عزیزالرحمن صاحب کا بچہ ہے حضور اس کا نام تجویز فرمائیں۔ حضورؑ نے اُس محبت کی وجہ سے جو حضورؑ کو شہید مرحوم سے تھی فرمایا کہ اس کا نام عبداللطیف رکھ دو۔ مَیں اس کو شہید کہہ کر پکارتا تھا، اس کی ماں اس بات پر چیںبجبیں ہوتی تھی، خدا کی قدرت کچھ عرصہ بعد اس کا ہیضہ سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت حضورؑ کی خدمت میں عرض کی گئی کہ اسے مقبرہ بہشتی میں دفن کیا جائے؟ مگر حضورؑ نے فرمایا کہ دوسرے قبرستان میں دفن کردو، وہ لڑکا شہید ہے۔ اس طرح حضورؑ کے منہ کے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہوئے۔
٭… ایک دفعہ مَیں حضرت صاحبؑ کے ساتھ (ایک مقدمہ کے دوران) دھاریوال گیا۔ لوگ حضرت صاحبؑ کے دیکھنے کے اس قدر شائق تھے کہ اس دن کارخانہ بند ہوگیا تھا اور اردگرد کے دیہات سے لوگ بھی حضورؑ کو دیکھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے جمعہ پڑھایا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی آئے ہوئے تھے، اُن کے پیچھے جمعہ پڑھنے والے صرف بارہ آدمی تھے۔ انگریز مرد اور عورتیںبھی آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اور ہجوم کی طرف سے زیارت کروانے کی درخواست پر حضورؑ نہر کے پل پر کھڑے ہوگئے اور اس طرح تمام خلقت نے زیارت کی۔
٭… ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنینؓ کی بالیاں حضرت اقدسؑ نے منشی اروڑے خان صاحبؓ کو بننے کے لیے دیں۔ وہ جب قادیان آنے لگے تو میری بیوی نے میری اجازت سے اپنی سونے کی آرسی بھی منشی صاحب کو دے دی۔ اور وہ لے کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے آرسی دیکھ کر اسے اٹھا لیا اور فرمایا یہ کیا چیز ہے؟ منشی صاحبؓ نے عرض کیا کہ یہ عزیزالرحمن کی بیوی نے نذرانہ بھیجی ہے اور یہ ایک زیور ہے جو عورتیں پہنا کرتی ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:’’عورت زیور پر اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے مگر اس عورت کاایمان کس قدر زبردست ہے کہ اس نے زیور سی چیز اپنے سے جدا کر دی‘‘۔
٭ ایک دفعہ سیر کے دوران مولوی مبارک علی صاحبؓ سیالکوٹی نے ایک نظم سنانے کے لیے اجازت چاہی تو حضورؑ نے فرمایا: ’’ہم تو چاہتے ہیں کہ لاہور بھر کی آوازیں یہاں آئیں‘‘۔ پھر ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ عید اور جلسے کے موقع پر اللہ اکبر کی آواز سے ارد گرد کا علاقہ گونج جاتا ہے۔
٭… ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑکے خاندان کے ایک شخص نے جو مخالف تھا ہمارے کچھ گڈے مع سامان چھین لیے اور گالیاں بھی دیں، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ (نانا جان) کو اس پر بڑا غصہ آیا اور غصے کی حالت میں حضرت اقدس ؑکے حضور گئے اور سارا واقعہ بتلایا اور عرض کی کہ ہم ان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ حضرت اقدسؑ اس وقت ایک خط ملاحظہ فرما رہے تھے جو بیرنگ آیا تھا وہ گالیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ خط حضور نے میر صاحب کو دکھایا اور فرمایا کہ ’’لوگ ہم کو لفافے بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں (چونکہ وہ لفافے بیرنگ ہوتے تھے) اور ہم محصول ادا کرکے گالیاں مول لیتے ہیں آپ سے بغیر پیسے کے بھی گالیاں نہیں لی جاتیں‘‘۔ اس طرح سے حضرت میر صاحب کا بھی غصہ جاتا رہا اور حضورؑ کے بلند اخلاق بھی ظاہر ہوئے۔
٭… حضرت اقدس ؑنے ایک دفعہ منشی اروڑے خان صاحب کو ایک کارڈ لکھا اس میں یہ تحریر فرمایا کہ تہجد کے نفلوں میں

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ

کی تکرار کرنے سے قلب منور ہوتا ہے۔
٭… ایک بار حضرت اُمّ المومنینؓ نے صوفی تصور حسین صاحبؓ کی بیوی کو بارہ کرتے سینے کے لیے دیے تو میری بیوی نے کہا کہ مجھے بھی بارہ کرتے سینے کو دو۔ اِس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت اقدسؑ اندر سے تشریف لائے اور تنازعہ سن کر فرمایا کہ ان کو نصف نصف دیدو چنانچہ دونوں کو نصف نصف دے دیے گئے اور فیصلہ ہو گیا۔
٭… میاں عبداللہ حلوائی کی دکان کے ساتھ ہی ایک دکان میں میاں عمرالدین دودھ بیچا کرتا تھا۔ عمرالدین نے دودھ کے علاوہ مٹھائی بھی بنانی شروع کردی، اس پر ان دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ حضرتؑ کو جب علم ہوا تو حضورؑ نے فرمایا کہ عمرالدین سے کہو کہ آج سے کبھی مٹھائی نہ بنانا صرف دودھ بیچنا اور عبداللہ کو کہو کہ صرف مٹھائی بنانا اور دودھ نہ بیچنا۔ ایک منٹ میں دونوں کا فیصلہ ہوگیا۔
٭… پیلی بھیت (یوپی) میں ایک میجر ہنسی رہتے تھے۔ وہ کرنل ہوکر پنشنر ہوئے۔ مَیں نے اُن کے نام ریویو آف ریلیجنز جاری کرایا تھا، میرا بھائی سید یامین شاہ اُن کے پاس ملازم تھا۔ میں اُس کے پاس ملنے گیا۔ میجر صاحب کا ایک عزیز آنے والا تھا جس کے لیے انہوں نے دوسری کوٹھی لے کر سجائی تھی۔انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اس کوٹھی میں ٹھہریں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں غریب آدمی ہوں اگر میری چارپائی اصطبل میں بھی ڈال دی جائے تو مَیں سو رہوں گا، آپ اپنے عزیز کا حرج نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں مجھے تم سے بڑی محبت ہے، مَیں مسیح ناصری اور تمہارے مسیح کو ایک سمجھتا ہوں ذرا فرق نہیں سمجھتا۔ پھر انہوں نے حضرت صاحب کو ایک چٹھی لکھی اور سیبوں کا پارسل بھیجا۔ اور کہا کہ مَیں شراب اور سؤر سے ہمیشہ نفرت رکھتا ہوں۔
٭… ایک دفعہ میرے تایازاد بھائی سید فیروز شاہ صاحب قادیان آئے، وہ قاری بھی تھے اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن شریف سنایا۔ آپؑ سن کر بہت خوش ہوئے۔ پھر اُنہوں نے عرض کی کہ مَیں چاہتا ہوں کہ رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھ لوں۔ آپؑ نے فرمایا:’’ہر مومن کی یہ خواہش ہوتی ہے اور ہر دل میں یہ خواہش ہونی چاہیے مگر کفار مکہ تو دن رات دیکھتے رہتے تھے انہوں نے کیا فائدہ اُٹھایا جو آپ اُٹھالیں گے؟ تقویٰ اختیار کرو اور تبدیلی پیدا کرو، خدا سب کچھ دکھا دے گا۔‘‘
٭… ایک دفعہ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’میری صحبت میں اگر کوئی شخص، لڑکا ہو یا طالب علم آکر رہے۔ پھر اگر اس کو مشرق و مغرب کے علماء مل کر پھیرنا چاہیں تو وہ نہیں پھِر سکتا‘‘۔ اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ واقعی ایسا ہوا۔
٭… اِنّی مھینٌ مَن اَرَادَ اِھانَتک کے الہام کو مَیں نے مختلف رنگوں میں پورا ہوتا دیکھا ہے۔ ایک مولوی صاحب رئیس آدمی تھے، میں دہلی کی جامع مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ کسی نے اُن سے کہہ دیا کہ عزیز الرحمن مرزائی ہوگیا ہے، اُنہوں نے بڑی تبرّہ بازی کی۔ مَیں نے اُن کو کہا کہ مولوی صاحب میں مباحثہ کرنا نہیں چاہتا مگر میں یہ جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کے خلاف کہنے والا عذاب کی موت مرتا ہے۔ خدا کی قدرت رات کو ہی ان پر فالج گرا اور صبح کو فوت ہوگئے۔ وہاں رئیسوں کا قبرستان الگ ہے۔ وہاں ان کو دفن کرنے لے گئے۔ ابھی قبر کُھد ہی رہی تھی کہ بدمعاشوں کی ایک ٹولی نے آکر اُن کے جنازے پر لاٹھیاں برسائیں کہ ہم اس وہابی کو اس جگہ دفن نہیں ہونے دیں گے۔ یہ 1898ء کا واقعہ ہے۔
٭… ایک دفعہ ایک ہمارے ایک عزیز نے لفظ توفّی پر بڑا شور کیا اور کہا کہ اس کے معنے ہیں اُٹھا لینا اور بھر لینا۔ میں نے ایک دن ایک اشٹام منگواکر اُس سے کہا کہ ایک بیوہ عورت کی جائداد کا کرایہ نامہ لکھ دیجیے۔ اُس نے اس کے خاوند کے نام کے ساتھ متوفّی لکھ کر کرایہ نامہ لکھ دیا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ اب تو تم نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ خدا نے اُسے اُٹھالیا یا بھرلیا! اس پر وہ بڑا گھبرایا اور کاغذ مجھ سے لینا چاہا مگر میں نے کہا کہ اب تو آپ قابو آگئے۔
٭… حضرت سید عزیز الرحمن صاحبؓ ایک پُرجوش اور نڈر داعی الی اللہ تھے۔ بریلی میں لوگوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود آپ تبلیغ کرنے سے باز نہ آتے۔
آپؓ بیان کرتے ہیں: بریلی میں میری مخالفت کی یہ حالت تھی کہ مَیں جدھر جاتا اُدھر سے لوگ شور مچاتے وہ شیطان جاتا ہے، وہ خبیث جاتا ہے۔ مَیں جب نکلتا تو بغل میں سلسلہ کے اشتہار دبا لیا کرتا اور ہاتھ میں پنسل لے کر اُسے چاقو سے بناتا جاتا، اشتہار کسی کے ہاتھ میں نہ دیتا بلکہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھینکتا جاتا، دشمن اُٹھا لیتے اور پڑھتے مگر گالیاں بھی دیتے لیکن میرے قریب نہیں آتے تھے۔
ایک شخص نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ بریلی شہر ہے آپ یہاں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ مَیں نے عرض کی کہ رسول خدا ﷺ کے صحابہ نے اپنے خونوں سے اسلام کے باغ کی آبپاشی کی ہے تب ہندوستان تک اسلام پہنچا ہے اور مجھے آپ روکتے ہیں!
تبلیغ کرنے میں آپ حضرت اقدس ؑکے بیان فرمودہ نسخے کو بھی خوب آزماتے۔ آپ بیان کرتے ہیں: ایک شخص عبداللہ عرب سے آیا اور اُس نے کہا کہ اگر مَیں عرب میں تبلیغ کروں گاتو لوگ مجھے مار ڈالیں گے۔ آپؑ نے فرمایا: ’’ہماری کتابیں گلیوں، کوچوں اور مسجدوں میں ڈال دو‘‘۔ مجھے یہ نسخہ ہاتھ آگیا۔ مَیں نے چپکے چپکے بریلی اور منصوری میں اس کو استعمال کیا مجھ سے پہلے ان دونوں شہروں میں کوئی احمدی نہ تھا، اس طرح خوب ترقی ہوئی۔
کوہِ منصوری بھارت کا ایک صحت افزا مقام ہے۔ ریاست کپورتھلہ کا ایک محل منصوری میں بھی تھا۔ گرمیوں میں مہاراجہ صاحب اپنے سٹاف کے ساتھ منصوری چلے جاتے۔ حضرت سید صاحب کی تبلیغ احمدیت کا جوش یہاں بھی گرم رہا اور آپ کی تبلیغ سے ہی یہاں سب سے پہلے مکرم میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب اور ان کے بڑے بھائی مکرم میاں محمد یٰسین صاحب احمدیت میں داخل ہوئے۔ ’’مباحثہ منصوری‘‘ 1909ء میں آپؓ کے قیام کے دوران آپؓ کی ہی کوششوں سے ہوا۔ مکرم محمد یامین تاجر صاحب آپؓ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ: منشی عزیزالرحمان صاحب کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ حقہ احمدیہ کے واسطے ایک سچا جوش عطا کیا ہے جہاں تک اُن سے ہوسکتا ہے تبلیغ کا کام برابر جاری رکھتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈر کر سب کو حق پہنچاتے ہیں، قادیان سے کتابیں بالخصوص ریویو کی انگریزی اور اردو کاپیاں منگوا کر یہاں کے رہنے والے معزز لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ دو تین سال سے اُن کے اہل وعیال قادیان میں ہی رہتے ہیں اور منشی صاحب موصوف ہر سال دو تین ماہ کی رخصت حاصل کرکے قادیان میں گزارتے ہیں۔…جس اخلاص اور محبت اور جوش کے ساتھ انہوں نے مباحثہ منصوری میں جو خدمت دین کی ہے وہ دیکھنے والوں کو اُن کے واسطے دلی جوش سے دعا پر آمادہ کرتی ہے۔
1915ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مدراس کے سفر پر تشریف لے گئے راستہ میں مختلف جگہوں پر تبلیغی اغراض سے قیام کیا، ضلع بدایوں اور متھرا وغیرہ کے بارہ میں آپؓ لکھتے ہیں: یہ حصہ ملک کا احمدیت کے حالات سے بکلی ناواقف ہے۔ اگر منشی عزیزالرحمن صاحب جیسے کوئی مستعد آدمی (جن کی کوشش سے بریلی اور منصوری میں جماعتیں بن گئی ہیں) کچھ عرصہ کے لیے متھرا میں دکان کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیت اور کام میں برکات نازل فرماوے۔
حضرت سید صاحبؓ سے ایک سوال کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی ادا پیاری لگی؟ آپؓ نے فرمایا: ’’ہر ایک شخص یہی خیال کرتا تھا کہ حضور مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، حضور کی محبت کی یہ شان مجھے بہت پیاری لگتی اور حضور کا پگڑی باندھنا اور پگڑی کے پیچ مجھے بہت ہی بھاتے۔‘‘
آپؓ نے قادیان میں مقیم اپنے داماد حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ کی یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ قادیان کے حالات باقاعدگی سے مجھے لکھتے رہا کرو۔
اکثر لوگ آپؓ کے ایام ملازمت میں آپؓ کو میرزا جی کہنے لگے تھے۔ آپؓ کے بھائی ہمیشہ ناراض ہوتے کہ تم میرزا جی کہنے پر مت بولا کرو مگر آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اس سے بڑی مسرت اور خوشی ہوتی ہے۔
٭… حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں: حضرت سید عزیزالرحمن صاحبؓ مہاراجہ کپورتھلہ کے معتمدین اور پرسنل سٹاف میں سے تھے لیکن ان کی نیکی و ایمانداری کا ہر چھوٹا بڑا قائل تھا۔ مہاراجہ کے محلات میں تو ایک خفیف انسان تھے اور ان کو بعض اوقات بڑے بڑے امتحانات پیش آئے مگر یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ حضرت یوسفؑ کی طرح عفیف رہے۔
٭… کپورتھلہ کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بقیہ عمر آپؓ نے قادیان میں گزاری جہاں آپ کے بیوی بچے پہلے ہی ہجرت کرکے آچکے تھے۔ رہائش محلہ دارالفضل میں تھی۔ ذریعہ معاش کے طور پر کسی معمولی سے معمولی کام کو بھی عار نہ سمجھا۔ کبھی ہوٹل کھولااورکبھی دودھ کی دکان کی اور یہ سب کام آپ نے اس لیے کیے کہ کسی طرح قادیان میں رہنے کی توفیق ملی رہے۔
ملکانہ میں ارتداد کے زمانہ میں آپ نے بھی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے انسدادِ فتنۂ ارتداد کے لیے کئی ایام میدان عمل میں گزارے۔
آپؓ ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ وصیت نمبر 280 تھا۔ 17جولائی 1936ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔
آپؓ کی اہلیہ حضرت محمدی بیگم صاحبہؓ بھی نہایت مخلص اور دیندار عورت تھیں۔ اپنے خاوند کی بیعت کے بعد جلد آپ بھی احمدیت سے وابستہ ہوگئیں اور احمدیت قبول کرنے کے بعد تقویٰ و طہارت میں بہت ترقی کی۔ اپنے بچوں کو احسن رنگ میں تربیت دی۔ مخالفتِ احمدیت کے پُرمصائب دَور میں آپ اپنے بچوں کے ہمراہ تنہا ایسے کٹھن مراحل کا مقابلہ کرتی رہیں۔
آپؓ کی بیٹی حضرت سیدہ نصرت بانو صاحبہ بیان کرتی ہیں: گھر میں بیعت کی اوّلیت کا شرف والد صاحب کو اور ہجرت کا والدہ صاحبہ کو تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے پر تمام لوگ والدین کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے حتّٰی کہ والدین کے اعزّہ و اقارب بھی۔گیارہ مولویوں کا فتویٰ ہمارے دروازہ پر لگا دیا گیا کہ یہ لوگ بے دین ہو گئے ہیں اس لیے ان کا مقاطعہ کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں کسی فقیر کا خیرات لینا بھی اتنا بڑا گناہ ہے جیسا کہ اپنی ماں بہن سے برا کام کرنا۔ غرضیکہ سقّے، بھنگی اور آٹا پیسنے والی نے کام ترک کر دیا اور دھوبی معذرت کر کے چلاگیا۔ والد صاحب اُن دنوں ریاست کپورتھلہ میں بطور منشی ملازم تھے۔ والدہ صاحبہ بچوں کے ہمراہ تنہا تھیں سو سب سے زیادہ دقت پانی کی ہوئی اس لیے ہندو عورتیں آب رسانی کے لیے مقرر کی گئیں جن کو لوہے اور تانبے کے گاگر خرید کر دیے گئے کیونکہ مٹی کے گھڑے اول تو وہ چُھوتی نہ تھیں نیز ان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ تھا مگر یہ انتظام بھی بیکارکر دیا گیا کیونکہ غیراحمدی مسلمانوں نے گائے کے گوشت کے ٹکڑے کنویں پر رکھنے شروع کر دیے اس لیے والدہ صاحبہ کو خود اپنی بچیوں کے ہمراہ آدھی رات کو پانی بھرنا پڑتا۔ والدہ صاحبہ بہت باہمت خاتون تھیں۔ آپؓ نے تنہا بچوں سمیت قادیان ہجرت کرلی۔ آپؓ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاں آمدو رفت رکھتی تھیں۔ حضورؑ آپ کی بہت عزت کرتے اور سیدانی کہہ کر مخاطب ہوتے۔ جب دیر سے جاتیں تو وجہ پوچھتے، بچوں کا حال دریافت فرماتے۔
حضرت محمدی بیگم صاحبہؓ سلسلہ کی مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ احمدیت کے آغاز میں ہی جبکہ جماعت کے مستقبل کے لیے بنیادی ضروریات کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی، آپ نے آئندہ نسلوں کے لیے قابل تقلید مثالیں پیدا کیں۔ چنانچہ مدرسہ تعلیم الاسلام کا جب آغاز ہوا تو حضور علیہ السلام کی طرف سے اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کے لیے اشتہار شائع ہوئے جس پر حضرت محمدی بیگم صاحبہ نے عظیم اخلاص کا نمونہ دکھایا اور اپنی 20عدد نقرئی چوڑیاں اس چندہ میں دے دیں۔
حضرت محمدی بیگم صاحبہ نے 16؍اپریل 1927ء کو پچاس سال کی عمر میں قادیان میں وفات پائی، 17؍ اپریل کی صبح کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔
آپ کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں، خدا کے فضل سے بیٹیوں کے رشتے جماعت کے بزرگ وجودوں کے ساتھ ہوئے۔ آپؓ کے ایک بیٹے محترم سید عبدالرحمن صاحب کو1920ء میں امریکہ جانے کی توفیق ملی جس کے بعد وہ وہاں ہی آباد ہو گئے اور اوہائیو (Ohio) شہر میں ’زیب پرفیومز‘ کے نام سے کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہاں جماعت کی خدمت کی بھی بہت توفیق دی۔ انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جانؓ کی آوازوں کی آڈیو ریکارڈنگ کرنے کی توفیق بھی پائی۔ 1978ء میں اُن کی وفات ہوئی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
ایک بیٹی حضرت عائشہ بانو صاحبہؓ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ مبلغ افریقہ و انگلستان کی اہلیہ تھیں۔ نہایت نیک خاتون تھیں، صبر اور شکر کے اخلاق سے متصف تھیں۔ حضرت نیر صاحب ہندوستان کے مختلف شہروں کے دَوروں کے علاوہ ایک لمبے عرصے تک افریقہ اور انگلستان میں تبلیغ کرتے رہے، اس تمام عرصہ میں آپؓ نہایت صبر و استقلال کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔ آپؓ نے 31مارچ 1933ء کو بعمر قریبًا 42سال وفات پائی جبکہ حضرت نیر صاحبؓ حیدرآباد دکن میں اپنے تبلیغی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بالآخر وہ بھی قادیان پہنچ گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور کندھا بھی دیا اور آپؓ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔
حضرت کلثوم بانو صاحبہؓ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹیؓ یکے از 313، لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں شامل تھیں۔ نہایت نیک اور پارسا خاتون تھیں۔ 9؍اکتوبر 1971 ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں دفن ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں