حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مئی 2000ء میں انصاری صحابی اور خزرجی قبیلہ بنوسلمہ کے رئیس حضرت عمرو بن جموحؓ کے بارہ میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
عمرو بن جموحؓ نے قبول اسلام سے قبل گھر میں ایک لکڑی کا بت بنارکھا تھا جس کا نام ’’مناۃ‘‘ تھا۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آپ کے بیٹے معاذ نے اسلام قبول کرلیا تو انہوں نے مدینہ واپس پہنچ کر اپنے بعض مسلمان ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ طریق اختیار کیا کہ روزانہ رات کو بت کو گھر سے باہر کسی گڑھے میں پھینک دیتے۔ عمرو صبح اُس کو ڈھونڈتے، گھر لاکر صاف کرتے، خوشبو لگاتے اور بت سے کہتے کہ اگر مجھے پتہ چل جائے کہ تجھ سے یہ سلوک کس نے کیا ہے تو مَیں اُسے رُسوا کردوں۔ آخر ایک روز تنگ آکر انہوں نے بت کے گلے میں تلوار لٹکادی کہ تُو خود ہی اپنی حفاظت کیا کر۔ اگلے روز دیکھا تو تلوار کی جگہ مرا ہوا کتا لٹکا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ کی طبیعت اتنی متنفر ہوئی کہ فوراً اسلام قبول کرلیا اور پھر بت سے مخاطب ہوکر یہ اشعار کہے: ’’خدا کی قسم! اگر اے بت تُو معبود ہوتا تو تُو اور مردہ کتا اکٹھے نہ ہوسکتے… الحمدللہ کہ اُس نے مجھے قبر میں داخل ہونے سے بچالیا۔‘‘
غزوہ بدر کے موقع پر آپؓ کے بیٹوں نے آپؓ کو جنگ میں حصہ لینے سے آنحضورﷺ کے حکم سے اس لئے منع کردیا کہ آپؓ کے پاؤں میں لنگ تھا۔ لیکن غزوہ اُحد کے وقت آپؓ نے بیٹوں کی بات نہ مانی اور آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں میدان جنگ میں جہاد کرنے کے عوض جنت میں چلوں پھروں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ آپؓ پر جہادفرض تو نہیں ، آگے آپؓ کی مرضی۔ پھر بیٹوں سے فرمایا کہ انہیں مت روکو شاید اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کے رتبہ سے نوازے۔ چنانچہ میدان اُحد میں لڑائی کے وقت حضرت عمروؓ نے اپنے بیٹے خلادؓ کو لے کر مشرکین پر حملہ کیا اور لڑتے لڑتے دونوں شہید ہوگئے۔ جنگ سے پہلے آپؓ نے شہادت کی بار بار دعا کی تھی اور ایک مرتبہ آنحضورﷺ سے پوچھا تھا کہ اگر مَیں فی سبیل اللہ لڑائی میں شہید ہوجاؤں تو کیا اپنے لنگڑے پاؤں سے چل رہا ہوں گا؟۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: ہاں۔ جب آپؓ شہید ہوگئے تو آنحضورؐ آپؓ کی نعش کے قریب پہنچے اور فرمایا کہ ’’مَیں نے تمہیں صحیح و سالم پیر سے جنت میں چلتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔
غزوہ اُحد میں حضرت عمروؓ کے بیٹے خلادؓ کے علاوہ آپؓ کے غلام ابوایمنؓ اور برادرنسبتی حضرت عبداللہ بن عمروؓ بھی شہید ہوئے۔ آنحضورﷺ نے حضرت عمروؓ بن جموح اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ کو ایک ہی قبر میں دفنانے کا حکم دیا۔
حضرت عمروؓ کو سخاوت کی وجہ سے بنوسلمہ کا سردار قرار دیا گیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ بنوسلمہ کے کچھ لوگ آنحضورﷺ کی خدمت میں آئے تو آنحضورؐ نے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ جد بن قیس ایک بخیل شخص ہمارا سردار ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ بخل سے بھی بدتر کوئی چیز ہے! اس لئے تمہارا سردار عمروؓ بن جموح ہے۔
ایک انصاری شاعر نے آنحضرتﷺ کے اس فیصلہ سے متأثر ہوکر یہ اشعار کہے: آنحضرتﷺ نے ہمارے اصل سردار ہونے کے متعلق جو بات کہی ہے، وہ حق ہے… واقعی عمرو بن جموح ایسا سخی ہے کہ جو سائل بھی اس سے سوال کرتا ہے تو وہ اپنا مال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال لے لو کیونکہ اس مال نے تو کل پھر آ ہی جانا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں