حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ سیالکوٹی

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 25 ستمبر 2020ء)

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ سیالکوٹی کا ذکرخیر مکرم عطاء الحئی منصور صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 8؍دسمبر 1995ء، 2؍جولائی 1999ء اور 10؍جون 2016ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی آپؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہوچکا ہے۔
حضرت شیخ صاحبؓ 1873ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام جگت سنگھ تھا۔ بچپن میں ایک کتاب ’’رسومِ ہند‘‘ میں انبیاء سے متعلق ایک باب نے آپ کے دل میں اسلام کا بیج بودیا تھا۔ پھر آپؓ کو فوج میں ملازمت کے دوران جب حضرت مسیح موعودؑ کے الہام و کشوف اور پیشگوئیاں پوری ہونے کا علم ہوا تو آپ نے حضورؑ کی چند کتب پڑھیں اور آخر زیارت کے لیے قادیان آئے۔ یہاں درد دل سے دعا کی تو اس خیال نے زور پکڑا کہ حضرت مرزا صاحب سے کوئی تعلق پیدا کرلو۔ چنانچہ آپ نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے ذریعے حضورؑ سے پوچھا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت صاحب سے بیعت کرلوں مگر بالفعل سکھ مذہب میں ہی رہوں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ہاں، ہم اُن کی بیعت لے لیں گے۔ آپؓ کی بیعت اسی طرح لے لی گئی جس طرح احمدی ہونے کے وقت لی جاتی ہے۔ آپؓ نے 1894ء میں بیعت کی۔آپؓ کا اسلامی نام عبدالرحیم رکھا گیا۔ ایک سال بعد 1895ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر آپؓ قادیان آگئے۔ چار سال تک حضورعلیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے صرف و نحو اور طب کی تعلیم حاصل کی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی سے ترجمہ قرآن پڑھا۔ پھر مدرسہ تعلیم الاسلام کے ٹیوٹر اور بعد میں مدرس رہے اور حضورؑ کے تینوں بیٹوں کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ 29؍سال تک ہائی سکول میں پڑھایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں آپؓ کو نماز کی امامت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ سفرِ جہلم 1903ء، سفر دہلی 1905ء میں حضورؑ کے ساتھ رہے۔ حدیث بخاری کا درس بھی دیتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی سفروں میں رفاقت رہی۔ حضور علیہ السلام نے ’’نورالقرآن نمبر2‘‘ میں فرمایا:
’’شیخ عبدالرحیم جوان صالح اور متقی شخص ہیں۔ ان کے ایمان اور اسلام پر ہمیں بھی رشک پیدا ہوتا ہے۔ ان کو اسلام لانے کے وقت کئی ایک سخت ابتلاء پیش آئے لیکن انہوں نے ایسے سخت ابتلاء کے وقت بڑی ثابت قدمی اور استقامت دکھائی، محض

اِبْتِغَاءٌ لِمَرْضَاتِ اللہ

دفعہ داری چھوڑ کر قادیان میں امام کامل کے ہاتھ پر اسلام و بیعت سے مشرف ہوئے۔ قرآن شریف سے کامل الفت ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے معہ ترجمہ اور تفسیر قرآن چند ماہ میں پڑھا ہے۔‘‘
تقسیمِ ہند تک آپؓ قادیان میں مقیم رہے۔ پھر پاکستان آگئے لیکن دیار حبیب کی تڑپ 1948ء میں ہی واپس قادیان لے گئی جہاں 1952ء تک قیام پذیر رہے۔ ناظر تعلیم و تربیت اور امیرمقامی قادیان بھی رہے۔
آپؓ کی وفات 9 جولائی 1957ء میں ہوئی۔ مکرم میجر ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحب آپؓ کے اکلوتے فرزند تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں