حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14 نومبر 2005ء میں مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب کے قلم سے حضرت سید میر محمد اسحق صاحبؓ کی چند یادیں شامل اشاعت ہیں۔

حضرت سید میر محمد اسحق صاحبؓ دہلی کے ایک مشہور خاندان سادات کے زیرک و دانا اعلیٰ درجہ کے مدبر و منتظم اور عالم باعمل چشم و چراغ تھے۔ ایک جید عالم، مناظر اور بلند پایہ محدث تھے۔ جب خاکسار مدرسہ احمدیہ کی ابتدائی کلاسوں میں تھا تو اس وقت آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر تھے۔ پھر آپ کو مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا گیا۔ آپ کی آمد سے مدرسہ کے وقار میں بے حد اضافہ ہوا اور مدرسہ کا نظم و ضبط اعلیٰ درجہ کا ہوگیا۔ آپ وقت سے پہلے مدرسہ میں پہنچ جاتے اور سکول شروع ہونے پر گیٹ بند کروادیتے۔ حکم دیا ہوا تھا کہ کسی کے لئے بھی سکول ٹائم میں گیٹ نہیں کھلے گا۔ چنانچہ اگر کوئی استاد بھی دیر سے آنے کا عادی تھا تو وہ بھی وقت پر پہنچنے لگا۔

صوفی محمد اسحاق صاحب

آپ کے مدرسہ کا چارج لینے کے وقت مدرسہ احمدیہ اور اس کے بورڈنگ ہاؤس کی عمارتیں کچی اینٹوں سے تعمیر شدہ تھیں۔ مخیر حضرات کو تحریک کرکے آپؓ نے عطایا وصول کئے اور دونوں عمارتوں کو خوبصورت اور دیدہ زیب بنوادیا۔ آپ کا ایک اور تاریخی کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے مدرسہ احمدیہ کے غریب طلباء اور جماعت کے بے سہارا بوڑھوں کے لئے ایک ادارہ دارالشیوخ قائم کیا جن کو آپ لنگر خانہ سے کھانا مہیا فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ مہمان خانہ کے ناظر ضیافت بھی تھے۔ چونکہ جماعت اس وقت ایک نہایت ہی غریبانہ حالت میں تھی اس لئے آپؓ بارہا مخیّر حضرات کو تحریک کرکے عطایا وصول کرتے۔
آپ کے دویادگار علمی کارناموں میں ایک تو قرآن کریم کا نہایت ہی شاندار سادہ اور سلیس لفظی اردو ترجمہ ہے جو نہایت ہی مقبول عام ہے۔ دوسرے آپؓ نے مدرسہ کے بورڈنگ میں رہنے والے طلبہ کو عربی گرائمر کے بعض اسباق پڑھائے جو بعد ازاں خلاصۃ النحو کے نام سے شائع ہوئے۔یہ کتابچہ اب تک بے شمار مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔
جب میں نے مدرسہ احمدیہ کی آخری یعنی ساتویں جماعت پاس کر لی تو چونکہ میری مالی حالت قدرے کمزور تھی اسلئے آپ نے پھر بھی مجھے بورڈنگ میں ہی رہنے کی اجازت دیدی۔ لیکن چونکہ میں اب جامعہ کا طالب علم تھا اس لئے میں بوقت نماز ان بچوں کے ساتھ قطار میں لگ کر مسجد میں نہ جاتا تھا جو بورڈنگ میں رہتے تھے۔ اس پر میری شکایت میر صاحب کے پاس کی گئی۔آپؓ نے بلا کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں نے آپ سے کہا کہ چونکہ یہ سب طلباء مجھ سے جونیئر ہیں اس لئے مجھے ان کے ساتھ لائن میں جاتے شرم آتی ہے۔ آپؓ کی شفقت ملاحظہ کریں کہ آپ نے میری اس بات کو معقول سمجھا اور فرمایا بہت اچھا میں آپ کو مہمان خانہ میں ایک کمرہ دیتا ہوں۔ لیکن چونکہ میں ساتویں کلاس میں اول آیا تھا اس لئے حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ جو اس وقت جامعہ احمد یہ کے پرنسپل تھے نے از خود یا شاید حضرت میر صاحب کے کہنے پر انجمن سے میرا دس روپے ماہوار وظیفہ لگوادیا اور مجھے جامعہ احمدیہ ہوسٹل میں رہائش مل گئی۔
حضرت میر صاحبؓ ہر روز نماز ظہر کے بعد مسجد اقصیٰ میں درس حدیث دیا کرتے تھے جو ایسا پُر لطف ہوتا تھا کہ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ کے باوجود بلامبالغہ بیسیوں لوگ قادیان کے دُوردراز محلوں سے اس درس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ آپ کو آنحضرت ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ درس دیتے وقت بسا اوقات آپؓ کی آنکھیں پرنم ہوجاتی تھیں اور آواز رندھ جاتی جس سے اکثر سامعین کی آنکھیں بھی اشک بہانے لگ جاتیں۔
آپ کا عمومی لباس شلوار قمیص جس کے اوپر کھلے گلے والا لمبا کوٹ اور سر پر پھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی ہوتی تھی۔ آپ کا چہرہ گول تھا۔ آپ اپنے لباس میں ایک نہایت ہی پروقار شخصیت لگتے تھے۔ آپ کی چال بہت تیز تو نہ تھی لیکن سست بھی ہرگز نہ تھی۔ جسم اگرچہ قدرے بھاری تھا لیکن آپ اپنے تمام کام بخوبی خود کرلیا کرتے تھے۔ آپ کے لباس میں بھی ایک تبدیلی اس وقت آئی جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جماعت میں نیشنل لیگ کو رکا اجراء کیا اور جماعت کے کئی خدام اور انصار نے حضورؓ کی اس تحریک پر لبیک کہا۔ حضرت میر صاحبؓ نے بھی اپنا لباس ملیشیا کا ہی بنوالیا اور ملیشیا کا ہی لمبا کوٹ پہننا شروع کر دیا۔
حضرت میر صاحب مرحوم طلباء کی علمی تربیت اور مہارت کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں جماعتی جلسوں اور مناظروں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
1943ء میں ایک گاؤں بھامبڑی میں (جو قادیان سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر تھا) جماعت کا جلسہ ہوا۔ حضرت میر صاحب مرحوم بھی مدرسہ احمدیہ کے سب طلباء کو لے کر وہاں گئے ہوئے تھے کہ جلسہ کے بعد اچانک بعض غیرازجماعت افراد اور کچھ سکھوں نے مل کر ہم پر خشت باری شروع کر دی تو اس وقت حضرت میر صاحب مرحوم نے چوٹ وغیرہ سے بچنے کے لئے اپنے سر پر چھتری تان لی اور فرمایا کہ کسی نے جوابی حملہ نہیں کرنا، آرام سے ذرا تیز قدموں کے ساتھ یہاں سے نکل چلو۔ اس موقعہ پر ہم میں سے بعض کو چوٹیں بھی آئیں۔ اگرچہ اس موقع پر پولیس بھی موجود تھی لیکن مقدمہ ہمارے خلاف ہی قائم کیا گیا۔ گورداسپور کی عدالت میں حضرت میر صاحب بھی پیش ہوئے۔ مجسٹریٹ نے آپؓ سے یہ سوال کیا کہ آپ کو ان لوگوں کی خشت باری پر غصہ تو ضرور آیا ہوگا۔ آپ نے جواباً فرمایا کہ غصہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہواتھا بلکہ مجھے تو ان لوگوں کی نادانی پر رحم آرہا تھا۔
آپ کی وفات سے عین قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ برآمدہ میں ایک تخت پر تشریف فرما تھے۔ فرط غم سے آپ نے اپنی پگڑی کے پلّو سے اپنا تقریباً سارا منہ ڈھانپ رکھا تھا اور یہ عاجز اس وقت حضورؓ کے سامنے بیٹھ کر حضور کی پنڈلیاں دبا رہا تھا۔ اس موقعہ پر حضورؓ نے آپؓ کو ان الفاظ میں شاندارخراج عقیدت پیش کیا کہ ’’میرے بعد اگر کسی کو جماعت کی تربیت کا خیال تھا تو وہ حضرت میر صاحب مرحوم ہی تھے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں