حضرت عمر ؓ کی زندگی کے نادر واقعات

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10جون 2005ء میں مکرم حافظ عبد الحئی صاحب بھٹی کے قلم سے سیدنا حضرت عمرؓ بن الخطاب کی زندگی سے بعض نادرواقعات ہدیۂ قارئین کئے گئے ہیں۔
عاجزی کا پیکر:
حضرت امّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میرے کچھ صحابہ ہیں جنہیں مرنے کے بعد میں نہ دیکھوں گا اورنہ وہ مجھے دیکھ پائیں گے۔‘‘ جب حضرت عمرؓ کو اس حدیث کا پتہ چلا تو آپ حضرت ام سلمہؓ کے پاس گئے اور عرض کی: میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! لیکن اب تمہارے بعد میں کسی اور کے بری الذمہ ہونے کے بارہ میں نہیں بتاؤں گی۔
دعا پر یقین:
حضرت عمرؓ کے دَور میں جب قحط پڑا تو چرواہوں نے اپنا پیشہ چھوڑ دیا اور ریوڑ بے کار ہوگئے۔ حضرت کعب الأحبارؓ نے کہا: امیر المومنین!
بنی اسرائیل جب قحط کا شکار ہوتے تو وہ انبیاء کے رشتہ داروں کے وسیلہ سے بارش مانگا کرتے تھے۔ تو آپ نے حضرت عباسؓ بن عبد المطلب کا ہاتھ پکڑ کر ابر رحمت کیلئے دعا کی۔ حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ آپکے اوپر ایک چادر تھی جو بمشکل آپکے گھٹنوں تک پہنچ رہی تھی اور آپؓ انتہائی عاجزی سے گڑگڑاتے ہوئے استغفار پڑھ رہے تھے اور آپؓ کے دائیں حضرت عباسؓ کھڑے تھے۔ آپؓ نے قبلہ رُخ ہوکر ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور بلند آواز کے ساتھ اپنے ربّ سے مناجات کرنے لگے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ پھر آپؓ نے حضرت عباسؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: یاربّ! ہم تیرے رسولؐ کے چچا کے وسیلہ سے تیری مدد مانگتے ہیں۔ حضرت عمرؓ یہ دہراتے رہے اورحضرت عباسؓ بھی ساتھ کھڑے دعا کرتے اور روتے رہے۔
عادل امام:
حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ کا ایک ساتھی دشمن پہ بہت بھاری پڑتا تھا۔ ایک معرکہ میں مال غنیمت ہاتھ آیا تو انہوں نے اسے اس کے حصہ میں سے کچھ حصہ دینا چاہا لیکن اُس نے سارا حصہ اُسی وقت طلب کیا۔ اس پر حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ نے اسے بیس کوڑے لگوائے اور گنجا کروادیا۔ اس شخص نے اپنے بال اکٹھے کئے اور حضرت عمرؓ کے پاس جاکر سارا حال بیان کیا۔ آپؓ نے فرمایا: اگر سارے کے سارے لوگ اسی طرح اپنی رائے کے پکے ہوجائیں تو مجھے تمام اموال غنیمت سے زیادہ اچھا لگے گا۔ پھر آپؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ مجھے فلاں شخص نے اس طرح شکایت کی ہے۔ اگر تم نے یہ کام لوگوں کے سامنے کیا ہے تو تمہیں لوگوں کے سامنے اس کا بدلہ چکانا پڑے گا اور اگر تم نے یہ کام خلوت میں کیا ہے تو خلوت میں اس کا بدلہ دینا ہوگا۔ جب حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ آگئے تو لوگوں نے کہا: انہیں چھوڑ دو۔ تو اس شخص نے انکار کیا لیکن جب وہ اس کے سامنے بیٹھ گئے تاکہ وہ آپؓ کے بال مونڈے تو اس شخص نے آسمان کی طرف منہ اٹھاکر کہا: اے میرے اللہ! میں اسے معاف کرتا ہوں۔
٭ ایک دن مصر سے ایک شخص آیا اور حضرت عمرؓ سے آپؓ کی پناہ مانگنے کے بعد کہا کہ میرا گھوڑا ریس میں عمروؓ بن العاص والی ٔ مصر کے بیٹے کے گھوڑے سے آگے نکل گیا تو اُس نے مجھے اپنے کوڑے سے مارنا شروع کر دیا اور کہنے لگا میں سرداروں کا بیٹا ہوں۔ اور جب اس کے باپ عمرو کو یہ پتہ چلا تو اس نے اس ڈر سے کہ کہیں میں آپؓ کو شکایت نہ کر دوں مجھے قید کر دیا۔ اب میں بڑی مشکل سے نکل کر آپؓ کے پاس آیا ہوں۔ اس پر آپؓ نے حضرت عمروؓ بن العاص کو لکھا کہ: اس موسم حج میں اپنے فلاں بیٹے کو ساتھ لے کر چلے آنا۔ اور اس مصری شخص کو کہا کہ جب تک وہ آئے ٹھہرے رہو۔
پھر جب حضرت عمرؓ حج سے فارغ ہو کر حضرت عمروؓ بن العاص اور ان کے بیٹے سمیت لوگوں کے پاس بیٹھے تھے تو وہ مصری شخص کھڑا ہوا۔ حضرت عمرؓ نے کوڑا اُس کی طرف اچھالا اور کہا: سرداروں کے بیٹے کو مارو۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اس شخص نے اس لڑکے کو مارا اور ہم چاہتے تھے کہ وہ اسے مارے۔ وہ مارتا رہا اور رُکا نہیں یہاں تک کہ اتنا مارا کہ ہمیں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ رُک جائے، جبکہ حضرت عمرؓ برابر کہے جارہے تھے کہ سرداروں کے بیٹے کو مار! پھر مصری نے کہا: میں نے بدلہ لے لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اسے عمرو کے سر پر بھی مارو۔ وہ بولا: امیر المومنین! جس نے مجھے مارا تھا میں نے اسے مار لیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم اِسے بھی مارتے تو تمہیں کوئی بھی نہ روکتا یہاں تک کہ تم خود ہی رُکتے۔ پھر عمرو بن العاصؓ سے کہا: عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔
٭ حضرت عمروؓ بن العاص نے ایک شخص کو منافق کہا تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور کہا: عمرو نے مجھے منافق کہا ہے اور خدا کی قسم جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے میں نے منافقت نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ فلاں شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ تم نے اُسے منافق قرار دیا ہے۔ میں نے اسے حکم دیا ہے کہ اگر وہ دو گواہ پیش کر دے تو تجھے چالیس کوڑے مارے۔ وہ شخص حضرت عمروؓ بن العاص کے پاس پہنچا اور اس نے وہاں لوگوں کو خدا کا واسطہ دے کر گواہی دینے کو کہا جس پہ لوگوں نے اس کی بات کی تصدیق کی تو حنتمہؔ نے اس شخص سے کہا: کیا تو امیر کو مارے گا؟ اور کہا: میں اس کا تاوان دیدیتا ہوں۔ اُس شخص نے کہا: خدا کی قسم اگر تو اس عمارت کو مال سے بھردے تب بھی میں اس پہ راضی نہ ہونگا۔ حنتمہؔ نے دوبارہ حیرت سے کہا: کیا تو امیر کو مارے گا؟ تو اس شخص نے کہا: لگتا ہے یہاں عمرؓ کی اطاعت نہ کی جائے گی، اور چل پڑا۔ تو حضرت عمروؓ بن العاص نے اس کو بلایا اور پھر اسے کوڑا پکڑا کر اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ اُس نے پوچھا: کیا اب بھی تم مجھے اپنی امارت کے ذریعہ روک سکتے ہو؟ تو آپ نے کہا: نہیں؛ اور اسے کوڑے مارنے کا کہا۔ اس پر اس شخص نے کہا: میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔
پرکھ کی کسوٹی
ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے کہا: فلاں شخص بہت سچا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ؓنے پوچھا کیا تمہارے اور اس کے درمیان دشمنی رہی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپؓ نے پوچھا: کیا کوئی امانت اس کے پاس رکھوائی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؓ نے فرمایا: پھر تم اس کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے! لگتا ہے تم نے اُسے مسجد میں سر اٹھاتے اور رکھتے دیکھا ہے۔
نصیحت پہ عمل:
رسول کریمﷺ نے حضرت اویس قرنی کے بارے میں بیان کیا کہ وہ اہل یمن میں سے ہے اور قرن نامی بستی میں رہتا ہے اور اس کے قبیلہ کا نام مراد ہے۔ اس کا باپ وفات پا چکا ہے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہا ہے اور ان سے بہت حسن سلوک کرتا ہے، اُسے برص ہوئی تو اس نے اللہ سے دعا کی اور اللہ نے اسے شفا دیدی۔ بس اس کے بازو پہ اس کا درہم کے برابر نشان ہے، وہ تابعین کا سردار ہے۔ پھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے کہا: اگر اس سے اپنے لئے بخشش کی دعا کرواسکو تو ضرور کروانا۔
حضرت عمرؓ جب خلیفہ بنے تو ہر سال حاجیوں سے پوچھتے تھے کہ کیا تم میں کوئی اویس قرنی ہے؟ پھر پوچھتے تم نے اسے کس حال میں چھوڑا ہے؟ تو وہ لوگ حضرت اویس کی قدرومنزلت جانے بغیر کہتے کہ: اس کے پاس تھوڑا سا سازوسامان ہے اور کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ فرماتے: تمہارا برا ہو! رسول کریم ﷺ نے اس کے بارہ میں فرمایا ہے: اگر تم اس سے اپنی بخشش کی دعا کرواسکو تو کروا لو! اس طرح حضرت عمرؓ ہر سال ان کا انتظار فرماتے۔ آخر ایک سال وہ یمن کے حاجیوں کے ساتھ آگئے۔ حضرت عمرؓ ان سے ملے اور یقین کے لئے اُن سے کئی سوالات کئے۔ جب اُن کے بازو پر برص کا نشان دیکھا تو اُنہیں گلے لگالیا اور فرمایا: تم ہی ہو جن کے بارہ میں رسول کریم ﷺ نے بیان کیا ہے۔ پس تم میرے لئے مغفرت کی دعا کرو۔ انہوں نے کہا: امیر المومنین! میں آپ کے لئے مغفرت کی دعا کروں؟ آپؓ نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر حضرت عمرؓ بڑے الحاح سے انہیں کہتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے آپؓ کے لئے مغفرت کی دعا کی۔
پھر حضرت عمرؓ نے ان سے ان کے حج کے بعد کا ارادہ پوچھا۔ انہوں نے کہا: میں مراد جارہا ہوں اور پھر عراق جاؤں گا۔ آپ نے کہا: میں والی ٔ عراق کو آپ کے بارے میں لکھے دیتا ہوں! انہوں نے کہا: آپ کو خدا کی قسم ہے کہ ایسا نہ کریں۔ مجھے ان مفلسین میں ہی چلتے پھرتے رہنے دیں جن کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔
قرآنی معارف پہ گہری نظر
ایک دن ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور آپ کے کسی ساتھی کے عیب کھول کھول کر بیان کرنے لگا۔ جب وہ اپنی چغلخوری سے فارغ ہوا تو حضرت عمرؓ نے سر جھکا لیا گویا کہ اس کی چغلخوری کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اور اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا: اگر تُو چاہے تو ہم تیرے معاملہ میں غور کریں گے اور تیری باتوں کی پڑتال کریں گے۔ اگر تو سچا ہوا توتُو ان لوگوں میں سے ہوگا جن کا اس آیت میں ذکر آیا ہے کہ: اے مومنو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو چھان بین کر لیا کرو تاکہ جہالت کی وجہ سے تم کسی قوم کو جانہ لو اور پھر اپنے کئے پہ نادم ہونا پڑے۔ اور اگر تُو جھوٹا ہے تو تیرا شمار اس گروہ میں ہے جس کا اس آیت میں ذکر آیا ہے کہ: تُو ہر بہت زیادہ قسمیں کھانے والے حقیر، زیادہ عیب چین اور چغل خور شخص کی اطاعت نہ کر۔ اور اگر تو چاہے تو ہم تمہیں معاف کردیتے ہیں لیکن آج کے بعد توہماری مجلس میں نہ آنا کیونکہ تو مومنین کا جلیس نہیں ہوسکتا۔
اس پر اس شخص کو اپنا آپ دکھائی دیا اور اس نے کہا: اے امیرالمومنین! میں معافی چاہتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی چغلی نہیں کروں گا۔ پھر وہ بہت شرمندگی کے ساتھ آپ کی مجلس سے نکل گیا۔
نمودونمائش سے بیزار حق شناس
حضرت عمرؓ ایک گدھے پہ مدینہ سے شام تشریف لے گئے۔ حضرت معاویہؓ ایک پرشوکت سواری پہ آپ کے استقبال کے لئے آئے تو آپؓ نے اُن سے منہ موڑ لیا۔ تو وہ آپؓ کے پہلو میں پیدل چلنے لگے۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے آپؓ سے عرض کی: آپؓ نے اسے تھکا دیا ہے۔ اس پر آپؓ امیر معاویہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور فرمایا: تم اپنے دروازہ پہ کھڑے حاجت مندوں کے ہوتے ہوئے اس قدر شاندار سواری استعمال کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: جی امیرالمومنین۔ آپؓ نے پوچھا: کیوں؟ انہوں نے کہا: ہم ایسے علاقہ میں ہیں جہاں دشمن کے جاسوس ہوسکتے ہیں۔ تو ضروری ہے کہ ہم ایسا رکھ رکھاؤ رکھیں جس سے ان کے دل میں سلطان کی ہیبت بیٹھی رہے۔ اب اگر آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو میں یہ کروں گا اور اگر منع کرتے ہیں تو میں آئندہ اس سے باز رہوں گا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا: جو تُو کہہ رہا ہے، اگر سچ ہے تو یہ ایک عقلمند دانا کی رائے ہے اور اگر جھوٹ ہے تو یہ ایک ادیب کا فریب ہے۔ میں نہ تو اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے منع کرتا ہوں۔
اپنے ساتھیوں کی خبر رکھنے والا
حضرت عمرؓ نے چار سو دینار کی ایک تھیلی ایک لڑکے کو دی اور کہا یہ ابو عبیدہ بن الجراح کے پاس لے جاؤ اور دیکھو وہ اس کا کیا کرتے ہیں۔ لڑکا وہ تھیلی حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ یہ امیر المومنین نے آپ کی ضروریات کے لئے بھیجی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس سے تعلق جوڑے اور اس پر رحم کرے پھر آپ نے ایک لڑکی کو بلایا اور اس سے کہا یہ پانچ فلاں اور یہ سات فلاں کو دے آؤ یہاں تک کہ وہ تھیلی ختم ہوگئی۔ لڑکے نے واپس آکر حضرت عمرؓ کو ساری بات بتائی۔ پھر آپؓ نے چار سو دینار کی ایک تھیلی حضرت معاذؓ بن جبل کے پاس بھیجی اور کہا کہ دیکھنا وہ کیا کرتا ہے۔ لڑکا گیا اور آپ سے بھی وہی کہا۔ حضرت معاذؓ نے بھی وہی کیا جو حضرت ابو عبیدہؓ نے کیا تھا۔ جب لڑکے نے آکر حضرت عمرؓ کو بتایا تو آپ فرمانے لگے یہ سب بھائی ہیں اور ایک جیسی عادات وصفات کے مالک ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں