حضرت سید میر محمد اسحق صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ دسمبر 2005ء اور 25 و 27ستمبر 2006ء میں مکرم محمد داؤد صاحب کے مرتب کردہ تفصیلی مضمون میں حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کی سیرۃ کے مختلف ایمان افروز پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ذیل میں صرف وہی واقعات بیان کئے جارہے ہیں جو قبل ازیں اس کالم میں بیان نہیں ہوئے۔

٭ محترم شیخ عبدالقادر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ جب ناظر ضیافت تھے تو مہمان کی حرکات سے اندازہ لگالیا کرتے تھے کہ اُسے کسی چیز کی ضرورت ہے، فوراً دریافت فرماتے اور ضرورت پوری فرماتے۔ کئی متموّل مہمان اپنے خادم کو ہمراہ لاتے اور اُسے بازار سے کچھ لینے کے لئے بھیجتے۔ کئی بار حضرت میر صاحبؓ نے اُس خادم سے برتن خود لے لیا اور دودھ، لسی وغیرہ جو بھی چاہئے ہوتا کارکُن سے منگوادیتے اور مہمان کو بتاتے کہ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان ہیں اس لئے بلاتکلّف اپنی ضرورت بتایا کیجئے۔
ایک بار سیالکوٹ کے ایک معزز زمیندار آئے۔ روٹی ختم ہوچکی تھی۔ اُنہوں نے آپؓ کے پاس شکایت کی تو اُسی وقت اُن کے ہمراہ لنگرخانہ تشریف لائے۔ میز پر کافی تعداد میں بچے کھچے ٹکڑے پڑے تھے۔ آپؓ نے فرمایا کہ کھانا تو موجود ہے، آئیے ہم دونوں کھائیں۔ چنانچہ آپؓ کو کھاتا دیکھ کر اُس معزز مہمان نے بھی وہی ٹکڑے سالن لے کر کھانے شروع کردیئے۔
٭ حضرت مولانا عبدالرحمٰن جٹ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے کئی سال حضرت میر صاحبؓ کے ساتھ جلسہ پر ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ آپؓ اُس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے جب تک یہ رپورٹ نہ آجاتی کہ سب مہمانوں نے کھانا کھالیا ہے۔
ایک مقدمہ کے لئے ہم چند دوستوں کو آپؓ کے ہمراہ منہ اندھیرے گاڑی پر گورداسپور جانا پڑتا تھا۔ ایک بار بٹالہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ قادیان سے چار پانچ افراد معمول سے زیادہ آگئے ہیں۔ آپؓ نے اُسی وقت مجھے اُتنے ٹکٹ بٹالہ سے قادیان تک لانے کا ارشاد فرمایا۔ ٹکٹ آئے تو آپؓ نے اُنہیں پھاڑ دیا اور فرمایا کہ چونکہ یہ دوست گاڑی پر سفر کرچکے ہیںمگر سرکار کو اُس کا حق ملنا چاہئے۔
٭ محترم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی لکھتے ہیں کہ ایک بار میرے والد ایک غیراحمدی دوست کے ہمراہ قادیان گئے تو پہلی رات چار بجے کمرہ کے دروازہ پر دستک ہوئی۔ مَیں نے کھولا تو حضرت میر صاحبؓ کھڑے تھے۔ پوچھنے لگے کہ مَیں پوچھنے آیا تھا کہ جو غیرازجماعت دوست آئے ہیں، اُن کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں؟۔
حضرت میر صاحبؓ اپنے مہمانوں کی ضروریات کا کس قدر خیال رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ایک بار مجھے پوچھا کہ کل رات عشاء کی نماز پر آپ نظر نہیں آئے، کیا بات ہوگئی تھی؟
٭ محترم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی کا بیان ہے کہ ایک بار ایک غیراز جماعت آئے تو حضرت میر صاحبؓ نے اُن کی بہت خدمت کی۔ وہ کھانا کھاکر ایک معاند احمدیت کے پاس چلے گئے اور اُس کی مجلس میں جماعت کے خلاف بہت سب و شتم کیا۔ کسی نے آپؓ سے اس کا ذکر کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ وہ ہمارے پاس بطور مہمان آئے تھے اور ہم نے آنحضرتﷺ کے ارشاد اور نمونہ کے ماتحت اکرام ضیف کیا ہے۔
٭ محترم خواجہ خورشید احمد صاحب سیالکوٹی (واقف زندگی) لکھتے ہیں کہ مَیں نے چھوٹی عمر میں احمدیت قبول کی تو چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا۔ پھر گھر والوں کی تکالیف سے بھاگ کر قادیان پہنچ گیا۔ ایک روز مہمان خانہ میں بیٹھا اپنے رشتہ داروں کے بارہ میں سوچ رہا تھا کہ حضرت میر صاحبؓ قریب سے سلام کہہ کر گزرے۔ لیکن پھر فوراً ہی واپس آئے اور حال احوال پوچھا۔ میں نے ساری داستان سنادی۔ آپؓ نے ایک مشفق باپ کی طرح مجھے استقامت کی نصیحت کی اور ایک کارکن کو بلاکر تاکید کی کہ دیکھو! انہیں کھانے اور رہائش کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ پھر آپؓ مجھے لے کر اپنی رہائش گاہ پہنچے۔ اندر سے ہاتھ میں کپڑوں کا ایک عمدہ جوڑا لے کر آئے اور ٹیلرماسٹر کے پاس لے گئے اور اُنہیں کہا کہ ان کپڑوں میں کوئی اصلاح کی ضرورت ہو تو کرکے مجھے دیدیں۔
٭ مکرم میاں اللہ دتّہ صاحب سپاہی بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مَیں جلسہ پر قادیان گیا۔ صبح دودھ لینے بازار گیا تو راستہ میں احمدیہ سکول کے پاس حضرت میر صاحبؓ مجھے ملے۔ آپؓ کا گلا بیٹھا ہوا تھا۔ آپؓ نے میرے سلام کا جواب دیا اور اشارہ سے مجھے ساتھ آنے کو کہا۔ مجھے سٹور میں لائے۔ چار پانچ لوٹے خود اٹھالئے اور ایک ٹوکرا مَیں نے اٹھالیا۔ پھر ہم احمدیہ سکول پہنچے اور لوٹے وہاں وضو کی جگہ پر رکھ دئے۔
٭ حضرت مرزا عبدالحق صاحب بیان فرماتے ہیں کہ گورداسپور میں اپنی اکیس سالہ ملازمت کے دوران میں ہر ہفتہ قادیان جایا کرتا تھا۔ حضرت میر صاحبؓ نے اپنی رہائش کے ساتھ والا ایک کمرہ میرے لئے مخصوص کردیا تھا۔ مَیں جونہی پہنچتا آپ فوراً چائے اور کھانے کا انتظام کرواتے۔ بعض دفعہ چائے اپنے گھر سے بھیج دیتے تاکہ سردی میں تکلیف نہ ہو۔ ایک بار بارش میں پہنچا تو اُسی وقت خادم کے ہاتھ چادر اور سلیپر بھیجے تاکہ اگر کپڑے بھیگ گئے ہوں تو بدل لوں۔
٭ مکرم مولانا محمد سلیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر علاقہ بیٹ میں دعوت الی اللہ پر زور دیا گیا تو کئی مقامات پر مناظرے بھی ہوئے۔ کہنہ مشق مناظر کے طور پر حضرت میر صاحبؓ کا نام سامنے آیا تو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ناظر دعوت الی اللہ نے مجھے ایک دوست کے ہمراہ حضرت میر صاحبؓ کو لانے کے لئے پرائیویٹ تانگہ میں بھجوایا۔ اُس روز شدید بارش ہوئی۔ ہم رات گئے قادیان پہنچے اور اُسی وقت آپؓ سے ملاقات کی۔ آپؓ دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے چنانچہ ہم نے صرف بیمارپرسی پر اکتفا کی۔ لیکن آپؓ بھانپ گئے کہ اس بے وقت آمد کا مقصد کچھ اَور ہے۔ آپؓ کے اصرار پر جب ہم نے بتایا تو آپؓ نے فرمایا کہ اگرچہ مَیں بول نہیں سکتا لیکن ضرور ساتھ چلوں گا۔ ہم نے راستہ کی خرابی کا ذکر کیا لیکن آپؓ نے تانگہ میں ہمارے ہمراہ مناظروں کے مقام پر پہنچ کر دَم لیا۔ صدارت فرمائی اور ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
٭ حضرت میر صاحبؓ نہایت ذہین اور حاضر جواب تھے۔ مکرم مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار کسی نے پوچھا کہ حجراسود کو بوسہ دینا شرک نہیں ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ کیا آپ اپنے بچے کو بوسہ نہیں دیتے؟!
٭ حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے کوئی جملہ بولا اور میر صاحبؓ غائب ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد مصفّا پانی لائے جو حضورؓ نے پیا اور فرمایا کہ میرا مطلب ایک لڑکا سمجھ گیا، دوسرے سن رسیدہ لکھے پڑھے حدیث النبیؐ کے جاننے والے نہ سمجھے۔
حضورؓ کی ہدایت پر میر صاحبؓ نے مولوی فاضل کا امتحان بھی معمولی تیاری کرکے دیدیا اور کامیابی حاصل کی۔ منطق کی تیاری میرے والد صاحب کے نوٹس پڑھ کر کی تھی۔ مَیں نے بعد میں پوچھا کہ منطق کا پرچہ کیسے حل کیا تو فرمایا کہ اپنے فہم سے چند اقوال لکھے اور پھر خود ہی اُن میں ترجیحی فیصلہ لکھ دیا۔
مَیں ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں بدھ مذہب کی بڑائی ثابت کی گئی تھی۔ آپؓ نے دیکھا تو زبردستی وہ رسالہ لے گئے اور دوسرے تیسرے دن نہایت عمدہ مضمون میں اس کا جواب لکھ کر لے آئے کہ مَیں حیران رہ گیا۔ آپؓ نے کسرصلیب پر چند رسائل لکھے۔ حدوث مادہ و روح پر ایک ضخیم کتاب شائع کی۔ کئی مناظروں کو ایسا مسکت جواب ملا کہ وہ خاموش ہوگئے۔ مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھا کرتے تھے کہ آپ لوگوں میں کوئی اگر لکھا پڑھا ہے (یعنی علم الحدیث) تو میر اسحق ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں