حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 9؍دسمبر 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍اکتوبر2013ء میں مکرم فیض احمد گجراتی صاحب کے قلم سے حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب کا ذکرخیر ہفت روزہ ’’بدر‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب اگرچہ فرد واحد تھے لیکن تبلیغ کے میدان میں آپ کی غیرمعمولی خدمات ایک ادارے کی مانند تھیں۔ آپ 1915ء میں احمدیت کی آغوش میں آئے اور دسمبر 1962ء میں اپنی آخری سانس تک عہد بیعت کو اس طرح نبھایا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ ایک بار شدید مالی ابتلا کی لپیٹ میں آگئے مگر قربانی کا معیار وہی رہا۔ حضرت مصلح موعودؓ کو علم ہوا تو آپؓ نے محترم سیٹھ صاحب کو تحریر فرمایا: ’’ایک دوست نے لکھا ہے کہ آپ کی مالی حالت بہت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ آپ بہت زیادہ چندہ دیتے رہے ہیں۔ فی الحال آپ بقایوں اور اگلا چندہ دینے کا خیال چھوڑ دیں تو یہ بات پسندیدہ ہوگی۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ نے یہ جو فرمایا ہے کہ مجھے چالیس مومن مل جائیں تو مَیں ساری دنیا پر اسلام غالب کرسکتا ہوں۔ ان چالیس مومنین کا ایک نمونہ سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب ہیں۔‘‘
محترم سیٹھ صاحب نے تن تنہا بےشمار لٹریچر چھپوایا اور اسے دنیا کے کونے کونے تک پھیلادیا۔ ہزاروں افراد نے اس لٹریچر کے ذریعے ہدایت پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بارہا اس حوالے سے ان کی مساعی کو سند خوشنودی عطا فرمائی۔ ایک بار فرمایا: ’’تبلیغ میں اس حد تک انہیں جوش ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم میں وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا … ارشاد فرمایا گیا ہے، یہ مقام ان کو حاصل ہے۔ … اور پھر لٹریچر شائع کرانے کی ایسی دھن ہے کہ ان کی جدوجہد کو دیکھ کر شرم آتی ہے کہ قادیان میں اتنا عملہ ہونے کے باوجود اس دھن سے کام نہیں ہوتا جس سے وہ کرتے ہیں۔ … وہ اپنی ایک ایک کتاب کے پندرہ پندرہ سولہ سولہ ایڈیشن شائع کرچکے ہیں۔ … اگر چند اَور ایسا ہی کام کرنے والے ہوتے تو اس وقت بہت بڑا کام ہوچکا ہوتا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ. محترم سیٹھ عبداللہ اللہ دین صاحب کے متعلق جن خیالات اور جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ سو فیصد صحیح ہیں اور خاکسار (عبدالقدوس قمر جاوید حال مقیم لندن یوکے) محترم سیٹھ صاحب کی ان تبلیغی مساعی سے مستفید ہونے والے افراد میں سے ایک ہے. مجھے اچھی طرح یاد ہے میں چھٹی کلاس میں تھا( یہ 1960, 1961 کی بات ہے) کہ الفضل میں ایک اشتہار دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور کتب مفت منگوائیں اور مستفید ہوں. اس وقت ایک پوسٹ کارڈ تین پیسے (پاکستانی کرنسی) کا تھا. میں نے پوسٹ کارڈ پر اپنے گھر کا ایڈریس لکھا اور محترم سیٹھ صاحب کا حیدرآباد دکن انڈیا کا لکھا اور پوسٹ کر دیا. میرے خط کے جواب میں مجھے تین چار چھوٹی چھوٹی کتابیں بذریعہ پوسٹ مل گئیں اور پھر یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا یہاں تک کہ محترم سیٹھ صاحب نے اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کر دی. اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے. آمین ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں