حضرت مرزا غلام رسول صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5اکتوبر 2011ء میں حضرت مرزا غلام رسول صاحبؓ ریڈر جوڈیشل کمشنر پشاور (یکے از 313 ) کا مختصر تعارف شامل اشاعت ہے۔
حضرت مرزا غلام رسول صاحبؓ کا اصل وطن موضع پنڈی لالہ ضلع گجرات تھا۔ بی اے تک تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں پائی۔ آپ بیعت سے قبل زمانۂ طالبعلمی کے دوران بھی اکثر قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کی بابرکت مجلس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ دسمبر 1905ء میں جبکہ حضورؑ نے رسالہ الوصیت تصنیف فرمایا آپ قادیان میں تھے۔ آپ حضرت اقدسؑ کی پاکیزہ زندگی، دینی غیرت اور انتہائی درجہ کے تقویٰ و طہارت سے بہت متأثر تھے۔ 1907ء میں آپؓ نے بیعت کی سعادت حاصل کی۔
1923ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے علاقہ ملکانہ کی شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو آپؓ نے بھی اس تحریک پر لبّیک کہا۔ آپ اپنی نوکری تک چھوڑ کر اس خدمت کے لئے تشریف لے گئے اور گرانقدر خدمات سرانجام دے کر حضور کی سند خوشنودی حاصل کی۔
حضرت مرزا غلام رسول صاحب دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ تہجد کا بہت التزام کرتے تھے۔ دعاؤں میں انتہائی سوز اور الحاح تھا۔ آپ کو دعاؤں کی تاثیرات پر زبردست ایمان تھا۔ جب آپ نے ایبٹ آباد میں مکان بنانے کے لئے زمین خریدی تو صوبہ سرحد کے ایک بڑے اور مقتدر شخص نے آپ پر مقدمہ دائر کردیا اور کہا کہ مَیں یہاں مرزائیوں کے قدم نہیں جمنے دوں گا۔ قانونی طور پر اُس کا کیس بظاہر مضبوط تھا مگر آپ نے جرأت ایمانی سے کہا کہ اب انشاء اللہ مجھے ضرور کامیابی ہوگی کیونکہ اب تمہارا مقابلہ غلام رسول سے نہیں بلکہ احمدیت سے ہے۔ چنانچہ عجیب تصرّف الٰہی کے ماتحت اس مقدمہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا۔
آپ تلاوت قرآن کریم نہایت ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ فرض کے علاوہ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے تھے۔ بیکسوں ، مظلوموں ، مسکینوں اور غریبوں کی امداد کے لئے آپ کے اندر ایک خاص جوش تھا اور اس میں روحانی لذت وفرحت محسوس کرتے تھے۔ بعض موقعوں پر آپ نے اپنی ملازمت تک کو خطرے میں ڈال کر صوبہ سرحد کی عظیم شخصیتوں کے مقابلے میں بعض غریب، مظلوم اور بیکس لوگوں کی علی الاعلان مدد کی۔ آپ کے گھر میں مہمانوں کاعموماً تانتا بندھا رہتا تھا۔
آپ 1911-12ء میں پشاور گورنمنٹ ہائی سکول کے استاد ہو کر آئے مگر جلد مدرّسی ترک کرکے دفتر سیشن جج پشاور میں انگریزی مترجم مقرر ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرکے سیشن جج کے ریڈر مقرر ہوئے۔ بالآخر جوڈیشنل کمشنر کے ریڈر بنا دیئے گئے۔آپ سرحد ہائیکورٹ کے نہایت کامیاب اور ماہر سینئر ریڈر تھے اور بڑے سے بڑے افسر بھی آپ کی قانونی باریک نظری اور تبحر معلومات کے قائل اور آپ کی محنت، دیانتداری اور پاکیزگی کے معترف تھے۔ ہائیکورٹ کے انگریز چیف جج اور جوڈیشنل کمشنر مسٹر فریزر نے رشوت لینے میں آپ سے مدد لینا چاہی مگر آپ نے صاف انکار کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی ملازمت خطرے میں پڑ گئی۔ آپ نے دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ اتنی دفعہ متواتر یہ بھی دعا کرو لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اور تہجد بھی پڑھو۔ چنانچہ آپ نے تہجد اور دعاؤں کا خاص مجاہدہ کیا اور چند دن بعد خواب میں دیکھا کہ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہوگئی ہیں اور جس شخص کو آپ دیکھتے ہیں وہ مر جاتا ہے۔ اسی اثناء میں انگریز چیف جج بھی آپ کے سامنے آگیا اور مر گیا۔ چند روز بعد اس کو سل کے مرض کی تشخیص ہوئی اور وہ چھٹی لے کر ولایت چلا گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔
آپ مالی قربانی کو خاندانی اور قومی ترقی کا ذریعہ سمجھتے اور سلسلہ احمدیہ کی مالی تحریکوں میں ضرور حصہ لیتے تھے۔ چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد کا بیان ہے کہ آپؓ موصی تھے۔ ہر مرکزی اور مقامی تحریک میں ضرور حصہ لیتے۔ 1912ء میں خاکسار نے حقیقۃ المسیح نامی کتاب لکھی تو طباعت کے واسطے روپے کی ضرورت تھی۔ آپؓ کو معلوم ہوا تو آپ نے بیوی سے کہا کہ میرے پاس اس وقت کوئی پیسہ نہیں ہے لیکن یہ کتاب چھاپنی ضروری ہے۔ ان کی بیوی نیکی میں ان کے نقش قدم پر تھیں ۔ انہوں نے اپنے زیور اتار کر دے دیئے۔
خلیفہ وقت سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ مرض الموت میں بھی آپؓ نے اپنے فرزند مرزا عبداللہ جان صاحب سے کہا کہ کل حضور ربوہ میں مسجد مبارک کی بنیاد رکھیں گے۔ اس موقع پر مسجد احمدیہ پشاور میں اجتماعی دعا ہوگی، اس میں وہ ضرور شامل ہوں ۔
آپؓ نے 5؍اکتوبر 1949ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں