حضرت قاضی سید امیر حسین شاہ صاحب ؓ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت قاضی سید امیر حسین شاہ صاحب آف بھیرہ کے آباء واجداد کو مغلیہ دورِ حکومت میں قاضی کا عہدہ حاصل رہا اسلئے یہ خاندان قاضی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حضرت قاضی صاحبؓ کی ولادت 1864ء میں ہوئی۔ آپؓ کے والد صاحب کو گھوڑوں کی خرید و فروخت کا شوق تھا۔ ابتداء میں آپؓ کو بھی یہی شوق رہا لیکن جوانی میں یکایک آپؓ کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوا اور توجہ تحصیل علم کی طرف مبذول ہوگئی۔ علم کے حصول کیلئے آپؓ نے کئی شہروں کا سفر اختیار کیا اور سہارنپور کے مدرسہ مظہرالعلوم سے بھی تعلیم حاصل کی۔ علم حدیث سے آپؓ کو بہت محبت تھی۔ تحصیل علم کے بعد آپؓ نے اپنے لئے پیشہ تدریس پسند کیا اور مدرسۃ المسلمین امرتسر میں استاد رہے۔ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کے نزدیک آپؓ نے 1893ء میں مباحثہ آتھم کے دوران امرتسر میں ہی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ اس وقت جماعتی نظام قائم نہیں ہوا تھا چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے امرتسر کے احمدی دوستوں کو منظم کرکے ایک انجمن فرقانیہ قائم کی اور حضرت قاضی صاحبؓ اس انجمن کے صدر مقرر ہوئے۔
قبول احمدیت کی وجہ سے آپؓ کی شدیدمخالفت ہوئی چنانچہ آپؓ ملازمت ترک کرکے قادیان آگئے اور نہایت قلیل گزارہ پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں پڑھانے لگے۔ جنوری 1906ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ’’شاخِ دینیات‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت قاضی صاحبؓ اس کے مدرس اول مقرر ہوئے۔ آپؓ کی سیرت و سوانح کے بارہ مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مئی 1997ء میں شاملِ اشاعت ہے۔
حضرت قاضی صاحبؓ کو حضرت اقدسؑ کے 313 اصحاب میں شمولیت کی سعادت حاصل ہے۔ حضورؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں آپؓ کا نام چھٹے اور ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں 90 نمبر پر درج فرمایا ہے۔ اس عظیم سعادت کا اندازہ اس پیشگوئی سے لگایا جاسکتا ہے جو علی حمزہ بن علی ملک الطوسی نے اپنی کتاب ’’جواہر الاسرار‘‘ مطبوعہ 840ء میں کی ہے کہ ’’مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے۔ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار ’اہل بدر‘ کے شمار سے برابر ہوگا یعنی 313 ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن و خصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے‘‘۔
حضرت قاضی صاحبؓ تحصیل علم کے بعد جب بھیرہ واپس تشریف لے گئے تو حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ بھی وہیں تھے۔ انہوں نے آپؓ میں رشد و سعادت کے آثار دیکھے تو اپنی بھانجی آپؓ کے نکاح میں دے دی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ نے قادیان میں اپنی عدم موجودگی میں جن بزرگان کو درسِ قرآن دینے کا ارشاد فرمایا تھا ان میں پہلے نمبر پر حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ، ان کے بعد حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ اور پھر حضرت قاضی صاحبؓ تھے۔
مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے مشہور اسلامی درسگاہوں کے طریقہ تعلیم و انتظام کا معائنہ کرنے کے لئے 1912ء میں 3 تا 28؍اپریل تک ایک طویل سفر اختیار فرمایا۔ حضرت قاضی صاحبؓ بھی اس سفر میں حضورؓ کے ہمراہ تھے۔
اپریل 1914ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں تبلیغی کلاسوں کا اجراء فرمایا تو حضرت قاضی صاحبؓ کو بھی استاد مقرر فرمایا۔ آپؓ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا استاد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔حضورؓ کو بھی آپؓ سے بڑی محبت تھی۔ ایک بار جب حضورؓ شملہ سے واپس آئے تو ’’الدار‘‘ میں جانے سے پہلے حضرت قاضی صاحب کی عیادت کے لئے آپؓ کے گھر تشریف لے گئے اور آپؓ کی اٹھ کر بیٹھنے کی خواہش پر آپؓ کو خود سہارا دے کر بٹھایا۔ حضورؓ جب خلیفہ بنے تو حضرت قاضی صاحب پر بھی رؤیا کے ذریعہ حضورؓ کی خلافت کا انکشاف کیا گیا۔ 19؍اکتوبر 1918ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی شدید بیماری میں گیارہ افراد پر مشتمل ’ انتخاب خلافت کمیٹی‘ بنائی جس میں آپؓ بھی شامل تھے۔ 1919ء میں نظارتوں کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کے سپرد قضاء کا شعبہ کیا۔ 1924ء میں حضورؓ دورہ یورپ کیلئے تشریف لے گئے تو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو نائب امیر مقرر فرمانے کے علاوہ ایک چودہ رکنی مجلس شوریٰ بھی قائم فرمائی جس کے ایک رکن حضرت قاضی صاحبؓ تھے۔
حضرت قاضی صاحبؓ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔صاحبِ کشف تھے۔ وقت کی پابندی ، دیانتداری اور صاف گوئی آپؓ کا شیوہ تھا۔ طبیعت مجتہدانہ تھی۔ دراز قد ، خوش اندام اور سرخ و سفید تھے۔ آپؓ کی گفتگو وضع دار اور بامحاورہ تھی۔ آپؓ نے کئی نکاح کئے اور آپؓ کے اکثر بچے نوعمری میں ہی فوت ہوگئے۔ 24؍اگست 1930ء کو ایک لمبی بیماری کے بعد آپؓ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں