حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ اور حضرت فضل النساء بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22؍مئی 2023ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍دسمبر 2013ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت مرزا سلطان محمودبیگ صاحبؓ آف پٹّی اور اُن کی اہلیہ محترمہ کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔

غلام مصباح بلوچ صاحب

امرتسر سے 45کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر پٹّی (Patti) میں مغل خاندان کے حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے حد درجہ عقیدت و محبت تھی۔ آپؓ کے داماد حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ کے والد مولوی مرزا فتح محمد بیگ صاحب عربی کے باقاعدہ تعلیم یافتہ عالم اور مصنّف تھے اور پٹّی کے رؤسا اور کرسی نشینوں میں سے تھے۔ وہ مسلمانوں کی بہبود کے لیے دستکاری پر بہت زور دیتے تھے اور اس کے لیے ایک سکول بھی جاری کیا ہوا تھا۔ اُن دنوں ہوشیارپور کے راجپوت مسلمان عیسائی مشنریوں کے زیراثر عیسائیت کی طرف مائل ہونے لگے تو وہاں کے مسلمانوں نے مرزا فتح محمد صاحب سے مدد کی درخواست کی۔ محترم مرزا صاحب فوری طور پر ہوشیارپور پہنچے اور پادریوں کی تحریک ناکام ہوگئی جس پر ان کی شکایت حکّام کے پاس کی گئی اور ان کو گرفتار کرلیا گیا۔ مقدمہ چلایا گیا اور چند ماہ قید کی سزا کے بعد ضلع بدر کردیا گیا۔ وطن واپسی پر وہ چند دن قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ کے پاس ٹھہرے۔ پھر قصور واپس آگئے اور 1887ء میں وفات پائی۔
حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مرزا سلطان محمود بیگ صاحب سے میری پہلی ملاقات قصور میں 1896ء میں ہوئی۔ آپ مجھ سے سات آٹھ سال بڑے تھے اور مجھ سے چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت کرتے اور میرا خیال رکھتے تھے۔آپؓ نے غالبًا 1896ء میں بیعت کرلی تھی جس کے بعد ایک غیرمعمولی تغیّر دین کی طرف ہوا اور تہجد بھی باقاعدہ شروع کردی۔ 1898ء میں میٹرک کرکے آپؓ قادیان چلے گئے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ اپنے اہل و عیال کو بھی ہمراہ لے گئے اور اپنے چھوٹے بھائی مرزا سلطان احمد کو بھی وہیں سکول میں داخل کروادیا۔
قریباً 1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے مشورے سے آپ گوجرہ چلے گئے اور میونسپل سکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں قیام کے دوران تمام وقت جماعت کے صدر اور امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ احمدیہ مسجد کی تعمیر سے پہلے تک اجلاسات آپؓ کے گھر پر ہی ہوتے تھے۔ تیس سال کی ملازمت کے بعد 1935ء میں فراغت کے بعد آپؓ مع اہل و عیال قادیان آگئے اور بذریعہ تجارت گزارے کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس میںکامیابی نہ ہوئی۔ تاہم قریباً پانچ سال تک قادیان میں رہتے ہوئے پٹّی میں اپنی جدّی اراضی پر قبضہ حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپؓ ڈگری ضلع میرپورخاص سندھ میں بھی رہے اور اپریل 1958ء میں وفات پائی۔
آپؓ دن رات کا اکثر حصہ نماز، دعا اور نوافل میں گزارتے اور انتہائی گریہ و زاری سے نماز ادا کرتے۔ محبت اور انکسار سے ملتے اور حاجت مندوں کی حسب مقدرت امداد کرتے رہتے۔ دینی کاموں میں پیش پیش رہتے۔ دعا میں توجہ قائم رکھنے کے لیے لکھ کر دعا کرتے۔ صاحب کشوف اور رؤیا بھی تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا بغور مطالعہ کرتے۔ خطبہ الہامیہ کا اکثر حصہ حفظ تھا۔ آپؓ کے ایک خط کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے بچیوں کی شادی کے حوالے سے چند اہم نصائح سے نوازا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قومیت اور ذات پات کی قیود کو توڑا جائے اور لڑکے کی لیاقت اور نیک چلن کو ملحوظ رکھا جائے۔ چنانچہ آپؓ نے اس نصیحت کے بعد اپنے رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود اپنی ساری بچیوں بلکہ بھانجیوں کے رشتے بھی غیرمغلوں میں کیے۔ 2؍جنوری 1928ء کو میرا (یعنی حضرت فتح محمد سیال صاحبؓ کا) نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ کی بیٹی صادقہ بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھایا۔ صادقہ بیگم صاحبہ کی پیدائش قادیان میں ہوئی تھی اور حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو گڑھتی بھی دی تھی۔
حضرت مرزا سلطان محمود بیگ صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ کا نام مبارکہ بیگم تھا۔ چونکہ یہی نام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا بھی تھا اس لیے ان کا نام فضل النساء رکھ دیا گیا۔ اُن کو لمبا عرصہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اور حضرت امّاں جانؓ کی صحبت میں قیام کا شرف حاصل رہا۔ اُن کی بیان فرمودہ چند روایات درج ذیل ہیں:
٭…جب مَیں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے مکان پر ٹھہری۔ تیسرے دن حضرت بیوی جی صاحبہ مجھے حضرت مسیح موعودؑ کے پاس لے گئیں۔ حضورؑ کے پوچھنے پر میرا تعارف کروایا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’ہم جانتے ہیں مرزا (محمود بیگ)صاحب سے ہماری خط و کتابت ہے۔‘‘ دوسرے دن میری بیعت ہوئی۔ حضورؑ جو لفظ فرماتے وہ امّاں جانؓ دہراتی جاتی تھیں اور مَیں بھی اُن کے ساتھ کہتی جاتی۔ میرا بھائی دیر سے بیمار تھا۔ میرے خاوند نے کہا کہ حضورؑ سے اجازت لے کر چلو تمہارا بھائی بیمار ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’کوئی خطرہ کی بات نہیں۔‘‘ پھر ہم دو ماہ بعد پٹّی چلے گئے۔
٭…ایک دفعہ جلسہ سالانہ کا ذکر ہے کہ چارپائیوں کی ضرورت تھی تو جلسہ والے ہم سب گھر والوں کی چارپائیاں لے گئے۔ حضورؑ کو معلوم ہوا تو آپؑ نے میاں نجم الدین صاحبؓ کو بلاکر فرمایا: ’’فضل بیگم کی چارپائی کیوں لے گئے ہو؟ کیا وہ مہمان نہیں؟ بس اُن کی چارپائی جہاں سے لائے ہو وہیں پہنچادو۔‘‘ وہ بےچارے لاکر بچھاگئے۔
٭…مَیں اکثر قادیان میں رہا کرتی تھی اور میرے خاوند قصور میں رہا کرتے تھے۔ وہ آئے تو قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کیے۔ اور ایک خط بھی بھیجا کہ حضور مجھے کوئی کام نہیں آتا، حضور مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لیے دے دیا کریں۔ مَیں وہاں پر ہی بیٹھی تھی۔ حضورؑ نے فرمایا:فضل!مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ حضور! وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے۔ حضورؑ ہنس پڑے اور فرمایا: ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں۔
٭…جب میری لڑکی صادقہ پیدا ہوئی تو مَیں میاں احمدنور کے مکان میں تھی۔ حضورؑ مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بیوی کو روز بھیج دیتے کہ جاکر کھانا وغیرہ پکاکر دو۔
٭…حضرت مسیح موعودؑ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے۔ میری بڑی لڑکی چار سال کی تھی اور اس کو کالی کھانسی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ اگر حضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تو مجھے آرام ہوجائے گا۔ حضورؑ کچھ لکھ رہے تھے۔ حضورؑ نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کر منقّہ دیا اور ایک سفید رومال میں باندھ دیا۔ اور فرمایا: سارا نہ کھا جائے، تھوڑا تھوڑا کھائے، گرم ہوتا ہے۔ اس کے کھاتے ہی اس کو کھانسی سے آرام ہوگیا ورنہ ہم تو بہت علاج کرچکے تھے۔ حضورؑ کے ہاتھ کی برکت تھی۔
٭… میری لڑکی آمنہ جب حضرت صاحب کے پاس آتی تو حضورؑ مٹھائی دیتے۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آمنہ کہتی کہ حضرت صاحب نماز اندر ہی پڑھیں۔ اماں جانؓ فرماتیں کہ اس کی مرضی ہے کہ اندر نماز پڑھی جائے اور مجھ کو مٹھائی جلدی ملے۔ تو حضورؑ مٹھائی دے کر جاتے۔
حضرت فضل النساء بیگم صاحبہؓ نے نومبر 1947ء میں ڈگری ضلع میرپورخاص سندھ میں وفات پائی۔ آپؓ کی اولاد میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں