حضرت شیخ عبدالقادر صاحب

حضرت شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگرمل) 15؍اگست 1909ء کو گورنہ پٹھاناں ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ لالیاں سے مڈل کر کے اپنے ننھیال کے پاس بیرانوالہ ضلع حافظ آباد چلے آئے جہاں ایک احمدی حضرت میاں محمد مراد صاحب کی دکان پر بیٹھنے لگے اور وہیں جماعتی اخبارات و رسائل پڑھنے کا بھی موقع ملا لیکن مسلمانوں کی جہالت اور ابتر حالت کی وجہ سے اسلام کی طرف توجہ نہ ہوئی۔
1924ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت میاں مراد صاحب کے ساتھ اللہ جوایا نامی ایک شخص بھی قادیان گیا جس نے واپس آ کر قادیان کے بارہ میں کہنا شروع کردیا کہ وہاں ٹھگ بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک دن علیحدگی میں لالہ سوداگر مل نے اسے کہا کہ اگر قادیان میں ٹھگ بازی ہی ہوتی تو پھر میاں مراد صاحب بھی ٹھگ ہوتے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ پھر جب آپ نے قسم دی تو اس نے بتایا کہ اگر دنیا میں کہیں دین ہے تو وہ قادیان میں ہے اور دیانت اور محبت کا بھی عجیب عالم ہے۔ یہ سن کر آپ کو قادیان کی سیر کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ میاں مراد صاحب کے ہمراہ قادیان گئے جہاں کچھ روز تحقیق کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر احمدیت قبول کر لی۔ حضورؓ نے آپؓ کا اسلامی نام ’’عبد القادر‘‘ رکھا۔
بعد میں آپ کے عزیز پیچھا کرتے ہوئے قادیان پہنچے لیکن آپ نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ اگر آپ اپنے عزیزوں سے ملنے کبھی گاؤں چلے جاتے تو آپ کو ورغلایا جاتا اور چھوت چھات والا سلوک کیا جاتا لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ 1931ء میں آپ نے مولوی فاضل پاس کیا اور پھر دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں کئی جگہوں پر متعین رہے۔ 1939ء میں آپ نے میٹرک اور 1940ء میں ایف۔اے بھی کر لیا۔
آپ کی دو تصانیف ہیں جو بہت مقبول ہوئیں یعنی ’’سیرت سیدالانبیاء‘‘ اور ’’حیات طیبہ‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا رشتہ ایک نو مسلم حضرت شیخ عبد الرب صاحب کی بیٹی سے تجویز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ 18؍نومبر 1966ء کو آپ کی وفات ہوئی۔
محترم شیخ عبدالقادر صاحب کا ذکر خیر مکرم عبدالحمید چودھری صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جون 1996ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں