حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 20؍اپریل 1893ء کو پیدا ہوئے۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’حق یہ ہے کہ مجھے تو بچپن سے آج تک کسی دجالی طلسم یا مادی طاقت نے مرعوب نہیں کیا۔ اور مَیں ہمیشہ نہ صرف کامل ایمان کے ساتھ بلکہ کامل بصیرت کے ساتھ بھی صداقت کی آخری فتح کا یقین رکھتا ہوں‘‘۔
آپؓ کی دلکش سیرت سے بعض منتخب واقعات (مرتبہ: مکرم حافظ محمد نصراللہ صاحب) روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 و 18؍اکتوبر 1999ء کی زینت ہیں۔ قبل ازیں آپؓ کی سیرۃ کے بعض پہلوؤں کا بیان الفضل انٹرنیشنل کے شماروں 29؍دسمبر 1995ء، یکم نومبر 1996ء، 28؍فروری 1997ء اور 12؍فروری 1999ء کے اسی کالم میں ہوچکا ہے۔
حضرت میاں صاحبؓ کے پیش نظر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا رہتی تھی۔ آپؓ اپنی کتب جس دوست کے ذریعہ شائع کرواتے تھے، اُن سے کبھی کسی تصنیف کا معاوضہ نہیں لیا بلکہ اپنی تصنیف کا نسخہ بھی خود خریدتے اور اگر ناشر ہدیۃً کوئی نسخہ پیش کرنا چاہتا تو آپؓ یہ کہہ کر انکار فرما دیتے کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے اور مَیں اس معاملہ میں معاوضہ سے اپنے ثواب کو مکدّر نہیں کرنا چاہتا۔
آنحضرتﷺ سے آپؓ کی محبت کا اندازہ آپؓ کی اس تحریر سے کیا جاسکتا ہے: ’’ایک دفعہ ایک غریب مسلمان آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے ماتھے پر عبادت و ریاضت کا کوئی خاص نشان نہیں تھا مگر اس کے دل میں محبت رسولؐ کی چنگاری تھی جس نے اس کے سینہ میں ایک مقدس چراغ روشن کر رکھا تھا۔ اس نے قرب رسالت کی دائمی تڑپ کے ماتحت آنحضرتﷺ سے ڈرتے ڈرتے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ ۔ آپؐ نے فرمایا: تم قیامت کا پوچھتے ہو، کیا اس کے لئے تم نے کوئی تیاری بھی کی ہے؟۔ اس نے دھڑکتے ہوئے دل اور کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے عرض کیا: میرے آقا! نماز روزے کی تو کوئی خاص تیاری نہیں لیکن میرے دل میں خدا اور اس کے رسولؐ کی سچی محبت ہے۔ آپؐ نے اسے شفقت کی نظر سے دیکھا اور فرمایا اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی پھر تسلی رکھو کہ خدائے ودود کسی محبت کرنے والے شخص کو اس کی محبوب ہستی سے جدا نہیں کرے گا۔ یہ حدیث مَیں نے بچپن کے زمانہ میں پڑھی تھی لیکن آج تک جو مَیں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں میرے آقاؐ کے یہ مبارک الفاظ قطب ستارے کی طرح میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیں اور مَیں نے ہمیشہ یوں محسوس کیا ہے کہ گویا مَیں نے ہی رسول خدا سے یہ سوال کیا تھا اور آپؐ نے مجھے ہی یہ جواب عطا فرمایا تھا‘‘۔
اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل آپؓ نے اپنے دفتر کے ایک کارکن محترم مختار احمد صاحب ہاشمی سے رقّت آمیز لہجے میں فرمایا: ’’آپ اس بات کے گواہ رہیں اور مَیں آپ کے سامنے اس امر کا اقرار اور اظہار کرتا ہوں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میرے دل میں سب سے زیادہ حضرت سرور کائناتﷺ کی محبت جاگزیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے اَلْمَرْء مَعَ مَنْ اَحَبَّ اس لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے تحت مجھے وہاں آنحضرتﷺ کے قرب سے نواز دے گا‘‘۔
حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بیان ہے کہ ایک دفعہ گھر میں کسی کا ذکر ہوا جس نے حضرت عمو صاحبؓ (یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ) تک کسی کی کوئی بات غلط رنگ میں پہنچائی تھی جس سے آپؓ کے دل میں ناحق کچھ رنج پیدا ہوگیا تھا مگر چونکہ آپ ہمیشہ ایسے موقعہ پر متعلقہ شخص سے دریافت کرلیا کرتے تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپؓ کو حقیقت حال معلوم ہوگئی اور آپؓ نے مجھ سے افسوس کا اظہار فرمایا کہ بعض لوگ خواہ مخواہ فتنہ کا موجب بن جاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت چچی جان نے کہا کہ مَیں تو آپکو ہمیشہ کہتی ہوں کہ وہ شخص ناقابل اعتماد ہے مگر پھر بھی آپ اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پر آپؓ نے وہیں قدم روک لئے اور ایسی آواز میں جو غصہ والی اور اونچی تو نہیں تھی مگر اس میں بے پناہ قوت پائی جاتی تھی، فرمایا: دیکھو! مجھے ایسا مت کہو۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا تو اس کا کسی بندہ سے تعلق نہ ہوتا۔ وہ اپنے بندے کی کسی خوبی پر نظر رکھ کر اس سے تعلق رکھتا ہے۔ پس وہ میری کیسی ہی بدخواہی کرے، مَیں اس سے تعلق نہیں توڑوں گا۔ پھر دھیمی اور نرم آواز میں فرمانے لگے: تم جانتی ہو کہ اس میں بعض بہت بڑی خوبیاں بھی ہیں۔ اور پھر ایک دو نمایاں خوبیوں کا ذکر فرمایا۔
حضرت میاں صاحبؓ کے بچوں سے پیار کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک بار جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے ہم سب چھوٹے بھائیوں کو ڈلہوزی بھجوایا تو ان دنوں آم کا موسم ختم ہونے کو تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے میرے لئے باریک خوبصورت رنگین کاغذوں میں لپٹے ہوئے فجری آموں کی ایک پیٹی بند کروائی (آپ جب کبھی کسی کو کوئی تحفہ دیتے ، نہایت سلیقے سے سجا کر دیا کرتے تھے)۔ پھر تاکید فرمائی کہ ان کو کھانے سے پہلے یہ احتیاط کرلینا کہ نہ تو یہ ذرہ بھر کچے ہوں نہ ایک اعشاریہ زیادہ پکے ہوں۔… چنانچہ مَیں اسی احتیاط میں رہا کہ آم عین پک جائیں تو کھاؤں اور روزانہ مناسب پکے ہوئے آموں کی تلاش میں انہیں الٹتا پلٹتا رہا اور خلیفہ منیرالدین صاحب جو اس سفر میں میرے ہمراہ تھے اور برادرم مرزا انور احمد صاحب چوری چھپے نیم پکے ہوئے آم ہی کھاجاتے رہے۔ جب تک مجھے اس چوری کا علم ہوا، اکثر آموں کا صفایا ہوچکا تھا۔ آپؓ نے جب مجھ سے پوچھا کہ آم کیسے تھے تو مجبوراً مجھے شکایت کرنی پڑی۔ چنانچہ جب بعد میں خلیفہ منیرالدین صاحب آپؓ سے ملتے تو آپؓ نصیحت کی آمیزش والے انداز میں اُن سے پوچھا کرتے کہ کیوں منیر پہاڑ پر فجری آم کیسے لگتے ہیں؟۔
آپؓ کی عنایات محض بہت بچپن کی عمر تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ خاصی بڑی عمر کے اہل خاندان بھی اس پہلو سے آپؓ کی نظر میں بچے ہی تھے۔ اگرچہ آخری عمر میں بچوں کا خیال پہلے کی طرح نہیں رکھ سکتے تھے مگر پھر بھی جب کوئی موسمی پھل آتا تو آپؓ کے کمرے میں نوعمر زائرین کی تعداد غیرمعمولی طور پر بڑھ جایا کرتی تھی لیکن باوجود شدید مصروفیت کے یہ پسند نہ فرماتے تھے کہ کسی کو صاف صاف نکل جانے کے لئے کہیں مبادا اس کے جذبات کو ٹھیس لگے۔ ایک بار قادیان سے کیلے آئے ہوئے تھے، ایک بڑی عمر کی بچی نے جاکر خاص طور پر سلام کیا۔ اسی خلوص کے ساتھ آپؓ نے برجستہ فرمایا: وعلیکم السلام۔ مگر کیلے ابھی کچے ہیں۔
حضور انور مزید فرماتے ہیں کہ قادیان میں کئی نوجوان آپؓ کے مردانہ صحن میں مجلس کر رہے تھے اور چونکہ ان میں سے بعض سگریٹ بھی پیتے تھے اس لئے اس ڈر سے کہ حضرت میاں صاحبؓ اوپر سے نہ آجائیں، کنڈے لگاکر سگریٹ نوشی کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد آپؓ تشریف لائے، دروازہ کھلوایا، السلام علیکم کہا اور باہر تشریف لے گئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر واپس آئے اور کمرہ میں داخل ہوکر آدمی گنے جو سات تھے۔ خاموشی سے سات الائچیاں جیب سے نکال کر میز پر رکھ کر چلے گئے۔ آپؓ کے جانے کے بعد سب کمرے والے اس لطیف مزاح پر بے اختیار ہنس دیئے مگر اس ہنسی میں جو خفّت تھی وہ شاید آج تک اُن کو نہ بھولی ہو۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اباجان اور امی جب کبھی سفر پر جاتے تھے تو مجھے اور بھائی خلیل کو عمّو صاحب کے ہاں چھوڑ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ رمضان میں چچی جان بسبب بیماری روزہ رکھنے سے معذور تھیں مگر سحری کے وقت تہجد کی غرض سے اور کچھ کھانے پر خیال رکھنے کی خاطر باقاعدہ اٹھا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ کسی خادمہ کی غلطی پر چچی جان نے ذرا اونچی آواز میں اُسے سخت سست کہا تو عمّو صاحب اُن سے تو کچھ نہ بولے مگر مجھے مخاطب کرکے فرمانے لگے: ’’تم جانتے ہو کہ تمہاری چچی جان بیمار ہیں۔ بے چاری روزے تو نہیں رکھ سکتیںالبتہ ذکر الٰہی کے لئے اس وقت ضرور اٹھتی ہیں‘‘۔ وہ دن اور رمضان کا آخری روزہ۔ پھر چچی جان نے کبھی سحری کے وقت آواز بلند نہیں کی۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ آپ نصیحت صرف مزاح کی ملونی کے ساتھ ہی کیا کرتے تھے۔ بلکہ آپؓ ایک قادرالکلام فصیح و بلیغ عالم تھے اور ہمیشہ اقتضائے حال کے مطابق کلام فرماتے تھے۔ جب سنجیدگی کی ضرورت محسوس کرتے تو سنجیدگی سے کام لیتے تھے اور جب جلال کا موقعہ ہوتا تو جلال کا اظہار فرماتے۔
مکرم شیخ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیں کہ دسمبر 1959ء کی ایک رات آٹھ بجے جب مَیں بذریعہ بس ربوہ پہنچا تو ساتھ ہی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی پہلی رہائش گاہ تھی۔ دل چاہا کہ ابھی ملاقات کرلوں۔ دستک دی تو اندر سے آپؓ کی آواز آئی: کون!۔ خاکسار نے عرض کیا: مَیں عبدالقادر ہوں اور لاہور سے آیا ہوں، ملاقات کو جی چاہتا ہے۔ فرمایا: مَیں اس وقت سخت مصروف ہوں، اگر ضروری ہی ملنا ہے تو ایک منٹ کے لئے آ جاؤ۔ خاکسار نے آپؓ کی خاص شفقت کے زعم میں کہا کہ اگر ایک منٹ دینا ہے تو پھر مَیں کل حاضر ہو جاؤں گا۔ فرمایا: اگر تم نے کل آنا ہے تو پھر ابھی آ جاؤ۔ خیر مَیں اندر چلا گیا۔ آپؓ جلسہ سالانہ کے لئے مضمون کی تیاری میں مصروف تھے۔ چند منٹ بعد خود ہی اجازت حاصل کرکے مَیں واپس آگیا۔ دوچار دن بعد خاکسار کو لاہور میں آپؓ کی چٹھی موصول ہوئی کہ افسوس ہے کہ اس دفعہ کام کی کثرت کی وجہ سے آپ کے ساتھ مفصل بات نہیں ہوسکی۔
محترم مولوی محمد منور صاحب لکھتے ہیں کہ نومبر 1952ء میں جب خاکسار رخصت پر پاکستان گیا تو آپؓ سے مسجد مبارک میں ملاقات ہوئی اور مصافحہ کا شرف حاصل ہوا۔ مَیں نے عرض کیا کہ مشرقی افریقہ میں چار سال دعوت الی اللہ کرکے آیا ہوں ۔ یہ سنتے ہی آپؓ نے مجھے گلے لگالیا… غالباً آپؓ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے نہ ہی میرے آباء کی کوئی نمایاں خدمات تھیں، نہ ہی آپکی یہ عادت تھی کہ یونہی سڑکوں پر لوگوں سے گلے ملتے پھریں۔ مجھے بھی آپؓ کے رعب کی وجہ سے معانقہ میں پہل کرنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن صرف یہ سن کر کہ مَیں نے چند سال افریقہ میں اشاعت اسلام کا کام کیا ہے، آپؓ نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اس رنگ میں للّہی محبت کا اظہار فرمایا۔
محترم مولوی صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ اگست 1960ء میں جب خاکسار آٹھ سال بعد ربوہ واپس گیا تو آپؓ کے ہاں بھی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ آپؓ کے خادم نے اندر سے پیغام لاکر دیا کہ طبیعت ناساز ہے، آج نہیں مل سکیں گے۔ ابھی مَیں نے واپسی کے لئے دو چار قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ دوسرا خادم بھاگا ہوا آیا اور کہا کہ حضرت میاں صاحب یاد فرماتے ہیں۔ اندر گیا تو دیکھا کہ آپؓ پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں۔ رنگ زرد، چہرہ سے تکان اور بے چینی عیاں۔ اپنے پاس ہی بستر پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ ’’رات امّ مظفر کو چوٹ آنے کی وجہ سے بے خوابی رہی ہے۔ ان کی بے چینی کی وجہ سے مَیں بھی نہ سو سکا۔ اب ضعف بھی ہے اور گھبراہٹ بھی‘‘۔ اللہ! اللہ!! میری دلشکنی کا آپؓ کو اس قدر احساس تھا کہ اپنی تکلیف بھول گئے۔ حالانکہ اگر اس وقت ملاقات نہ بھی ہوتی تو مجھے آپؓ کے در دولت پر دس مرتبہ جانے میں بھی کوئی دقت وزحمت نہیں تھی۔
مکرم شاہد احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب شدید بیمار ہوئے اور اُن کی حالت نازک ہوگئی تو مَیں گھبرا کر حضرت میاں صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’وہ تو ہمارے پرانے آدمیوں میں سے ہیں۔ مَیں اُن کے لئے دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا‘‘۔ مَیں جب واپس آیا تو والد صاحب کی حالت سنبھل گئی تھی اور شام تک طبیعت بہت بہتر ہوگئی۔
جب حضرت میاں صاحبؓ نے کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ لکھی تو اُس وقت تک آپؓ کے خسر محترم غلام حسن خان صاحب پشاوری غیرمبائع تھے۔ اس کتاب میں غیرمبایعین کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خسر کا خیال آیا تو آپؓ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور آپؓ نے نہایت عاجزی سے یہ دعا کی کہ ’’خدایا! تُو ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر تیری تقدیر مانع نہیں تو اُنہیں حق کی شناخت عطا کر‘‘۔ ابھی اس کتاب کی اشاعت پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت مولوی صاحب قادیان آکر بیعتِ خلافت سے مشرف ہوگئے۔
حضرت میاں صاحبؓ کو سلسلہ کے اموال کی حفاظت کا حد درجہ خیال تھا۔ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے دفتر کی سٹیشنری اور دیگر اشیاء استعمال نہیں فرماتے تھے اور کارکنوں کو بھی اس امر کی تلقین فرماتے رہتے تھے کہ بعض اوقات غیرارادی طور پر بھی انسان دفتر کی سٹیشنری وغیرہ سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اس لئے کبھی کبھی کچھ نہ کچھ رقم صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں داخل کروادیا کرو۔ چنانچہ اس کے لئے آپؓ نے صدرانجمن کے خزانہ میں ایک مد بھی جاری کروائی ہوئی تھی۔
ایک دفعہ ربوہ کے ایک حلقہ کے صدر نے ایک ایسی درخواست کی امداد کے لئے سفارش کردی جو فی الواقعہ منظوری کے قابل نہ تھی۔ آپؓ نے وہ درخواست مکرم مولانا محمد صدیق صاحب صدر عمومی کو بھجوادی کہ متعلقہ صدر کو سمجھایا جائے کہ سلسلہ کے اموال کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ پوری تحقیق کے بعد کسی کی درخواست پر سفارش کی جایا کرے۔
محترم ملک محمد عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ حضرت میاں صاحبؓ کی منکسرالمزاجی ایسی تھی کہ قادیان کی ایک بوڑھی خاکروبہ سلام کے لئے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپؓ نے فرمایا: اٹھو، کرسی پر بیٹھو۔ پھر اسے باصرار کرسی پر بٹھایا اور خادم سے اُس کے لئے چائے لانے کو کہا اور بڑی دیر تک ہمدردی سے اُس کے حالات پوچھتے رہے۔
مکرم خان سعداللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ 18-1917ء میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہاں بارہ پندرہ یوم بطور مہمان رہا۔ رات آپکی بیٹھک کے صحن میں سو جایا کرتا تھا۔ جب صبح اٹھتا تو میرے نزدیک میز پر پانی کا جگ، وضو کے لئے پانی کا لوٹا اور تولیہ موجود ہوتا۔ بچپن کی لا پرواہی کے باعث کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ سب کچھ کہاں سے آ جاتا ہے۔ ایک صبح اذان کے وقت نیم خوابیدہ حالت میں چارپائی پر پڑا تھا کہ حضرت میاں صاحبؓ میری چارپائی کے قریب یہ چیزیں رکھ کر خود مسجد تشریف لے گئے اور اسی طرح روزانہ میرے قیام کے دوران وہ کرتے رہے۔
مکرمہ مبارکہ قمر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد ہم ربوہ پہنچے اور کرایہ پر مکان لیا۔ پھر زمین خریدی لیکن مکان بنانے کیلئے پیسے کی ضرورت تھی جس کے لئے اپنی زرعی زمین بیچنے کا ارادہ کیا اور سودا کرکے ایک ہزار روپیہ بیعانہ بھی لے لیا۔ اسی دوران حضرت میاں صاحبؓ کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوئی تو آپؓ نے سختی سے منع فرمایا کہ زرعی زمین ہرگز فروخت نہیں کرنی ، یہ کوئی عقلمندی نہیں کہ زمین بیچ کر مکان بناؤ۔ مَیں نے گھبراکر عرض کیا کہ اب تو سودا پختہ ہوچکا ہے۔ لیکن آپؓ بار بار یہی فرماتے کہ زمین نہیں فروخت کرنی، مکان بن جائے گا، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ آپؓ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پورے فرمائے۔ چنانچہ زمین کا گاہک کسی وجہ سے لیٹ ہوگیا اور اس طرح سودا فسخ ہوگیا لیکن سودا فسخ ہونے کی خوشی میں ہم نے بیعانہ کی رقم بھی اُس کو واپس کردی جو ہمارا حق تھی۔ پھر انجمن سے تین ہزار روپیہ قرض لیا اور مکان کی بنیادیں رکھ دیں۔ کام شروع ہوا تو جب تک مکان بنتا رہا، کہیں نہ کہیں سے رقم آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ فصل بھی غیرمعمولی طور پر اچھی ہوگئی۔ اور مکان بنتے بنتے پوری کوٹھی تیار ہوگئی۔ جو حصہ مکان اُس وقت نہ بنایا پھر نہ بن سکا۔ اب اکثر کف افسوس ملتے ہیں کہ اگر اُس وقت بنالیتے تو اللہ تعالیٰ کا فضل جاری تھا، ضرور بن جاتا۔
محترم ملک حبیب الرحمن صاحب کے ایک عزیز کو سلسلہ کی طرف سے کچھ سزا ملی تو محترم ملک صاحب نے حضرت میاں صاحبؓ سے سارے واقعات بیان کرکے عرض کیا کہ بحیثیت صدر نگران بورڈ آپؓ تحقیقات کریں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اُس دوست کی اکثر باتیں درست ہیں اور تحقیقات پوری طرح ہونی چاہئے تھی لیکن چونکہ سزا خلیفہ وقت کی طرف سے ہے لہٰذا وہ دوست بلاشرط معافی مانگیں، پھر ان کے عذرات کی طرف توجہ دی جائیگی۔
محترم پروفیسر بشارت احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ قادیان میں اسمبلی کے الیکشن کے سلسلہ میں پولنگ کا انتظام جس کارکن کے سپرد تھا، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اُن کی مساعی پر خوش نہ ہوئے۔ اگلے روز ایک مجلس میں خاکسار نے حضرت میاں صاحبؓ کی موجودگی میں کہا کہ فلاں صاحب کی سستی کی وجہ سے کافی نقصان ہوا ہے۔ یہ سن کر حضرت میاں صاحبؓ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا: ان کی جگہ اگر آپ ہوتے تو کیا وہ سب کچھ کرلیتے جو حضور چاہتے ہیں؟ خلیفہ وقت کا حق ہوتا ہے کہ وہ ہماری سستی و غفلت پر تنبیہ کرے لیکن ہر کس و ناکس کا حق نہیں کہ وہ حرف گیری کرے بلکہ اپنی فکر کرنی چاہئے کہ مَیں نے کیا کیا ہے؟!۔
محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضرت میاں صاحبؓ کے ایک دیرینہ دوست سے ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ ناراض ہوگئے تو انہوں نے کسی ذریعہ سے حضرت میاں صاحبؓ کو پیغام بھجوایا کہ ملنا چاہتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: حضرت صاحب اُس سے ناراض ہیں، پہلے حضرت صاحب سے معافی لے، پھر ملوں گا۔
مکرم فیض الحق خانصاحب بیان کرتے ہیں کہ جماعت کوئٹہ نے بعض معاملات کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں ایک عریضہ بھیجا اور اس خیال سے کہ یقینی طور پر حضورؓ کی خدمت میں پیش ہو جاوے، حضرت میاں صاحبؓ کی معرفت ارسال کردیا۔ لیکن آپؓ نے وہ خط جماعت کو واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت صاحب کا خط کسی کی معرفت ارسال کرنا خلاف ادب ہے۔
محترم سید میر داؤد احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ 1947ء میں ایک دن مَیں نے حضرت میاں صاحبؓ کی خدمت میں بعض انتظامی نقائص کا ذکر کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ آدمی کو سوچ کر بات کرنی چاہئے۔ اصل کام انتظام کا امام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اسی کی ہدایات کے ماتحت تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جو بعض دفعہ بظاہر غلط نظر آتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد امام کو حاصل ہوتی ہے اور وہی درست ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے وہی بہتر ہوتا ہے جو امام فیصلہ کرتا ہے۔ باقی لوگوں کو چاہئے کہ زور اس کی اطاعت پر دیں، نہ کہ خود اپنی طرف سے تجویزیں تیار کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں