حضرت سیّدہ اُمّ طاہرمریم النساء بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 15 اور 22؍جنوری 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ سیّدہ عذرا عباسی صاحبہ کے قلم سے حضرت مصلح موعودؓ کی حرم محترم اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ مریم النساء بیگم صاحبہؓ (المعروف اُمّ طاہر)کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

حضرت مریم بیگم صاحبہؓ ۱۹۰۵ء میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں جہاں آپؓ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ سرکاری ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر تھے۔آپؓ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے حضرت شاہ صاحبؓ سے فرمایا:’’آپؓ نے اپنی اولاد کی خوب تربیت اور پرورش کی ہے، جس سے ہم کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ
جمّوں میں قیام کے دوران

حضرت شاہ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ سخت بیمار ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بکروں کا صدقہ دیا۔مَیں اس وقت قادیان میں موجود تھا۔مَیں رات کوحضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے پاس ہی رہا اور دوا پلاتا رہا۔صبح کو حضورؑ تشریف لائے۔حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں۔ حضورؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے۔یہ بہشتی کنبہ ہے۔
حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اپنی والدہ ماجدہ کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہماری والدہ صاحبہ سے فرمایا: ’’یہ آپ کا گھر ہے آپ کو جو ضرورت ہوبغیر تکلف آپ اس کے متعلق مجھے اطلاع دیں۔آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں۔ایک تو آپ ہمارے مرید ہیں۔دوسرے آپ سادات سے ہیں اور تیسرا ہمارا آپ کے ساتھ ایک اَور تعلق ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حضورؑ خاموش ہو گئے۔والدہ صاحبہ کو اس آخری فقرہ سے حیرانی ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے آ کر ذکر کیا۔ اس وقت ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ’’کوئی روحانی تعلق ہو گا۔‘‘ لیکن حضورؑ کا یہ قول ظاہری معنوں میں بھی ہمشیرہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کے رشتے کی وجہ سے لمبے عرصے بعد پورا ہوگیا۔

حضورعلیہ السلام کے ہاں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو پیدا ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: مبارک احمد حضرت مسیح موعودؑ کو بہت پیاراتھا ،وہ شدیدٹائیفائیڈ سے بیمار ہوا۔اس وقت قادیان میں دو ڈاکٹر موجود تھے۔ایک حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ اور دوسرے حضرت ڈاکٹرسید عبد الستار شاہ صاحبؓ جورخصت پر یہاں آئے ہوئے تھے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ بھی ان کے ساتھ مل کر علاج کر رہے تھے۔مبارک احمد کی بیماری میں کسی نے خواب دیکھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔یہ خواب سن کر حضورؑ نے فرمایاکہ ’’معبرّین نے لکھا ہے کہ ایسی خواب کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے سے بعض دفعہ تعبیر ٹل جاتی ہے۔ اس لیے آؤ مبارک احمد کی شادی کردیں۔‘‘ اس وقت اتفاقاً حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی اہلیہ صاحبہ صحن میں نظر آئیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں بلا کر فرمایا کہ ’’ہمارا یہ منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کردیں۔ آپ کی لڑکی مریم ہے۔اگر آپ پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضورؑ کچھ مہلت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لوں؟یہ خاندان نیچے گول کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ باہر سے ڈاکٹر صاحبؓ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں بات کی کہ بعض دفعہ ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے گا تو کیا آپ پکے رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحبؓ نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا۔ اس پر انہوں نے ڈاکٹر صاحبؓ کو ساری بات سنائی تو ڈاکٹر صاحبؓ نے کہا کہ اچھی بات ہے۔اگر حضرت مسیح موعودؑ کو یہ پسند ہے توہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
چنانچہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا (جو آٹھ سال کی عمرکے تھے) سیدہ مریم بیگم صاحبہ سے (جو دو اڑھائی برس کی تھیں) نکاح ۳۰؍اگست ۱۹۰۷ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے پڑھا۔ نکاح کے چند روز بعد ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کو صاحبزادہ صاحب کی وفات ہوگئی۔
حضرت مصلح موعودؓنے حضرت اُمّ طاہرؓ کی وفات پر ‘‘میری مریم’’ کے عنوان سے ایک مفصّل مضمون میں تحریر فرمایا کہ شاید ۱۹۱۷ء میں امۃالحی مرحومہ کے مکان میں مَیں نے ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی کو دیکھا تو پوچھنے پر امۃالحی مرحومہ نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ کی لڑکی مریم ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا مریم کی شادی بھی کہیں تجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ’’ہم سادات ہیں ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگرحضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی۔‘‘ میرے لیے یہ سخت صدمہ کی بات تھی۔میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اَور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سوا کچھ اَور نتیجہ نہ نکلا۔ آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہیے، ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کرلے۔ لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا۔ تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہیے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحبؓ اور سید محموداللہ شاہ صاحبؓ سے مجھے بہت محبت تھی۔میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں مریم سے خود نکاح کرلوں گا۔
حضرت اُمّ المومنینؓ کی روایت ہے کہ جب مبارک احمد فوت ہو گیا اور مریم بیگم بیوہ رہ گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آئے تو اچھا ہے۔یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کرلے تو بہتر ہے۔


۷؍فروری ۱۹۲۱ء کوحضورؓ کا نکاح حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ایک ہزار روپیہ حق مہرکے عوض حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے پڑھایا اور خطبہ نکاح میں یہ بھی فرمایا: انبیاء کے بعد ان کے جانشینوں کے دو سلسلے معلوم ہوتے ہیں ایک تو ایسے خلفاء جو اُن کی نسل سے ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو نسل سے نہیں ہوتے۔حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ اشارات سے معلوم ہو گیا تھا کہ آپؑ کے قائم مقام آپؑ کی نسل سے ہوں گے اور ان کے ذریعہ وہ مقصد پورا ہوگا جس کے لیے آپؑ آئے تھے۔ اس لیے آپؑ سے اپنی اولاد کے متعلق دعا کرائی گئی کہ

‘‘وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے’’

… مَیں بوڑھا ہوں۔ میں چلا جاؤں گا مگر میرا ایمان ہے کہ جس طرح سے پہلے سیّدہ سے خادم دین پیدا ہوئے اسی طرح اس سے بھی خادم دین ہی پیدا ہوں گے۔ یہ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے۔
۲۱؍فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کرحضورؓ دلہن کو لے آئے اور حضرت اماں جانؓ کے گھر میں ان کو اتارا جنہوں نے ایک کمرہ ان کو دے دیا۔ یہاں آپؓ پانچ سال تک رہیں اور یہیں پہلا بچہ طاہر احمد (اوّل) پیدا ہوا۔


حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ اپنی والدہ کی وفات کے وقت دسویں جماعت کا امتحان دے رہے تھے۔ آپؒ اپنی والدہ محترمہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابا جانؓ سے امی کو بہت زیادہ محبت تھی اور اگرچہ اس کا اظہار میرے سامنے کرنا مناسب نہ سمجھتی تھیں مگر بعض اوقات وفور محبت سے امی کے منہ سے ایسی بات نکل ہی جاتی تھی جس سے ابا جان کی محبت کا اظہار ہو۔ امی، ابا جانؓ کی رضا کواس قدر ضروری خیال کرتی تھیں کہ بعض دفعہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہ تھا امی نظر رکھتی تھیں۔ ایک دفعہ مَیں نے مچھلی کے شکار کو جانا چاہا۔ سب تیاری وغیرہ مکمل کرلی بس صرف ابا جانؓ سے پوچھنے کی کسر باقی رہ گئی۔میں نے امی سے کہا کہ وہ مجھے ابا جانؓ سے اجازت لے دیں۔امی نے پوچھا تو ابا جانؓ نے جواب دیا کہ ’’تم کل جمعہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکوگے۔‘‘ مگر میں نے وعدہ کیا کہ ہم ضرور وقت پر پہنچ جائیں گے۔ جس پر ابا جان نے اس شرط پر اجازت دے دی۔ مگر باہر آکر امّی نے مجھے کہا کہ ’’طاری!میں تمہارے ابا جان کی طرف سے محسوس کرتی ہوں کہ تمہارے ابا جان نے اجازت دل سے نہیں دی۔مَیں نہیں چاہتی کہ تم اپنے ابا جان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرو۔تم میری خاطر آج شکار پر نہ جاؤکسی اَور دن چلے جانا۔‘‘ اگرچہ سب سامان مکمل تھا مگر امی نے مجھے کچھ اس طرح سے کہا کہ مَیں انکار نہ کرسکا اور اپنے باقی ساتھیوں سے کوئی بہانہ کر کے اس ٹرپ کا ارادہ چھوڑ دیا۔ امی نے حضرت صاحبؓ پرایک رنگ میں جان فدا کردی کیونکہ حضرت صاحبؓ کی ہر بیماری میں اس جانفشانی سے خدمت کی کہ حضرت صاحبؓ کے صحت یاب ہوتے ہی خود بیمار ہو گئیں۔ (ماخوذ از سوانح فضل عمرؓحصہ پنجم صفحہ340 )


حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہو تا تھا تو واپسی پر میں اس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ قیاس میرا شاذ ہی غلط ہوتا تھا۔ میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی۔‘‘
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں: مریم بیگم مرحومہ ہمارے گھر بہو بن کر آئیں اور بیٹی بن کر رہیں۔ حضورؓ، اماں جانؓ کی بہت تابعدار، چاہنے والی، جاں نثار، خدمت گزار اور ہم سب بہن بھائیوں سے بلا مبالغہ عاشقانہ محبت رکھنے والی۔ اپنے شوہر نامدار حضرت خلیفہ ثانیؓ کی دل و جان سے شیدا، ہنس مکھ، گھر کی رونق، سب عزیزوں سے اپنی سب اولاد سے دلی تعلق یعنی جو دوسری بیویوں کے بطن سے اولاد تھی ان کی بھی بہی خواہ اور دل سے محبت کرنے والی رہیں۔ کہا کرتی تھیں کہ مَیں صرف اپنے میاں کی حیثیت سے اُن سے اور آپ سب سے اور بچوں سے اتنی محبت نہیں کرتی، مَیں تو حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد جان کر کرتی ہوں اور سب کے لیے جان فدا کرنے کو حاضر ہوں۔ ان کی والدہ محترمہ بہت نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ یہ اخلاص و ایمان انہوں نے ماں کے دودھ سے ہی حاصل کیا۔
حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ سے حضرت اُمّ طاہرؓ کو جس قدراور جس رنگ میں عشق تھا اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ آپؑ کا نام مبارک آتے ہی چہرہ محبت و عشق کے جذبات سے تمتما اٹھتا۔ آپؓ کی وہ کیفیت احاطہ تحریرمیں نہیں آ سکتی۔ہزاروں سلام اور ہزاروں درود حضرت مسیح موعودؑ پر بھیجتیں۔اس حالت میں آنکھوں میں آنسو ہوتے۔ شدید پیار سے کرب کی کیفیت اُن پر وارد ہو جاتی۔اسی طرح حضرت اماں جانؓ سے جو پیار اور احترام تھا مَیں نے کسی اَور میں اس نوعیت کا نہیں دیکھا۔ جن حالات میں آپؓ نے لجنہ کا کام سنبھالا وہ اس وقت کئی لحاظ سے ساز گار نہ تھے۔نہ تو مالی سہولتیں تھیں نہ ہی اس قدر کام کرنے والے کارکن ہی تھے۔ خود ان کی اپنی صحت بھی نہ تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ان کا دل کام میں تھا، کتاب میں نہیں۔ جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہا قابلیت موجود ہے۔ بیواؤں کی خبرگیری، یتامیٰ اورکمزوروں کی پر ورش، جلسہ کا انتظام ،باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی ،غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی۔
محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ اور آپا جانؓ (حضرت اُمّ طاہرؓ) کا باہم سلوک ماں بیٹی جیسا تھا۔ حضرت اماں جانؓ کسی کام کے لیے بلواتیں تو آپؓ فوراًپہنچتیں۔ خاندان حضرت اقدسؑ سے آپؓ کو والہانہ محبت تھی۔ خاندان کا ہر فرد آپؓ سے پیار کرتا تھا۔ جلسہ سالانہ پر آپؓ کی مصروفیات اس قدر بڑھ جاتیں کہ کھانے کا ہوش نہ رہتا۔ آ پؓ کا کمرہ خواتین کا دفتر جلسہ سالانہ بنا ہوتا اور سب ڈیوٹی دینے والیوں کے بستر بھی وہیں ہوتے۔ جلسہ سالانہ کا کام بہت دن پہلے شروع ہو جاتا۔ آپؓ ڈیوٹیاں تقسیم کرتیں، بار بار جا کر جلسہ گاہ کا معائنہ کرتیں، ہدایات دیتیں، نئی نئی تجاویز سوچتیں۔ دوران جلسہ مستورات کو خاموش کرانے کے کٹھن کام کے لیے جلسہ گاہ کو رسیوں سے چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم کرکے نگرانی کا کام آپؓ نے تجویز کیا۔ آپؓ بہت سویرے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتیں۔ شام تک وہاں رہتیں، انتظام کی خاطر ساری جلسہ گاہ میں گھومتی پھرتیں، دیگر اجتماعات پر بھی بہت مستعد رہتیں۔ جلسہ سالانہ خواتین 1930ء میں آپؓ منتظمہ جلسہ سالانہ تھیں۔ آپؓ نے ’’عورتوں کی اصلاح خود اُن کے ہاتھ میں‘‘ کے موضوع پر تقریر بھی کی جس کے فوراً بعد ہی سوا دو صد عورتوں نے بیعت کی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت اُمّ طاہرؓ بہت سی غیرمعمولی خوبیوں کی مالک تھیں۔ مرحومہ کا نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا۔ یہ وصف اس قدر ممتاز تھا کہ ان کا نمونہ اکثر مجاہد مَردوں کے لیے بھی قابل رشک تھا۔ صحت کی خرابی کے باوجود یوں نظر آتا تھا کہ گویا ان کی روح جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے لیے ہر وقت چوکس سپاہی کی طرح ایستادہ اور چشم براہ رہتی ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح یا جماعت کی طرف سے جو تحریک بھی ہوتی تھی، آپؓ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ اس کا خیرمقدم کرتی تھیں اور پھر اپنے ذاتی اثر اور دن رات کی جدوجہد کے ساتھ اس کے متعلق مستورات میں ایک غیر معمولی حرکت پیدا کردیتی تھیں۔ احمدی خواتین کا جھنڈا اُن کی ذاتی توجہ سے بنا۔ اس کا ڈیزائن حضرت صاحبؓ سے منظور کرایا اور پھر جھنڈا تیار کرانا اور خواتین کے جلسہ میں اس کا نصب ہونا اور لہرانا سب کچھ انہی کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ لوائے احمدیت کی تیاری میں بھی ہماری اس بہن کا وافر حصہ تھا۔حضرت صاحب کے ارشاد پر صحابیات سے اس کے لیے آپؓ نے سوت کتوایا۔ صحابیات کو اطلاع کروائی، چرخوں کا انتظام فرمایا اور پھر دارالمسیحؑ میں سارا سوت کتوا کر وقت پر مجھے بھجوا دیا۔ مالی قربانی میں بھی سیدہ موصوفہ کو خداتعالیٰ نے ممتاز حیثیت عطا کی تھی اور مَیں جب ان کے چندوں کو دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ اس قلیل آمد پر اتنے بھاری چندے کس طرح ادا کرتی ہیں۔ حضورکی طرف سے جو ماہوار خرچ گھروں میں ملتا ہے وہ بہت ہی نپا تلا ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے سیدہ موصوفہ نا معلوم کس طرح اپنے گھر کے اخراجات سے رقمیں کاٹ کر ہر تحریک میں پیش پیش رہی تھیں۔ حتیٰ کہ تحریک جدید کے امانت ذاتی کے شعبہ میں بھی محض شرکتِ ثواب کی خاطر حصہ لے رکھا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سوائے حضرت خلیفۃالمسیح والی باری کے دن کے، عموماً گھر کا کھانا پینا نہایت درجہ سادہ بلکہ غریبانہ ہوتا تھا۔ مرحومہ موصیہ تو شروع سے ہی تھیں مگر کئی سال سے اپنے حصہ وصیت کو دسویں حصہ سے بڑھا کر ایک تہائی کر دیا تھا۔
ایک صدی قبل حضرت مصلح موعودؓ نے یورپ میں مسجد کی تعمیر کے لیے جب خواتین سے مالی قربانی کا مطالبہ کیا تو فرمایا: ’’عورتوں کی مالی بنیاد زیورات پر ہوتی ہے وہ اس سے چندہ دے سکتی ہیں۔‘‘ حضرت سیدہ ؓ نے ایک طلائی زیور سمیت کُل ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دیا۔ پہلے یہ تحریک 30؍ہزار روپے کی تھی جسے بعد میں 70؍ہزار تک بڑھادیا گیا۔ قریباً تہتّر ہزار روپے جمع ہوئے جن سے مسجد فضل لندن تعمیر ہوئی۔


حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں کہ آپؓ کی یادوں کے ہراول دستوں میں ہمیشہ مجھے آپؓ کا جذبۂ خدمت خلق نظر آتا ہے۔ بیکسوں، یتیموں، مساکین، مصیبت زدگان اور مظلوموں سے گہری ہمدردی آپؓ کی شخصیت کا ایک لا ینفک جزو تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جذبۂ ہمدردی ان کے خون میں گھل مل کران کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ یہ ہمدردی جذباتی بھی تھی، قولی بھی اور فعلی بھی۔ اور یہ رنگ ایسا غالب تھا گویا سیرت کے دوسرے تمام پہلوؤں میں سرایت کرگیا تھا۔اس جذبہ کو تسکین دینے کے لیے آپؓ نے مالی قربانی بھی بہت کی،جانی بھی اور جذباتی بھی۔
حضرت سیدہ مہرآپا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ میں رحم کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ اگر کوئی اپنے دکھ کا ذکر کرتا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ آپؓ چین نہ لیتیں جب تک اُس کی ہر قسم کی مدد نہ کرتیں اور اس کے لیے اس قدر بےدریغ خرچ کرتیں کہ اس بات کا مطلق احساس نہ رہتا کہ اپنے اخراجات بھی نگاہ میں رکھنے چاہئیں۔ یہ رحم کا جذبہ صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ ہر مخلوق کے لیے تھا۔ آپؓ کو بنفس نفیس عملاً خود کام کرتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔ سارا سارا دن مشین پر بیٹھی ہوئی ہوتیں۔ خدمت کی شوقین دوسری مستورات کو لگایا ہوتا اور غرباء کے لیے لحاف، کپڑے بن رہے ہوتے۔ طبیعت میں ذرا بھر نمائش اور نمود کا نام نہ تھا۔ سب کچھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا کرتیں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ان کے گھر میں غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ آپؓ نے کئی یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنے گھر میں پالا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی راحت کو اپنی راحت سمجھا۔
محترم سید بشیر احمد شاہ صاحب (کارکن دوا خانہ خدمت خلق) کا بیان ہے کہ ایک ہمسایہ بیوہ ہندو عورت کا آپؓ بہت خیال رکھتی تھیں اور اس کی مالی امداد خوب کرتی تھیں۔ آپؓ کی تدفین سے واپسی پر مَیں نے اسے سڑک بہشتی مقبرہ کے پُل پربیٹھے دیکھا کہ وہ رو رو کر کہہ رہی تھی کہ ہائے! میری ماں تو اب فوت ہوئی ہے۔ میَں اب بیوہ ہوئی ہوں پہلے نہیں تھی۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: وہ مہمان نواز انتہا درجہ کی تھیں۔ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں۔خود تکلیف اٹھاتیں۔ بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بو جھ لاد لیتیں کہ مَیں بھی خفا ہوتا کہ آخر لنگرخانہ اسی غرض کے لیے ہے۔ تم کیوں اپنی صحت برباد کرتی ہو۔ آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اٹھانی پڑتی ہے۔
حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ بیان کرتی ہیں: آپؓ کے گھر میں مہمانوں کا سلسلہ رات دن رواں دواںرہتا۔ بعض مہمان تو کئی کئی ماہ قیام کرتے اور آپؓ کی خاطرمدارت کا یہ عالم ہوتا کہ دیکھنے والے یہ سمجھتے کہ یہ مہمان ابھی اور اسی وقت آئے ہیں۔ روز مرہ لوگوں کی آمدورفت کا یہ عالم تھا کہ چائے اور کھانا جو گھر کے افراد کے لیے پکتا اس سے دوچند کا ہمیشہ اہتمام ہوتا۔ وہ تمام کا تمام کھانا ختم ہو جاتا اور اکثر مزید کھانا تیار کرنا پڑتا اور یہ سلسلہ صرف کھانے کا ہی نہ ہوتا بلکہ چائے وغیرہ کے اوقات پر بھی یہی سلسلہ رہتا۔ بعض اوقات کام کرنے والے چِڑ جاتے کہ سب کچھ ختم ہو کر پھر بھی پوری نہیں پڑتی، بار بار کھانا پکانا پڑتا ہے۔ تو پھر مسکرا کر فرماتیں: خوشی خوشی مہمانوں کو خوش آمدید کہا کرو اور ان کی خدمت کیا کرو، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے پیغامبر ہیں۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ فرماتے ہیں: امی کی طبیعت میں مہمان نوازی بہت تھی۔ چونکہ خود کھانا بہت اچھا پکاتی تھیں اس لیے دعوتوں اور مہمانوں کی آمد پر کوئی نہ کوئی کھانا اپنے ہاتھ سے ضرور پکاتی تھیں۔ روزمرہ کاکھانا جس صوفیانہ حد تک سادہ ہوتا تھا اسی قدر دعوتیں پُررونق ہوا کرتی تھیں۔جلسہ سالانہ کے دنوں میں تو مہمان اس کثرت سے آتے تھے کہ ہمارے ہاں ایک چھوٹی سی نَوآبادی بن جاتی تھی اور محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ یہ مہمانوں کی گہما گہمی گھر کے کسی فرد پر کبھی بارخاطر نہیں ہوئی بلکہ معاملہ برعکس تھا۔ جلسہ کے مہمانوں کی آمد کی خوشی سے ہمارے دل بلیوں اچھلنے لگتے تھے۔ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ ہونے کی وجہ سے مستورات کے جلسہ سالانہ کے انتظامات،کثرت سے ملنے والی مہمان خواتین کا آنا جانا۔ گھر کے مہمانوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام۔ صرف کھانا لگوانے اور برتن لگوانے اور اٹھوانے کا کام ہی ایک اچھی خاصی مصروفیت تھی۔صبح سے لے کر شام تک کام کا ایسا چکر چلتا تھا کہ اس کی حرکت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ایک عام قویٰ کے آدمی کے سانس اکھیڑ دینے کے لیے بہت کا فی تھا۔ عام طور پر تھکان دُور کرنے کے لیے گرم پانی کی بوتلیں بستر میں رکھ کر سوتی تھیں لیکن کبھی پیشانی پر بل نہیں آیا۔ چہرے پر کبھی بھی بیزاری کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ امی کو اپنی اولاد سے بھی بہت ہی محبت تھی اوراس کے نیک اور صالح ہونے کا اتنا خیال رہتا تھاکہ اکثر خدا کے حضور اولاد کی نیکی اور تقویٰ اور طہارت کے لیے اور ہر قسم کی دینی ترقیات کے لیے گڑ گڑا کر دعاؤں میں مصروف رہتیں۔ اور خاص طور پر میرے لیے۔ امی کے یہ الفاظ مجھے تا زندگی نہ بھولیں گے جب امی کی آنکھیں غم سے ڈبڈبائی ہوئی تھیں اور امی نے بھرائی آواز سے مجھے کہا کہ ’’طاری! مَیں نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ اے خدا! مجھے ایک ایسا لڑکا دے جو نیک اور صالح ہو اور حافظ قرآن ہو۔‘‘ خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے بےانتہا محبت تھی۔ مجھے اکثر کہتیں: ’’طاری !قرآن کریم کی بہت عزت کیا کرو۔‘‘ مجھے نماز پڑھانے کا ایسا شوق تھا کہ بچپن سے ہی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر مجھے نماز کے لیے مسجد میں بھیج دیا کرتی تھیں۔ جب مَیں نماز پڑھ لیتا تو امی کا چہرہ وفور مسرت سے تمتما اٹھتا ۔


حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: انہیں اپنی اولاد کی بہتری اور بہبودی اور اس سے بڑھ کر ان کی دینداری کا بےحد خیال رہتا تھا اور وہ ان کے واسطے نہ صرف خود بےانتہا دعائیں کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی کثرت کے ساتھ تحریک کرتی رہتی تھیں۔ اور پھر اولاد کے سا تھ ان کی محبت کا رنگ بھی نرالا تھا۔ ان کی عادت تھی کہ بچوں کوبےتکلّف عزیزوں کی طرح اپنے ساتھ لگائے رکھتی تھیں۔بایں ہمہ ان کے بچوں میں اپنی والدہ محترمہ کا بےحد ادب تھا اور وہ اپنی والدہ کے لیے حقیقتاً قرّۃالعین تھے۔ آپؓ نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا چھوڑا ہے۔ وہ اس بات کے لیے ہمیشہ دعائیں کرتی تھیں اور کرواتی تھیں کہ ان کا لڑکا طاہر احمد دین و دنیا کی اعلیٰ ترین ترقیاں حاصل کرے اور اس کی تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔
حضرت سیّدہ کی آخری بیماری میں طبّی مشورہ کے ماتحت حضورؓ آپؓ کو لاہور لے گئے۔ پہلے لیڈی ولنگٹن ہسپتال اور پھر سرگنگا رام ہسپتال میں داخل رہیں لیکن حالت نہ سنبھلی اور آخر ۵؍مارچ ۱۹۴۴ء کو ۳۹؍سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ حضورؓ نے پہلے لاہور میں اور پھر قادیان میں نماز جنازہ پڑھائی جہاں دس ہزار افراد شامل ہوئے۔
آپؓ کی وفات پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے ایک نظم بعنوان ’’اپنی مریم کا جنازہ دیکھ کر‘‘ میں فرمایا:

الٰہی کس دلہن کی پالکی ہے
ملائک جس کو آئے ہیں اٹھانے
بصد تکریم جاتے ہیں جلو میں
فرشتے ، چادرِ انوار تانے
ہزاروں رحمتوں کے زیرِ سایہ
دعاؤں کے لیے بھاری خزانے
ہمارے گھر کی زینت جا رہی ہے
بساطِ گلشنِ جنت سجانے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں